خدارا جنسی ہراسانی کو مذاق نہ بنائیے
حمائمہ خود کوواٹس ایپ پر پیغامات بھیجنے والے شخص کو بلاک کرسکتی تھیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا
اداکارہ حمائمہ ملک، گلوکارہ میشا شفیع اور فلمساز شرمین عبید چنائے سمیت ان تمام نام نہاد لبرل خواتین نے جنسی ہراسانی جیسے حساس اور تکلیف دہ موضوع کو مذاق بناکر رکھ دیا ہے، جو جنسی ہراسانی اور سماجی روابط کے درمیان فرق کرنا نہیں جانتیں، اور اسے بس میڈیا اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
چند روز قبل پاکستانی اداکارہ حمائمہ ملک نے لاہور کے مقامی ہوٹل کی انتظامیہ اور ہوٹل میں مقیم مہمان پر جنسی ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ لاہور کے مقامی ہوٹل کی انتظامیہ نے نہ صرف ان کی نجی معلومات ایک اجنبی شخص کو دیں، بلکہ انہیں تحفظ فراہم کرنے میں بھی ناکام ہوگئی۔ جس کے بعد اس شخص نے نہ صرف انہیں واٹس ایپ پر پیغامات بھیجے بلکہ اُنہیں اپنا بزنس کارڈ دینے کی بھی کوشش کی۔ حمائمہ نے واٹس ایپ پر بھیجے جانے والے پیغامات کے اسکرین شاٹس بھی اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شیئر کیے اور بیچاری بن کر مظلومیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کس طرح ایک اجنبی شخص نے پیغامات بھیج کر جنسی ہراسانی اور درندگی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
تاہم حمائمہ ملک نے انہیں ہراساں کرنے والے شخص کا نہ تو نام ظاہر کیا اور نہ ہی اس شخص کی جانب سے دیے جانےو الے بزنس کارڈ کی تصویر شیئر کی۔ اگر حمائمہ ملک واقعی بے قصور ہیں اور جنسی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانا چاہتی ہیں تو انہیں چاہیے تھا کہ پیغامات کے اسکرین شاٹس کے ساتھ اس شخص کا نام اور کارڈ بھی ظاہر کرتیں، تاکہ دوسری خواتین ایسے شخص سے خود کو محفوظ رکھ سکتیں۔
دوسری جانب اگر حمائمہ ملک کو بھیجے جانےو الے پیغامات کا جائزہ لیاجائے تو اس میں ہونےو الی گفتگو سے ایسا ذرا بھی کوئی تاثر نہیں ملتا کہ پیغامات بھیجنے والے شخص نے حمائمہ ملک کو ہراساں کرنے کی کوشش کی ہو۔ بلکہ اس شخص نے نہایت شائستہ زبان استعمال کرتے ہوئے حمائمہ سے بات چیت کی اور انہیں اپنے بین الاقوامی برانڈ میں بطور ماڈل کام کرنے کی پیشکش کی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ انہیں حمائمہ کا نمبر ان دونوں کی مشترکہ دوست کے ذریعے ملا ہے، تاہم یہاں اس شخص نے اس دوست کا نام بتانے سے معذرت کی اور حمائمہ کو پیغامات بھیجنے کے لیے بھی معذرت کی۔ اس پوری گفتگو میں کہیں بھی اس اجنبی شخص نے حمائمہ کے لیے غلط الفاظ استعمال نہیں کیے اور نہ ہی اس کا لہجہ غلط تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ اس شخص نے حمائمہ کو جنسی طور پر ہراساں کیا ہو۔
سب سے پہلے تو حمائمہ ملک کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ صرف واٹس ایپ پر پیغامات بھیج کر کوئی کسی کو جنسی طور پر ہراساں نہیں کرسکتا۔ اور اگر وہ کسی اجنبی شخص کی جانب سے موصول ہونے والے پیغامات سے پریشان ہوئی تھیں تو بڑے آرام سے اس شخص کو واٹس ایپ پر موجود بلاک کا آپشن استعمال کرکے بلاک کرسکتی تھیں۔ اس کے بعد نہ تو انہیں پیغامات موصول ہوتے اور نہ ہی وہ بقول ان کے جنسی طور پر ہراساں ہوتیں، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
لہٰذا حمائمہ ملک کی اس حرکت کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے جنسی ہراسانی جیسے حساس اور تکلیف دہ موضوع کو مذاق بنالیا ہے، اور صرف لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کےلیے مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر خود کو جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والی متاثرہ خاتون ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حمائمہ ملک ایک اداکارہ کے طور پر تو پہچان رکھتی ہیں، لیکن انہیں پاکستان کی کامیاب اداکارہ نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ فلم ''بول'' کے بعد حمائمہ ملک شوبز انڈسٹری میں کوئی قابل ذکر کام کر ہی نہیں سکیں۔ حمائمہ بھارتی فلم ''راجا نٹور لال''میں بھی کام کرچکی ہیں، جب کہ وہ آخری بار گزشتہ برس ریلیز ہونے والی فلم ''ارتھ'' میں اداکار شان کے ساتھ نظرآئی تھیں۔ بدقسمتی سے یہ دونوں فلمیں باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوگئیں جس کے بعد اب حمائمہ ملک نہ تو کسی قابل ذکر فلم میں کام کررہی ہیں اور نہ ہی ان کے کسی بڑے پراجیکٹ کا حصہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ لہٰذا ان کی باتوں سے ایسا لگ رہا ہے جیسے انہوں نے یہ اسکرین شاٹس خبروں میں اِن رہنے کے لیے شیئر کی ہیں؛ کیونکہ جنسی ہراسانی ایسا موضوع ہے جو میڈیا سمیت تمام لوگوں کی توجہ منٹوں میں اپنی جانب مبذول کرلیتا ہے۔
پاکستانی فلمساز شرمین عبید چنائے بھی کچھ عرصہ قبل جنسی ہراسانی جیسے سنجیدہ موضوع کے حوالے سے لوگوں کی تنقید کا نشانہ بن چکی ہیں۔ انہوں نے اپنی بہن کو ڈاکٹر کی جانب سے فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے پر اس ڈاکٹر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ لہٰذا حمائمہ ملک، میشا شفیع اور شرمین عبید چنائے جیسی خواتین جو معاشرے میں ایک مقام رکھتی ہیں، ان خواتین کو چاہئیے کہ جنسی ہراسانی جیسے حساس موضوع کو غلط طریقے سے پیش کرنا بند کریں۔ کیونکہ ان کی بے جا حرکت سے ان خواتین کی دل آزاری ہوتی ہے اور ان کا مقدمہ کمزور ہوتا ہے جو واقعی جنسی ہراسانی جیسے قبیح فعل کا شکار ہوئی ہوتی ہیں اور روز اس درد سے گزرتی ہیں۔
فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنا یا دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس کے ذریعے دوستی کے پیغامات بھیجنا آج کل کے دور میں عام سی بات ہے۔ سوشل میڈیا کا مطلب ہی دوسرے لوگوں سے دوستی کرنا اور تعلقات بڑھانا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا انتظامیہ آپ کو یہ آپشن بھی دیتی ہے کہ آپ جس سے چاہیں اس سے دوستی کریں اور اگر کوئی شخص پسند نہیں تو اسے بلاک کردیں۔ یہ آپشن ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ پر موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر ان اداکاراؤں کو سوشل میڈیا سے پریشانی ہے تو انہیں چاہیے کہ اپنے اکاؤنٹس بند کردیں یا پھر بلاک کا آپشن استعمال کریں۔ اور خدارا ذرا ذرا سی باتوں کو جنسی ہراسانی کا مسئلہ بناکر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانا بند کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
چند روز قبل پاکستانی اداکارہ حمائمہ ملک نے لاہور کے مقامی ہوٹل کی انتظامیہ اور ہوٹل میں مقیم مہمان پر جنسی ہراسانی کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ لاہور کے مقامی ہوٹل کی انتظامیہ نے نہ صرف ان کی نجی معلومات ایک اجنبی شخص کو دیں، بلکہ انہیں تحفظ فراہم کرنے میں بھی ناکام ہوگئی۔ جس کے بعد اس شخص نے نہ صرف انہیں واٹس ایپ پر پیغامات بھیجے بلکہ اُنہیں اپنا بزنس کارڈ دینے کی بھی کوشش کی۔ حمائمہ نے واٹس ایپ پر بھیجے جانے والے پیغامات کے اسکرین شاٹس بھی اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر شیئر کیے اور بیچاری بن کر مظلومیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کس طرح ایک اجنبی شخص نے پیغامات بھیج کر جنسی ہراسانی اور درندگی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
تاہم حمائمہ ملک نے انہیں ہراساں کرنے والے شخص کا نہ تو نام ظاہر کیا اور نہ ہی اس شخص کی جانب سے دیے جانےو الے بزنس کارڈ کی تصویر شیئر کی۔ اگر حمائمہ ملک واقعی بے قصور ہیں اور جنسی ہراسانی کے خلاف آواز اٹھانا چاہتی ہیں تو انہیں چاہیے تھا کہ پیغامات کے اسکرین شاٹس کے ساتھ اس شخص کا نام اور کارڈ بھی ظاہر کرتیں، تاکہ دوسری خواتین ایسے شخص سے خود کو محفوظ رکھ سکتیں۔
دوسری جانب اگر حمائمہ ملک کو بھیجے جانےو الے پیغامات کا جائزہ لیاجائے تو اس میں ہونےو الی گفتگو سے ایسا ذرا بھی کوئی تاثر نہیں ملتا کہ پیغامات بھیجنے والے شخص نے حمائمہ ملک کو ہراساں کرنے کی کوشش کی ہو۔ بلکہ اس شخص نے نہایت شائستہ زبان استعمال کرتے ہوئے حمائمہ سے بات چیت کی اور انہیں اپنے بین الاقوامی برانڈ میں بطور ماڈل کام کرنے کی پیشکش کی۔ اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ انہیں حمائمہ کا نمبر ان دونوں کی مشترکہ دوست کے ذریعے ملا ہے، تاہم یہاں اس شخص نے اس دوست کا نام بتانے سے معذرت کی اور حمائمہ کو پیغامات بھیجنے کے لیے بھی معذرت کی۔ اس پوری گفتگو میں کہیں بھی اس اجنبی شخص نے حمائمہ کے لیے غلط الفاظ استعمال نہیں کیے اور نہ ہی اس کا لہجہ غلط تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ اس شخص نے حمائمہ کو جنسی طور پر ہراساں کیا ہو۔
سب سے پہلے تو حمائمہ ملک کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ صرف واٹس ایپ پر پیغامات بھیج کر کوئی کسی کو جنسی طور پر ہراساں نہیں کرسکتا۔ اور اگر وہ کسی اجنبی شخص کی جانب سے موصول ہونے والے پیغامات سے پریشان ہوئی تھیں تو بڑے آرام سے اس شخص کو واٹس ایپ پر موجود بلاک کا آپشن استعمال کرکے بلاک کرسکتی تھیں۔ اس کے بعد نہ تو انہیں پیغامات موصول ہوتے اور نہ ہی وہ بقول ان کے جنسی طور پر ہراساں ہوتیں، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
لہٰذا حمائمہ ملک کی اس حرکت کے بعد یہی کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے جنسی ہراسانی جیسے حساس اور تکلیف دہ موضوع کو مذاق بنالیا ہے، اور صرف لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کےلیے مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر خود کو جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والی متاثرہ خاتون ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حمائمہ ملک ایک اداکارہ کے طور پر تو پہچان رکھتی ہیں، لیکن انہیں پاکستان کی کامیاب اداکارہ نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ فلم ''بول'' کے بعد حمائمہ ملک شوبز انڈسٹری میں کوئی قابل ذکر کام کر ہی نہیں سکیں۔ حمائمہ بھارتی فلم ''راجا نٹور لال''میں بھی کام کرچکی ہیں، جب کہ وہ آخری بار گزشتہ برس ریلیز ہونے والی فلم ''ارتھ'' میں اداکار شان کے ساتھ نظرآئی تھیں۔ بدقسمتی سے یہ دونوں فلمیں باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوگئیں جس کے بعد اب حمائمہ ملک نہ تو کسی قابل ذکر فلم میں کام کررہی ہیں اور نہ ہی ان کے کسی بڑے پراجیکٹ کا حصہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔ لہٰذا ان کی باتوں سے ایسا لگ رہا ہے جیسے انہوں نے یہ اسکرین شاٹس خبروں میں اِن رہنے کے لیے شیئر کی ہیں؛ کیونکہ جنسی ہراسانی ایسا موضوع ہے جو میڈیا سمیت تمام لوگوں کی توجہ منٹوں میں اپنی جانب مبذول کرلیتا ہے۔
پاکستانی فلمساز شرمین عبید چنائے بھی کچھ عرصہ قبل جنسی ہراسانی جیسے سنجیدہ موضوع کے حوالے سے لوگوں کی تنقید کا نشانہ بن چکی ہیں۔ انہوں نے اپنی بہن کو ڈاکٹر کی جانب سے فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنے پر اس ڈاکٹر پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ لہٰذا حمائمہ ملک، میشا شفیع اور شرمین عبید چنائے جیسی خواتین جو معاشرے میں ایک مقام رکھتی ہیں، ان خواتین کو چاہئیے کہ جنسی ہراسانی جیسے حساس موضوع کو غلط طریقے سے پیش کرنا بند کریں۔ کیونکہ ان کی بے جا حرکت سے ان خواتین کی دل آزاری ہوتی ہے اور ان کا مقدمہ کمزور ہوتا ہے جو واقعی جنسی ہراسانی جیسے قبیح فعل کا شکار ہوئی ہوتی ہیں اور روز اس درد سے گزرتی ہیں۔
فیس بک پر فرینڈ ریکوئسٹ بھیجنا یا دیگر سوشل میڈیا ویب سائٹس کے ذریعے دوستی کے پیغامات بھیجنا آج کل کے دور میں عام سی بات ہے۔ سوشل میڈیا کا مطلب ہی دوسرے لوگوں سے دوستی کرنا اور تعلقات بڑھانا ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا انتظامیہ آپ کو یہ آپشن بھی دیتی ہے کہ آپ جس سے چاہیں اس سے دوستی کریں اور اگر کوئی شخص پسند نہیں تو اسے بلاک کردیں۔ یہ آپشن ٹوئٹر، فیس بک اور واٹس ایپ پر موجود ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر ان اداکاراؤں کو سوشل میڈیا سے پریشانی ہے تو انہیں چاہیے کہ اپنے اکاؤنٹس بند کردیں یا پھر بلاک کا آپشن استعمال کریں۔ اور خدارا ذرا ذرا سی باتوں کو جنسی ہراسانی کا مسئلہ بناکر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانا بند کریں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔