عورتوں کو پتا نہیں کیا ہوگیا ہے آخری حصہ
سولجر بازار میں کے ایم سی ڈسپنسری اور مڈوائفری اسکول میں واقع پولنگ اسٹیشنز میں بھی عملے کی کچھ کمی نظر آئی۔
سولجر بازار میں کے ایم سی ڈسپنسری اور مڈوائفری اسکول میں واقع پولنگ اسٹیشنز میں بھی عملے کی کچھ کمی نظر آئی۔ یہاں ایک جوڑے نے جن کے ساتھ ایک لڑکی تھی جو بظاہرڈائون سنڈروم کا شکار لگتی تھی، ہم سے شکایت کی کہ انتخابی عملے کی ایک خاتون اس لڑکی کو ایک خاص پارٹی کے نشان پر ٹھپہ لگانے کو کہہ رہی تھی جب کہ اس خاتون کا کہنا تھا کہ ماں اس لڑکی کو بتا رہی تھی کہ کہاں ٹھپہ لگانا ہے، جس پر خاتون نے اسے منع کیا تھا۔دونوں کا جھگڑا ہوا تھااور دونوں ایک دوسرے کو مورد الزام ٹہرا رہی تھیں۔ خیر انہیں سمجھا بھجا کر بھیجا اور کچھ دیر وہاں کھڑے ہو کر نگرانی کی۔انتخابی عمل معمول کے مطابق چل رہا تھا۔
ایک بجے ہمیں ایک ہوٹل سے دو غیر ملکی مبصرین کو لینا تھا ، ان کا تعلق جینڈر کنسرن انٹرنیشنل سے تھا جس نے ایک این جی او کے ساتھ انتخابات کی نگرانی کا میمورینڈم آف انڈراسٹینڈنگ پر دستخط کیے تھے۔چونکہ غیر ملکیوں کی حفاظت ایک نازک مسئلہ ہوتا ہے، اس لیے پولیس والوں نے ہماری درخواست پر ایک پولیس افسر ہمارے ساتھ کر دیا تھا۔ہم انھیں ڈی ایچ اے میں نیلم کالونی کے قریب واقع این اے دو سو پچاس کے پولنگ اسٹیشن لے گئے، وہاں تو عجیب ہی منظر تھا، ہماری اشرافیہ کی بیگمات ، نوجوان لڑکے لڑکیاں اور بوڑھے حضرات لمبی لمبی قطاروں میں بے بسی کے عالم میں کھڑے تھے اور انتخابی عمل چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا۔ہم نے پریزائڈنگ افسر کے کمرے کا رخ کیا تو انہیں بیلٹ پیپرز کی پشت پر ٹھپے لگاتے ہوئے پایا۔
آپ کیا کر رہے ہیں ؟ ہم نے حیران ہو کر پوچھا۔انتخابی عملہ پہنچا نہیں، اسٹامپ دیر سے آئی اس لیے میں خود ہی کائونٹر اسٹامپ لگا رہا ہوں۔ان کے عملے میں سے صرف ایک شخص پہنچا تھا، اس لیے انھوں نے خواتین کے بوتھ پر پولنگ شروع نہیں کرائی تھی۔دوسرے پریذائڈنگ افسرکا بھی نصف عملہ پہنچا تھا، اس لیے انتخابی عمل بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہا تھا۔لیکن ووٹ ڈالنے کے لیے لوگوں کا جذبہ قابل دید تھا۔کچھ عرصے بعد پہلے صاحب نے ایک خاتون ٹیچر کو کہیں سے بلوا لیا اور خواتین کے بوتھ پر بھی پولنگ شروع کرا دی۔اس سے پہلے ہی ایک خاتون نے دوسرے پریذائڈنگ افسر کے دفترمیں شور مچانا شروع کر دیا تھا۔
وہ صبح ووٹ ڈال کے گئی تھیںمگر اس کے پیچھے کائونٹر اسٹامپ نہیں لگی ہوئی تھی اور اس دوران ان کی جماعت کے ایک رہنما نے فیس بک پر لکھ دیا تھاکہ ایسے ووٹ مسترد ہو جائیں گے۔ اب وہ خاتون یقین دہانی چاہتی تھیں کہ ان کا ووٹ ضایع نہیں ہو گا۔پریذائڈنگ افسر کا پہلے ہی ذہنی دبائو اور بھوک پیاس کے مارے برا حال تھا۔وہ بھی گرم ہو گئے، ہمیں لگا کہ اب لڑائی شروع ہو جائے گی۔ ہم نے انہیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تو وہ ہمارے گلے پڑ گئیں اور ہمارے ساتھ موجود غیر ملکی خاتون سے کہنے لگیں کہ میں نہیں چاہتی کہ وہ غیر ملکی خاتون کے سامنے بات کریں '' ناطقہ سر بگریباں ہے ،اسے کیا کہیے ۔''
پریذائڈنگ افسر نے ہمیں بتایا کہ صبح سارے پولیٹکل ایجنٹس کے ساتھ میٹنگ ہوئی تھی اور یہ طے ہوا تھاکہ وقت بچانے کے لیے کائونٹر اسٹامپ کے بغیرپولنگ شروع کرا دی جائے لیکن اب یہ لوگ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔
اس کے بعد ہم کلفٹن میں واقع ایک اسکول میں پہنچے گورنمنٹ جونئیر ماڈل گرلز سیکنڈری اسکول کی عمارت کافی کشادہ تھی اور مختلف کمروں میں پولنگ کا عمل اطمینان و سکون سے جاری تھا۔وہاں ہم نے اسکرٹ پہنے ہوئے ایک بہت ہی بوڑھی پارسی خاتون کو بھی ووٹ ڈالتے دیکھا۔جب ہم باہر نکلے تو گیٹ کے باہر بیٹھے ہوئے پولیس والوں میں سے ایک نے ہم سے پوچھا:آپ این جی او سے ہیں؟ہم نے اسے بتایا کہ ہم عورتوں کے لیے کام کرتے ہیں ۔ اس پر دوسرا پولیس افسر بولا۔ پتا نہیں عورتوں کو کیا ہو گیا ہے،اتنی زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے آ رہی ہیں۔ اس وقت ساڑھے چار بج چکے تھے چنانچہ ہم نے سوچا کہ ایک اور پولنگ اسٹیشن دیکھ لیا جائے،صدر ٹائون میں زمزمہ روڈ پر واقع گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول میں داخل ہوئے تو کچھ عورتوں کو گھیرا بنا کے کھڑا دیکھا، ہم گھبرا کے گھیرا توڑ کے اندر گھسے تو ایک بیگماتی حلیہ والی خاتون زمین پر بیٹھی قے کر رہی تھی،کچھ دیر بعد ہم نے ایک اور بوڑھی خاتون کو چکرا کے گرتے دیکھا کسی نے بتایا کہ ایک اور خاتون بھی بیہوش ہو گئی تھیں۔
چاروں طرف مردوں اور عورتوں کی لمبی لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں اور پولنگ کا عمل چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا۔انتخابی عملہ غائب تھا جو دو چار پہنچے تھے ، ان ہی سے کام چلایا جا رہا تھا۔ پریذائڈنگ افسر کا کہنا تھاکہ وہ چھتیس سال سے انتخابی فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن ایسی بد نظمی انھوں نے کبھی نہیں دیکھی۔ان کے بقول اس کی وجہ گزشتہ پانچ سال میں میرٹ کو نظر انداز کر کے نالائقوں کو بھرتی کرنا تھا، انھوں نے ہمیں ریٹرننگ افسر کا لیٹر بھی دکھایا جس میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ڈائریکٹرز کی ڈیوٹی بھی لگی ہوئی تھی، ظاہر ہے وہ غائب تھے۔ ایک خاتون کے نام کے آگے موبائل نمبر لکھا ہوا تھا جو غلط تھا اس لیے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ہم نے ان صاحب سے بہت کہا کہ وہ کچھ رضاکاروں کی خدمات حاصل کر لیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ ریٹرننگ افسر کی تحریری اجازت کے بغیر ایسا کچھ نہیں کریں گے۔یہاں پولنگ کا ٹائم رات آٹھ بجے تک بڑھا دیا گیا تھا۔
ہماری دوسری ٹیم کا بھی یہی کہنا تھا کہ سہ پہر تک انہیں مختلف پولنگ اسٹیشنز پر لوگوں کا بہت جوش و خروش نظر آیا جو شام تک قدرے کم ہو گیا تھا سوائے این اے دو سو پچاس فیز چار میں جہاں شام تک پولنگ اسٹارٹ نہیں ہوئی تھی ۔زندگی کے ہر شعبے سے لو گ ووٹ ڈالنے پہنچے تھے، مرد، عورت، بوڑھے، جوان او ر غیر مسلم سبھی نظر آئے۔ایک بوڑھی خاتون ایسی بھی تھیں جنھوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں بھی حصہ لیا تھا۔وہ وہیل چیئر پر ووٹ ڈالنے آئی تھیں۔اس ٹیم کے ڈرائیور کو ایک خاص جماعت کے حق میں ووٹ ڈالنے پر بھی مجبور کیا گیا۔
ہماری ٹیم کی ایک اور رکن صبح ساڑھے سات بجے خیابان ہلال کے پولنگ اسٹیشن این اے دو سو پچاس پہنچ گئی تھیں، وہاں کے مسائل کی وجہ سے وہ شام چھ بجے تک وہیں رکی رہیں،عملہ صبح سات بجے پہنچ گیا تھالیکن بیلٹ پیپر اور باکس بارہ بج کے بیس منٹ پر پہنچے، اس کے بعد بوڑھے افراد کو پہلے ووٹ ڈالنے کا موقع دیا گیا۔لیکن انتخابی عمل بے حد سست رہا۔عورتوں اور بوڑھوں کی تعداد زیادہ تھی۔
ہماری رائے میں مسئلے دو ہی تھے، ایک تو انتخابی عملہ پوری تعداد میں نہیں پہنچا تھا، دوسرے اکثر جگہ بیلٹ پیپرز اورباکس دیر سے پہنچے ، اس لیے انتخابی عمل سست روی کا شکار ہوا، کچھ جگہوں سے دھاندلی کی شکایات بھی ملیں۔
ایک بجے ہمیں ایک ہوٹل سے دو غیر ملکی مبصرین کو لینا تھا ، ان کا تعلق جینڈر کنسرن انٹرنیشنل سے تھا جس نے ایک این جی او کے ساتھ انتخابات کی نگرانی کا میمورینڈم آف انڈراسٹینڈنگ پر دستخط کیے تھے۔چونکہ غیر ملکیوں کی حفاظت ایک نازک مسئلہ ہوتا ہے، اس لیے پولیس والوں نے ہماری درخواست پر ایک پولیس افسر ہمارے ساتھ کر دیا تھا۔ہم انھیں ڈی ایچ اے میں نیلم کالونی کے قریب واقع این اے دو سو پچاس کے پولنگ اسٹیشن لے گئے، وہاں تو عجیب ہی منظر تھا، ہماری اشرافیہ کی بیگمات ، نوجوان لڑکے لڑکیاں اور بوڑھے حضرات لمبی لمبی قطاروں میں بے بسی کے عالم میں کھڑے تھے اور انتخابی عمل چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا۔ہم نے پریزائڈنگ افسر کے کمرے کا رخ کیا تو انہیں بیلٹ پیپرز کی پشت پر ٹھپے لگاتے ہوئے پایا۔
آپ کیا کر رہے ہیں ؟ ہم نے حیران ہو کر پوچھا۔انتخابی عملہ پہنچا نہیں، اسٹامپ دیر سے آئی اس لیے میں خود ہی کائونٹر اسٹامپ لگا رہا ہوں۔ان کے عملے میں سے صرف ایک شخص پہنچا تھا، اس لیے انھوں نے خواتین کے بوتھ پر پولنگ شروع نہیں کرائی تھی۔دوسرے پریذائڈنگ افسرکا بھی نصف عملہ پہنچا تھا، اس لیے انتخابی عمل بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہا تھا۔لیکن ووٹ ڈالنے کے لیے لوگوں کا جذبہ قابل دید تھا۔کچھ عرصے بعد پہلے صاحب نے ایک خاتون ٹیچر کو کہیں سے بلوا لیا اور خواتین کے بوتھ پر بھی پولنگ شروع کرا دی۔اس سے پہلے ہی ایک خاتون نے دوسرے پریذائڈنگ افسر کے دفترمیں شور مچانا شروع کر دیا تھا۔
وہ صبح ووٹ ڈال کے گئی تھیںمگر اس کے پیچھے کائونٹر اسٹامپ نہیں لگی ہوئی تھی اور اس دوران ان کی جماعت کے ایک رہنما نے فیس بک پر لکھ دیا تھاکہ ایسے ووٹ مسترد ہو جائیں گے۔ اب وہ خاتون یقین دہانی چاہتی تھیں کہ ان کا ووٹ ضایع نہیں ہو گا۔پریذائڈنگ افسر کا پہلے ہی ذہنی دبائو اور بھوک پیاس کے مارے برا حال تھا۔وہ بھی گرم ہو گئے، ہمیں لگا کہ اب لڑائی شروع ہو جائے گی۔ ہم نے انہیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی تو وہ ہمارے گلے پڑ گئیں اور ہمارے ساتھ موجود غیر ملکی خاتون سے کہنے لگیں کہ میں نہیں چاہتی کہ وہ غیر ملکی خاتون کے سامنے بات کریں '' ناطقہ سر بگریباں ہے ،اسے کیا کہیے ۔''
پریذائڈنگ افسر نے ہمیں بتایا کہ صبح سارے پولیٹکل ایجنٹس کے ساتھ میٹنگ ہوئی تھی اور یہ طے ہوا تھاکہ وقت بچانے کے لیے کائونٹر اسٹامپ کے بغیرپولنگ شروع کرا دی جائے لیکن اب یہ لوگ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔
اس کے بعد ہم کلفٹن میں واقع ایک اسکول میں پہنچے گورنمنٹ جونئیر ماڈل گرلز سیکنڈری اسکول کی عمارت کافی کشادہ تھی اور مختلف کمروں میں پولنگ کا عمل اطمینان و سکون سے جاری تھا۔وہاں ہم نے اسکرٹ پہنے ہوئے ایک بہت ہی بوڑھی پارسی خاتون کو بھی ووٹ ڈالتے دیکھا۔جب ہم باہر نکلے تو گیٹ کے باہر بیٹھے ہوئے پولیس والوں میں سے ایک نے ہم سے پوچھا:آپ این جی او سے ہیں؟ہم نے اسے بتایا کہ ہم عورتوں کے لیے کام کرتے ہیں ۔ اس پر دوسرا پولیس افسر بولا۔ پتا نہیں عورتوں کو کیا ہو گیا ہے،اتنی زیادہ تعداد میں ووٹ ڈالنے آ رہی ہیں۔ اس وقت ساڑھے چار بج چکے تھے چنانچہ ہم نے سوچا کہ ایک اور پولنگ اسٹیشن دیکھ لیا جائے،صدر ٹائون میں زمزمہ روڈ پر واقع گورنمنٹ گرلز پرائمری اسکول میں داخل ہوئے تو کچھ عورتوں کو گھیرا بنا کے کھڑا دیکھا، ہم گھبرا کے گھیرا توڑ کے اندر گھسے تو ایک بیگماتی حلیہ والی خاتون زمین پر بیٹھی قے کر رہی تھی،کچھ دیر بعد ہم نے ایک اور بوڑھی خاتون کو چکرا کے گرتے دیکھا کسی نے بتایا کہ ایک اور خاتون بھی بیہوش ہو گئی تھیں۔
چاروں طرف مردوں اور عورتوں کی لمبی لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں اور پولنگ کا عمل چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھ رہا تھا۔انتخابی عملہ غائب تھا جو دو چار پہنچے تھے ، ان ہی سے کام چلایا جا رہا تھا۔ پریذائڈنگ افسر کا کہنا تھاکہ وہ چھتیس سال سے انتخابی فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن ایسی بد نظمی انھوں نے کبھی نہیں دیکھی۔ان کے بقول اس کی وجہ گزشتہ پانچ سال میں میرٹ کو نظر انداز کر کے نالائقوں کو بھرتی کرنا تھا، انھوں نے ہمیں ریٹرننگ افسر کا لیٹر بھی دکھایا جس میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے ڈائریکٹرز کی ڈیوٹی بھی لگی ہوئی تھی، ظاہر ہے وہ غائب تھے۔ ایک خاتون کے نام کے آگے موبائل نمبر لکھا ہوا تھا جو غلط تھا اس لیے رابطہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ہم نے ان صاحب سے بہت کہا کہ وہ کچھ رضاکاروں کی خدمات حاصل کر لیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ ریٹرننگ افسر کی تحریری اجازت کے بغیر ایسا کچھ نہیں کریں گے۔یہاں پولنگ کا ٹائم رات آٹھ بجے تک بڑھا دیا گیا تھا۔
ہماری دوسری ٹیم کا بھی یہی کہنا تھا کہ سہ پہر تک انہیں مختلف پولنگ اسٹیشنز پر لوگوں کا بہت جوش و خروش نظر آیا جو شام تک قدرے کم ہو گیا تھا سوائے این اے دو سو پچاس فیز چار میں جہاں شام تک پولنگ اسٹارٹ نہیں ہوئی تھی ۔زندگی کے ہر شعبے سے لو گ ووٹ ڈالنے پہنچے تھے، مرد، عورت، بوڑھے، جوان او ر غیر مسلم سبھی نظر آئے۔ایک بوڑھی خاتون ایسی بھی تھیں جنھوں نے محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں بھی حصہ لیا تھا۔وہ وہیل چیئر پر ووٹ ڈالنے آئی تھیں۔اس ٹیم کے ڈرائیور کو ایک خاص جماعت کے حق میں ووٹ ڈالنے پر بھی مجبور کیا گیا۔
ہماری ٹیم کی ایک اور رکن صبح ساڑھے سات بجے خیابان ہلال کے پولنگ اسٹیشن این اے دو سو پچاس پہنچ گئی تھیں، وہاں کے مسائل کی وجہ سے وہ شام چھ بجے تک وہیں رکی رہیں،عملہ صبح سات بجے پہنچ گیا تھالیکن بیلٹ پیپر اور باکس بارہ بج کے بیس منٹ پر پہنچے، اس کے بعد بوڑھے افراد کو پہلے ووٹ ڈالنے کا موقع دیا گیا۔لیکن انتخابی عمل بے حد سست رہا۔عورتوں اور بوڑھوں کی تعداد زیادہ تھی۔
ہماری رائے میں مسئلے دو ہی تھے، ایک تو انتخابی عملہ پوری تعداد میں نہیں پہنچا تھا، دوسرے اکثر جگہ بیلٹ پیپرز اورباکس دیر سے پہنچے ، اس لیے انتخابی عمل سست روی کا شکار ہوا، کچھ جگہوں سے دھاندلی کی شکایات بھی ملیں۔