’’آبروئے سخن‘‘ میرے کیریئر کا یادگار آڈیو البم ہے ظفر اقبال نیویارکر

وقت کے ساتھ اس میں راک ، پاپ سمیت میوزک کی کئی نئی اصناف بھی سامنے آئیں جو خاص طور پر نوجوان نسل میں بے حد مقبول ...

وقت کے ساتھ اس میں راک ، پاپ سمیت میوزک کی کئی نئی اصناف بھی سامنے آئیں جو خاص طور پر نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہوئیں۔ فوٹو : فائل

غزل گائیکی ہو یا گیت موسیقی کی ہر صنف اپنے اندر اپنا ایک رنگ اور خوبصورتی لئے ہوئے ہے جو سننے والوں کی سماعتوں سے ٹکراتے ہی انہیں اپنے سحر میں گرفتار کرلیتی ہے ۔

وقت کے ساتھ اس میں راک ، پاپ سمیت میوزک کی کئی نئی اصناف بھی سامنے آئیں جو خاص طور پر نوجوان نسل میں بے حد مقبول ہوئیں۔ اس مقبولیت کو دیکھتے ہوئے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے والے نئے لوگ بھی اسی نئے انداز کو اپنا رہے ہیں جبکہ ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی روایتی موسیقی کی بجائے اسی ''کمرشل میوزک'' کو پروموٹ کر رہی ہیں۔

ان میں ایک جنونی اور موسیقی سے دل وجان سے محبت کرنے والا گلوکار ظفر اقبال نیویارکر بھی ہے جو ''کمرشل'' فائدہ اٹھانے کی بجائے کلاسیکل ، نیم کلاسیکل ، غزل اور گیت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں۔ ظفر اقبال نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت چاند گھرانے سے تعلق رکھنے والے استاد اقبال خان دہلی والے سے لی ، جس کے بعد وہ میوزک ڈائریکٹر ذوالفقار عطرے سمیت دیگر معروف اساتذہ کرام سے بھی اسراروموز سیکھتے رہے۔ خاص طور پر انہوں نے نیم کلاسیکل ، غزل اور گیت کو ہی گانا پسند کیا، اسی لئے ابھی تک غزل ، گیت اور نیم کلاسیکل گانوں پرہی البم ریلیز ہوئے ۔

جن میں ''ٹریبوٹ ٹو فیض احمد فیض''، ''دل کی آواز ''پار ٹ ون اور ٹو ، ''پیار کی خوشبو'' شامل ہیں ۔امریکہ کی ریاست نیویارک میں انہیں رہتے ہوئے 20سال سے زائد کاعر صہ ہوچلا ہے ، جہاں پرنٹنگ کا ذاتی کاروبار کرنے کے ساتھ موسیقی سے محبت میں کمی نہیں آئی بلکہ پہلے سے زیادہ لگاؤ ہو گیا ہے۔

وہاں پر ہونے والی تقاریب کی وہ جان ہیں جہاں میوزک سے محبت کرنے والے ان سے غزل ، نیم کلاسیکل اور گیت فرمائش کرکے سنتے اور داد دیتے ہیں۔ ان کی اسی زندہ دلی اور ہر دلعزیز شخصیت کی وجہ سے لوگ انہیں پیار سے ظفر اقبال نیویارکر کہتے ہیں ۔ اسی نام کے ساتھ میوزک انڈسٹری میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔

ظفرا قبال نیویارکر نے خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میوزک سے رشتہ جسم اور روح کا ہے جس میں سے کسی ایک کو بھی علیحدہ کر دیا جائے تو کچھ نہیں بچتا۔اسی طرح موسیقی کے بغیر میں ادھورا ہوں ،جس کے بغیر ایک لمحہ بھی نہیں گزار سکتا۔دیار غیر جہاں ہرکسی کو اپنے کاروبار اور بیوی بچوں کی فکر ہے جبکہ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کیونکہ رب تعالی نے وہ سب کچھ دیا ہے جس کی خواہش ہر ایک انسان کرتا ہے ۔


اسی لئے تمام مصروفیات سے فارغ ہوتے ہی ہارمونیم اور میں ہوتا ہوں، موسیقی ایک سمندر کی طرح ہے جس کے بارے میں جتنا بھی سیکھا جائے کم ہے ۔میرا صرف ایک مشن ہے کہ روایتی میوزک غزل ، گیت کو پروموٹ کیا جائے کیونکہ راک ، پاپ سمیت جتنا بھی جدید میوزک ہے ان سب کی عمر انتہائی کم ہے مگر غزل ، گیت اور کلاسیکل ہمیشہ رہنے والا ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ موجودہ کمرشل دور میں نظر انداز کیا جارہاہے ، جو کہ کسی طرح سے بھی درست نہیں ہے۔

پاکستان میں میوزک انڈسٹری کے حوالے سے کئے جانیوالے سوال کے جواب میں ظفر اقبال نے کہا کہ موجودہ حالات نے اس انڈسٹری کو بہت نقصان پہنچایا ہے کئی سالوں سے میوزک کنسرٹ نہیں ہورہے دوسری فلم انڈسٹری کے زوال بھی اس کے لئے بہت بڑا دھچکا ثابت ہوا ۔ ان حالات نے گلوکاروں کے ساتھ میوزیشنز کے لئے مالی مشکلات کھڑی کردی ہیں کہ انہیں کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں مل رہا ، بلکہ کچھ گلوکار اورمیوزیشنز بیرون ممالک ہی شفٹ ہوگئے ہیں جہاں وہ گزر اوقات کے لئے میوزک کی بجائے نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔

چند ایک ایسے ہیں جنہیں بالی وڈ انڈسٹری نے اس عروج پر پہنچا دیا ہے کہ ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ پاکستانی عوام اس وقت مسائل اور مشکلات کی وجہ سے شدید ڈپریشن کا شکار ہے اس کو کم کرنے کے لئے حکومتی سطح پر میوزیکل پروگراموں کا انعقاد زیادہ سے زیادہ کیا جائے اس سے انہیں ریلیف ملے گا۔ بھارت کے ساتھ کوپروڈکشن دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے ، بالی وڈ پہلے ہی ہمارے پاکستانی فنکاروں اور گلوکاروں کی صلاحیتوں کا معترف ہے جس کا ہمیں بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان فلم انڈسٹری کو بھنور سے نکال سکتے ہیں ۔

اس سلسلہ میں مہیش بھٹ کا کردار انتہائی اہم ہے جنہوں نے اپنی فلموں میں میرٹ پر نئے ٹیلنٹ کو مواقع فراہم کرنے کا دائرہ کار پاکستان تک بڑھایا اور ہمارے سنگرز کو گوایا ۔ آج انہی کی فلموں کے ذریعے متعارف ہونے والے گلوکار بالی وڈ میوزک انڈسٹری میں چھائے ہوئے ہیں ۔ موجودہ الیکشن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ میں پوری قوم کو مبارکباد دیتا ہوں کہ جنہوں نے اپنا حق رائے دہی بھرپور انداز سے استعمال کیا اور اب یہ منتخب ہونے والے تمام سیاستدانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عوام کے حقیقی نمائندوں کی حیثیت سے ملک وقوم کی سلامتی اور ترقی میں اپنا کردار دا کریں ۔

میں نے ابھی تک جتنا بھی کام کیا ،وہ روٹین سے بالکل ہٹ کر کیا جس پر میرے دوستوں نے بھی کہا کہ یہ صرف پیسے اور وقت کا ضیاع ہے ۔میں نے ان سے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ میں کوئی مالی فائد ے کے لئے نہیں بلکہ اپنی تسکین کے لئے کام کر رہا ہوں ایک سوال کے جواب میں ظفر اقبال نے کہا کہ دراصل برصغیرنے موسیقی کوایسے انمول نگینے دئیے ہیں جن کی روشنی سے آج پوری دنیا استفادہ کر رہی ہے اسی لئے تمام جدید ٹیکنالوجی کے باوجود تمام آڈیو البمز کی ریکارڈنگ اپنے وطن پاکستان آکر کی جس کا مقصد روایتی میوزک کو پروان چڑھانا ہے ۔ چند ماہ قبل ہی مرزا غالب ، علامہ اقبال ، مولانا ظفر علی سمیت دیگر معروف شعرا ء کرام کے کلام پر مشتمل آڈیو البم ''آبروئے سخن'' ریکارڈ کیا جوکہ میرے کیرئیر کا سب سے اہم اور یادگار کام ہے ۔

کیونکہ پاکستان اور بھارت کی میوزک تاریخ میں پہلی مرتبہ ان معروف شعراء کرام کے کلام کو اتنے بڑے پیمانے پر ریلیز کیا جارہا ہے۔ظفر اقبال نیویارکر نے کہا کہ ''آبروئے سخن'' کو بھارت اور پاکستان سمیت پوری دنیا سے بیک وقت لانچ کیا جائے گا جس کے لئے معروف آڈیو کمپنیوں سے بات چیت چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا مقصد پیسہ کمانا نہیں بلکہ روایتی موسیقی کو فروغ دینا ہے جس کے لئے میری تمام چاہنے والوں سے بھی اپیل ہے کہ وہ میری آفیشل ویب سائٹ www.zafar iqbal newyorker.com پر وزٹ کرکے ''آبروے سخن'' کے بارے میں اپنی قیمتی رائے سے آگاہ کریں۔
Load Next Story