بانی مزدور تحریک مرزا محمد ابراہیم
عمران خان پاکستان کے نئے وزیر اعظم بن رہے ہیں،وہ اقتدار میں آ کرکیا کرتے ہیں؟ غریب عوام انتظار کریں گے۔
برصغیر میں مزدور تحریک اور ٹریڈ یونین کے بانی مرزا محمد ابراہیم کی 11 اگست 2018 کو 19 ویں برسی منائی جارہی ہے ان 19 برسوں میں پاکستان میں کئی ایک تبدیلیاں بھی آئیں جن میں 12 اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لا لگا دیا اور عدالت کے ذریعے چیف ایگزیکٹیو کا عہدہ سنبھال کر فوجی حکمرانوں اور ریلوے سمیت کئی اداروں کو فوجی جنرلوں کے حوالے کردیا۔ NRO کے ذریعے سیاسی جماعتوں کو رعایتیں دیں، 27 دسمبر 2007ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا خیر 2018ء میں نئے الیکشن بھی ہوگئے۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملازمت کی برطرفی ایک صدارتی آرڈیننس 2000ء جاری کیا گیا جس کے تحت ہزاروں ملازمین کو جبری برطرف یا جبری ریٹائرڈ کیا گیا۔ ریلوے سے چودہ ہزار ملازمین کو فارغ کیا گیا۔ اس طرح پاکستان پوسٹ آفس، KESC سمیت دیگر ملازمین پر بھی تلوار لٹکا دی گئی۔ چین سے ناکارہ انجن اور بوگیاں خریدی گئیں اور اربوں روپوں کا فراڈ کیا گیا۔
ریلوے کی قیمتی زمینیں ریلوے کلب، ریلوے اسپتال، ریلوے ہاسٹل من پسند ٹھیکیداروں کو دے دی گئیں ۔ ریلوے میں یونین پر مکمل پابندی منسٹری آف ڈیفنس(MOD) کا کالا قانون مکمل طور پر قرار دیا گیا۔ بعد میں آنے والی جمہوری حکومت نے یونین سے پابندی اٹھالی مگر تاحال ریلوے میں MOD کا قانون برقرار ہے۔ اب نئی حکومت آنے کے بعد محنت کش بجلی، گیس اور سیلاب کی صورتحال سے پریشان ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری انتہا کو پہنچ گئی ہے۔
مرزا ابراہیم 1905ء میں جہلم کے قریب ایک گاؤں کالا گجراں میں پیدا ہوئے۔ اسی گاؤں میں ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اندرکمال گجرال اور بھارتی فوج کے جنرل اڑوڑا بھی پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرزا عبداللہ بیگ ایک چھوٹے درجے کے کسان تھے۔ مرزا ابراہیم نے ابتدائی تعلیم مدرسے سے حاصل کی انھوں نے 1920-21ء میں خلافت موومنٹ تحریک میں حصہ لینا شروع کردیا جو محمد علی جوہر اور شوکت علی کی قیادت میں پورے ہندوستان میں چل رہی تھی۔ انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطورمالی کیا، پھر بھٹہ مزدور، پھر برج ورکشاپ جہلم میں 1926ء میں بطور معاون بھرتی ہو گئے۔ وہیں سے انھوں نے یونین میں حصہ لینا شروع کردیا۔ ریلوے میں یونین موجود تھی۔
1920-21ء میں نارتھ ویسٹرن ریلوے میں مزدوروں نے ہڑتال اور مظاہرے کیے مزدوروں کی تحریک زور پکڑتی گئی اور 1920ء میں ریلوے میں یونین بن گئی اور پھر 1936ء میں پہلا یونین ایکٹ بنا۔ مرزا ابراہیم کو یونین میں حصہ لینے کی وجہ سے جہلم سے تبدیل کرکے تبادلہ کیرج شاپ، مغل پورہ، لاہور میں کردیا گیا اور وہ 1930ء میں لاہور آگئے جہاں وہ 70 برس تک رہے اور اس وقت ریلوے میں 2 یونین فعال تھیں۔ NWR یونین میں مرزا ابراہیم نے کام کرنا شروع کردیا اور اس یونین میں ورکشاپ کے صدر مقرر ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی سے رابطے کے بعد وہ لیبر ونگ کے انچارج مقرر ہوئے۔
بعد میں پارٹی نے کانگریس کے ساتھ مل کر ریلوے میں فیڈریشن (Railway Man Federation) کی بنیاد رکھی جس کے بانیوں میں وہ شامل رہے اور اس کے سینئر نائب صدر بنے۔ اس زمانے میں انگریز سامراج کے خلاف سخت نفرت اور بغاوت تھی۔ روس میں 1917ء میں انقلاب آچکا تھا۔ جس کی لپیٹ میں ایشیائی ممالک اور پورے ہندوستان کے لوگ شامل تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ریلوے میں دوران جنگ جو عارضی ملازمین رکھے گئے تھے ان کو فارغ کر دیا جائے جس کے خلاف ریلوے مین فیڈریشن نے سخت احتجاج کیا۔
1946ء میں ہندوستان میں بغاوتوں کا سال تھا۔ اس دوران دہلی میں پولیس ملازمین نے ہڑتال کردی جب کہ نیول فوج اور انبالہ میں رائل ایئرفورس نے بھی بغاوت کردی۔ ریلوے مین فیڈریشن نے بھی ہڑتال کی کال کردی۔ یکم مئی 1946ء کے موقعے پر زبردست جلسے کے بعد صبح 7 بجے تا 11 بجے تک ریل کا پہیہ جام کردیا گیا اور پھر 27 جون 1946ء کو رات 12 بجے سے مکمل ہڑتال کرنے کا نوٹس دے دیا گیا۔ اسی طرح پورے ہندوستان میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ فیڈریشن سے ملحقہ چند یونین نے ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ پھر اسٹرائیک کمیٹی بنائی گئی اور ملازمین نے ہڑتال کے حق میں فارم بھروائے گئے جس کا سربراہ مرزا ابراہیم کو بنایا گیا۔ 96 ہزار ملازمین نے ہڑتال کے حق میں فیصلہ دیا اور اسٹرائیک فنڈ دیا۔
تقسیم کے بعد دانیال لطیفی کے گھر پر وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ان کی ملاقات ہوئی، انھوں نے پیشکش کی کہ وہ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں،آپ کو وزارت محنت کا قلم دان دیا جائے گا۔ انھوں نے اس پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا۔ انھیں دسمبر 1947ء میں گرفتار کیا گیا۔ وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔
انھیں شاہی قلعے میں رکھا گیا رہائی کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیز کردیں۔ انھیں 1949ء میں پھر گرفتار کیا گیا اس کے بعد 1951ء میں گرفتار ہوئے جہاں سے انھوں نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا اور وہ کمیونسٹ پارٹی، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے امیدوار تھے۔ ان کا مقابلہ مسلم لیگ کے احمد سعید کرمانی سے تھا۔ اس الیکشن میں مرزا ابراہیم کے حامیوں نے انھیں ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیے۔ جو الیکشن کے موقعے پر ان کے ڈبوں سے برآمد ہوئے مرزا ابراہیم کے حامیوں اور محنت کشوں میں بڑا جوش و خروش تھا۔ مرزا صاحب جیل میں تھے اور ان کی کامیابی کا اعلان ریڈیو پاکستان سے کیا گیا مگر بعد میں مرکزی حکومت کی مداخلت پر سرکاری اہلکاروں نے راتوں رات ہارنے والے احمد سعیدکرمانی کو کامیاب قرار دے دیا۔ مرزا ابراہیم کے ڈھائی ہزار ووٹوں کو رد کردیا گیا اور ملک میں پہلی دفعہ انتخابی دھاندلی (جھرلو) کی بنیاد رکھی گئی۔
1954ء میں کمیونسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین پر پابندی لگا کر ایک بار پھر مرزا ابراہیم گرفتار کرلیے گئے۔ مختصر یہ کہ مرزا ابراہیم نے 17 مرتبہ جیل کاٹی اور 6 مرتبہ قلعہ میں نظر بند رہے۔ انھوں نے 20 برس سے زائد جیل کاٹی اور ہمیشہ (C) کلاس کے قیدی رہے۔ برف پر لٹایا گیا۔ الیکٹرک شاک دیے گئے۔ انھوں نے ریلوے ورکرز یونین کی بنیاد رکھی پہلی ملک گیر مزدوروں کی فیڈریشن بنائی جس کا نام پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن رکھا جس کے بانی صدر بنے جب کہ نائب صدر شاعر فیض احمد فیضؔ مقرر ہوئے، جنرل سیکریٹری عبدالمالک بنے جو بعد میں مشرقی پاکستان کے گورنر مقرر ہوئے، ایوب خان کے دور حکومت میں ریلوے کی ملک گیر ہڑتال بھی ان کا کارنامہ تھا جو 13 روز تک جاری رہی اور ملک بھر میں کوئی ٹرین نہ چل سکی۔
1970ء میں پیپلز پارٹی نے الیکشن لڑا، مرزا ابراہیم کو بھٹو نے پیشکش کی کہ وہ پارٹی میں شامل ہو جائیں تو انھیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جائے گا مگر انھوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور لاہور سے ڈاکٹر مبشر حسن کے مقابلے میں الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1975ء میں ریلوے ورکشاپ میں پہلا ریفرنڈم ہوا جہاں ان کی ریلوے ورکرز یونین بھاری اکثریت سے جیت گئی اور سودے کار ایجنٹ مقرر ہوئی۔ انھوں نے ریلوے ملازمین کے لیے بہتر شرائط کے لیے ایک اچھا چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کروایا۔ انھوں نے ریلوے سمیت ملک بھر کے محنت کشوں کے لیے بڑی طویل لمبی اورکٹھن جدوجہد کی اور ان کو کئی ایک حقوق دلوائے جن میں پنشن کا حق ہڑتال، چھٹیوں میں اضافہ اور دیگر کئی مطالبات شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے بیوی اور بچوں کے لیے ملک بھر میں کوئی مکان یا دکان نہیں لی۔ کوئی سودے بازی نہ کی اور جدوجہد کرتے ہوئے دار فانی سے چلے گئے۔
اب نئی حکومت بن گئی ہے۔ الیکشن پر اعتراضات اٹھ رہے ہیں۔ خیر نئی حکومت اور عمران خان پاکستان کے نئے وزیر اعظم بن رہے ہیں،وہ اقتدار میں آ کرکیا کرتے ہیں؟ غریب عوام انتظار کریں گے۔ مگر افسوس اور نہایت دکھ کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے مزدور یونین کے حوالے سے جو ریمارکس دیے ہیں کہ اگر آئین میں لکھا ہوتا تو میں ٹریڈ یونین پر پابندی لگا دیتا کہ کچھ اداروں کے سربراہوں نے تباہ کیا ہے اور 50 اداروں کا بیڑا غرق مزدور لیڈروں اور یونین نے کیا ہے جوکہ قابل افسوس ہے۔ خیر کیا کریں ہمیں تو یونین کی جدوجہد کرتے ہوئے مرزا ابراہیم، فیض احمد فیضؔ، حسن ناصر، منہاج برنا، نذیر عباسی، ڈاکٹر اعزاز نذیر، نبی احمد، ایس پی لورائی، جام ساقی سمیت کئی رہنما یاد آرہے ہیں۔
مزدوروں کا یہ قلندر 11 اگست 1999ء کروڑوں میں محنت کشوں کو سوگوار کرگیا۔ ان کی کٹھن اور مشکل زندگی کو سرخ سلام۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملازمت کی برطرفی ایک صدارتی آرڈیننس 2000ء جاری کیا گیا جس کے تحت ہزاروں ملازمین کو جبری برطرف یا جبری ریٹائرڈ کیا گیا۔ ریلوے سے چودہ ہزار ملازمین کو فارغ کیا گیا۔ اس طرح پاکستان پوسٹ آفس، KESC سمیت دیگر ملازمین پر بھی تلوار لٹکا دی گئی۔ چین سے ناکارہ انجن اور بوگیاں خریدی گئیں اور اربوں روپوں کا فراڈ کیا گیا۔
ریلوے کی قیمتی زمینیں ریلوے کلب، ریلوے اسپتال، ریلوے ہاسٹل من پسند ٹھیکیداروں کو دے دی گئیں ۔ ریلوے میں یونین پر مکمل پابندی منسٹری آف ڈیفنس(MOD) کا کالا قانون مکمل طور پر قرار دیا گیا۔ بعد میں آنے والی جمہوری حکومت نے یونین سے پابندی اٹھالی مگر تاحال ریلوے میں MOD کا قانون برقرار ہے۔ اب نئی حکومت آنے کے بعد محنت کش بجلی، گیس اور سیلاب کی صورتحال سے پریشان ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری انتہا کو پہنچ گئی ہے۔
مرزا ابراہیم 1905ء میں جہلم کے قریب ایک گاؤں کالا گجراں میں پیدا ہوئے۔ اسی گاؤں میں ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اندرکمال گجرال اور بھارتی فوج کے جنرل اڑوڑا بھی پیدا ہوئے۔ ان کے والد مرزا عبداللہ بیگ ایک چھوٹے درجے کے کسان تھے۔ مرزا ابراہیم نے ابتدائی تعلیم مدرسے سے حاصل کی انھوں نے 1920-21ء میں خلافت موومنٹ تحریک میں حصہ لینا شروع کردیا جو محمد علی جوہر اور شوکت علی کی قیادت میں پورے ہندوستان میں چل رہی تھی۔ انھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز بطورمالی کیا، پھر بھٹہ مزدور، پھر برج ورکشاپ جہلم میں 1926ء میں بطور معاون بھرتی ہو گئے۔ وہیں سے انھوں نے یونین میں حصہ لینا شروع کردیا۔ ریلوے میں یونین موجود تھی۔
1920-21ء میں نارتھ ویسٹرن ریلوے میں مزدوروں نے ہڑتال اور مظاہرے کیے مزدوروں کی تحریک زور پکڑتی گئی اور 1920ء میں ریلوے میں یونین بن گئی اور پھر 1936ء میں پہلا یونین ایکٹ بنا۔ مرزا ابراہیم کو یونین میں حصہ لینے کی وجہ سے جہلم سے تبدیل کرکے تبادلہ کیرج شاپ، مغل پورہ، لاہور میں کردیا گیا اور وہ 1930ء میں لاہور آگئے جہاں وہ 70 برس تک رہے اور اس وقت ریلوے میں 2 یونین فعال تھیں۔ NWR یونین میں مرزا ابراہیم نے کام کرنا شروع کردیا اور اس یونین میں ورکشاپ کے صدر مقرر ہوئے اور کمیونسٹ پارٹی سے رابطے کے بعد وہ لیبر ونگ کے انچارج مقرر ہوئے۔
بعد میں پارٹی نے کانگریس کے ساتھ مل کر ریلوے میں فیڈریشن (Railway Man Federation) کی بنیاد رکھی جس کے بانیوں میں وہ شامل رہے اور اس کے سینئر نائب صدر بنے۔ اس زمانے میں انگریز سامراج کے خلاف سخت نفرت اور بغاوت تھی۔ روس میں 1917ء میں انقلاب آچکا تھا۔ جس کی لپیٹ میں ایشیائی ممالک اور پورے ہندوستان کے لوگ شامل تھے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد حکمرانوں نے فیصلہ کیا کہ ریلوے میں دوران جنگ جو عارضی ملازمین رکھے گئے تھے ان کو فارغ کر دیا جائے جس کے خلاف ریلوے مین فیڈریشن نے سخت احتجاج کیا۔
1946ء میں ہندوستان میں بغاوتوں کا سال تھا۔ اس دوران دہلی میں پولیس ملازمین نے ہڑتال کردی جب کہ نیول فوج اور انبالہ میں رائل ایئرفورس نے بھی بغاوت کردی۔ ریلوے مین فیڈریشن نے بھی ہڑتال کی کال کردی۔ یکم مئی 1946ء کے موقعے پر زبردست جلسے کے بعد صبح 7 بجے تا 11 بجے تک ریل کا پہیہ جام کردیا گیا اور پھر 27 جون 1946ء کو رات 12 بجے سے مکمل ہڑتال کرنے کا نوٹس دے دیا گیا۔ اسی طرح پورے ہندوستان میں ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ فیڈریشن سے ملحقہ چند یونین نے ہڑتال سے لاتعلقی کا اعلان کردیا۔ پھر اسٹرائیک کمیٹی بنائی گئی اور ملازمین نے ہڑتال کے حق میں فارم بھروائے گئے جس کا سربراہ مرزا ابراہیم کو بنایا گیا۔ 96 ہزار ملازمین نے ہڑتال کے حق میں فیصلہ دیا اور اسٹرائیک فنڈ دیا۔
تقسیم کے بعد دانیال لطیفی کے گھر پر وزیر اعظم لیاقت علی خان سے ان کی ملاقات ہوئی، انھوں نے پیشکش کی کہ وہ کمیونسٹ پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں،آپ کو وزارت محنت کا قلم دان دیا جائے گا۔ انھوں نے اس پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا۔ انھیں دسمبر 1947ء میں گرفتار کیا گیا۔ وہ پاکستان کے پہلے سیاسی قیدی بنے۔
انھیں شاہی قلعے میں رکھا گیا رہائی کے بعد سیاسی سرگرمیاں تیز کردیں۔ انھیں 1949ء میں پھر گرفتار کیا گیا اس کے بعد 1951ء میں گرفتار ہوئے جہاں سے انھوں نے پنجاب اسمبلی کا الیکشن لڑا اور وہ کمیونسٹ پارٹی، پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے امیدوار تھے۔ ان کا مقابلہ مسلم لیگ کے احمد سعید کرمانی سے تھا۔ اس الیکشن میں مرزا ابراہیم کے حامیوں نے انھیں ووٹ کے ساتھ نوٹ بھی دیے۔ جو الیکشن کے موقعے پر ان کے ڈبوں سے برآمد ہوئے مرزا ابراہیم کے حامیوں اور محنت کشوں میں بڑا جوش و خروش تھا۔ مرزا صاحب جیل میں تھے اور ان کی کامیابی کا اعلان ریڈیو پاکستان سے کیا گیا مگر بعد میں مرکزی حکومت کی مداخلت پر سرکاری اہلکاروں نے راتوں رات ہارنے والے احمد سعیدکرمانی کو کامیاب قرار دے دیا۔ مرزا ابراہیم کے ڈھائی ہزار ووٹوں کو رد کردیا گیا اور ملک میں پہلی دفعہ انتخابی دھاندلی (جھرلو) کی بنیاد رکھی گئی۔
1954ء میں کمیونسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند مصنفین اور پاکستان ٹریڈ یونین پر پابندی لگا کر ایک بار پھر مرزا ابراہیم گرفتار کرلیے گئے۔ مختصر یہ کہ مرزا ابراہیم نے 17 مرتبہ جیل کاٹی اور 6 مرتبہ قلعہ میں نظر بند رہے۔ انھوں نے 20 برس سے زائد جیل کاٹی اور ہمیشہ (C) کلاس کے قیدی رہے۔ برف پر لٹایا گیا۔ الیکٹرک شاک دیے گئے۔ انھوں نے ریلوے ورکرز یونین کی بنیاد رکھی پہلی ملک گیر مزدوروں کی فیڈریشن بنائی جس کا نام پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن رکھا جس کے بانی صدر بنے جب کہ نائب صدر شاعر فیض احمد فیضؔ مقرر ہوئے، جنرل سیکریٹری عبدالمالک بنے جو بعد میں مشرقی پاکستان کے گورنر مقرر ہوئے، ایوب خان کے دور حکومت میں ریلوے کی ملک گیر ہڑتال بھی ان کا کارنامہ تھا جو 13 روز تک جاری رہی اور ملک بھر میں کوئی ٹرین نہ چل سکی۔
1970ء میں پیپلز پارٹی نے الیکشن لڑا، مرزا ابراہیم کو بھٹو نے پیشکش کی کہ وہ پارٹی میں شامل ہو جائیں تو انھیں قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا جائے گا مگر انھوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اور لاہور سے ڈاکٹر مبشر حسن کے مقابلے میں الیکشن لڑا لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ 1975ء میں ریلوے ورکشاپ میں پہلا ریفرنڈم ہوا جہاں ان کی ریلوے ورکرز یونین بھاری اکثریت سے جیت گئی اور سودے کار ایجنٹ مقرر ہوئی۔ انھوں نے ریلوے ملازمین کے لیے بہتر شرائط کے لیے ایک اچھا چارٹر آف ڈیمانڈ منظور کروایا۔ انھوں نے ریلوے سمیت ملک بھر کے محنت کشوں کے لیے بڑی طویل لمبی اورکٹھن جدوجہد کی اور ان کو کئی ایک حقوق دلوائے جن میں پنشن کا حق ہڑتال، چھٹیوں میں اضافہ اور دیگر کئی مطالبات شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے بیوی اور بچوں کے لیے ملک بھر میں کوئی مکان یا دکان نہیں لی۔ کوئی سودے بازی نہ کی اور جدوجہد کرتے ہوئے دار فانی سے چلے گئے۔
اب نئی حکومت بن گئی ہے۔ الیکشن پر اعتراضات اٹھ رہے ہیں۔ خیر نئی حکومت اور عمران خان پاکستان کے نئے وزیر اعظم بن رہے ہیں،وہ اقتدار میں آ کرکیا کرتے ہیں؟ غریب عوام انتظار کریں گے۔ مگر افسوس اور نہایت دکھ کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے مزدور یونین کے حوالے سے جو ریمارکس دیے ہیں کہ اگر آئین میں لکھا ہوتا تو میں ٹریڈ یونین پر پابندی لگا دیتا کہ کچھ اداروں کے سربراہوں نے تباہ کیا ہے اور 50 اداروں کا بیڑا غرق مزدور لیڈروں اور یونین نے کیا ہے جوکہ قابل افسوس ہے۔ خیر کیا کریں ہمیں تو یونین کی جدوجہد کرتے ہوئے مرزا ابراہیم، فیض احمد فیضؔ، حسن ناصر، منہاج برنا، نذیر عباسی، ڈاکٹر اعزاز نذیر، نبی احمد، ایس پی لورائی، جام ساقی سمیت کئی رہنما یاد آرہے ہیں۔
مزدوروں کا یہ قلندر 11 اگست 1999ء کروڑوں میں محنت کشوں کو سوگوار کرگیا۔ ان کی کٹھن اور مشکل زندگی کو سرخ سلام۔