اخراجات سے مسترد ووٹوں کی تعداد تک
2018 کے عام انتخابات کے کچھ دلچسپ اعدادوشمار
عام انتخابات کے بعد جہاں مبینہ طور پر مخالف جماعتوں کے امیدواروں کی جانب سے دھاندلی اور الیکشن کمیشن کے خلاف بھی صدائے احتجاج بلند کی جارہی ہے وہیں جوڑ توڑ کی سیاست بھی عروج پر ہے۔
عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں اپنے نام کرنے والی پاکستان تحریکِ انصاف وفاق میں حکومت سازی کی تیاریوں میں مصروف رہی اور صوبائی سطح پر بھی حکومت کے قیام کے لیے سیاسی جماعتوں کے مشاورتی اجلاسوں اور وزارتوں کے لیے حصول کے لیے فاتح امیدواروں کی بھاگ دوڑ جاری ہے۔
2018 کے عام الیکشن مجموعی طور پر پُرامن طریقے سے انجام پا گئے تاہم انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والی عالمی تنظیموں اور ان کے مبصرین نے چند حلقوں پر دھاندلی اور لڑائی جھگڑوں کی نشان دہی کے علاوہ الیکشن کمیشن کے طریقۂ کار اور عملے کی کارکردگی پر سوال ضرور اٹھائے ہیں۔ ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر انتخابات کے اخراجات کا ذکر، انتخابات کے نتائج اور ووٹنگ کی شرح کے علاوہ اس سارے عمل کی شفافیت پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے مستقبل کے حوالے سے آراء اور تجزیوں کا گویا طوفان آیا ہوا ہے۔
اندازہ تھا کہ حالیہ انتخابات کے اخراجات پچھلے 2 الیکشنوں پر خرچ کردہ مجموعی رقم سے تین گنا زیادہ ہو سکتے ہیں جس میں بڑی رقم سیکیوریٹی مقاصد کے تحت خرچ کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اندازہ لگایا تھاکہ ملک میں انتخابی عمل پر 21 ارب روپے سے زائد اخراجات ہوسکتے ہیں۔ اس اندازے کے مطابق 10 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد رقم سے پولنگ اسٹاف کی تربیت، انتخابی عملے کے معاوضے، انتخابی مواد کی چھپائی اور تشہیر، مواصلات کے علاوہ دیگر معمول کے امور نمٹانے پر خرچ ہوں گے۔
2008 کے عام انتخابات کے بعد سرکاری سطح پر اس حوالے سے ہونے والے اخراجات ایک ارب 84 کروڑ روپے بتائے گئے تھے۔ 2013 کے عام انتخابات میں یہ رقم بڑھ کر 4 ارب 73 کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔ قومی اسمبلی کی 272 اور صوبائی اسمبلیوں 577 نشستوں پر منعقدہ حالیہ الیکشن پر اخراجات گذشتہ پانچ سالہ مدت کے مقابلے میں ڈیڑھ سو فی صد سے زیادہ ہوئے۔ اگر معمول کے انتخابی انتظامات کو چھوڑ کر سیکیوریٹی پر اخراجات کی بات کی جائے تو 2008 میں متعلقہ اداروں کو 10 کروڑ 20 لاکھ روپے ادا کیے گئے جب کہ 2013 میں سیکیوریٹی انتظامات پر 70 کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔
اس مرتبہ انتخابی عمل میں واٹر مارک بیلٹ پیپر استعمال کیا گیا، جس کی قیمت زیادہ تھی جب کہ متعلقہ عملے کو معاوضہ بھی 8 ہزار روپے دیا گیا ہے جب کہ 2013 میں پریزائیڈنگ افسران کو 3 ہزار روپے ادا کیے گئے تھے۔ اسی طرح پولنگ افسران کا اعزازیہ بھی 3 ہزار کے بجائے 6 ہزار روپے کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کے امیدواروں کو اپنے کاغذات نام زدگی داخل کروانے کے لیے اس بار 4 ہزار روپے کے بجائے 30 ہزار فیس ادا کرنا پڑی جب کہ صوبائی اسمبلی کے لیے فیس 2 ہزار تھی، لیکن اس الیکشن میں امیدواروں کو 20 ہزار فیس جمع کروانا پڑی۔
سیاسی اور انتخابی تاریخ میں 1970 اور 1977 کے عام انتخابات میں ٹرن آؤٹ ساٹھ فی صد کے قریب رہا تھا اور اس کے بعد ملک میں ہونے والے چھے عام انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 35 سے ساڑھے پینتالیس فی صد کے درمیان رہی۔ واضح رہے کہ کُل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں سے انتخابی امیدواروں کو ڈالے گئے کُل ووٹوں کی شرح کے لیے ٹرن آؤٹ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی وجہ سے مسترد کردہ ووٹوں کی شرح انتخابی عمل کے دوران کاسٹ کیے گئے ووٹوں کی بنیاد پر نکالی جاتی ہے۔ سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں اور اداروں پر مشتمل انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے عام انتخابات 2018 سے متعلق اپنی ابتدائی رپورٹ میں بے ضابطگیوں اور دیگر امور کا ذکر کیا ہے۔
اس حوالے سے فافن نے 37 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنوں میں موجود اپنے مبصرین کی آرا کی بنیاد پر ابتدائی رپورٹ تیار کرنے کے بعد جاری کی ہے جس کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ قومی اسمبلی کے 241 حلقوں کے نتائج کے مطابق ووٹنگ کی شرح 53.3 فی صد رہی۔ قومی اسمبلی کے حلقوں کے حوالے سے سب سے زیادہ ووٹنگ کی شرح پنجاب میں رہی جہاں 59 فی صد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا، جب کہ اسلام آباد میں یہ شرح 58.2 فی صد رہی۔ سندھ میں 47.7 فی صد جب کہ خیبر پختونخوا بشمول قبائلی علاقہ جات 43.6 فی صد اور بلوچستان میں یہ شرح 39.6 فی صد رہی جو کہ سب سے کم ہے۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے 241 حلقوں میں مرد ووٹروں کی شرح 58.3 فی صد اور خواتین ووٹرز کا تناسب 47 فی صد رہا۔ مجموعی طور پر 241 حلقوں میں 4 کروڑ 90 لاکھ سے زائد ووٹروں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا جب کہ 2013 کے عام الیکشن میں یہ تعداد 4 کروڑ 69 لاکھ تھی۔
اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ قومی اسمبلی کے 35 حلقوں میں مسترد کردہ ووٹوں کی تعداد فاتح امیدواروں کے ووٹوں سے زیادہ رہی، ایسے حلقوں میں پنجاب میں 24، خیبر پختونخوا میں 6، سندھ میں 4 اور ایک بلوچستان میں شامل تھا۔ قومی اسمبلی کے 2 حلقوں پر خواتین ووٹرز کی شرح 10 فی صد سے بھی کم رہی جن میں این اے 10 شانگلہ اور این اے 48 شمالی وزیرستان شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق انتخابات کے دن نتائج کے اعلان میں تاخیر کا مسئلہ دیکھنے میں آیا۔
ادھر الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ55 ہزار 409 تھی۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مرد ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 84 لاکھ 63 ہزار 228 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 4 کروڑ 58 لاکھ 4 ہزار 353 ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پنجاب میں 5 کروڑ 97 لاکھ 40 ہزار 95 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جبکہ سندھ میں 2 کروڑ 20 لاکھ 66 ہزار 558، خیبر پختونخوا میں ایک کروڑ 52 لاکھ 39 ہزار 571 اور بلوچستان میں 41 لاکھ 94 ہزار 311 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ جاری اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد میں 7 لاکھ 30 ہزار 197 ووٹرز اور فاٹا میں 22 لاکھ 96 ہزار 849 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔
یوں تو عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، جماعتِ اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جے یو پی و دیگر جماعتوں نے بھرپور حصّہ لیا، مگر اس بار ملک میں دائیں بازو کی نئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذہبی قوتیں بھی میدانِ عمل میں تھیں۔ تحریک لبیک پاکستان نے خادم حسین رضوی کی قیادت میں ملک بھر سے انتخابات لڑنے کا اعلان کیا تھا اور کرین کے انتخابی نشان پر دنگل میں اپنے حریفوں کا مقابلہ کیا۔
اسی طرح اللہ اکبر تکبیر پارٹی نے بھی سیاسی طاقت کے طور پر انتخابی اکھاڑے میں قدم رکھا تھا۔ اس جماعت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ پر پابندی کے بعد ان کے حامیوں نے اللہ اکبر تکبیر پارٹی کے بینر تلے الیکشن لڑا۔ انتخابات میں شریک تیسرا بڑا مذہبی گروہ اہل سنت والجماعت تھا جس نے اپنے حامی آزاد امیدواروں کو سپورٹ کیا۔
2018 کے عام انتخابات میں ملک بھر میں مذہبی جماعتوں کو مجموعی طور پر 46 لاکھ 74 ہزار 545 ووٹ پڑے۔ اعداد و شمار کے مطابق مذہبی جماعتوں کے امیدواروں نے سب سے زیادہ ووٹ صوبۂ پنجاب سے حاصل کیے۔ پنجاب کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 55 سے حلقہ این اے 195 تک مذہبی جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 18 لاکھ 59 ہزار 198ہے۔ پنجاب کے بعد خیبرپختونخوا میں مذہبی جماعتیں دیگر سیاسی جماعتوں پر زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں بازی لے گئیں۔
خیبر پختونخوا میں این اے 1 سے این اے 51 تک انتخابی مقابلے میں مذہبی جماعتوں نے 13 لاکھ 47 ہزار 367 ووٹ حاصل کیے۔ صوبۂ سندھ کی بات جائے تو یہاں این اے 196 سے این اے 256 تک مذہبی جماعتیں اپنے امیدواروں کے لیے 11 لاکھ 24 ہزار 47 ووٹ حاصل کرنے میں کام یاب رہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں انتخابی معرکہ این اے 257 سے این اے 272 تک انجام پایا جس میں مذہبی جماعتوں نے 3 لاکھ 4 ہزار 129 ووٹ اپنے نام کیے۔ اگر ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کی بات جائے تو یہاں کے قومی اسمبلی کے تین حلقوں این اے 52، این اے 53 اور این اے 54 پر مذہبی جماعتوں کے امیدواروں نے 39 ہزار 804 ووٹ اپنے نام کیے ہیں۔
اگر ہم بات کریں کم ترین شرح والے قومی انتخابی حلقوں کی تو سب سے پہلے این اے 39 کا ذکر ہو گا جہاں 328,428 رجسٹرڈ ووٹ ہیں جن میں سے پولنگ کے روز 11,303ووٹ کاسٹ ہوئے اور ٹرن آؤٹ کی شرح 3.4415 رہی۔ 49 پر رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 178,293 ہے جن میں سے 26,930 ووٹوں کی گنتی کے بعد شرح 15.1044رہی۔ 268 پر رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 234,291 ہے جہاں کُل ووٹ 48,224 تھے اور یوں شرح 20.5830 رہی۔
این اے 48 پر کل ووٹرز 274,205 ہیں جن میں سے 63,954 ووٹ ڈالے گئے اور یہ شرح 23.3234 رہی۔ قومی حلقۂ انتخاب 44 کے رجسٹرڈ ووٹ 265,217 ہیں جہاں 67,144 ووٹوں کے ساتھ ٹرن آؤٹ 25.3166 رہا۔ این اے 33 پر رجسٹرڈ ووٹرز 275,947 ہیں اور یہاں کُل 81,318 ووٹ پڑے اور ٹرن آؤٹ 29.4687 رہا۔ قومی اسمبلی کا حلقہ 47 جہاں 167,206ووٹرز رجسٹرڈ ہیں، اس پر 54,966 ووٹ کاسٹ ہوئے اور یہاں ووٹنگ کی شرح 32.8732 بتائی جاتی ہے۔ این اے 50 پر ووٹروں کی تعداد 145,872 ہے جب کہ پولنگ کے دن 48,142 کے ساتھ ٹرن آؤٹ 33.0029 رہا۔ این اے 10 پر رجسٹرڈ ووٹرز 374,343 ہیں جن میں سے 128,302 ووٹ کاسٹ ہوئے اور یہاں شرح 34.2739 رہی۔
اب چلتے ہیں ان قومی اسمبلی کے حلقوں جہاں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ دیکھا گیا۔ قومی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 222 پر کل ووٹرز 331,872 رجسٹرڈ ہیں اور انتخابی عمل میں شمار ہونے والے ووٹوں کی تعداد 235,340 تھی جس کے بعد یہاں ٹرن آؤٹ 70.9129 رہا۔ 242,458 ووٹرز این اے 221 پر رجسٹرڈ ہیں۔ یہاں 166,527 ووٹوں کے ساتھ ٹرن آؤٹ 68 فی صد تھا۔ 434,072 رجسٹرڈ ووٹروں کے انتخابی حلقے 98 پر 295,087 ووٹوں کے ساتھ شرح 67 فی صد رہی۔ این اے 97 پر 437,585 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ یہاں 288,659 ووٹ کاسٹ ہوئے جب کہ ٹرن آؤٹ کی شرح 65.9664 رہی۔ 234,508 رجسٹرڈ ووٹوں میں سے این اے 52 پر 150,692ووٹ کاسٹ ہوئے اور ٹرن آؤٹ 64.2588 رہا۔
172 پر رجسٹرڈ ووٹ 357,821 تھے اور حلقے پر 229,275 ووٹ ڈالے گئے اور یوں یہاں شرح 64.0753 رہی۔ قومی حلقۂ انتخاب 188 پر کُل 287,493 ووٹوں سے فیصلہ ہوا اور یہاں ٹرن آؤٹ 64 رہا۔ اس حلقے کے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 449,098 تھی۔ 275,326 رجسٹرڈ ووٹروں میں سے این اے 195 پر 174,891 ووٹروں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا اور یہاں ٹرن آؤٹ 63 رہا۔ 187 وہ قومی حلقہ ہے جہاں 457,525 ووٹ رجسٹرڈ تھے۔ یہاں 290,288 ووٹ کاسٹ ہوئے اور شرح 63.4475 رہی۔ قومی حلقۂ انتخاب 183 پر 335,326 رجسٹرڈ ووٹوں میں سے 211,991 ووٹ کاسٹ ہوئے اور ٹرن آؤٹ 63.2194 رہا۔
عام الیکشن کے دوران کئی پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹوں کے مسترد کیے جانے کی مختلف وجوہات تھیں۔ یہاں ان حلقوں کا ذکر کیا جارہا ہے جہاں سب سے زیادہ ووٹ مسترد ہوئے۔ این اے 260 پر کُل ووٹ 143,214شمار کیے گئے جن میں سے مسترد کردہ ووٹوں کی تعداد 13,597ہے۔ اس طرح اس حلقے پر مسترد کردہ ووٹوں کی شرح سب سے زیادہ رہی۔ این اے 197 پر 165,333ووٹ کاسٹ ہوئے اور ان میں سے 15,340مسترد قرار دیے گئے۔ یوں یہاں بھی بڑی تعداد میں ووٹ کسی امیدوار کے کام نہ آسکے۔ این اے 261 پر 120,848 ووٹ پڑے، جن میں سے 10,255 مسترد ہوئے۔ اسی طرح این اے 269 پر 124,165 ووٹوں میں سے 10,505 ووٹ مسترد قرار پائے جب کہ این اے 205، 202، 259، 257، 270 اور 203 بھی ان حلقوں میں شامل ہیں جہاں مسترد کردہ ووٹ سب سے زیادہ ہیں۔
اب اگر ان حلقوں کی طرف چلیں جہاں ووٹوں کے ضایع ہونے کی شرح سب سے کم رہی تو ان میں سرِفہرست این اے 125 ہے جہاں کوئی بھی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔ یہاں کُل 250,263 ووٹ ڈالے گئے اور تمام درست قرار دیے گئے۔ اس کے بعد این اے37 پر 79,049 ووٹ ڈالے گئے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ اس حلقے پر 37 ہی ووٹ مسترد ہوئے اور یہ بھی کم تعداد ہے۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کا حلقہ 54، 53، 48، 155، 247، 57 اور 133 پر بھی مسترد کردہ ووٹوں کی شرح کم رہی۔ n
عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں اپنے نام کرنے والی پاکستان تحریکِ انصاف وفاق میں حکومت سازی کی تیاریوں میں مصروف رہی اور صوبائی سطح پر بھی حکومت کے قیام کے لیے سیاسی جماعتوں کے مشاورتی اجلاسوں اور وزارتوں کے لیے حصول کے لیے فاتح امیدواروں کی بھاگ دوڑ جاری ہے۔
2018 کے عام الیکشن مجموعی طور پر پُرامن طریقے سے انجام پا گئے تاہم انتخابی عمل کی نگرانی کرنے والی عالمی تنظیموں اور ان کے مبصرین نے چند حلقوں پر دھاندلی اور لڑائی جھگڑوں کی نشان دہی کے علاوہ الیکشن کمیشن کے طریقۂ کار اور عملے کی کارکردگی پر سوال ضرور اٹھائے ہیں۔ ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر انتخابات کے اخراجات کا ذکر، انتخابات کے نتائج اور ووٹنگ کی شرح کے علاوہ اس سارے عمل کی شفافیت پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، جب کہ پاکستان تحریکِ انصاف کے مستقبل کے حوالے سے آراء اور تجزیوں کا گویا طوفان آیا ہوا ہے۔
اندازہ تھا کہ حالیہ انتخابات کے اخراجات پچھلے 2 الیکشنوں پر خرچ کردہ مجموعی رقم سے تین گنا زیادہ ہو سکتے ہیں جس میں بڑی رقم سیکیوریٹی مقاصد کے تحت خرچ کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اندازہ لگایا تھاکہ ملک میں انتخابی عمل پر 21 ارب روپے سے زائد اخراجات ہوسکتے ہیں۔ اس اندازے کے مطابق 10 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد رقم سے پولنگ اسٹاف کی تربیت، انتخابی عملے کے معاوضے، انتخابی مواد کی چھپائی اور تشہیر، مواصلات کے علاوہ دیگر معمول کے امور نمٹانے پر خرچ ہوں گے۔
2008 کے عام انتخابات کے بعد سرکاری سطح پر اس حوالے سے ہونے والے اخراجات ایک ارب 84 کروڑ روپے بتائے گئے تھے۔ 2013 کے عام انتخابات میں یہ رقم بڑھ کر 4 ارب 73 کروڑ روپے تک پہنچ گئی۔ قومی اسمبلی کی 272 اور صوبائی اسمبلیوں 577 نشستوں پر منعقدہ حالیہ الیکشن پر اخراجات گذشتہ پانچ سالہ مدت کے مقابلے میں ڈیڑھ سو فی صد سے زیادہ ہوئے۔ اگر معمول کے انتخابی انتظامات کو چھوڑ کر سیکیوریٹی پر اخراجات کی بات کی جائے تو 2008 میں متعلقہ اداروں کو 10 کروڑ 20 لاکھ روپے ادا کیے گئے جب کہ 2013 میں سیکیوریٹی انتظامات پر 70 کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔
اس مرتبہ انتخابی عمل میں واٹر مارک بیلٹ پیپر استعمال کیا گیا، جس کی قیمت زیادہ تھی جب کہ متعلقہ عملے کو معاوضہ بھی 8 ہزار روپے دیا گیا ہے جب کہ 2013 میں پریزائیڈنگ افسران کو 3 ہزار روپے ادا کیے گئے تھے۔ اسی طرح پولنگ افسران کا اعزازیہ بھی 3 ہزار کے بجائے 6 ہزار روپے کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کے امیدواروں کو اپنے کاغذات نام زدگی داخل کروانے کے لیے اس بار 4 ہزار روپے کے بجائے 30 ہزار فیس ادا کرنا پڑی جب کہ صوبائی اسمبلی کے لیے فیس 2 ہزار تھی، لیکن اس الیکشن میں امیدواروں کو 20 ہزار فیس جمع کروانا پڑی۔
سیاسی اور انتخابی تاریخ میں 1970 اور 1977 کے عام انتخابات میں ٹرن آؤٹ ساٹھ فی صد کے قریب رہا تھا اور اس کے بعد ملک میں ہونے والے چھے عام انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 35 سے ساڑھے پینتالیس فی صد کے درمیان رہی۔ واضح رہے کہ کُل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں سے انتخابی امیدواروں کو ڈالے گئے کُل ووٹوں کی شرح کے لیے ٹرن آؤٹ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی وجہ سے مسترد کردہ ووٹوں کی شرح انتخابی عمل کے دوران کاسٹ کیے گئے ووٹوں کی بنیاد پر نکالی جاتی ہے۔ سول سوسائٹی کی مختلف تنظیموں اور اداروں پر مشتمل انتخابی عمل پر نظر رکھنے والی تنظیم فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے عام انتخابات 2018 سے متعلق اپنی ابتدائی رپورٹ میں بے ضابطگیوں اور دیگر امور کا ذکر کیا ہے۔
اس حوالے سے فافن نے 37 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنوں میں موجود اپنے مبصرین کی آرا کی بنیاد پر ابتدائی رپورٹ تیار کرنے کے بعد جاری کی ہے جس کے مطابق الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلان کردہ قومی اسمبلی کے 241 حلقوں کے نتائج کے مطابق ووٹنگ کی شرح 53.3 فی صد رہی۔ قومی اسمبلی کے حلقوں کے حوالے سے سب سے زیادہ ووٹنگ کی شرح پنجاب میں رہی جہاں 59 فی صد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا، جب کہ اسلام آباد میں یہ شرح 58.2 فی صد رہی۔ سندھ میں 47.7 فی صد جب کہ خیبر پختونخوا بشمول قبائلی علاقہ جات 43.6 فی صد اور بلوچستان میں یہ شرح 39.6 فی صد رہی جو کہ سب سے کم ہے۔
ابتدائی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی کے 241 حلقوں میں مرد ووٹروں کی شرح 58.3 فی صد اور خواتین ووٹرز کا تناسب 47 فی صد رہا۔ مجموعی طور پر 241 حلقوں میں 4 کروڑ 90 لاکھ سے زائد ووٹروں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا جب کہ 2013 کے عام الیکشن میں یہ تعداد 4 کروڑ 69 لاکھ تھی۔
اسی رپورٹ میں بتایا گیا کہ قومی اسمبلی کے 35 حلقوں میں مسترد کردہ ووٹوں کی تعداد فاتح امیدواروں کے ووٹوں سے زیادہ رہی، ایسے حلقوں میں پنجاب میں 24، خیبر پختونخوا میں 6، سندھ میں 4 اور ایک بلوچستان میں شامل تھا۔ قومی اسمبلی کے 2 حلقوں پر خواتین ووٹرز کی شرح 10 فی صد سے بھی کم رہی جن میں این اے 10 شانگلہ اور این اے 48 شمالی وزیرستان شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق انتخابات کے دن نتائج کے اعلان میں تاخیر کا مسئلہ دیکھنے میں آیا۔
ادھر الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 10 کروڑ 59 لاکھ55 ہزار 409 تھی۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مرد ووٹرز کی تعداد 5 کروڑ 84 لاکھ 63 ہزار 228 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 4 کروڑ 58 لاکھ 4 ہزار 353 ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق پنجاب میں 5 کروڑ 97 لاکھ 40 ہزار 95 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں جبکہ سندھ میں 2 کروڑ 20 لاکھ 66 ہزار 558، خیبر پختونخوا میں ایک کروڑ 52 لاکھ 39 ہزار 571 اور بلوچستان میں 41 لاکھ 94 ہزار 311 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ جاری اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد میں 7 لاکھ 30 ہزار 197 ووٹرز اور فاٹا میں 22 لاکھ 96 ہزار 849 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔
یوں تو عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، جے یو آئی، جماعتِ اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جے یو پی و دیگر جماعتوں نے بھرپور حصّہ لیا، مگر اس بار ملک میں دائیں بازو کی نئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذہبی قوتیں بھی میدانِ عمل میں تھیں۔ تحریک لبیک پاکستان نے خادم حسین رضوی کی قیادت میں ملک بھر سے انتخابات لڑنے کا اعلان کیا تھا اور کرین کے انتخابی نشان پر دنگل میں اپنے حریفوں کا مقابلہ کیا۔
اسی طرح اللہ اکبر تکبیر پارٹی نے بھی سیاسی طاقت کے طور پر انتخابی اکھاڑے میں قدم رکھا تھا۔ اس جماعت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حافظ سعید کی ملی مسلم لیگ پر پابندی کے بعد ان کے حامیوں نے اللہ اکبر تکبیر پارٹی کے بینر تلے الیکشن لڑا۔ انتخابات میں شریک تیسرا بڑا مذہبی گروہ اہل سنت والجماعت تھا جس نے اپنے حامی آزاد امیدواروں کو سپورٹ کیا۔
2018 کے عام انتخابات میں ملک بھر میں مذہبی جماعتوں کو مجموعی طور پر 46 لاکھ 74 ہزار 545 ووٹ پڑے۔ اعداد و شمار کے مطابق مذہبی جماعتوں کے امیدواروں نے سب سے زیادہ ووٹ صوبۂ پنجاب سے حاصل کیے۔ پنجاب کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 55 سے حلقہ این اے 195 تک مذہبی جماعتوں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد 18 لاکھ 59 ہزار 198ہے۔ پنجاب کے بعد خیبرپختونخوا میں مذہبی جماعتیں دیگر سیاسی جماعتوں پر زیادہ ووٹ حاصل کرنے میں بازی لے گئیں۔
خیبر پختونخوا میں این اے 1 سے این اے 51 تک انتخابی مقابلے میں مذہبی جماعتوں نے 13 لاکھ 47 ہزار 367 ووٹ حاصل کیے۔ صوبۂ سندھ کی بات جائے تو یہاں این اے 196 سے این اے 256 تک مذہبی جماعتیں اپنے امیدواروں کے لیے 11 لاکھ 24 ہزار 47 ووٹ حاصل کرنے میں کام یاب رہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں انتخابی معرکہ این اے 257 سے این اے 272 تک انجام پایا جس میں مذہبی جماعتوں نے 3 لاکھ 4 ہزار 129 ووٹ اپنے نام کیے۔ اگر ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کی بات جائے تو یہاں کے قومی اسمبلی کے تین حلقوں این اے 52، این اے 53 اور این اے 54 پر مذہبی جماعتوں کے امیدواروں نے 39 ہزار 804 ووٹ اپنے نام کیے ہیں۔
اگر ہم بات کریں کم ترین شرح والے قومی انتخابی حلقوں کی تو سب سے پہلے این اے 39 کا ذکر ہو گا جہاں 328,428 رجسٹرڈ ووٹ ہیں جن میں سے پولنگ کے روز 11,303ووٹ کاسٹ ہوئے اور ٹرن آؤٹ کی شرح 3.4415 رہی۔ 49 پر رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 178,293 ہے جن میں سے 26,930 ووٹوں کی گنتی کے بعد شرح 15.1044رہی۔ 268 پر رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 234,291 ہے جہاں کُل ووٹ 48,224 تھے اور یوں شرح 20.5830 رہی۔
این اے 48 پر کل ووٹرز 274,205 ہیں جن میں سے 63,954 ووٹ ڈالے گئے اور یہ شرح 23.3234 رہی۔ قومی حلقۂ انتخاب 44 کے رجسٹرڈ ووٹ 265,217 ہیں جہاں 67,144 ووٹوں کے ساتھ ٹرن آؤٹ 25.3166 رہا۔ این اے 33 پر رجسٹرڈ ووٹرز 275,947 ہیں اور یہاں کُل 81,318 ووٹ پڑے اور ٹرن آؤٹ 29.4687 رہا۔ قومی اسمبلی کا حلقہ 47 جہاں 167,206ووٹرز رجسٹرڈ ہیں، اس پر 54,966 ووٹ کاسٹ ہوئے اور یہاں ووٹنگ کی شرح 32.8732 بتائی جاتی ہے۔ این اے 50 پر ووٹروں کی تعداد 145,872 ہے جب کہ پولنگ کے دن 48,142 کے ساتھ ٹرن آؤٹ 33.0029 رہا۔ این اے 10 پر رجسٹرڈ ووٹرز 374,343 ہیں جن میں سے 128,302 ووٹ کاسٹ ہوئے اور یہاں شرح 34.2739 رہی۔
اب چلتے ہیں ان قومی اسمبلی کے حلقوں جہاں سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ دیکھا گیا۔ قومی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 222 پر کل ووٹرز 331,872 رجسٹرڈ ہیں اور انتخابی عمل میں شمار ہونے والے ووٹوں کی تعداد 235,340 تھی جس کے بعد یہاں ٹرن آؤٹ 70.9129 رہا۔ 242,458 ووٹرز این اے 221 پر رجسٹرڈ ہیں۔ یہاں 166,527 ووٹوں کے ساتھ ٹرن آؤٹ 68 فی صد تھا۔ 434,072 رجسٹرڈ ووٹروں کے انتخابی حلقے 98 پر 295,087 ووٹوں کے ساتھ شرح 67 فی صد رہی۔ این اے 97 پر 437,585 ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ یہاں 288,659 ووٹ کاسٹ ہوئے جب کہ ٹرن آؤٹ کی شرح 65.9664 رہی۔ 234,508 رجسٹرڈ ووٹوں میں سے این اے 52 پر 150,692ووٹ کاسٹ ہوئے اور ٹرن آؤٹ 64.2588 رہا۔
172 پر رجسٹرڈ ووٹ 357,821 تھے اور حلقے پر 229,275 ووٹ ڈالے گئے اور یوں یہاں شرح 64.0753 رہی۔ قومی حلقۂ انتخاب 188 پر کُل 287,493 ووٹوں سے فیصلہ ہوا اور یہاں ٹرن آؤٹ 64 رہا۔ اس حلقے کے رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 449,098 تھی۔ 275,326 رجسٹرڈ ووٹروں میں سے این اے 195 پر 174,891 ووٹروں نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا اور یہاں ٹرن آؤٹ 63 رہا۔ 187 وہ قومی حلقہ ہے جہاں 457,525 ووٹ رجسٹرڈ تھے۔ یہاں 290,288 ووٹ کاسٹ ہوئے اور شرح 63.4475 رہی۔ قومی حلقۂ انتخاب 183 پر 335,326 رجسٹرڈ ووٹوں میں سے 211,991 ووٹ کاسٹ ہوئے اور ٹرن آؤٹ 63.2194 رہا۔
عام الیکشن کے دوران کئی پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹوں کے مسترد کیے جانے کی مختلف وجوہات تھیں۔ یہاں ان حلقوں کا ذکر کیا جارہا ہے جہاں سب سے زیادہ ووٹ مسترد ہوئے۔ این اے 260 پر کُل ووٹ 143,214شمار کیے گئے جن میں سے مسترد کردہ ووٹوں کی تعداد 13,597ہے۔ اس طرح اس حلقے پر مسترد کردہ ووٹوں کی شرح سب سے زیادہ رہی۔ این اے 197 پر 165,333ووٹ کاسٹ ہوئے اور ان میں سے 15,340مسترد قرار دیے گئے۔ یوں یہاں بھی بڑی تعداد میں ووٹ کسی امیدوار کے کام نہ آسکے۔ این اے 261 پر 120,848 ووٹ پڑے، جن میں سے 10,255 مسترد ہوئے۔ اسی طرح این اے 269 پر 124,165 ووٹوں میں سے 10,505 ووٹ مسترد قرار پائے جب کہ این اے 205، 202، 259، 257، 270 اور 203 بھی ان حلقوں میں شامل ہیں جہاں مسترد کردہ ووٹ سب سے زیادہ ہیں۔
اب اگر ان حلقوں کی طرف چلیں جہاں ووٹوں کے ضایع ہونے کی شرح سب سے کم رہی تو ان میں سرِفہرست این اے 125 ہے جہاں کوئی بھی ووٹ مسترد نہیں ہوا۔ یہاں کُل 250,263 ووٹ ڈالے گئے اور تمام درست قرار دیے گئے۔ اس کے بعد این اے37 پر 79,049 ووٹ ڈالے گئے اور دل چسپ بات یہ ہے کہ اس حلقے پر 37 ہی ووٹ مسترد ہوئے اور یہ بھی کم تعداد ہے۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کا حلقہ 54، 53، 48، 155، 247، 57 اور 133 پر بھی مسترد کردہ ووٹوں کی شرح کم رہی۔ n