آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے
اس گیت نے فلم کی ریلیز سے پہلے ہی اپنی کامیابی کے جھنڈے سارے ہندوستان میں گاڑ دیے تھے۔
مجھے وہ دن بھی بھولے نہیں بھلایا جاتا جب نازیہ حسن نے فلمی دنیا کے سپر اسٹار لیجنڈ ہیرو ندیم کے ساتھ ٹیلی ویژن پر فلم ''چکوری'' کا ڈوئیٹ گایا تھا جس کے بول تھے:
کبھی تو تم کو یاد آئیں گی
وہ بہاریں وہ سماں
جھکے جھکے بادلوں کے نیچے
ملے تھے ہم تم جہاں جہاں
یہ گیت گاتے ہوئے نازیہ حسن اور ندیم نے لاکھوں ناظرین کے دل لوٹ لیے تھے۔ اس گیت میں ندیم کا لباس سفید تھا اور نازیہ حسن کا سیاہ رنگ کا جوڑا تھا اور جب گیت گاتے ہوئے نازیہ حسن ان بولوں کی ادائیگی کر رہی تھیں تو اس وقت اس کے مستقبل کی سوگوار تاریخ رقم ہو رہی تھی:
تم سے بچھڑے صدیاں بیتیں آج بھی تم یاد آتے ہو
سایا بن کے آہٹ بن کے اب بھی تم تڑپاتے ہو
نازیہ حسن پاکستان کی وہ پہلی گلوکارہ تھی جو ابھی بہت ہی کم عمر تھی مگر موسیقی میں کافی دسترس حاصل کرچکی تھی۔ موسیقی کا یہ شوق اس کو اپنی والدہ منیزہ بصیر حسن سے ملا تھا، منیزہ بصیر مہینے میں دو چار بار مشہور کلاسیکل سنگر استاد امیر احمد خان سے شوقیہ طور پر موسیقی سیکھا کرتی تھیں اور جس دن موسیقی کی کلاس ہوتی تھی نازیہ بھی چپ چاپ اس کمرے میں آکر بیٹھ جاتی تھی اس طرح نازیہ کو گانے کا شوق پیدا ہوا۔ جب اسکول میں جانے لگی تو موسیقی کی کلاس بھی جوائن کرلی تھی اس دوران اپنی والدہ کے ساتھ اسے غلام فرید صابری کی قوالی سننے کا موقع ملا۔ نازیہ کو یہ قوالی بہت پسند آئی اور اس قوالی ہی نے اسے موسیقی کی طرف راغب کیا تھا۔
موسیقی کے اس سفر میں اس کا بھائی زوہیب حسن اس کا ہم سفر بن گیا تھا پھر دونوں بہن بھائی اپنے گھر میں ہی سروں کا جادو جگاتے تھے اور حیرت کی بات یہ تھی کہ نازیہ حسن کو شاعری کی بھی بڑی سدھ بدھ ہوگئی تھی۔ اب نازیہ حسن، غلام علی اور مہدی حسن کو بھی بڑی دلچسپی کے ساتھ سنا کرتی تھی۔ لتا منگیشکر اور میڈم نور جہاں کے گیت بھی اسے بہت اچھے لگتے تھے پھر وقت کسی پرندے کی طرح گزرتا چلا گیا اور نازیہ حسن اس مقام پر آگئی کہ اس کا ٹیلی ویژن پر پہلا پروگرام پیش کیا گیا یہ 1975ء کا زمانہ تھا، ہندوستان کی فلموں میں ڈسکو گیتوں کا آغاز ہوچکا تھا۔
نازیہ حسن اور زوہیب حسن کا پہلا پروگرام ''ڈسکو دیوانے'' کے نام سے پاکستان ٹیلی ویژن سے جیسے ہی نشر ہوا، سارے پاکستان میں اس گیت کی دھوم مچ گئی اور یہ گیت پھر گلی گلی گایا جانے لگا۔ پھر تو ٹیلی ویژن پر یکے بعد دیگرے نازیہ حسن کے اپنے بھائی کے ساتھ پروگرام آتے رہے اور سپرہٹ ہوتے رہے دونوں نے بہت سے میوزیکل پروگرامز کیے جن کے البم اور ویڈیوز بھی مارکیٹ میں آتی رہیں اور تمام البم کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی ان میں خاص طور پر ڈسکو دیوانے، بوم بوم، ڈم ڈم ڈی ڈی، ہاٹ لائن اور کیمرہ کیمرہ کو کسی صورت میں بھلایا نہیں جاسکتا ۔
اب میں اس شہرہ آفاق فلمی گیت کی طرف آتا ہوں جو نازیہ حسن نے انڈین فلم '' قربانی'' کے لیے گایا تھا۔ اس کی بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔ نازیہ حسن کی پوری فیملی ان دنوں چھٹیاں گزارنے لندن گئے ہوئے تھے، ان دنوں انڈین اداکارہ زینت امان بھی لندن میں موجود تھی، زینت امان نے اپنے دوستوں کے لیے ایک پارٹی کا انتظام کیا تھا۔ پارٹی میں فلم ساز اداکار اور ہدایت کار فیروز خان بھی تھے یہ 1979ء کی بات ہے۔
اس پارٹی میں نازیہ حسن نے بہت مختصر انداز میں اپنی گائیکی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ہدایت کار فیروز خان کو اس کمسن گلوکارہ کی آواز نے بڑا متاثر کیا۔ کچھ ہی دنوں بعد فلم سازوہدایت کار فیروز خان نے اپنی فلم ''قربانی'' کے ایک گیت کی ریکارڈنگ کے لیے نازیہ حسن کے والدین کو راضی کرلیا، پھر نازیہ حسن کو ممبئی بلایا گیا تھا۔ شاعر نے ایک گیت لکھا اور اس گیت کی دھن خاص طور پر ایک آؤٹ سائیڈ میوزک کمپوزر بدو نے کمپوز کی تھی جب کہ فلم ''قربانی'' کے موسیقار کلیان جی آنند جی تھے۔ گیت جب تیار ہوگیا تو نازیہ حسن کو ریکارڈنگ کی غرض سے بلایا گیا کئی ریہرسلیں ہوئیں اور فائنل ریہرسل کے بعد جو گیت ریکارڈ کیا گیا اس کے بول تھے:
آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے
تو بات بن جائے' تو بات بن جائے
اس گیت نے فلم کی ریلیز سے پہلے ہی اپنی کامیابی کے جھنڈے سارے ہندوستان میں گاڑ دیے تھے اور یہ گیت زینت امان پر فلمایا گیا تھا جب فلم ''قربانی'' نمائش کے لیے پیش ہوئی تو صرف نازیہ حسن کے اس گیت ہی کی وجہ سے فلم بینوں کی ایک طویل عرصے تک توجہ کا مرکز بنی رہی تھی۔ نازیہ حسن اپنے ایک گانے سے ہندوستان فلم انڈسٹری کو جیت کر جب پاکستان واپس آئی تو سارے پاکستان میں بھی اس کا بڑے پیار سے سواگت کیا گیا تھا ۔ نازیہ حسن نے اپنے البم اور سی ڈیز کی تمام آمدنی کو صرف چیریٹی کے لیے وقف کردیا تھا۔
نازیہ حسن کے گھر پر میری اس سے ایک ملاقات بھی بڑی یادگار تھی۔ موسیقار استاد امیر احمد خان کے ذریعے مجھے گیت لکھنے کے لیے نازیہ حسن کے گھر بلایا گیا تھا۔ ان دنوں وہ چائلڈ لیبر پر اور غریب بچوں کی تعلیم پرکام کر رہی تھی،اسے ایک ایسا گیت چاہیے تھا جو دونوں شعبوں کو کور کرسکے میں نے جب نازیہ حسن سے گفتگوکا آغازکیا تو اندازہ ہوا کہ یہ چھوٹی سی لڑکی ایک بہت بڑی سوچ کی مالک ہے اس نے مجھے اپنی کچھ شاعری بھی سنائی۔ میں دنگ رہ گیا تھا اور پھر مذکورہ گیت کے بارے میں اپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے میں اسے میری شاعرانہ معاونت درکار تھی، جب وہ گیت تیار ہوگیا تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ نازیہ حسن نے اس گیت کو تقریباً خود ہی لکھا تھا اور اس گیت کی بڑی سحر انگیز دھن بنائی تھی۔ گیت کی شاعرہ بھی وہ تھی کمپوزر بھی وہ خود تھی اور ریکارڈسٹ بھی۔ میں نے تو صرف نازیہ حسن کی معاونت کا فرض ادا کیا تھا۔
نازیہ اس دوران موسیقی کا شوق بھی پورا کرتی رہی اور اپنی مزید اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرتی رہی اس نے یوکے سے بیچلرکی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت کی بھی ڈگری لی تھی۔ یہ مستقبل میں ایک وکیل بھی بننا چاہتی تھی اور یہ اب سوشل ورکر کی حیثیت سے بھی ابھر کر آرہی تھی۔اس کے گیتوں کے البم آتے جا رہے تھے اور ہٹ ہوتے جا رہے تھے نازیہ اب ایک نامور گلوکارہ بن چکی تھی۔ فلم ''قربانی'' کے مشہور ترین گیت پر اسے بے شمار اعزاز اور ایوارڈز سے نوازا گیا تھا خاص طور پر فلم فیئر ایوارڈ اسے ڈبل پلاٹینم ایوارڈ کے ساتھ ساتھ گولڈن ڈسک ایوارڈ بھی دیا گیا تھا جو بحیثیت گلوکارہ ایک بہت بڑا ایوارڈ تھا جو اس عمر میں تو کیا بڑی عمرکے گلوکاروں کو بھی بڑے پاپڑ بیل کر نصیب ہوتا ہے۔ بعد از مرگ اسے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔
کراچی کے ایک بڑے بزنس مین مرزا اشتیاق بیگ سے اس کی شادی ہوگئی۔ میں ان دنوں لاہور میں تھا جب واپس کراچی آیا تو نازیہ حسن کے بارے میں ایک المناک خبر ملی کہ اسے پھیپھڑوں کا کینسر ہوگیا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ نازک اندام لڑکی ایک مرجھائی کلی کی صورت اختیار کرتی چلی گئی، پھر اسے علاج کی غرض سے لندن لے جایا گیا۔
اسی دوران ایک اور درد بھری خبر ملی کہ اس کی ازدواجی زندگی کی تلخیوں کی وجہ سے نازیہ حسن اور مرزا اشتیاق بیگ کے درمیان طلاق ہوگئی ہے اور یہ طلاق موت سے چند دن پہلے عمل میں آئی تھی اور نازیہ حسن نے اپنی ناکام ازدواجی زندگی کے چیپٹرکو خود ہی کلوز کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ نازیہ کے مطابق وہ اپنے شوہر کے نامناسب رویوں سے بھی بڑی دکھی تھی، شاید دونوں کے ستارے مل نہ سکے تھے یا پھر تقدیر میں یہ ایک داغ بھی لکھا تھا پھر چند دنوں کے بعد وہ دن بھی آگیا کہ نازیہ حسن جو لندن میں پلی بڑھی تھی، اسی لندن کی آغوش میں اس نے دم توڑ دیا تھا اور اس طرح موسیقی کا چمن اپنی بہار سے بچھڑگیا تھا۔
کبھی تو تم کو یاد آئیں گی
وہ بہاریں وہ سماں
جھکے جھکے بادلوں کے نیچے
ملے تھے ہم تم جہاں جہاں
یہ گیت گاتے ہوئے نازیہ حسن اور ندیم نے لاکھوں ناظرین کے دل لوٹ لیے تھے۔ اس گیت میں ندیم کا لباس سفید تھا اور نازیہ حسن کا سیاہ رنگ کا جوڑا تھا اور جب گیت گاتے ہوئے نازیہ حسن ان بولوں کی ادائیگی کر رہی تھیں تو اس وقت اس کے مستقبل کی سوگوار تاریخ رقم ہو رہی تھی:
تم سے بچھڑے صدیاں بیتیں آج بھی تم یاد آتے ہو
سایا بن کے آہٹ بن کے اب بھی تم تڑپاتے ہو
نازیہ حسن پاکستان کی وہ پہلی گلوکارہ تھی جو ابھی بہت ہی کم عمر تھی مگر موسیقی میں کافی دسترس حاصل کرچکی تھی۔ موسیقی کا یہ شوق اس کو اپنی والدہ منیزہ بصیر حسن سے ملا تھا، منیزہ بصیر مہینے میں دو چار بار مشہور کلاسیکل سنگر استاد امیر احمد خان سے شوقیہ طور پر موسیقی سیکھا کرتی تھیں اور جس دن موسیقی کی کلاس ہوتی تھی نازیہ بھی چپ چاپ اس کمرے میں آکر بیٹھ جاتی تھی اس طرح نازیہ کو گانے کا شوق پیدا ہوا۔ جب اسکول میں جانے لگی تو موسیقی کی کلاس بھی جوائن کرلی تھی اس دوران اپنی والدہ کے ساتھ اسے غلام فرید صابری کی قوالی سننے کا موقع ملا۔ نازیہ کو یہ قوالی بہت پسند آئی اور اس قوالی ہی نے اسے موسیقی کی طرف راغب کیا تھا۔
موسیقی کے اس سفر میں اس کا بھائی زوہیب حسن اس کا ہم سفر بن گیا تھا پھر دونوں بہن بھائی اپنے گھر میں ہی سروں کا جادو جگاتے تھے اور حیرت کی بات یہ تھی کہ نازیہ حسن کو شاعری کی بھی بڑی سدھ بدھ ہوگئی تھی۔ اب نازیہ حسن، غلام علی اور مہدی حسن کو بھی بڑی دلچسپی کے ساتھ سنا کرتی تھی۔ لتا منگیشکر اور میڈم نور جہاں کے گیت بھی اسے بہت اچھے لگتے تھے پھر وقت کسی پرندے کی طرح گزرتا چلا گیا اور نازیہ حسن اس مقام پر آگئی کہ اس کا ٹیلی ویژن پر پہلا پروگرام پیش کیا گیا یہ 1975ء کا زمانہ تھا، ہندوستان کی فلموں میں ڈسکو گیتوں کا آغاز ہوچکا تھا۔
نازیہ حسن اور زوہیب حسن کا پہلا پروگرام ''ڈسکو دیوانے'' کے نام سے پاکستان ٹیلی ویژن سے جیسے ہی نشر ہوا، سارے پاکستان میں اس گیت کی دھوم مچ گئی اور یہ گیت پھر گلی گلی گایا جانے لگا۔ پھر تو ٹیلی ویژن پر یکے بعد دیگرے نازیہ حسن کے اپنے بھائی کے ساتھ پروگرام آتے رہے اور سپرہٹ ہوتے رہے دونوں نے بہت سے میوزیکل پروگرامز کیے جن کے البم اور ویڈیوز بھی مارکیٹ میں آتی رہیں اور تمام البم کو بڑی پذیرائی حاصل ہوئی تھی ان میں خاص طور پر ڈسکو دیوانے، بوم بوم، ڈم ڈم ڈی ڈی، ہاٹ لائن اور کیمرہ کیمرہ کو کسی صورت میں بھلایا نہیں جاسکتا ۔
اب میں اس شہرہ آفاق فلمی گیت کی طرف آتا ہوں جو نازیہ حسن نے انڈین فلم '' قربانی'' کے لیے گایا تھا۔ اس کی بھی ایک دلچسپ داستان ہے۔ نازیہ حسن کی پوری فیملی ان دنوں چھٹیاں گزارنے لندن گئے ہوئے تھے، ان دنوں انڈین اداکارہ زینت امان بھی لندن میں موجود تھی، زینت امان نے اپنے دوستوں کے لیے ایک پارٹی کا انتظام کیا تھا۔ پارٹی میں فلم ساز اداکار اور ہدایت کار فیروز خان بھی تھے یہ 1979ء کی بات ہے۔
اس پارٹی میں نازیہ حسن نے بہت مختصر انداز میں اپنی گائیکی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ہدایت کار فیروز خان کو اس کمسن گلوکارہ کی آواز نے بڑا متاثر کیا۔ کچھ ہی دنوں بعد فلم سازوہدایت کار فیروز خان نے اپنی فلم ''قربانی'' کے ایک گیت کی ریکارڈنگ کے لیے نازیہ حسن کے والدین کو راضی کرلیا، پھر نازیہ حسن کو ممبئی بلایا گیا تھا۔ شاعر نے ایک گیت لکھا اور اس گیت کی دھن خاص طور پر ایک آؤٹ سائیڈ میوزک کمپوزر بدو نے کمپوز کی تھی جب کہ فلم ''قربانی'' کے موسیقار کلیان جی آنند جی تھے۔ گیت جب تیار ہوگیا تو نازیہ حسن کو ریکارڈنگ کی غرض سے بلایا گیا کئی ریہرسلیں ہوئیں اور فائنل ریہرسل کے بعد جو گیت ریکارڈ کیا گیا اس کے بول تھے:
آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے
تو بات بن جائے' تو بات بن جائے
اس گیت نے فلم کی ریلیز سے پہلے ہی اپنی کامیابی کے جھنڈے سارے ہندوستان میں گاڑ دیے تھے اور یہ گیت زینت امان پر فلمایا گیا تھا جب فلم ''قربانی'' نمائش کے لیے پیش ہوئی تو صرف نازیہ حسن کے اس گیت ہی کی وجہ سے فلم بینوں کی ایک طویل عرصے تک توجہ کا مرکز بنی رہی تھی۔ نازیہ حسن اپنے ایک گانے سے ہندوستان فلم انڈسٹری کو جیت کر جب پاکستان واپس آئی تو سارے پاکستان میں بھی اس کا بڑے پیار سے سواگت کیا گیا تھا ۔ نازیہ حسن نے اپنے البم اور سی ڈیز کی تمام آمدنی کو صرف چیریٹی کے لیے وقف کردیا تھا۔
نازیہ حسن کے گھر پر میری اس سے ایک ملاقات بھی بڑی یادگار تھی۔ موسیقار استاد امیر احمد خان کے ذریعے مجھے گیت لکھنے کے لیے نازیہ حسن کے گھر بلایا گیا تھا۔ ان دنوں وہ چائلڈ لیبر پر اور غریب بچوں کی تعلیم پرکام کر رہی تھی،اسے ایک ایسا گیت چاہیے تھا جو دونوں شعبوں کو کور کرسکے میں نے جب نازیہ حسن سے گفتگوکا آغازکیا تو اندازہ ہوا کہ یہ چھوٹی سی لڑکی ایک بہت بڑی سوچ کی مالک ہے اس نے مجھے اپنی کچھ شاعری بھی سنائی۔ میں دنگ رہ گیا تھا اور پھر مذکورہ گیت کے بارے میں اپنے خیال کو عملی جامہ پہنانے میں اسے میری شاعرانہ معاونت درکار تھی، جب وہ گیت تیار ہوگیا تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ نازیہ حسن نے اس گیت کو تقریباً خود ہی لکھا تھا اور اس گیت کی بڑی سحر انگیز دھن بنائی تھی۔ گیت کی شاعرہ بھی وہ تھی کمپوزر بھی وہ خود تھی اور ریکارڈسٹ بھی۔ میں نے تو صرف نازیہ حسن کی معاونت کا فرض ادا کیا تھا۔
نازیہ اس دوران موسیقی کا شوق بھی پورا کرتی رہی اور اپنی مزید اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرتی رہی اس نے یوکے سے بیچلرکی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وکالت کی بھی ڈگری لی تھی۔ یہ مستقبل میں ایک وکیل بھی بننا چاہتی تھی اور یہ اب سوشل ورکر کی حیثیت سے بھی ابھر کر آرہی تھی۔اس کے گیتوں کے البم آتے جا رہے تھے اور ہٹ ہوتے جا رہے تھے نازیہ اب ایک نامور گلوکارہ بن چکی تھی۔ فلم ''قربانی'' کے مشہور ترین گیت پر اسے بے شمار اعزاز اور ایوارڈز سے نوازا گیا تھا خاص طور پر فلم فیئر ایوارڈ اسے ڈبل پلاٹینم ایوارڈ کے ساتھ ساتھ گولڈن ڈسک ایوارڈ بھی دیا گیا تھا جو بحیثیت گلوکارہ ایک بہت بڑا ایوارڈ تھا جو اس عمر میں تو کیا بڑی عمرکے گلوکاروں کو بھی بڑے پاپڑ بیل کر نصیب ہوتا ہے۔ بعد از مرگ اسے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔
کراچی کے ایک بڑے بزنس مین مرزا اشتیاق بیگ سے اس کی شادی ہوگئی۔ میں ان دنوں لاہور میں تھا جب واپس کراچی آیا تو نازیہ حسن کے بارے میں ایک المناک خبر ملی کہ اسے پھیپھڑوں کا کینسر ہوگیا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ نازک اندام لڑکی ایک مرجھائی کلی کی صورت اختیار کرتی چلی گئی، پھر اسے علاج کی غرض سے لندن لے جایا گیا۔
اسی دوران ایک اور درد بھری خبر ملی کہ اس کی ازدواجی زندگی کی تلخیوں کی وجہ سے نازیہ حسن اور مرزا اشتیاق بیگ کے درمیان طلاق ہوگئی ہے اور یہ طلاق موت سے چند دن پہلے عمل میں آئی تھی اور نازیہ حسن نے اپنی ناکام ازدواجی زندگی کے چیپٹرکو خود ہی کلوز کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ نازیہ کے مطابق وہ اپنے شوہر کے نامناسب رویوں سے بھی بڑی دکھی تھی، شاید دونوں کے ستارے مل نہ سکے تھے یا پھر تقدیر میں یہ ایک داغ بھی لکھا تھا پھر چند دنوں کے بعد وہ دن بھی آگیا کہ نازیہ حسن جو لندن میں پلی بڑھی تھی، اسی لندن کی آغوش میں اس نے دم توڑ دیا تھا اور اس طرح موسیقی کا چمن اپنی بہار سے بچھڑگیا تھا۔