خوبصورت دنیا کے بدصورت باسی
عالم حیوانات میں بسنے والے بدنما جانوروں کی دلچسپ معلومات۔
کہا جاتا ہے کہ خوبصورتی دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے۔ اسی لیے جب بات لوگوں کی جمالیاتی حس پر آتی ہے تو قدرتی طور پر یہ ہر ایک کا انفرادی فیصلہ ہوتا ہے کہ کیا چیز خوبصورت ہے اور کیا بدصورت۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کے لیے ''خرسک'' دنیا کا خوبصورت ترین جانور ہو اور دوسرے کو ''پانڈا'' بدصورت لگتا ہو۔ لیکن اگر ہم حقیقت پسندی سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے اس حسین کرّے پر رہنے والے چند جانداروں کو ہم سیدھا سیدھا ''بدنما'' کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ جن کو دیکھنے سے انسان کو ایک کراہت کا احساس ہوتا ہے۔
ان جانوروں کی نسلوں میں وقوع پذیر ہونے والے ارتقائی عمل نے ان بے چاروں کے ساتھ کچھ ایسا ستم ظریفانہ کھیل کھیلا کہ یہ اس ہیئت کو پہنچ گئے اور کوئی بھی ان کے لیے ترحم محسوس کرنے کے باوجود ان سے بچنے کے علاوہ اپنے لیے اور کوئی راہ نہیں پاتا۔ آئیے چند ایسے ہی جانداروں کے بارے میں جانتے ہیں۔
-1 آئے آئے (Aye-Aye)
بندر نما یہ جانور اپنی جسمانی ساخت اور ڈھانچے کے لحاظ سے انسان کے بہت قریب ہے۔ یہ دنیا بھر میں صرف مشرقی افریقہ کے ملک ''مڈغاسکر'' (Madagascar) میں پایا جاتا ہے۔ اس کو دیکھنے پر پہلا تاثر کسی مخمور شخص کا سا پڑتا ہے، جیسے کوئی انسان نشے کی حالت میں ہو یا پھر کوئی ایسا خبطی سائنس دان جو دنیا پر قبضے کی خواہش لیے بے چین ہو۔ ''آئے آئے'' کی زرد ساکت پھٹی پھٹی سی آنکھیں کسی کو بھی ہپناٹئز کردینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ''آئے آئے'' دودھ پلانے والے جانوروں کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہے جس کے پنجے کی درمیانی انگلی پتلی اور لمبی ہوتی ہے اور گلہریوں کی طرح ان کے منہ میں بھی نوکیلے دانتوں کا ایک جوڑا موجود ہوتا ہے۔
ویسے تو یہ درختوں کے پتے اور نرم شاخیں وغیرہ کھاتا ہے تاہم یہ درختوں کے تنوں میں پائے جانے والے تنگ سوراخوں کو اپنی پتلی انگلیوں سے کھرچ کر ان میں موجود کیڑوں کے لاروے نکال کر بھی کھا جاتا ہے۔ یہ ایک سست جانور ہے جو دن کے وقت سوتا اور رات کو جاگتا ہے۔ اس کی ساری زندگی درختوں پر ہی بسر ہوتی ہے اور یہ زمین کا رخ شاذو نادر ہی رخ کرتا ہے۔ اس کے متعلق کافی روایتی قسم کی لوک کہانیاں بھی علاقے میں مشہور ہیں۔ اکثر مقامی افراد اس کو برائی کی علامت سمجھتے ہوئے دیکھتے ہی مار دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک اگر اس کی درمیانی پتلی انگلی کا رخ کسی انسان کی طرف ہو تو وہ اس شخص کی موت کا اشارہ ہوتا ہے۔
یہ بھی مشہور ہے کہ کسی گاؤں میں اس کے دیکھے جانے کا مطلب اس گاؤں کی تباہی و بربادی ہوتا ہے اور اس تباہی سے بچنے کا واحد حل اس ''آئے آئے'' کی موت ہی ہے۔ مڈغاسکر کے ایک قبیلے ''ساکا لاوا'' (Saka Lava) کا عقیدہ یہ ہے کہ ''آئے آئے'' رات کے وقت کسی بھی گھر کی گھاس پھوس کی چھت کے رخنوں سے اندر داخل ہوکر سوئے ہوئے لوگوں کی شہہ رگ کو اپنی پتلی انگلی سے چھید کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
-2 بلوب فش (Blobfish)
یہ مچھلی بلاشبہ اپنے دیکھنے والوں کو کراہت کے اس درجے تک لے جاسکتی ہے کہ جس سے ان کے معدے الٹ کر باہر کو آنے والے ہوجائیں۔ ستمبر 2013ء میں اسے ''اگلی اینیمل پریزرویشن سوسائٹی'' (Ugly Animal Preservation Society) کی جانب سے دنیا کی بدصورت ترین جانور کے خطاب سے نوازا گیا۔ یہ گہرے پانیوں کی مچھلی ہے اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے سمندروں میں ہوتی ہے۔
اس کی لمبائی عام طور پر ایک فٹ سے کم ہوتی ہے۔ یہ 2 سے 4 ہزار فٹ کی گہرائی میں پائی جاتی ہے جہاں آبی دباؤ سطح سمندر کی نسبت 60 تا 120 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے جسم میں موجود ہوا سے بھرا ہوا ایک عضو، اسے بغیر کسی اضافی توانائی خرچ کیے سمندر کی تہہ کے تھوڑا اوپر تیرتے رہنے میں مدد کرنا ہے۔ ''بلوب فش'' کو اگر سمندر سے باہر نکالا جائے تو وہ عجیب چپچپی سی شکل اختیار کرکے مزید بدنما ہوجاتی ہے۔
-3 المکی (Almiqui)
چھوٹی آنکھوں اور گہرے بھورے یا کالے رنگ کے بالوں والے اس جانور کو عموماً چھچوندر سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ تاہم غیر معمولی لمبی تھوتنی اور بالوں سے پاک لمبی دم والااور ناک سے لے کر دم تک 16 تا 22 انچ لمبا ''المکی'' (Almiqui) کسی بڑے سے چوہے کے ساتھ زیادہ ملتا جلتا ہے۔
1861ء میں کیوبا میں ایک جرمن ماہر طبیعات ''ویلہیلم پیٹرز'' (Wilhelm Peters) نے پہلی بار ''المکی'' کو دریافت کیا اور اس کے بعد سے آج تک صرف 36 ''المکی'' ہی پکڑے جاسکے ہیں۔ 1970ء کی دہائی تک خیال یہ کیا جاتا رہا کہ شاید اس کی نسل معدوم ہوگئی ہے کیونکہ 1890ء کے بعد سے یہ منظر عام سے غائب ہوگیا تھا۔ مگر 1974-75ء میں مزید تین ''المکی'' پکڑے گئے۔
1999ء سے 2003ء کے دوران اس کو پھر مشرقی کیوبا کے مغربی جنگلات میں دیکھا گیا۔ یہ دنیا کے نایاب ترین جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ تین سالوں میں ایک بار بچے دیتا ہے۔ جن میں سے زیادہ تر یہ خود ہی کھا جاتا ہے، اسی وجہ سے اس کی نسل زیادہ بڑھ نہیں پاتی۔ یہ صرف کیوبا میں ہی پایا جاتا ہے اور اس کی خوراک کیڑے مکوڑے اور پودوں کی جڑوں اور پھل وغیرہ پر مشتمل ہے۔ ''المکی'' بھی دن کو سونے اور رات کو جاگنے والے جانداروں میں شامل ہے۔
-4 سرخ ہونٹوں والی چمگادڑ نما مچھلی (Red Lipped Batfish)
اس مچھلی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس نے اپنے بڑے بڑے ہونٹوں پر ابھی تازہ تازہ سرخ لپ اسٹک لگائی ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس کا نوکیلا جسم اور دونوں سائڈز پر نکلے ہوئے 'پر' اس کو مچھلی کی بجائے کسی ہوائی جہاز کی صورت عطا کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ مچھلی ''پیرو'' (Peru) کے ساحلوں پر 10 تا 249 فٹ کی گہرائی میں پائی جاتی ہے۔ یہ سمندر میں تیرنے کی بجائے اپنے پروں کے سہارے سمندر کی تہہ پر چلتی ہے۔ اس کی لمبائی 8 انچ تک ہوتی ہے اور یہ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اور دیگر آبی جانور کھاتی ہے۔ اپنی خطرناک شکل و صورت کے برعکس یہ انسانوں کے لیے بے ضرر ہے۔
-5 راجہ گدھ (Sarcoramphus Papa)
دوسرے گدھوں ہی کی طرح ''سارکو رامفس پاپا'' (Sarcoramphus Papa) موسوم بہ ''راجہ گدھ'' بھی ایک خاکروب پرندہ ہے۔ یہ عالم حیوانات کے لیے گراں قدر اور بیش بہا خدمات سرانجام دیتا ہے یعنی یہ مردار خوری کے ذریعے فضا کو آلودگی سے بچاتا ہے اور امراض کو پھیلنے سے روکنے میں مدد و معاونت فراہم کرتا ہے۔ بظاہر اس کو دیکھنے پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے اس کا سر ''بلینڈر (مکسر مشین) میں ڈال کر ''بلنڈ'' کردیا ہو۔ یہ جنوبی میکسیکو سے لے کر شمالی ارجنٹائن تک کے وسیع علاقے میں پایا جاتا ہے۔
اس کی گردن کے گرد خاکستری یا کالے 'پروں' کا حلقہ ہوتا ہے، جبکہ جسم کے علاوہ دم پر بھی 'پر' ہوتے ہیں۔ تاہم اس کا سر گنجا اور مختلف رنگوں سے مزین ہوتا ہے۔ اس کا ذکر قدیم مایا تہذیب کی کتب میں بھی آتا ہے۔ اس کو ملنے والے ''راجہ گدھ'' کے خطاب کے بارے میں دو نظریات مشہور ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ دوسرے چھوٹے چھوٹے گدھوں کو مردار کی لاش کے پاس سے بھگا کر پہلے خود کھاتا ہے اور دوسرے گدھ اس کا پیٹ بھرنے کے منتظر رہتے ہیں تاکہ انہیں بھی اس کا موقع مل سکے اور دوسرے یہ کہ قدیم مایا تہذیب کی کتابوں کے مطابق یہ ایک بادشاہ تھا جو دیوی دیوتاؤں اور انسانوں کے بیچ پیغام رسانی کا اہم کام سرانجام دیتا تھا۔ اس کا خون اور 'پر' مختلف ادویات بنانے کے کام بھی آتے ہیں۔
-6 لمبے سینگوں والی گائے مچھلی (Longhorn Cowfish)
بحرالکاہل کے جس حصے میں بحرہند واقع ہے، اس میں پائی جانے والی اس مچھلی کی آنکھیں کسی مینڈک جیسی اور جسم، مرغی کی ران کی شکل کا ہوتا ہے، جو اسے بدنما بنانے کے لیے کافی ہے لیکن اس کی اصل خصوصیت اس کے وہ سینگ ہیں جو اس کے سر پر نکلے ہوتے ہیں۔ بالکل گائے بیلوں کے جیسے سینگ۔ یہ مچھلی 20 انچ تک لمبی ہوسکتی ہے اور آج کل اس کو گھروں میں پالنے کا رواج بھی بڑھ رہا ہے۔
-7 ہاتھی نما سمندری بچھڑا (Elephant Seal)
ہمیں پتہ ہے کہ ہاتھی ایک معصوم جانور ہے اور اس ہی طرح سمندری بچھڑا بھی بہت پیارا ہوتا ہے مگر ہاتھی نما سمندری بچھڑا؟
اس کی دو اقسام دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ ایک براعظم شمالی امریکہ میں اور دوسری نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ میں۔ عام سمندری بچھڑوں کے برعکس اس کی ہاتھی کی سونڈ جیسی ناک ہوتی ہے جس کے ذریعہ یہ دھاڑ سے مشابہہ آواز نکالتا ہے۔ اس سمندری بچھڑے کی لمبائی 16 فٹ اور وزن 3,000 کلو گرام تک ہوسکتا ہے۔ ان کی زندگی کا 80 فیصد حصہ سمندروں میں گزرتا ہے اور یہ 100 منٹ تک اپنا سانس روک کر زیر آب رہ سکتے ہیں۔ ان میں 5,000 فٹ تک گہرا غوطہ لگانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ حیرت انگیز طور پر اپنے دل کی دھڑکن کی رفتار کو کم بھی کرسکتے ہیں۔ ان کی کھال بہت قیمتی ہونے کے سبب 19 ویں صدی میں ان کا بے تحاشا شکار کیا گیا۔ اسی وجہ سے ان کی نسل کو شدید خطرات لاحق ہوگئے تاہم بعد میں ان کے تحفظ کے لیے متعدد اقدامات کیسے جانے کی بدولت اب یہ معدومیت کے خطرے سے نکل آئے ہیں۔
-8 سونڈ والے بندر (Proboscis Monkey)
انڈونیشیا کے جنوب مشرق میں واقع جزیرے ''بورنیو'' (Borneo) کے جنگلات کا باسی یہ لمبی ناک والا بندر، بدصورت جانوروں کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ اپنی لمبی ناک سے دشمنوں کو ڈرانے کا کام بھی لیتا ہے۔
-9 چپٹی ناک والا بندر (Snub-Nosed Monkey)
سونڈ جیسی ناک والے بندر کے برعکس اس بندر کی ناک اتنی چھوٹی اور چپٹی ہوتی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی ناک ہے ہی نہیں۔ اسی لیے یہ بہت عجیب دکھائی دیتا ہے۔ کالے موتیوں کی طرح چمکتی آنکھوں، پیلے تیز دانتوں، کھوکھلی سی ناک والا یہ بندر شمالی ایشیا کے ممالک چین، تبت اور میانمار میں پایا جاتا ہے۔ اپنی چپٹی ناک پر شرمندہ ہونے کی بجائے یہ بندر بھی دوسرے بندروں ہی کی طرح انتہائی شرارتی ہوتا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ اس کو انسانوں کے برخلاف اپنی ناک کے بارے میں کوئی احساس کمتری نہیں ہے۔
-10 بئیرڈ ٹاپر (Baird Tapir)
برازیل میں پایا جانے والا، خنزیر اور گینڈے سے ملتا جلتا یہ جانور ''زندہ فوسل'' کہلاتا ہے۔ کیونکہ گزشتہ 35 ملین برس سے اس کی نسلیں مزید ارتقائی مراحل طے نہیں کرسکیں اور یہ ویسے کا ویسا ہی ہے جیسا یہ لاکھوں سال پہلے تھا۔ اس کا نام معروف امریکی ماہر طبیعات ''سپینسر بئیرڈ'' کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے 1843ء میں اپنے سفر میکسیکو کے دوران اسے دریافت کیا تھا۔ یہ برازیل کا قومی جانور ہے اور وہاں اسے پہاڑی گائے بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ پانی کے قریب رہنا پسند کرتا ہے اور پانی میں تیرنا اور نہانا اسے بہت مرغوب ہے۔ یہ گھنٹوں اپنی تھوتھنی پانی سے باہر نکالے پانی کے اندر سستاتا رہتا ہے۔ 1996ء میں اس کو غیر محفوظ قرار دے کر اس کا شکار ممنوع کردیا گیا کیونکہ اس کی نسل کو معدومی کا خطرہ تھا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ ''بیئرڈ ٹاپر'' کسی مقابلہ حسن میں حصہ لے سکتا ہے؟
-11 شیطانی شارک (Goblin Shark)
اس نفرت انگیز جاندار کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ڈراؤنی فلموں کا کوئی کردار پردۂ سیمیں سے نکل کر ہمارے سامنے آگیا ہو۔ تاہم اس کے اندر ایک زبردست خوبی پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ یہ اپنے جبڑے کو قریباً 3 انچ تک اپنے منہ سے باہر نکال سکتی ہے تاکہ اپنے شکار کو آسانی سے دبوچ سکے۔ یہ اپنی ہم نسل دیگر شارکوں میں بہت کمیاب ہے اور جانوروں کے اس قدیم خاندان سے تعلق رکھنے والی وہ واحد مخلوق ہے جو 125 ملین سال پرانی ہے۔ اس کی سفاکی اس کے تیز نوکیلے دانتوں سے عیاں ہے جو دوسری شارکوں کا بھی خاصہ ہیں۔ اس کی لمبائی 10 تا 13 فٹ ہوتی ہے۔ اس میں ایک خامی اس کی سستی ہے۔ اسی لیے یہ سمندر کی تہہ کے ساتھ تیرنے والی چھوٹی مچھلیوں اور آبی جانداروں کی گھات میں رہتی ہے اور ہاں انسانوں کے لیے بھی یہ یقینا انتہائی خطرناک ہے۔
-12 چیونٹی خور (Baby Aardvark)
یہ جانور خنزیر اور خرگوش کے مرکب جیسا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک شرمیلا جانور ہے اور دن میں یہ خود کو دنیا کی نظروں سے چھپا کر رکھتا اور رات کو خوراک کی تلاش میں نکلتا ہے۔ اس کی غذا چیونٹیاں ہیں۔ یہ اپنی لمبی تھوتھنی سے زمین کو سونگتا ہوا چلتا ہے اور جہاں اسے چیونٹیوں کا بل مل جائے اسے یہ اپنے نوکیلے پنجوں سے کھود ڈالتا ہے اور چیونٹیوں کو چٹ کر جاتا ہے۔ اس کو چیونٹیاں کھانے والا افریقی ریچھ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی عموماً 4 سے 5 فٹ اور وزن 60 تا 80 کلو گرام تک ہوتا ہے۔
یہ زمین میں سرنگیں کھودنے کا ماہر اور بہترین تیراک تصور کیا جاتا ہے۔ جنگلی قبائل اس کے دانتوں کا برسلیٹ خوش بختی کی علامت کے طور پر پہنتے ہیں اور جادوگر اس کے دل، کھال، ماتھے اور ناخنوں پر مشتمل مالا کے پہننے والے کے متعلق یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اس کے اندر دیواروں اور چھتوں کے آر پار گزرنے کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔ امریکی ایئرفورس کے سپرسونک فائٹر بمبار طیارے F-III/FB-III کو اسی کے نام پر ''آرڈوارک'' کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اس طیارے کا اگلا لمبا حصہ بالکل اس کی تھوتھنی کے مشابہہ ہے۔
-13 چھچھوندر نما چوہا (Naked Mole Rat)
بالوں سے محروم چپچپی سی جلد والا یہ چوہا گوشت کے ایک لوتھڑا کی طرح نظرآتا ہے۔ یہ چیونٹیوں کی طرح ایک نظام کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ جن کی سربراہی ایک مادہ کے ذمے ہوتی ہے اور باقی تمام نر مادہ اپنے اپنے کاموں، جیسے خوراک جمع کرنا اور ساری کالونی کی حفاظت کرنا وغیرہ سرانجام دیتے ہیں۔ اس کا مسکن مشرقی افریقہ ہے۔ دمہ اور سرطان جیسی بیماریوں کے خلاف اس میں زبردست قوت مدافعت پائی جاتی ہے۔ یہ 3 سے 4 انچ تک لمبا ہوتا ہے اور اس کا وزن 30 تا 35 گرام ہوتا ہے۔ چوہوں کے خاندان میں اس کی عمر سب سے طویل ہوتی ہے اور یہ 32 سال تک کی زندگی بھی پالیتا ہے۔ ان کے بلوں کی لمبائی 3 سے 5 کلو میٹرز تک ہوتی ہے جس کی آبادی اوسطًا 75 نفوس پر مشتمل ہوتی ہے۔ سانپ ان کا جانی دشمن ہے۔
-14 سمندری گائے (Sea Cow)
زیر آب پائے جانے والے قوی الجثہ جانداروں میں یہ سب سے زیادہ سست الوجود واقع ہوئی ہے، جیسا کہ اس کی ظاہری شباہت سے بھی مرتعش ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک بہت بڑا سا آلو اپنے 'پروں' کے بل بوتے پر تیرتا پھر رہا ہو۔ ابتدائً اس کو 1741ء میں یورپ کے لوگوں نے الاسکا اور روس کے درمیانی سمندر میں دریافت کیا۔ اس کی لمبائی 30 فٹ اور وزن 8 سے 10 میٹرک ٹن تک ہوتا ہے۔ اپنے حجم کے ساتھ یہ وہیل مچھلی کے مقابلے کا جاندار ہے۔ اس کے جسم کے تناسب سے اس کا سر کافی چھوٹا ہوتا ہے، جو اسے عجیب الخلقت بناتا ہے۔
اس کے دل کا وزن 16 کلو گرام جبکہ اس کا معدہ 6 فٹ لمبا اور 5 فٹ چوڑا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا دن کا زیادہ تر حصہ کھانے پینے میں ہی گزرتا ہے اور یہ سارے دن میں محض 4 سے 5 منٹ سانس لینے میں صرف کرتی ہے۔ الاسکا میں اس کی کھال اور گوشت کے حصول کے لیے اس کا بے دریغ شکار کیے جانے کے باعث اس کی نسل معدومی کے خطرے سے دوچار ہوگئی تھی بعدازاں اس کے شکار پر پابندی عائد کردی گئی۔
-15 ستارا ناک والا چھچھوندر (Star Nosed Mole)
ستارے جیسی ناک والا یہ چھچھوندر شمالی امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ یہ اپنی تھوتھنی کے گرد موجود گوشت کے 22 گلابی لوتھڑوں کی وجہ سے باآسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔ اس کی تھوتھنی کسی اکٹوپس جیسی نظر آتی ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ جیسے ان کا مصرف صرف بچوں کو ڈرانا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ان میں موجود 100,000 اعصابی تار اس کے دماغ کو کسی بھی چیز کے بارے میں مفصل معلومات پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک لاکھ اعصابی ریشوں کا مطلب ہے کہ یہ انسانی ہاتھ سے بھی 5 گنا زیادہ حساسیت رکھتا ہے جو اس کے اضطراری افعال کی بہت زیادہ فعالیت کو ظاہر کرتا ہے۔ قطع نظر اس کی بدصورتی کے، یہ چیز اس کے لیے بہت فائدہ مند ہے کیونکہ اس کی نظر انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ اگر قدرت اسے یہ خوبی ودیعت نہ کرتی تو وہ شاید بھوکا ہی مرجاتا۔
-16 میٹا میٹا ٹرٹل (Matamata Turtle)
اس کچھوے کا خول درخت کی چھال جیسا جبکہ اس کا سر سوکھے ہوئے پتوں کا سا منتظر پیش کرتا ہے۔ اس کی کھردری کھال، گٹھیلا جسم اور لمبا منہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی چٹان میں زندگی کی رو دوڑ گئی ہو۔ کچھوے تو ویسے بھی سست ہی ہوتے ہیں مگر یہ اتنا شاطر و چالاک ہے کہ پانی میں گھنٹوں بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے۔ جیسے ہی کوئی چھوٹی سی مچھلی اس کے قریب آتی ہے تو یہ آہستگی سے اپنا منہ کھول کر ایک گہری سانس اندر کو کھینچتا ہے اور مچھلی کو تب پتا چلتا ہے جب وہ اس کے پیٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ آج کل اسے گھروں میں پالتو جانور کے طور پر بھی پالا جاتا ہے۔
-17 فلپانی لنگور (Philippine Tarsier)
اس کو دنیا کا سب سے چھوٹا بندر بھی کہا جاتا ہے لیکن تکینکی لحاظ سے یہ بندروں میں شمار نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کی لمبائی محض 5 یا 6 انچ اور وزن 120 گرام کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ اس کی نسل کا تعلق 45 ملین سال پرانے دور سے ہے۔ دوسرے لنگوروں کی طرح اس کی بڑی بڑی آنکھیں اپنے حلقوں میں ہی جڑی ہوتی ہیں۔ یہ اتنا بدصورت دکھائی دیتا ہے کہ سائنس دان ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ اس شریر کو جانوروں کے کس درجے میں رکھیں۔ تاہم اس کی مجموعی خصوصیات اور اس کی بڑی بڑی چمکدار آنکھیں اس کو جانوروں کے مقابلہ بدصورتی میں اول نمبر دیئے جانے کا مستحق بناتی ہیں۔ کیا خیال ہے آپ کا؟
-18 کیلیفورنیا کا گدھ (California Condor)
اس کے پروں کے متاثر کن پھیلاؤ اور اس کی بلند پروازی کے سبب اس کو ''تھنڈر برڈ'' (Thunder Bird) یعنی طوفانی پرندہ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ تاہم اس کی جھریوں دار گلابی گردن، کھردرا چہرہ اور آپس میں ملی ہوئی بھوؤں کا نظاراکسی بھی انسان کو قے کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ یہ سب پرندوں میں طویل العمر مانا جاتا ہے کیونکہ اس کی عمر 60 سال تک ہوسکتی ہے۔ یہ امریکہ کے مقامی قبائل کے عقائد میں اہم مقام رکھتا ہے۔ کچھ قبائل اس کو مقدس جبکہ چند اسے منحوس تصور کرتے ہیں۔
-19 مگرمچھ کی شباہت والا کچھوا (Alligator Snapping Turtle)
ڈائنوسارز کے زمانے کا یہ کچھوا، ان کے ساتھ ہی معدوم ہونے کی بجائے آج تک اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔ یہ شمالی امریکہ میں تازہ پانیوں کا سب سے بڑا کچھوا ہے جس کے خول کی لمبائی ڈھائی فٹ اور وزن 100 کلو گرام تک ہوتا ہے۔ اس کو ''ایلیگیٹر سنیپنگ ٹرٹل'' کا نام اس کے مگر مچھ کی طرح مضبوط جبڑے، اسپرنگ جیسی گردن اور اس کے خول کی مگر مچھ کی کھال جیسی سخت اور کھردری ساخت کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ اس کو اکثر لوگ گھر میں پالتے بھی ہیں۔
zeeshan.baig@express.com.pk
ان جانوروں کی نسلوں میں وقوع پذیر ہونے والے ارتقائی عمل نے ان بے چاروں کے ساتھ کچھ ایسا ستم ظریفانہ کھیل کھیلا کہ یہ اس ہیئت کو پہنچ گئے اور کوئی بھی ان کے لیے ترحم محسوس کرنے کے باوجود ان سے بچنے کے علاوہ اپنے لیے اور کوئی راہ نہیں پاتا۔ آئیے چند ایسے ہی جانداروں کے بارے میں جانتے ہیں۔
-1 آئے آئے (Aye-Aye)
بندر نما یہ جانور اپنی جسمانی ساخت اور ڈھانچے کے لحاظ سے انسان کے بہت قریب ہے۔ یہ دنیا بھر میں صرف مشرقی افریقہ کے ملک ''مڈغاسکر'' (Madagascar) میں پایا جاتا ہے۔ اس کو دیکھنے پر پہلا تاثر کسی مخمور شخص کا سا پڑتا ہے، جیسے کوئی انسان نشے کی حالت میں ہو یا پھر کوئی ایسا خبطی سائنس دان جو دنیا پر قبضے کی خواہش لیے بے چین ہو۔ ''آئے آئے'' کی زرد ساکت پھٹی پھٹی سی آنکھیں کسی کو بھی ہپناٹئز کردینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ''آئے آئے'' دودھ پلانے والے جانوروں کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہے جس کے پنجے کی درمیانی انگلی پتلی اور لمبی ہوتی ہے اور گلہریوں کی طرح ان کے منہ میں بھی نوکیلے دانتوں کا ایک جوڑا موجود ہوتا ہے۔
ویسے تو یہ درختوں کے پتے اور نرم شاخیں وغیرہ کھاتا ہے تاہم یہ درختوں کے تنوں میں پائے جانے والے تنگ سوراخوں کو اپنی پتلی انگلیوں سے کھرچ کر ان میں موجود کیڑوں کے لاروے نکال کر بھی کھا جاتا ہے۔ یہ ایک سست جانور ہے جو دن کے وقت سوتا اور رات کو جاگتا ہے۔ اس کی ساری زندگی درختوں پر ہی بسر ہوتی ہے اور یہ زمین کا رخ شاذو نادر ہی رخ کرتا ہے۔ اس کے متعلق کافی روایتی قسم کی لوک کہانیاں بھی علاقے میں مشہور ہیں۔ اکثر مقامی افراد اس کو برائی کی علامت سمجھتے ہوئے دیکھتے ہی مار دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک اگر اس کی درمیانی پتلی انگلی کا رخ کسی انسان کی طرف ہو تو وہ اس شخص کی موت کا اشارہ ہوتا ہے۔
یہ بھی مشہور ہے کہ کسی گاؤں میں اس کے دیکھے جانے کا مطلب اس گاؤں کی تباہی و بربادی ہوتا ہے اور اس تباہی سے بچنے کا واحد حل اس ''آئے آئے'' کی موت ہی ہے۔ مڈغاسکر کے ایک قبیلے ''ساکا لاوا'' (Saka Lava) کا عقیدہ یہ ہے کہ ''آئے آئے'' رات کے وقت کسی بھی گھر کی گھاس پھوس کی چھت کے رخنوں سے اندر داخل ہوکر سوئے ہوئے لوگوں کی شہہ رگ کو اپنی پتلی انگلی سے چھید کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
-2 بلوب فش (Blobfish)
یہ مچھلی بلاشبہ اپنے دیکھنے والوں کو کراہت کے اس درجے تک لے جاسکتی ہے کہ جس سے ان کے معدے الٹ کر باہر کو آنے والے ہوجائیں۔ ستمبر 2013ء میں اسے ''اگلی اینیمل پریزرویشن سوسائٹی'' (Ugly Animal Preservation Society) کی جانب سے دنیا کی بدصورت ترین جانور کے خطاب سے نوازا گیا۔ یہ گہرے پانیوں کی مچھلی ہے اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے سمندروں میں ہوتی ہے۔
اس کی لمبائی عام طور پر ایک فٹ سے کم ہوتی ہے۔ یہ 2 سے 4 ہزار فٹ کی گہرائی میں پائی جاتی ہے جہاں آبی دباؤ سطح سمندر کی نسبت 60 تا 120 گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے جسم میں موجود ہوا سے بھرا ہوا ایک عضو، اسے بغیر کسی اضافی توانائی خرچ کیے سمندر کی تہہ کے تھوڑا اوپر تیرتے رہنے میں مدد کرنا ہے۔ ''بلوب فش'' کو اگر سمندر سے باہر نکالا جائے تو وہ عجیب چپچپی سی شکل اختیار کرکے مزید بدنما ہوجاتی ہے۔
-3 المکی (Almiqui)
چھوٹی آنکھوں اور گہرے بھورے یا کالے رنگ کے بالوں والے اس جانور کو عموماً چھچوندر سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ تاہم غیر معمولی لمبی تھوتنی اور بالوں سے پاک لمبی دم والااور ناک سے لے کر دم تک 16 تا 22 انچ لمبا ''المکی'' (Almiqui) کسی بڑے سے چوہے کے ساتھ زیادہ ملتا جلتا ہے۔
1861ء میں کیوبا میں ایک جرمن ماہر طبیعات ''ویلہیلم پیٹرز'' (Wilhelm Peters) نے پہلی بار ''المکی'' کو دریافت کیا اور اس کے بعد سے آج تک صرف 36 ''المکی'' ہی پکڑے جاسکے ہیں۔ 1970ء کی دہائی تک خیال یہ کیا جاتا رہا کہ شاید اس کی نسل معدوم ہوگئی ہے کیونکہ 1890ء کے بعد سے یہ منظر عام سے غائب ہوگیا تھا۔ مگر 1974-75ء میں مزید تین ''المکی'' پکڑے گئے۔
1999ء سے 2003ء کے دوران اس کو پھر مشرقی کیوبا کے مغربی جنگلات میں دیکھا گیا۔ یہ دنیا کے نایاب ترین جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ تین سالوں میں ایک بار بچے دیتا ہے۔ جن میں سے زیادہ تر یہ خود ہی کھا جاتا ہے، اسی وجہ سے اس کی نسل زیادہ بڑھ نہیں پاتی۔ یہ صرف کیوبا میں ہی پایا جاتا ہے اور اس کی خوراک کیڑے مکوڑے اور پودوں کی جڑوں اور پھل وغیرہ پر مشتمل ہے۔ ''المکی'' بھی دن کو سونے اور رات کو جاگنے والے جانداروں میں شامل ہے۔
-4 سرخ ہونٹوں والی چمگادڑ نما مچھلی (Red Lipped Batfish)
اس مچھلی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس نے اپنے بڑے بڑے ہونٹوں پر ابھی تازہ تازہ سرخ لپ اسٹک لگائی ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس کا نوکیلا جسم اور دونوں سائڈز پر نکلے ہوئے 'پر' اس کو مچھلی کی بجائے کسی ہوائی جہاز کی صورت عطا کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ مچھلی ''پیرو'' (Peru) کے ساحلوں پر 10 تا 249 فٹ کی گہرائی میں پائی جاتی ہے۔ یہ سمندر میں تیرنے کی بجائے اپنے پروں کے سہارے سمندر کی تہہ پر چلتی ہے۔ اس کی لمبائی 8 انچ تک ہوتی ہے اور یہ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اور دیگر آبی جانور کھاتی ہے۔ اپنی خطرناک شکل و صورت کے برعکس یہ انسانوں کے لیے بے ضرر ہے۔
-5 راجہ گدھ (Sarcoramphus Papa)
دوسرے گدھوں ہی کی طرح ''سارکو رامفس پاپا'' (Sarcoramphus Papa) موسوم بہ ''راجہ گدھ'' بھی ایک خاکروب پرندہ ہے۔ یہ عالم حیوانات کے لیے گراں قدر اور بیش بہا خدمات سرانجام دیتا ہے یعنی یہ مردار خوری کے ذریعے فضا کو آلودگی سے بچاتا ہے اور امراض کو پھیلنے سے روکنے میں مدد و معاونت فراہم کرتا ہے۔ بظاہر اس کو دیکھنے پر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے اس کا سر ''بلینڈر (مکسر مشین) میں ڈال کر ''بلنڈ'' کردیا ہو۔ یہ جنوبی میکسیکو سے لے کر شمالی ارجنٹائن تک کے وسیع علاقے میں پایا جاتا ہے۔
اس کی گردن کے گرد خاکستری یا کالے 'پروں' کا حلقہ ہوتا ہے، جبکہ جسم کے علاوہ دم پر بھی 'پر' ہوتے ہیں۔ تاہم اس کا سر گنجا اور مختلف رنگوں سے مزین ہوتا ہے۔ اس کا ذکر قدیم مایا تہذیب کی کتب میں بھی آتا ہے۔ اس کو ملنے والے ''راجہ گدھ'' کے خطاب کے بارے میں دو نظریات مشہور ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ دوسرے چھوٹے چھوٹے گدھوں کو مردار کی لاش کے پاس سے بھگا کر پہلے خود کھاتا ہے اور دوسرے گدھ اس کا پیٹ بھرنے کے منتظر رہتے ہیں تاکہ انہیں بھی اس کا موقع مل سکے اور دوسرے یہ کہ قدیم مایا تہذیب کی کتابوں کے مطابق یہ ایک بادشاہ تھا جو دیوی دیوتاؤں اور انسانوں کے بیچ پیغام رسانی کا اہم کام سرانجام دیتا تھا۔ اس کا خون اور 'پر' مختلف ادویات بنانے کے کام بھی آتے ہیں۔
-6 لمبے سینگوں والی گائے مچھلی (Longhorn Cowfish)
بحرالکاہل کے جس حصے میں بحرہند واقع ہے، اس میں پائی جانے والی اس مچھلی کی آنکھیں کسی مینڈک جیسی اور جسم، مرغی کی ران کی شکل کا ہوتا ہے، جو اسے بدنما بنانے کے لیے کافی ہے لیکن اس کی اصل خصوصیت اس کے وہ سینگ ہیں جو اس کے سر پر نکلے ہوتے ہیں۔ بالکل گائے بیلوں کے جیسے سینگ۔ یہ مچھلی 20 انچ تک لمبی ہوسکتی ہے اور آج کل اس کو گھروں میں پالنے کا رواج بھی بڑھ رہا ہے۔
-7 ہاتھی نما سمندری بچھڑا (Elephant Seal)
ہمیں پتہ ہے کہ ہاتھی ایک معصوم جانور ہے اور اس ہی طرح سمندری بچھڑا بھی بہت پیارا ہوتا ہے مگر ہاتھی نما سمندری بچھڑا؟
اس کی دو اقسام دنیا میں پائی جاتی ہیں۔ ایک براعظم شمالی امریکہ میں اور دوسری نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ میں۔ عام سمندری بچھڑوں کے برعکس اس کی ہاتھی کی سونڈ جیسی ناک ہوتی ہے جس کے ذریعہ یہ دھاڑ سے مشابہہ آواز نکالتا ہے۔ اس سمندری بچھڑے کی لمبائی 16 فٹ اور وزن 3,000 کلو گرام تک ہوسکتا ہے۔ ان کی زندگی کا 80 فیصد حصہ سمندروں میں گزرتا ہے اور یہ 100 منٹ تک اپنا سانس روک کر زیر آب رہ سکتے ہیں۔ ان میں 5,000 فٹ تک گہرا غوطہ لگانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ حیرت انگیز طور پر اپنے دل کی دھڑکن کی رفتار کو کم بھی کرسکتے ہیں۔ ان کی کھال بہت قیمتی ہونے کے سبب 19 ویں صدی میں ان کا بے تحاشا شکار کیا گیا۔ اسی وجہ سے ان کی نسل کو شدید خطرات لاحق ہوگئے تاہم بعد میں ان کے تحفظ کے لیے متعدد اقدامات کیسے جانے کی بدولت اب یہ معدومیت کے خطرے سے نکل آئے ہیں۔
-8 سونڈ والے بندر (Proboscis Monkey)
انڈونیشیا کے جنوب مشرق میں واقع جزیرے ''بورنیو'' (Borneo) کے جنگلات کا باسی یہ لمبی ناک والا بندر، بدصورت جانوروں کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ اپنی لمبی ناک سے دشمنوں کو ڈرانے کا کام بھی لیتا ہے۔
-9 چپٹی ناک والا بندر (Snub-Nosed Monkey)
سونڈ جیسی ناک والے بندر کے برعکس اس بندر کی ناک اتنی چھوٹی اور چپٹی ہوتی ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کی ناک ہے ہی نہیں۔ اسی لیے یہ بہت عجیب دکھائی دیتا ہے۔ کالے موتیوں کی طرح چمکتی آنکھوں، پیلے تیز دانتوں، کھوکھلی سی ناک والا یہ بندر شمالی ایشیا کے ممالک چین، تبت اور میانمار میں پایا جاتا ہے۔ اپنی چپٹی ناک پر شرمندہ ہونے کی بجائے یہ بندر بھی دوسرے بندروں ہی کی طرح انتہائی شرارتی ہوتا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ اس کو انسانوں کے برخلاف اپنی ناک کے بارے میں کوئی احساس کمتری نہیں ہے۔
-10 بئیرڈ ٹاپر (Baird Tapir)
برازیل میں پایا جانے والا، خنزیر اور گینڈے سے ملتا جلتا یہ جانور ''زندہ فوسل'' کہلاتا ہے۔ کیونکہ گزشتہ 35 ملین برس سے اس کی نسلیں مزید ارتقائی مراحل طے نہیں کرسکیں اور یہ ویسے کا ویسا ہی ہے جیسا یہ لاکھوں سال پہلے تھا۔ اس کا نام معروف امریکی ماہر طبیعات ''سپینسر بئیرڈ'' کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے 1843ء میں اپنے سفر میکسیکو کے دوران اسے دریافت کیا تھا۔ یہ برازیل کا قومی جانور ہے اور وہاں اسے پہاڑی گائے بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ پانی کے قریب رہنا پسند کرتا ہے اور پانی میں تیرنا اور نہانا اسے بہت مرغوب ہے۔ یہ گھنٹوں اپنی تھوتھنی پانی سے باہر نکالے پانی کے اندر سستاتا رہتا ہے۔ 1996ء میں اس کو غیر محفوظ قرار دے کر اس کا شکار ممنوع کردیا گیا کیونکہ اس کی نسل کو معدومی کا خطرہ تھا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ ''بیئرڈ ٹاپر'' کسی مقابلہ حسن میں حصہ لے سکتا ہے؟
-11 شیطانی شارک (Goblin Shark)
اس نفرت انگیز جاندار کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ڈراؤنی فلموں کا کوئی کردار پردۂ سیمیں سے نکل کر ہمارے سامنے آگیا ہو۔ تاہم اس کے اندر ایک زبردست خوبی پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ یہ اپنے جبڑے کو قریباً 3 انچ تک اپنے منہ سے باہر نکال سکتی ہے تاکہ اپنے شکار کو آسانی سے دبوچ سکے۔ یہ اپنی ہم نسل دیگر شارکوں میں بہت کمیاب ہے اور جانوروں کے اس قدیم خاندان سے تعلق رکھنے والی وہ واحد مخلوق ہے جو 125 ملین سال پرانی ہے۔ اس کی سفاکی اس کے تیز نوکیلے دانتوں سے عیاں ہے جو دوسری شارکوں کا بھی خاصہ ہیں۔ اس کی لمبائی 10 تا 13 فٹ ہوتی ہے۔ اس میں ایک خامی اس کی سستی ہے۔ اسی لیے یہ سمندر کی تہہ کے ساتھ تیرنے والی چھوٹی مچھلیوں اور آبی جانداروں کی گھات میں رہتی ہے اور ہاں انسانوں کے لیے بھی یہ یقینا انتہائی خطرناک ہے۔
-12 چیونٹی خور (Baby Aardvark)
یہ جانور خنزیر اور خرگوش کے مرکب جیسا دکھائی دیتا ہے۔ یہ ایک شرمیلا جانور ہے اور دن میں یہ خود کو دنیا کی نظروں سے چھپا کر رکھتا اور رات کو خوراک کی تلاش میں نکلتا ہے۔ اس کی غذا چیونٹیاں ہیں۔ یہ اپنی لمبی تھوتھنی سے زمین کو سونگتا ہوا چلتا ہے اور جہاں اسے چیونٹیوں کا بل مل جائے اسے یہ اپنے نوکیلے پنجوں سے کھود ڈالتا ہے اور چیونٹیوں کو چٹ کر جاتا ہے۔ اس کو چیونٹیاں کھانے والا افریقی ریچھ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی لمبائی عموماً 4 سے 5 فٹ اور وزن 60 تا 80 کلو گرام تک ہوتا ہے۔
یہ زمین میں سرنگیں کھودنے کا ماہر اور بہترین تیراک تصور کیا جاتا ہے۔ جنگلی قبائل اس کے دانتوں کا برسلیٹ خوش بختی کی علامت کے طور پر پہنتے ہیں اور جادوگر اس کے دل، کھال، ماتھے اور ناخنوں پر مشتمل مالا کے پہننے والے کے متعلق یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ اس کے اندر دیواروں اور چھتوں کے آر پار گزرنے کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔ امریکی ایئرفورس کے سپرسونک فائٹر بمبار طیارے F-III/FB-III کو اسی کے نام پر ''آرڈوارک'' کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اس طیارے کا اگلا لمبا حصہ بالکل اس کی تھوتھنی کے مشابہہ ہے۔
-13 چھچھوندر نما چوہا (Naked Mole Rat)
بالوں سے محروم چپچپی سی جلد والا یہ چوہا گوشت کے ایک لوتھڑا کی طرح نظرآتا ہے۔ یہ چیونٹیوں کی طرح ایک نظام کے تحت زندگی گزارتے ہیں۔ جن کی سربراہی ایک مادہ کے ذمے ہوتی ہے اور باقی تمام نر مادہ اپنے اپنے کاموں، جیسے خوراک جمع کرنا اور ساری کالونی کی حفاظت کرنا وغیرہ سرانجام دیتے ہیں۔ اس کا مسکن مشرقی افریقہ ہے۔ دمہ اور سرطان جیسی بیماریوں کے خلاف اس میں زبردست قوت مدافعت پائی جاتی ہے۔ یہ 3 سے 4 انچ تک لمبا ہوتا ہے اور اس کا وزن 30 تا 35 گرام ہوتا ہے۔ چوہوں کے خاندان میں اس کی عمر سب سے طویل ہوتی ہے اور یہ 32 سال تک کی زندگی بھی پالیتا ہے۔ ان کے بلوں کی لمبائی 3 سے 5 کلو میٹرز تک ہوتی ہے جس کی آبادی اوسطًا 75 نفوس پر مشتمل ہوتی ہے۔ سانپ ان کا جانی دشمن ہے۔
-14 سمندری گائے (Sea Cow)
زیر آب پائے جانے والے قوی الجثہ جانداروں میں یہ سب سے زیادہ سست الوجود واقع ہوئی ہے، جیسا کہ اس کی ظاہری شباہت سے بھی مرتعش ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک بہت بڑا سا آلو اپنے 'پروں' کے بل بوتے پر تیرتا پھر رہا ہو۔ ابتدائً اس کو 1741ء میں یورپ کے لوگوں نے الاسکا اور روس کے درمیانی سمندر میں دریافت کیا۔ اس کی لمبائی 30 فٹ اور وزن 8 سے 10 میٹرک ٹن تک ہوتا ہے۔ اپنے حجم کے ساتھ یہ وہیل مچھلی کے مقابلے کا جاندار ہے۔ اس کے جسم کے تناسب سے اس کا سر کافی چھوٹا ہوتا ہے، جو اسے عجیب الخلقت بناتا ہے۔
اس کے دل کا وزن 16 کلو گرام جبکہ اس کا معدہ 6 فٹ لمبا اور 5 فٹ چوڑا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا دن کا زیادہ تر حصہ کھانے پینے میں ہی گزرتا ہے اور یہ سارے دن میں محض 4 سے 5 منٹ سانس لینے میں صرف کرتی ہے۔ الاسکا میں اس کی کھال اور گوشت کے حصول کے لیے اس کا بے دریغ شکار کیے جانے کے باعث اس کی نسل معدومی کے خطرے سے دوچار ہوگئی تھی بعدازاں اس کے شکار پر پابندی عائد کردی گئی۔
-15 ستارا ناک والا چھچھوندر (Star Nosed Mole)
ستارے جیسی ناک والا یہ چھچھوندر شمالی امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ یہ اپنی تھوتھنی کے گرد موجود گوشت کے 22 گلابی لوتھڑوں کی وجہ سے باآسانی شناخت کیا جاسکتا ہے۔ اس کی تھوتھنی کسی اکٹوپس جیسی نظر آتی ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ جیسے ان کا مصرف صرف بچوں کو ڈرانا ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ ان میں موجود 100,000 اعصابی تار اس کے دماغ کو کسی بھی چیز کے بارے میں مفصل معلومات پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک لاکھ اعصابی ریشوں کا مطلب ہے کہ یہ انسانی ہاتھ سے بھی 5 گنا زیادہ حساسیت رکھتا ہے جو اس کے اضطراری افعال کی بہت زیادہ فعالیت کو ظاہر کرتا ہے۔ قطع نظر اس کی بدصورتی کے، یہ چیز اس کے لیے بہت فائدہ مند ہے کیونکہ اس کی نظر انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ اگر قدرت اسے یہ خوبی ودیعت نہ کرتی تو وہ شاید بھوکا ہی مرجاتا۔
-16 میٹا میٹا ٹرٹل (Matamata Turtle)
اس کچھوے کا خول درخت کی چھال جیسا جبکہ اس کا سر سوکھے ہوئے پتوں کا سا منتظر پیش کرتا ہے۔ اس کی کھردری کھال، گٹھیلا جسم اور لمبا منہ دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی چٹان میں زندگی کی رو دوڑ گئی ہو۔ کچھوے تو ویسے بھی سست ہی ہوتے ہیں مگر یہ اتنا شاطر و چالاک ہے کہ پانی میں گھنٹوں بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے۔ جیسے ہی کوئی چھوٹی سی مچھلی اس کے قریب آتی ہے تو یہ آہستگی سے اپنا منہ کھول کر ایک گہری سانس اندر کو کھینچتا ہے اور مچھلی کو تب پتا چلتا ہے جب وہ اس کے پیٹ میں پہنچ جاتی ہے۔ آج کل اسے گھروں میں پالتو جانور کے طور پر بھی پالا جاتا ہے۔
-17 فلپانی لنگور (Philippine Tarsier)
اس کو دنیا کا سب سے چھوٹا بندر بھی کہا جاتا ہے لیکن تکینکی لحاظ سے یہ بندروں میں شمار نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کی لمبائی محض 5 یا 6 انچ اور وزن 120 گرام کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ اس کی نسل کا تعلق 45 ملین سال پرانے دور سے ہے۔ دوسرے لنگوروں کی طرح اس کی بڑی بڑی آنکھیں اپنے حلقوں میں ہی جڑی ہوتی ہیں۔ یہ اتنا بدصورت دکھائی دیتا ہے کہ سائنس دان ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ اس شریر کو جانوروں کے کس درجے میں رکھیں۔ تاہم اس کی مجموعی خصوصیات اور اس کی بڑی بڑی چمکدار آنکھیں اس کو جانوروں کے مقابلہ بدصورتی میں اول نمبر دیئے جانے کا مستحق بناتی ہیں۔ کیا خیال ہے آپ کا؟
-18 کیلیفورنیا کا گدھ (California Condor)
اس کے پروں کے متاثر کن پھیلاؤ اور اس کی بلند پروازی کے سبب اس کو ''تھنڈر برڈ'' (Thunder Bird) یعنی طوفانی پرندہ کا خطاب دیا جاتا ہے۔ تاہم اس کی جھریوں دار گلابی گردن، کھردرا چہرہ اور آپس میں ملی ہوئی بھوؤں کا نظاراکسی بھی انسان کو قے کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ یہ سب پرندوں میں طویل العمر مانا جاتا ہے کیونکہ اس کی عمر 60 سال تک ہوسکتی ہے۔ یہ امریکہ کے مقامی قبائل کے عقائد میں اہم مقام رکھتا ہے۔ کچھ قبائل اس کو مقدس جبکہ چند اسے منحوس تصور کرتے ہیں۔
-19 مگرمچھ کی شباہت والا کچھوا (Alligator Snapping Turtle)
ڈائنوسارز کے زمانے کا یہ کچھوا، ان کے ساتھ ہی معدوم ہونے کی بجائے آج تک اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔ یہ شمالی امریکہ میں تازہ پانیوں کا سب سے بڑا کچھوا ہے جس کے خول کی لمبائی ڈھائی فٹ اور وزن 100 کلو گرام تک ہوتا ہے۔ اس کو ''ایلیگیٹر سنیپنگ ٹرٹل'' کا نام اس کے مگر مچھ کی طرح مضبوط جبڑے، اسپرنگ جیسی گردن اور اس کے خول کی مگر مچھ کی کھال جیسی سخت اور کھردری ساخت کی وجہ سے دیا گیا ہے۔ اس کو اکثر لوگ گھر میں پالتے بھی ہیں۔
zeeshan.baig@express.com.pk