پارکر سولر پروب
ناسا کا نیا خلائی مشن سورج کے رازوں سے پردہ اٹھائے گا۔
سورج ہمارے نظام شمسی کا مرکز ہے۔ زمین کی رونقیں اسی کے دم سے قائم و دائم ہیں۔ سطح ارض پر وجود حیات کی ضمانت اسی ستارے سے خارج ہونے والی شمسی شعاعیں یعنی دھوپ ہے۔
قدرت کے عطا کردہ علم کے سہارے انسان سورج کے بارے میں بہت کچھ جان چکا ہے، تاہم ہنوز ان گنت اسرار اس ستارے سے جُڑے ہوئے ہیں جن سے پردہ اٹھانے کے لیے امریکی خلائی ایجنسی ناسا خلائی جہاز روانہ کررہی ہے۔ کوئی رکاوٹ نہ ہونے کی صورت میں یہ مشن گیارہ اگست کو فلورایڈا میں واقع کیپ کارنیوال اسٹیشن سے روانہ کیا جائے گا۔ سورج کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی غرض سے روانہ کیے جانے والے خلائی جہاز کا نام ''پارکر سولر پروب'' ہے۔
جدید آلات سے لیس تحقیقی خلائی جہاز کو انتہائی طاقت وَر راکٹ کے ذریعے خلا میں پہنچایا جائے گا۔ ارضی مدار کی حدود سے باہر نکل جانے کے بعد پارکر سولر پروب ہمارے پڑوسی سیارے زہرہ کی جانب بڑھے گا۔ زہرہ کے گرد سے یہ نیم دائرہ بناتے ہوئے گزرے گا۔ خلائی جہاز کی نیم دائروی حرکت اس کی بے انتہا رفتار میں قدرے کمی لے آئے گی جو اسے قابو میں رکھنے کے لیے ضروری ہوگی۔
سات سال کے طویل سفر کے بعد خلائی جہاز سورج کی سطح سے چالیس لاکھ میل کے فاصلے پر آجائے گا۔ سورج کے گرد یہ علاقہ ''کرونا'' کہلاتا ہے۔ یہاں درجۂ حرارت بے حد بلند ہوتا ہے۔ درجۂ حرارت کی انتہائی شدت سے خلائی جہاز کو مضبوط حفاظتی شیلڈ محفوظ رکھے گی۔ خصوصی طور پر ڈیزائن کی گئی شیلڈ کی وجہ سے خلائی جہاز کا اندرونی درجۂ حرارت 30 ڈگری سیلسیئس رہے گا۔ اس درجۂ حرارت پر خلائی جہاز کے اندر نصب آلات بہ خوبی کام کرتے رہیں گے۔ سورج سے اس قدر دوری پر رہتے ہوئے خلائی جہاز اس کے مدار میں چکر لگانا شروع کردے گا۔
مداروی گردش کے دوران پارکر سولر پروب تین رازوں سے پردہ اٹھانے میں سائنس دانوں کی مدد کرے گا: سورج کی سطح سے جیسے جیسے دور ہوتے جائیں تو اس کی فضا کیوں گرم تر ہوتی چلی جاتی ہے؟ بہ الفاظ دیگر شمسی سطح کے مقابلے میں اس کی فضا کیوں زیادہ گرم ہوتی ہے؟ باردار ذرات پر مشتمل شمسی ہوائیں کیسے جنم لیتی ہیں؟ اور یہ کہ سورج پر زوردار دھماکے کیوں ہوتے رہتے ہیں؟
ان سوالات کے جوابات ملنے کے بعد سائنس دانوں کے لیے یہ سمجھنا آسان ہوجائے گا کہ ہمارے نظام شمسی سے پرے ستارے کیسے کام کرتے ہیں۔ اس مشن سے سائنس داں ستارے کے قریب رہنے کے خطرات سے بھی آگاہ ہوسکیں گے۔
قدرت کے عطا کردہ علم کے سہارے انسان سورج کے بارے میں بہت کچھ جان چکا ہے، تاہم ہنوز ان گنت اسرار اس ستارے سے جُڑے ہوئے ہیں جن سے پردہ اٹھانے کے لیے امریکی خلائی ایجنسی ناسا خلائی جہاز روانہ کررہی ہے۔ کوئی رکاوٹ نہ ہونے کی صورت میں یہ مشن گیارہ اگست کو فلورایڈا میں واقع کیپ کارنیوال اسٹیشن سے روانہ کیا جائے گا۔ سورج کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی غرض سے روانہ کیے جانے والے خلائی جہاز کا نام ''پارکر سولر پروب'' ہے۔
جدید آلات سے لیس تحقیقی خلائی جہاز کو انتہائی طاقت وَر راکٹ کے ذریعے خلا میں پہنچایا جائے گا۔ ارضی مدار کی حدود سے باہر نکل جانے کے بعد پارکر سولر پروب ہمارے پڑوسی سیارے زہرہ کی جانب بڑھے گا۔ زہرہ کے گرد سے یہ نیم دائرہ بناتے ہوئے گزرے گا۔ خلائی جہاز کی نیم دائروی حرکت اس کی بے انتہا رفتار میں قدرے کمی لے آئے گی جو اسے قابو میں رکھنے کے لیے ضروری ہوگی۔
سات سال کے طویل سفر کے بعد خلائی جہاز سورج کی سطح سے چالیس لاکھ میل کے فاصلے پر آجائے گا۔ سورج کے گرد یہ علاقہ ''کرونا'' کہلاتا ہے۔ یہاں درجۂ حرارت بے حد بلند ہوتا ہے۔ درجۂ حرارت کی انتہائی شدت سے خلائی جہاز کو مضبوط حفاظتی شیلڈ محفوظ رکھے گی۔ خصوصی طور پر ڈیزائن کی گئی شیلڈ کی وجہ سے خلائی جہاز کا اندرونی درجۂ حرارت 30 ڈگری سیلسیئس رہے گا۔ اس درجۂ حرارت پر خلائی جہاز کے اندر نصب آلات بہ خوبی کام کرتے رہیں گے۔ سورج سے اس قدر دوری پر رہتے ہوئے خلائی جہاز اس کے مدار میں چکر لگانا شروع کردے گا۔
مداروی گردش کے دوران پارکر سولر پروب تین رازوں سے پردہ اٹھانے میں سائنس دانوں کی مدد کرے گا: سورج کی سطح سے جیسے جیسے دور ہوتے جائیں تو اس کی فضا کیوں گرم تر ہوتی چلی جاتی ہے؟ بہ الفاظ دیگر شمسی سطح کے مقابلے میں اس کی فضا کیوں زیادہ گرم ہوتی ہے؟ باردار ذرات پر مشتمل شمسی ہوائیں کیسے جنم لیتی ہیں؟ اور یہ کہ سورج پر زوردار دھماکے کیوں ہوتے رہتے ہیں؟
ان سوالات کے جوابات ملنے کے بعد سائنس دانوں کے لیے یہ سمجھنا آسان ہوجائے گا کہ ہمارے نظام شمسی سے پرے ستارے کیسے کام کرتے ہیں۔ اس مشن سے سائنس داں ستارے کے قریب رہنے کے خطرات سے بھی آگاہ ہوسکیں گے۔