تحریک پاکستان کو مقبول بنانے والا سوشلسٹ دانشور
آل انڈیا مسلم لیگ کا منشور تیار کرنے والے دانیال لطیفی کی داستان ِعجب
ISLAMABAD:
حالیہ الیکشن جیتنے کے بعد سربراہ تحریک انصاف، عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں قوم کو یقین دلایا کہ انہوں نے پارٹی کے منشور میں جتنے بھی وعدے کیے ، انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ بات اس امر کی غماز ہے کہ عمران خان منشور کی اہمیت و غرض و غایت سے آگاہ ہیں۔ دراصل ایک سیاسی جماعت برسراقتدار آکر جس حکمت عملی کے تحت کام کرنا چاہے، اس کے خدوخال وہ اپنے منشور میں بیان کرتی ہے۔ گویا ایک پارٹی کا منشور دیکھ کر عام آدمی بھی جان سکتا ہے کہ وہ کس قسم کے نظریات اور فلسفہ رکھتی ہے اور وہ عوام کی خدمت کیونکر کرے گی؟یوم آزادی کے مبارک موقع پر یہ سچائی بھی آشکارا کرنا مناسب ہے کہ ارض پاک کی خالق جماعت، آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور نے بھی تحریک آزادی پاکستان کو خصوصاً عوام الناس میں مقبول و معروف کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا منشور دانش وروں کی جس کمیٹی نے تیار کیا،اس کے سربراہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سابق رکن، دانیال لطیفی تھے۔ اس منشور کی داستان تحریک پاکستان کا ڈرامائی، سبق آموز اور حیرت انگیز باب ہے۔
٭٭
آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانان ہند کے حقوق کو تحفظ دینے کی خاطر بنائی گئی۔ اس کے قیام میں پنجاب کے مسلم لیڈروں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔تب ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد کروڑوں میں تھی مگر ان کی بیشتر تعداد دو صوبوں... بنگال اور پنجاب میں آباد ہوئی۔ نئی مسلم جماعت نے بنگال میں تو قدم جما لیے مگر وہ پنجاب میں شہری آبادی تک محدود رہی۔ وجہ یہ کہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں زمین داروں کا اثرو رسوخ زیادہ تھا جو ہر معاملے میں انگریز حکومت کی حمایت کرتے تھے۔طرفہ تماشا یہ کہ انگریز ہی ہیں ۔
جن کے اقدامات سے پنجاب میں بیسویں صدی کے چوتھے عشرے تک بڑے زمین داروں اور جاگیرداروں کی قوت پہلے جیسی نہیں رہی۔ اس تبدیلی کی وجہ نہری نظام بنا۔ جب انگریزوں نے دریاؤں سے سینکڑوں نہریں نکالیں تو ان کے اردگرد کی زمینیں چھوٹے کسانوں اور شہری لوگوں کو بھی دی گئیں۔ یوں رفتہ رفتہ پنجاب میں نیا متوسط طبقہ وجود میں آگیا جس میں کسان، مزدور اور شہری بھی شامل تھے۔
آل انڈیا مسلم لیگ میں محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ شامل ہوئے، تو اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ۔تاہم مقامی لیڈروں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے وہ پنجاب میں پھر بھی نمایاں سیاسی جماعت نہ بن سکی۔ حتیٰ کہ پنجاب کے مسلم لیگی رہنماؤں نے میاں محمد شفیع کی زیر قیادت جناح صاحب کے خلاف بغاوت کردی۔ جناح جلد بددل ہوکر برطانیہ چلے گئے۔وہ پھر 1935ء میں واپس ہندوستان آئے۔
واپسی کا مقصد آل انڈیا مسلم لیگ کے نیم مردہ لاشے میں نئی روح پھونکنا تھا۔ 1937ء میں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں الیکشن ہوئے۔ مسلم لیگ کا دعویٰ تھا کہ وہ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت ہے مگر الیکشن میں اسے ہزیمت اٹھانا پڑی۔ وہ کسی بھی صوبے میں مسلمانوں کی اکثریتی پارٹی نہ بن سکی۔ بنگال میں بھی اسے 250 نشستوں میں سے صرف 37 نشستیں حاصل ہوئیں۔ پنجاب میں تو وہ بری طرح پٹ گئی اور صرف ایک نشست جیت سکی۔
اس زبردست شکست کے باوجود محمد علی جناح نے حوصلہ نہیں ہارا اور عوام و خواص میں اپنی جماعت کو مقبول بنانے کی سعی کرتے رہے۔ انہیں پہلی نمایاں کامیابی مارچ 1940ء میں ملی جب پارٹی نے لاہور میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا تصّور پیش کیا۔ اس تصور کو مسلمانان ہند میں مقبولیت ملی اور وہ مسلم لیگ کی جانب راغب ہونے لگے۔
جناح صاحب کو مگر فکر یہ لاحق تھی کہ پنجاب میں پارٹی عوام الناس کی زیادہ توجہ حاصل نہیں کرسکی۔ عام لوگ پارٹی کے اس استدلال سے ضرور متاثر ہوئے کہ انگریز گیا، تو مسلمان ہندو اکثریت کے ماتحت بن جائیں گے۔ (نریندر مودی اور اس کے حواریوں کے کرتوت اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں) لیکن ان سے مطالبہ پاکستان تسلیم کروانے کے لیے ابھی مزید محرکات کی ضرورت تھی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے نہایت طاقتور محرک ... معاشی آزادی کا تصّور پیش کرکے جناح صاحب کی پریشانی دور کردی۔ گویا کمیونسٹ رہنما نہایت مشکل دور میں آل انڈیا مسلم لیگ کی قوت و سہارا بن گئے۔ یہ تاریخ پاکستان کی انمٹ سچائی ہے۔
1941ء کی مردم شماری کے مطابق بنگال میں سب سے زیادہ مسلمان (تین کروڑ تین لاکھ) آباد تھے۔ اس کے بعد پنجاب کا نمبر آتا جہاں ایک کروڑ باسٹھ لاکھ مسلمان بستے تھے۔ معاشی نقطہ نظر سے ان دونوں میں پنجاب زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ بنگال میں کلکتہ اور پٹ سن کی ملوں کے علاوہ معاشی سرگرمی کچھ زیادہ نہیں تھی۔ صرف کثیر مسلم آبادی ہی اسے اہمیت عطا کرتی۔ مگر پنجاب زرخیز زمینوں کا علاقہ تھا۔ نیز وہاں تجارتی سرگرمیاں بھی بڑھ رہی تھیں۔ اسی باعث 1940ء کے بعد خطہِ پنجاب ہی آل انڈیا مسلم لیگ اور اس کے مخالفین کے لیے سب سے بڑا میدان جنگ بن گیا۔
اور اس جنگ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔کمیونسٹ پارٹی اوائل میں مسلم لیگ کی مخالف تھی۔ لیکن 1942ء کے آخر تک کمیونسٹ قائدین کو احساس ہوگیا کہ محمد علی جناح المعروف بہ قائداعظمؒ حقیقی عوامی رہنما ہیں۔ وہ عالمی استعمار اور ظالم حکمران طبقے کے ایجنٹ نہیں بلکہ عوام کو آزاد و خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس باعث کمیونسٹ پارٹی نے آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی حمایت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
کمیونسٹ پارٹی انڈیا کے ریکارڈ سے عیاں ہے کہ اواخر 1942ء میں اس کی سنٹرل کمیٹی کے ایک مسلمان رکن، سجاد ظہیر کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ کمیونسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کو قریب لانے کے لیے حکمت عملی بنائیں اور اس پر عمل کریں۔ سجاد ظہیر کو اس ضمن میں مشہور مارکسٹی رہنما، ڈاکٹر گنگا دھر ادھیکڑی اور پنجاب کے مقامی کمیونسٹ لیڈروں کی مدد حاصل رہی۔کمیونسٹ رہنما قائداعظم کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ پنجاب میں کسانوں، مزدوروں اور عام لوگوں کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ آزادی کے بعد وہ ہندو بنیوں، جاگیرداروں اور زمین داروں کے چنگل سے آزاد ہوجائیں گے اور اپنی زمینوں کے مالک بن سکیں گے، تو معاشی آزادی کا یہ خواب انہیں مطالبہ پاکستان کی جانب راغب کردے گا۔یہ واقعی ایک بہترین محرک تھا۔
قائداعظمؒ نے لہٰذا فیصلہ کیا کہ تصّور پاکستان کے دو طاقتور ترین محرکات...مذہبی آزادی اور معاشی آزادی کو پنجاب مسلم لیگ کے منشور کا حصہ بنایا جائے تاکہ دونوں محرک بہ آسانی خصوصاً عوام الناس تک پہنچ سکیں۔یہ منشور ایک ایسی کمیٹی نے تیار کرنا تھا جس میں کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے دانشور بھی شامل کیے گئے۔ مگر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل جاگیردار طبقے نے کمیونسٹ دانشوروں کی مخالفت کردی۔
اس طبقے کا خیال تھا کہ مسلم عوام میں سوشلسٹ نظریات پھیلنے سے ان کے مفادات اور اثرو رسوخ خطرے میں پڑجائے گا۔ اسی لیے جاگیردار طبقے نے مطالبہ کیا کہ کمیونسٹ دانشور پہلے اپنی پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوجائیں۔ کمیونسٹ پارٹی انڈیا نے یہ مطالبہ قبول کرلیا۔ چناں چہ پنجاب میں معروف کمیونسٹ رہنما مثلاً دانیال لطیفی، عبداللہ ملک، سی آر اسلم، فیروزالدین منصور وغیرہ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ پنجاب مسلم لیگ کا منشور تیار کرنے والی کمیٹی کے سربراہ دانیال لطیفی بنائے گئے۔ اسی کمیٹی میں عبداللہ ملک اور دیگر سابق کمیونسٹ دانشور بھی شامل تھے۔
ایک نابغہ روزگار
دانیال لطیفی 15 مارچ 1917ء کو بمبئی میں پیدا ہوئے۔ خاندان کا تعلق کھمبائت (گجرات) سے تھا۔ والد قمرالدین لطیفی آئی سی ایس افسر تھے۔ علم و فضل کے باعث ''علامہ'' کہلائے۔ 1921ء تا 1924ء پنجاب اسمبلی کے رکن رہے۔ اپنے والد کی وجہ سے دانیال لطیفی کو بھی علامہ کا خطاب ملا۔میٹرک کرنے کے بعد دانیال لطیفی برطانیہ چلے گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے وکالت کی تعلیم پائی۔ دوران تعلیم سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہوئے اور مارکسٹی فلسفے و نظریے کا عمیق مطالعہ کیا۔ 1939ء کے لگ بھگ برطانیہ سے واپس آکر لاہور میں وکالت کرنے لگے۔ تاہم ذہنی افتاد کی وجہ سے جلد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا حصہ بن کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ آپ کمیونسٹ پارٹی کے تعلیم یافتہ اور عالم فاضل رہنماؤں میں نمایاں تھے۔
دانیال لطیفی کا تعلق امیر کبیر خاندان سے تھا۔ ان کی ایک پھوپھی، سلیمہ مشہور قانون داں اور کانگریسی لیڈر، بدرالدین طیب جی کے فرزند، فیض حسن سے بیاہی گئیں۔ اس خاندان کے بہت سے ارکان ارب پتی تاجر اور کاروباری تھے۔ مگر نوجوان دانیال لطیفی نے لاہور میں فقرا جیسا طرز زندگی اختیار کرلیا۔ وہ ملنے جلنے والوں میں سوشلسٹ نظریات کی تبلیغ کرتے اور انہیں طاقتور حکمران طبقے کے خلاف بغاوت کرنے پر اکساتے جو عوام کا استحصال کررہا تھا۔ان کی زندگی بڑی سادہ اور خدمت انسانیت کے لیے وقف تھی۔
جب دانیال لطیفی منشور کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے تو انہوں نے دن رات محنت کی اور مذہبی و معاشی آزادی کے دونوں بنیادی محرکات کا جوہر نئے منشور میں ساتھیوں کی مدد سے بڑی خوبصورتی سے اور آسان انداز میں بیان کردیا تاکہ عام لوگ بھی اس کا پیغام بہ آسانی سمجھ سکیں۔قائداعظم نے منشور کا مطالعہ کیا اور اسے منظور کرلیا۔ منشور 31 اکتوبر 1944ء کو پہلی بار شائع ہوا۔ اس کے بیشتر حصے بعدازاں اپنی اہمیت کے باعث آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور کا بھی حصہ بنا ئے گئے۔آل انڈیا مسلم لیگ نے اس منشور کے ذریعے پنجاب کے کسانوں، مزدوروں اور عام لوگوں کو یہ نوید سنائی کہ پاکستان ایک فلاحی مملکت ہوگا جہاں حکومت غریب شہریوں کی ضروریات پوری کرے گی۔ کسانوں کو زمینیں ملیں گی اور بیروزگاروں کو روزگار، اقلیتیں بھی اطمینان سے رہیں گی اور ان کے حقوق کا پورا خیال رکھا جائے گا۔ غرض منشور کے ذریعے پنجاب کے مسلمانوں اور غیر مسلموں، دونوں پر واضح کیا گیا کہ پاکستان بننے کی صورت میں انھیں کثیر فوائد حاصل ہوں گے اور ان کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں آئیں گی۔
پنجاب میں الیکشن
ستمبر 1945ء میں انگریز حکومت نے اعلان کیا کہ اواخر 1946ء میں ہندوستان میں صوبائی اور قومی الیکشن منعقد ہوں گے۔ گویا اب قومی سطح خصوصاً پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ کے نئے منشور کا کڑا امتحان آپہنچا۔ قائداعظم نے فوراً علی گڑھ مسلم کالج، اسلامیہ کالج لاہور اور دیگر تعلیمی اداروں کے مسلم طلبہ و طالبات کو پارٹی کا پیغام عوام تک پہنچانے کی ذمے داری سونپ دی۔انتخابی مہم چلاتے ہوئے پارٹی کا منشور ہی مسلم لیگی کارکنوں اور طلبہ و طالبات کے لیے نہایت اہم ہتھیار بن گیا۔ انہوں نے منشور کا بغور مطالعہ کیا، اس کے پیغام کو سمجھا اور اسے عوام تک پہنچا یا۔ یوں خصوصاً پنجاب اور دیگر علاقوں کے مسلم عوام آگاہ ہوئے کہ آل انڈیا مسلم لیگ ان کے مسائل و تکالیف سے بھری زندگیوں میں مثبت و معنی خیز انقلاب لانا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے، وہ پارٹی کی جانب راغب ہوگئے۔
دسمبر 1945ء میں عام انتخابات ہوئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے تمام مسلم نشستیں جیت کر بڑا معرکہ مار لیا۔ جنوری 1946ء میں صوبائی الیکشن ہونے تھے۔ یہ پارٹی کا اصل اور نہایت کڑا امتحان بن گئے۔ وجہ یہ کہ مسلم لیگ کا دعویٰ تھا کہ وہ مسلمانان ہند کی اکلوتی نمائندہ جماعت ہے لہٰذا مسلمانوں سے متعلق تمام معاملات پر اسی سے رجوع کیا جائے۔ لیکن یہ دعویٰ ثابت کرنے کی خاطر ضروری تھا کہ پارٹی مسلم اکثریتی صوبوں... بنگال اور پنجاب میں زیادہ سیٹیں جیت لے۔بنگال میں آل انڈیا مسلم لیگ کی پوزیشن مضبوط تھی مگر پنجاب میں صورتحال واضح نہیں تھی۔
ویسے بھی عام انتخابات میں شکست کھا کر صوبائی یونینسٹ حکومت نے سرکاری مشینری کے ذریعے دھاندلی کا پروگرام بنالیا۔ مگر مسلم لیگی نوجوانوں نے ایسی زبردست انتخابی مہم چلائی کہ دھاندلی بھی کام نہ آسکی۔ مسلمانوں کی اکثریت نے آل انڈیا مسلم لیگ کو ووٹ دیئے اور وہ پنجاب اسمبلی کی 73 نشستیں جیت کر صوبے میں سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔
یہ کامیابی تاریخ ساز ثابت ہوئی اور ثابت ہوگیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ ہی ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ اس طرح قیام پاکستان کی راہ ہموار ہوگئی۔ بدقسمتی سے پنجاب مسلم لیگ نے اپنے منشور میں عوام سے جو وعدے کیے تھے، وہ پورے نہ ہوسکے۔
وجہ یہ کہ جلد ہی پارٹی پر جاگیرداروں اور زمین داروں نے قبضہ کرلیا جبکہ عوام دوست رہنما سائیڈ لائن کردیئے گئے جن میں اکثریت سابق سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کی تھی۔جن کمیونسٹ لیڈروں نے جاگیرداروں کے خلاف آواز بلند کی، وہ غدار قرار پائے، ان پر جھوٹے مقدمے بنے اور پوری سرکاری مشینری انہیں بدنام کرنے پر تل گئی۔ پنجاب میں جاگیرداروں کے اثرو رسوخ کا اندازہ اس حیران کن حقیقت سے لگائیے کہ 1950ء میں انہوں نے صوبائی اسمبلی سے یہ قانون منظور کروالیا کہ جس کسان نے عوامی اجتماع میں پنجاب مسلم لیگ کے منشور (1944ء) پر تقریر کی، اس سے زمین چھین لی جائے گی۔ منشور میں کسانوں کو زمینیں اور مزدوروں کو حقوق دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
جاگیرداروں کے غلبے نے آل انڈیا مسلم لیگ کا حصہ بننے والے بہت سے سوشلسٹ اور کمیونسٹ دانشوروں کو بددل اور پژمردہ کردیا۔ ان میں دانیال لطیفی بھی شامل تھے۔ چناں چہ وہ 1947ء میں نئی دہلی چلے گئے اور وہاں وکالت کرنے لگے۔ وہ بھارتی سپریم کورٹ کے وکیل بنے اور دکھی انسانیت کی خدمت کرتے رہے۔
انہوں نے عدالتوں میں کامیابی سے کمزوروں اور غریبوں کا دفاع کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور کی تیاری میں شریک یہ نابغہ روزگار 17 جون 2000ء کو اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ دانیال لطیفی نے 1944ء ہی میں جموں و کشمیر کی سب سے بڑی جماعت، نیشنل کانفرنس کا منشور بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ یہ منشور ''نیا کشمیر'' کہلایا۔ آج بھی اپنی افادیت کے باعث کشمیری مسلمان اس منشور کوبہت پسند کرتے ہیں۔اس منشور میں بھی کسانوں،مزدوروں اور غریبوں کو بالادست وطاقتور طبقوں کے ظلم سے محفوظ رکھنے کی خاطر مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ۔n
حالیہ الیکشن جیتنے کے بعد سربراہ تحریک انصاف، عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں قوم کو یقین دلایا کہ انہوں نے پارٹی کے منشور میں جتنے بھی وعدے کیے ، انہیں پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔
یہ بات اس امر کی غماز ہے کہ عمران خان منشور کی اہمیت و غرض و غایت سے آگاہ ہیں۔ دراصل ایک سیاسی جماعت برسراقتدار آکر جس حکمت عملی کے تحت کام کرنا چاہے، اس کے خدوخال وہ اپنے منشور میں بیان کرتی ہے۔ گویا ایک پارٹی کا منشور دیکھ کر عام آدمی بھی جان سکتا ہے کہ وہ کس قسم کے نظریات اور فلسفہ رکھتی ہے اور وہ عوام کی خدمت کیونکر کرے گی؟یوم آزادی کے مبارک موقع پر یہ سچائی بھی آشکارا کرنا مناسب ہے کہ ارض پاک کی خالق جماعت، آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور نے بھی تحریک آزادی پاکستان کو خصوصاً عوام الناس میں مقبول و معروف کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ آل انڈیا مسلم لیگ کا منشور دانش وروں کی جس کمیٹی نے تیار کیا،اس کے سربراہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سابق رکن، دانیال لطیفی تھے۔ اس منشور کی داستان تحریک پاکستان کا ڈرامائی، سبق آموز اور حیرت انگیز باب ہے۔
٭٭
آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانان ہند کے حقوق کو تحفظ دینے کی خاطر بنائی گئی۔ اس کے قیام میں پنجاب کے مسلم لیڈروں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔تب ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد کروڑوں میں تھی مگر ان کی بیشتر تعداد دو صوبوں... بنگال اور پنجاب میں آباد ہوئی۔ نئی مسلم جماعت نے بنگال میں تو قدم جما لیے مگر وہ پنجاب میں شہری آبادی تک محدود رہی۔ وجہ یہ کہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں زمین داروں کا اثرو رسوخ زیادہ تھا جو ہر معاملے میں انگریز حکومت کی حمایت کرتے تھے۔طرفہ تماشا یہ کہ انگریز ہی ہیں ۔
جن کے اقدامات سے پنجاب میں بیسویں صدی کے چوتھے عشرے تک بڑے زمین داروں اور جاگیرداروں کی قوت پہلے جیسی نہیں رہی۔ اس تبدیلی کی وجہ نہری نظام بنا۔ جب انگریزوں نے دریاؤں سے سینکڑوں نہریں نکالیں تو ان کے اردگرد کی زمینیں چھوٹے کسانوں اور شہری لوگوں کو بھی دی گئیں۔ یوں رفتہ رفتہ پنجاب میں نیا متوسط طبقہ وجود میں آگیا جس میں کسان، مزدور اور شہری بھی شامل تھے۔
آل انڈیا مسلم لیگ میں محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ شامل ہوئے، تو اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ۔تاہم مقامی لیڈروں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے وہ پنجاب میں پھر بھی نمایاں سیاسی جماعت نہ بن سکی۔ حتیٰ کہ پنجاب کے مسلم لیگی رہنماؤں نے میاں محمد شفیع کی زیر قیادت جناح صاحب کے خلاف بغاوت کردی۔ جناح جلد بددل ہوکر برطانیہ چلے گئے۔وہ پھر 1935ء میں واپس ہندوستان آئے۔
واپسی کا مقصد آل انڈیا مسلم لیگ کے نیم مردہ لاشے میں نئی روح پھونکنا تھا۔ 1937ء میں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں الیکشن ہوئے۔ مسلم لیگ کا دعویٰ تھا کہ وہ مسلمانان ہند کی نمائندہ جماعت ہے مگر الیکشن میں اسے ہزیمت اٹھانا پڑی۔ وہ کسی بھی صوبے میں مسلمانوں کی اکثریتی پارٹی نہ بن سکی۔ بنگال میں بھی اسے 250 نشستوں میں سے صرف 37 نشستیں حاصل ہوئیں۔ پنجاب میں تو وہ بری طرح پٹ گئی اور صرف ایک نشست جیت سکی۔
اس زبردست شکست کے باوجود محمد علی جناح نے حوصلہ نہیں ہارا اور عوام و خواص میں اپنی جماعت کو مقبول بنانے کی سعی کرتے رہے۔ انہیں پہلی نمایاں کامیابی مارچ 1940ء میں ملی جب پارٹی نے لاہور میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن کا تصّور پیش کیا۔ اس تصور کو مسلمانان ہند میں مقبولیت ملی اور وہ مسلم لیگ کی جانب راغب ہونے لگے۔
جناح صاحب کو مگر فکر یہ لاحق تھی کہ پنجاب میں پارٹی عوام الناس کی زیادہ توجہ حاصل نہیں کرسکی۔ عام لوگ پارٹی کے اس استدلال سے ضرور متاثر ہوئے کہ انگریز گیا، تو مسلمان ہندو اکثریت کے ماتحت بن جائیں گے۔ (نریندر مودی اور اس کے حواریوں کے کرتوت اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں) لیکن ان سے مطالبہ پاکستان تسلیم کروانے کے لیے ابھی مزید محرکات کی ضرورت تھی۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے نہایت طاقتور محرک ... معاشی آزادی کا تصّور پیش کرکے جناح صاحب کی پریشانی دور کردی۔ گویا کمیونسٹ رہنما نہایت مشکل دور میں آل انڈیا مسلم لیگ کی قوت و سہارا بن گئے۔ یہ تاریخ پاکستان کی انمٹ سچائی ہے۔
1941ء کی مردم شماری کے مطابق بنگال میں سب سے زیادہ مسلمان (تین کروڑ تین لاکھ) آباد تھے۔ اس کے بعد پنجاب کا نمبر آتا جہاں ایک کروڑ باسٹھ لاکھ مسلمان بستے تھے۔ معاشی نقطہ نظر سے ان دونوں میں پنجاب زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ بنگال میں کلکتہ اور پٹ سن کی ملوں کے علاوہ معاشی سرگرمی کچھ زیادہ نہیں تھی۔ صرف کثیر مسلم آبادی ہی اسے اہمیت عطا کرتی۔ مگر پنجاب زرخیز زمینوں کا علاقہ تھا۔ نیز وہاں تجارتی سرگرمیاں بھی بڑھ رہی تھیں۔ اسی باعث 1940ء کے بعد خطہِ پنجاب ہی آل انڈیا مسلم لیگ اور اس کے مخالفین کے لیے سب سے بڑا میدان جنگ بن گیا۔
اور اس جنگ میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا۔کمیونسٹ پارٹی اوائل میں مسلم لیگ کی مخالف تھی۔ لیکن 1942ء کے آخر تک کمیونسٹ قائدین کو احساس ہوگیا کہ محمد علی جناح المعروف بہ قائداعظمؒ حقیقی عوامی رہنما ہیں۔ وہ عالمی استعمار اور ظالم حکمران طبقے کے ایجنٹ نہیں بلکہ عوام کو آزاد و خود مختار دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس باعث کمیونسٹ پارٹی نے آل انڈیا مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی حمایت کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
کمیونسٹ پارٹی انڈیا کے ریکارڈ سے عیاں ہے کہ اواخر 1942ء میں اس کی سنٹرل کمیٹی کے ایک مسلمان رکن، سجاد ظہیر کو یہ ذمے داری سونپی گئی کہ وہ کمیونسٹ پارٹی اور مسلم لیگ کو قریب لانے کے لیے حکمت عملی بنائیں اور اس پر عمل کریں۔ سجاد ظہیر کو اس ضمن میں مشہور مارکسٹی رہنما، ڈاکٹر گنگا دھر ادھیکڑی اور پنجاب کے مقامی کمیونسٹ لیڈروں کی مدد حاصل رہی۔کمیونسٹ رہنما قائداعظم کو یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ پنجاب میں کسانوں، مزدوروں اور عام لوگوں کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ آزادی کے بعد وہ ہندو بنیوں، جاگیرداروں اور زمین داروں کے چنگل سے آزاد ہوجائیں گے اور اپنی زمینوں کے مالک بن سکیں گے، تو معاشی آزادی کا یہ خواب انہیں مطالبہ پاکستان کی جانب راغب کردے گا۔یہ واقعی ایک بہترین محرک تھا۔
قائداعظمؒ نے لہٰذا فیصلہ کیا کہ تصّور پاکستان کے دو طاقتور ترین محرکات...مذہبی آزادی اور معاشی آزادی کو پنجاب مسلم لیگ کے منشور کا حصہ بنایا جائے تاکہ دونوں محرک بہ آسانی خصوصاً عوام الناس تک پہنچ سکیں۔یہ منشور ایک ایسی کمیٹی نے تیار کرنا تھا جس میں کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے دانشور بھی شامل کیے گئے۔ مگر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل جاگیردار طبقے نے کمیونسٹ دانشوروں کی مخالفت کردی۔
اس طبقے کا خیال تھا کہ مسلم عوام میں سوشلسٹ نظریات پھیلنے سے ان کے مفادات اور اثرو رسوخ خطرے میں پڑجائے گا۔ اسی لیے جاگیردار طبقے نے مطالبہ کیا کہ کمیونسٹ دانشور پہلے اپنی پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوجائیں۔ کمیونسٹ پارٹی انڈیا نے یہ مطالبہ قبول کرلیا۔ چناں چہ پنجاب میں معروف کمیونسٹ رہنما مثلاً دانیال لطیفی، عبداللہ ملک، سی آر اسلم، فیروزالدین منصور وغیرہ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ پنجاب مسلم لیگ کا منشور تیار کرنے والی کمیٹی کے سربراہ دانیال لطیفی بنائے گئے۔ اسی کمیٹی میں عبداللہ ملک اور دیگر سابق کمیونسٹ دانشور بھی شامل تھے۔
ایک نابغہ روزگار
دانیال لطیفی 15 مارچ 1917ء کو بمبئی میں پیدا ہوئے۔ خاندان کا تعلق کھمبائت (گجرات) سے تھا۔ والد قمرالدین لطیفی آئی سی ایس افسر تھے۔ علم و فضل کے باعث ''علامہ'' کہلائے۔ 1921ء تا 1924ء پنجاب اسمبلی کے رکن رہے۔ اپنے والد کی وجہ سے دانیال لطیفی کو بھی علامہ کا خطاب ملا۔میٹرک کرنے کے بعد دانیال لطیفی برطانیہ چلے گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے وکالت کی تعلیم پائی۔ دوران تعلیم سوشلسٹ نظریات سے متاثر ہوئے اور مارکسٹی فلسفے و نظریے کا عمیق مطالعہ کیا۔ 1939ء کے لگ بھگ برطانیہ سے واپس آکر لاہور میں وکالت کرنے لگے۔ تاہم ذہنی افتاد کی وجہ سے جلد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا حصہ بن کر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ آپ کمیونسٹ پارٹی کے تعلیم یافتہ اور عالم فاضل رہنماؤں میں نمایاں تھے۔
دانیال لطیفی کا تعلق امیر کبیر خاندان سے تھا۔ ان کی ایک پھوپھی، سلیمہ مشہور قانون داں اور کانگریسی لیڈر، بدرالدین طیب جی کے فرزند، فیض حسن سے بیاہی گئیں۔ اس خاندان کے بہت سے ارکان ارب پتی تاجر اور کاروباری تھے۔ مگر نوجوان دانیال لطیفی نے لاہور میں فقرا جیسا طرز زندگی اختیار کرلیا۔ وہ ملنے جلنے والوں میں سوشلسٹ نظریات کی تبلیغ کرتے اور انہیں طاقتور حکمران طبقے کے خلاف بغاوت کرنے پر اکساتے جو عوام کا استحصال کررہا تھا۔ان کی زندگی بڑی سادہ اور خدمت انسانیت کے لیے وقف تھی۔
جب دانیال لطیفی منشور کمیٹی کے سربراہ مقرر ہوئے تو انہوں نے دن رات محنت کی اور مذہبی و معاشی آزادی کے دونوں بنیادی محرکات کا جوہر نئے منشور میں ساتھیوں کی مدد سے بڑی خوبصورتی سے اور آسان انداز میں بیان کردیا تاکہ عام لوگ بھی اس کا پیغام بہ آسانی سمجھ سکیں۔قائداعظم نے منشور کا مطالعہ کیا اور اسے منظور کرلیا۔ منشور 31 اکتوبر 1944ء کو پہلی بار شائع ہوا۔ اس کے بیشتر حصے بعدازاں اپنی اہمیت کے باعث آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور کا بھی حصہ بنا ئے گئے۔آل انڈیا مسلم لیگ نے اس منشور کے ذریعے پنجاب کے کسانوں، مزدوروں اور عام لوگوں کو یہ نوید سنائی کہ پاکستان ایک فلاحی مملکت ہوگا جہاں حکومت غریب شہریوں کی ضروریات پوری کرے گی۔ کسانوں کو زمینیں ملیں گی اور بیروزگاروں کو روزگار، اقلیتیں بھی اطمینان سے رہیں گی اور ان کے حقوق کا پورا خیال رکھا جائے گا۔ غرض منشور کے ذریعے پنجاب کے مسلمانوں اور غیر مسلموں، دونوں پر واضح کیا گیا کہ پاکستان بننے کی صورت میں انھیں کثیر فوائد حاصل ہوں گے اور ان کی زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں آئیں گی۔
پنجاب میں الیکشن
ستمبر 1945ء میں انگریز حکومت نے اعلان کیا کہ اواخر 1946ء میں ہندوستان میں صوبائی اور قومی الیکشن منعقد ہوں گے۔ گویا اب قومی سطح خصوصاً پنجاب میں آل انڈیا مسلم لیگ کے نئے منشور کا کڑا امتحان آپہنچا۔ قائداعظم نے فوراً علی گڑھ مسلم کالج، اسلامیہ کالج لاہور اور دیگر تعلیمی اداروں کے مسلم طلبہ و طالبات کو پارٹی کا پیغام عوام تک پہنچانے کی ذمے داری سونپ دی۔انتخابی مہم چلاتے ہوئے پارٹی کا منشور ہی مسلم لیگی کارکنوں اور طلبہ و طالبات کے لیے نہایت اہم ہتھیار بن گیا۔ انہوں نے منشور کا بغور مطالعہ کیا، اس کے پیغام کو سمجھا اور اسے عوام تک پہنچا یا۔ یوں خصوصاً پنجاب اور دیگر علاقوں کے مسلم عوام آگاہ ہوئے کہ آل انڈیا مسلم لیگ ان کے مسائل و تکالیف سے بھری زندگیوں میں مثبت و معنی خیز انقلاب لانا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے، وہ پارٹی کی جانب راغب ہوگئے۔
دسمبر 1945ء میں عام انتخابات ہوئے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے تمام مسلم نشستیں جیت کر بڑا معرکہ مار لیا۔ جنوری 1946ء میں صوبائی الیکشن ہونے تھے۔ یہ پارٹی کا اصل اور نہایت کڑا امتحان بن گئے۔ وجہ یہ کہ مسلم لیگ کا دعویٰ تھا کہ وہ مسلمانان ہند کی اکلوتی نمائندہ جماعت ہے لہٰذا مسلمانوں سے متعلق تمام معاملات پر اسی سے رجوع کیا جائے۔ لیکن یہ دعویٰ ثابت کرنے کی خاطر ضروری تھا کہ پارٹی مسلم اکثریتی صوبوں... بنگال اور پنجاب میں زیادہ سیٹیں جیت لے۔بنگال میں آل انڈیا مسلم لیگ کی پوزیشن مضبوط تھی مگر پنجاب میں صورتحال واضح نہیں تھی۔
ویسے بھی عام انتخابات میں شکست کھا کر صوبائی یونینسٹ حکومت نے سرکاری مشینری کے ذریعے دھاندلی کا پروگرام بنالیا۔ مگر مسلم لیگی نوجوانوں نے ایسی زبردست انتخابی مہم چلائی کہ دھاندلی بھی کام نہ آسکی۔ مسلمانوں کی اکثریت نے آل انڈیا مسلم لیگ کو ووٹ دیئے اور وہ پنجاب اسمبلی کی 73 نشستیں جیت کر صوبے میں سب سے بڑی پارٹی بن گئی۔
یہ کامیابی تاریخ ساز ثابت ہوئی اور ثابت ہوگیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ ہی ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ہے۔ اس طرح قیام پاکستان کی راہ ہموار ہوگئی۔ بدقسمتی سے پنجاب مسلم لیگ نے اپنے منشور میں عوام سے جو وعدے کیے تھے، وہ پورے نہ ہوسکے۔
وجہ یہ کہ جلد ہی پارٹی پر جاگیرداروں اور زمین داروں نے قبضہ کرلیا جبکہ عوام دوست رہنما سائیڈ لائن کردیئے گئے جن میں اکثریت سابق سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کی تھی۔جن کمیونسٹ لیڈروں نے جاگیرداروں کے خلاف آواز بلند کی، وہ غدار قرار پائے، ان پر جھوٹے مقدمے بنے اور پوری سرکاری مشینری انہیں بدنام کرنے پر تل گئی۔ پنجاب میں جاگیرداروں کے اثرو رسوخ کا اندازہ اس حیران کن حقیقت سے لگائیے کہ 1950ء میں انہوں نے صوبائی اسمبلی سے یہ قانون منظور کروالیا کہ جس کسان نے عوامی اجتماع میں پنجاب مسلم لیگ کے منشور (1944ء) پر تقریر کی، اس سے زمین چھین لی جائے گی۔ منشور میں کسانوں کو زمینیں اور مزدوروں کو حقوق دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔
جاگیرداروں کے غلبے نے آل انڈیا مسلم لیگ کا حصہ بننے والے بہت سے سوشلسٹ اور کمیونسٹ دانشوروں کو بددل اور پژمردہ کردیا۔ ان میں دانیال لطیفی بھی شامل تھے۔ چناں چہ وہ 1947ء میں نئی دہلی چلے گئے اور وہاں وکالت کرنے لگے۔ وہ بھارتی سپریم کورٹ کے وکیل بنے اور دکھی انسانیت کی خدمت کرتے رہے۔
انہوں نے عدالتوں میں کامیابی سے کمزوروں اور غریبوں کا دفاع کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے منشور کی تیاری میں شریک یہ نابغہ روزگار 17 جون 2000ء کو اپنے رب کے حضور پہنچ گئے۔کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ دانیال لطیفی نے 1944ء ہی میں جموں و کشمیر کی سب سے بڑی جماعت، نیشنل کانفرنس کا منشور بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ۔ یہ منشور ''نیا کشمیر'' کہلایا۔ آج بھی اپنی افادیت کے باعث کشمیری مسلمان اس منشور کوبہت پسند کرتے ہیں۔اس منشور میں بھی کسانوں،مزدوروں اور غریبوں کو بالادست وطاقتور طبقوں کے ظلم سے محفوظ رکھنے کی خاطر مختلف اقدامات تجویز کیے گئے ۔n