قائداعظم کا نظریہ و اقلیتیں
بلاتفریق رنگ و نسل مذہب و قومیت ایسی تبدیلی لائیں جس میں سب کے حقوق و فرائض مساوی ہوں۔
دوسری جنگ عظیم جب 1945 کو اختتام پذیر ہوئی تو یہ حقیقت روز روشن کی مانند عیاں ہوچکی تھی کہ اب دنیا بھر میں برٹش سامراج کا خاتمہ بھی قریب ہے ۔ ان حالات میں برٹش سامراج کے زیر تسلط سب سے بڑی نوآبادی ہندوستان بھی آزادی جیسی نعمت حاصل کرلے گا، البتہ یہ بھی سچائی سب تسلیم کر رہے تھے کہ اب ہندوستان کی تقسیم و پاکستان کا قیام بھی ناگزیر ہوچکا ہے ۔
ان حالات میں 1946 میں انتخابات ہوتے ہیں اور پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ 80 نشستیں حاصل کرپاتی ہے 77 نشستیں آل انڈیا مسلم لیگ مخالف ہیں 8 نشستیں خضر حیات گروپ کے پاس ہیں جب کہ 4 نشستیں غیر مسلم اقلیت نے حاصل کی ہیں۔ یوں کل ملا کر پنجاب اسمبلی کی نشستیں ہوتی ہیں 169۔ اب 1947 کا سال شروع ہوچکا ہے اور مرحلہ درپیش ہے قیام پاکستان کا اور قیام پاکستان کے لیے ضروری ہے پنجاب کی تقسیم ،کیونکہ پنجاب کی تقسیم کے بغیر پاکستان کا قیام نامکمل ہے اور پنجاب کی تقسیم کے لیے لازم ہے کہ مسلم لیگ کو اسمبلی میں اکثریت حاصل ہو جائے۔
چنانچہ قائد مسلم لیگ محمد علی جناح المعروف قائد اعظم کو درکار ہیں مسلم لیگ کی 80 نشستوں کے ساتھ مزید 6 نشستیں تاکہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کو سادہ اکثریت حاصل ہوجائے، چنانچہ 4 غیر مسلم نشستوں کے لیے اسپیکر پنجاب اسمبلی ایس پی سنگھا سے قائد اعظم پنجاب اسمبلی میں حمایت طلب کرتے ہیں ووٹنگ ہوئی مخالفت میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد ہے 77۔
گویا یہ صداقت ہمارے سامنے ہے کہ پنجاب کی تقسیم و قیام پاکستان کی راہ ہموار کرنے میں مسیحی 4 اقلیتی ممبران نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ محترم قائد اعظم اقلیتوں کا بے حد احترام کرتے تھے، اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم و پاکستان کے بعد مسٹر ایس پی سنگھا کو اسپیکر پنجاب اسمبلی برقرار رکھا گیا۔ یوں قائد اعظم نے اپنا یہ وعدہ پورا کر دکھایا کہ ہم اقلیتوں کے ساتھ مساویانہ نہیں بلکہ فیاضیانہ سلوک کریں گے، دوسرا ثبوت اقلیتوں سے محبت کا یہ تھا کہ جب 10 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوتا ہے تو حلف برداری کے لیے سب سے پہلے جو گندر ناتھ منڈل کا نام پکارا جاتا ہے جب کہ حلف برداری کی تقریب میں دوسرا نام قائد اعظم و تیسرا نام نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب کا پکارا جاتا ہے دستور ساز اسمبلی کے اس پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہیں جوگندر ناتھ منڈل، بعدازاں یہی جوگندر ناتھ منڈل اولین وزیر قانون محنت و تعلیم بنائے جاتے ہیں البتہ اسی اجلاس میں قائد اعظم دستور ساز اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد اپنے اولین خطاب میں فرماتے ہیں کہ '' اب آپ آزاد ہیں مسجد جائیں، مندر جائیں یا چرچ جائیں آج کے بعد ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کیونکہ ہم سب پاکستان کے شہری ہیں اور پاکستان ہم سب کا ہے۔''
گویا یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم کے افکار و نظریات کی روشنی میں پاکستان کے تمام شہری برابر ہیں البتہ جب 1948 میں پاکستان کا پہلا آئین دستور ساز اسمبلی سے پاس ہوا تو اس وقت دستور ساز اسمبلی کے رکن چند چٹوپا دھیا ایک اور اقلیتی رکن دستور ساز اسمبلی نے اپنے تحفظات کا یوں اظہار کیا کہ اس قانون کے پاس ہونے کے بعد اقلیتی شہری گویا ماشکی و لکڑ ہارا بن کر رہ جائیں گے جب کہ میاں افتخار الدین واحد مسلم رکن دستور ساز اسمبلی تھے جنھوں نے اقلیتوں سے متعلق قانونی دفعات سے اتفاق نہیں کیا اور ان دفعات کی مخالفت کی البتہ 1956 میں نافذ ہونے والے متحدہ پاکستان کے اولین آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت یہ تسلیم کیا گیا کہ پاکستان کے تمام شہری برابر ہیں البتہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان میں جب 1973 کا آئین تشکیل پایا تو آرٹیکل 25 کے تحت یہ تسلیم کیا گیا کہ تمام شہری برابر کے حقوق و فرائض کا حق رکھتے ہیں تمام شہری بلاتفریق رنگ و مذہب مساوی ہیں ۔
1985 میں آمر ضیا الحق کے دور میں نام نہاد آٹھویں ترمیم کے تحت اقلیتوں کے اکثر حقوق غصب کرلیے گئے جن میں ایک اقدام یہ بھی تھا کہ مشنری اسکولز کالج و قیمتی املاک پر قبضہ کرلیا گیا۔ جب کہ اسی آٹھویں ترمیم کے تحت جداگانہ طرز انتخاب کا طریقہ کار اپنایا گیا اور غیر مسلم امیدواران کا حلقہ انتخاب پورا پاکستان قرار پایا گویا اب غیر مسلم امیدوار اسمبلی کراچی سے پشاور و تافتان سے لاہور تک غیر مسلم ووٹروں کے پاس جائے اور انھیں ووٹ دینے کے لیے قائل کرے۔
یہ ایک مشکل و ناقابل فہم عمل تھا جب کہ 13 اکتوبر 1992 کو شناختی کے خانے میں ایک کالم کا اضافہ کیا گیا جس کی رو سے اب اگر کسی کو شناختی کارڈ مطلوب ہے تو وہ شخص اس کالم میں اپنا مذہب کا اندراج بھی کرے یہ غیر مسلموں کے لیے ایک اور امتیازی سلوک تھا۔ کسی قسم کے نازک ترین مسئلے کا فیصلہ فقط عدالت کرے نہ کہ لوگوں کا ہجوم اور اگر کوئی کسی پر غلط الزام عائد کرتا ہے تو ایسے شخص کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے البتہ ہم اتنا عرض کریں گے کہ پاکستان کے قانون کی مکمل پاس داری کرتے ہوئے اقلیتوں کے تمام حقوق و فرائض کو تسلیم کیا جائے جبری مذہب کی تبدیلی و جبری شادی کرنے پر قرار واقعی سزا دی جائے۔
شناختی کارڈ کے خانے سے مذہب کے کالم کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ دنیا بھر میں یہی اصول ہے کہ شناختی کارڈ کے حصول کرنے والے کا نام ولدیت و قومیت کا اندراج ہوتا ہے ہمارے خیال میں اس مضمون میں کسی بھی مذہب و مخالف کوئی بات نہیں بلکہ ریاست کے تمام شہریوں کے تمام حقوق و فرائض تسلیم کرنا ۔ قائد اعظم کے افکار و نظریات کے عین مطابق ہے حرف آخر اب جب کہ ہم چند یوم بعد ہم ملک میں 71 واں جشن آزادی منانے جا رہے ہیں ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم ملک میں سماجی تبدیلی کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں گے ایسی سماجی تبدیلی جس میں تمام شہریوں کو برابر کا شہری تسلیم کیا جائے۔ بلاتفریق رنگ و نسل مذہب و قومیت ایسی تبدیلی لائیں جس میں سب کے حقوق و فرائض مساوی ہوں اور سب فخر سے کہہ سکیں کہ ہم پاکستانی ہیں۔
ان حالات میں 1946 میں انتخابات ہوتے ہیں اور پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ 80 نشستیں حاصل کرپاتی ہے 77 نشستیں آل انڈیا مسلم لیگ مخالف ہیں 8 نشستیں خضر حیات گروپ کے پاس ہیں جب کہ 4 نشستیں غیر مسلم اقلیت نے حاصل کی ہیں۔ یوں کل ملا کر پنجاب اسمبلی کی نشستیں ہوتی ہیں 169۔ اب 1947 کا سال شروع ہوچکا ہے اور مرحلہ درپیش ہے قیام پاکستان کا اور قیام پاکستان کے لیے ضروری ہے پنجاب کی تقسیم ،کیونکہ پنجاب کی تقسیم کے بغیر پاکستان کا قیام نامکمل ہے اور پنجاب کی تقسیم کے لیے لازم ہے کہ مسلم لیگ کو اسمبلی میں اکثریت حاصل ہو جائے۔
چنانچہ قائد مسلم لیگ محمد علی جناح المعروف قائد اعظم کو درکار ہیں مسلم لیگ کی 80 نشستوں کے ساتھ مزید 6 نشستیں تاکہ پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کو سادہ اکثریت حاصل ہوجائے، چنانچہ 4 غیر مسلم نشستوں کے لیے اسپیکر پنجاب اسمبلی ایس پی سنگھا سے قائد اعظم پنجاب اسمبلی میں حمایت طلب کرتے ہیں ووٹنگ ہوئی مخالفت میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد ہے 77۔
گویا یہ صداقت ہمارے سامنے ہے کہ پنجاب کی تقسیم و قیام پاکستان کی راہ ہموار کرنے میں مسیحی 4 اقلیتی ممبران نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ محترم قائد اعظم اقلیتوں کا بے حد احترام کرتے تھے، اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم و پاکستان کے بعد مسٹر ایس پی سنگھا کو اسپیکر پنجاب اسمبلی برقرار رکھا گیا۔ یوں قائد اعظم نے اپنا یہ وعدہ پورا کر دکھایا کہ ہم اقلیتوں کے ساتھ مساویانہ نہیں بلکہ فیاضیانہ سلوک کریں گے، دوسرا ثبوت اقلیتوں سے محبت کا یہ تھا کہ جب 10 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس ہوتا ہے تو حلف برداری کے لیے سب سے پہلے جو گندر ناتھ منڈل کا نام پکارا جاتا ہے جب کہ حلف برداری کی تقریب میں دوسرا نام قائد اعظم و تیسرا نام نواب زادہ لیاقت علی خان صاحب کا پکارا جاتا ہے دستور ساز اسمبلی کے اس پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہیں جوگندر ناتھ منڈل، بعدازاں یہی جوگندر ناتھ منڈل اولین وزیر قانون محنت و تعلیم بنائے جاتے ہیں البتہ اسی اجلاس میں قائد اعظم دستور ساز اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے بعد اپنے اولین خطاب میں فرماتے ہیں کہ '' اب آپ آزاد ہیں مسجد جائیں، مندر جائیں یا چرچ جائیں آج کے بعد ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے کیونکہ ہم سب پاکستان کے شہری ہیں اور پاکستان ہم سب کا ہے۔''
گویا یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم کے افکار و نظریات کی روشنی میں پاکستان کے تمام شہری برابر ہیں البتہ جب 1948 میں پاکستان کا پہلا آئین دستور ساز اسمبلی سے پاس ہوا تو اس وقت دستور ساز اسمبلی کے رکن چند چٹوپا دھیا ایک اور اقلیتی رکن دستور ساز اسمبلی نے اپنے تحفظات کا یوں اظہار کیا کہ اس قانون کے پاس ہونے کے بعد اقلیتی شہری گویا ماشکی و لکڑ ہارا بن کر رہ جائیں گے جب کہ میاں افتخار الدین واحد مسلم رکن دستور ساز اسمبلی تھے جنھوں نے اقلیتوں سے متعلق قانونی دفعات سے اتفاق نہیں کیا اور ان دفعات کی مخالفت کی البتہ 1956 میں نافذ ہونے والے متحدہ پاکستان کے اولین آئین کے آرٹیکل 5 کے تحت یہ تسلیم کیا گیا کہ پاکستان کے تمام شہری برابر ہیں البتہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مغربی پاکستان میں جب 1973 کا آئین تشکیل پایا تو آرٹیکل 25 کے تحت یہ تسلیم کیا گیا کہ تمام شہری برابر کے حقوق و فرائض کا حق رکھتے ہیں تمام شہری بلاتفریق رنگ و مذہب مساوی ہیں ۔
1985 میں آمر ضیا الحق کے دور میں نام نہاد آٹھویں ترمیم کے تحت اقلیتوں کے اکثر حقوق غصب کرلیے گئے جن میں ایک اقدام یہ بھی تھا کہ مشنری اسکولز کالج و قیمتی املاک پر قبضہ کرلیا گیا۔ جب کہ اسی آٹھویں ترمیم کے تحت جداگانہ طرز انتخاب کا طریقہ کار اپنایا گیا اور غیر مسلم امیدواران کا حلقہ انتخاب پورا پاکستان قرار پایا گویا اب غیر مسلم امیدوار اسمبلی کراچی سے پشاور و تافتان سے لاہور تک غیر مسلم ووٹروں کے پاس جائے اور انھیں ووٹ دینے کے لیے قائل کرے۔
یہ ایک مشکل و ناقابل فہم عمل تھا جب کہ 13 اکتوبر 1992 کو شناختی کے خانے میں ایک کالم کا اضافہ کیا گیا جس کی رو سے اب اگر کسی کو شناختی کارڈ مطلوب ہے تو وہ شخص اس کالم میں اپنا مذہب کا اندراج بھی کرے یہ غیر مسلموں کے لیے ایک اور امتیازی سلوک تھا۔ کسی قسم کے نازک ترین مسئلے کا فیصلہ فقط عدالت کرے نہ کہ لوگوں کا ہجوم اور اگر کوئی کسی پر غلط الزام عائد کرتا ہے تو ایسے شخص کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے البتہ ہم اتنا عرض کریں گے کہ پاکستان کے قانون کی مکمل پاس داری کرتے ہوئے اقلیتوں کے تمام حقوق و فرائض کو تسلیم کیا جائے جبری مذہب کی تبدیلی و جبری شادی کرنے پر قرار واقعی سزا دی جائے۔
شناختی کارڈ کے خانے سے مذہب کے کالم کا خاتمہ کیا جائے کیونکہ دنیا بھر میں یہی اصول ہے کہ شناختی کارڈ کے حصول کرنے والے کا نام ولدیت و قومیت کا اندراج ہوتا ہے ہمارے خیال میں اس مضمون میں کسی بھی مذہب و مخالف کوئی بات نہیں بلکہ ریاست کے تمام شہریوں کے تمام حقوق و فرائض تسلیم کرنا ۔ قائد اعظم کے افکار و نظریات کے عین مطابق ہے حرف آخر اب جب کہ ہم چند یوم بعد ہم ملک میں 71 واں جشن آزادی منانے جا رہے ہیں ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم ملک میں سماجی تبدیلی کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں گے ایسی سماجی تبدیلی جس میں تمام شہریوں کو برابر کا شہری تسلیم کیا جائے۔ بلاتفریق رنگ و نسل مذہب و قومیت ایسی تبدیلی لائیں جس میں سب کے حقوق و فرائض مساوی ہوں اور سب فخر سے کہہ سکیں کہ ہم پاکستانی ہیں۔