عمران کی سیاست
عمران خان کی باتیں یہ عندیہ دے رہی ہیں کہ وہ سیاست کے اس انداز کو اپنانے کی جرات اور جسارت کرنے پر تیار ہیں۔
مدت ہوئی کسی حکمران سے کوئی ٹاکرا نہیں ہوا لیکن موجودہ الیکشن کے بعد جی چاہ رہا ہے کہ ملک کے نئے حکمرانوں سے ایک ملاقات ضرور کی جائے اور ان کی خدمت میں عرض کیا جائے کہ وہ عوام کے مینڈیٹ کا خیال رکھیں اور عوام کے دکھ در د کے ساتھی بنیں۔
انتخابی مہم میں انھوں نے اپنی تقریروں میں جو کچھ کہا وہ اپنی جگہ لیکن عوام نے انھیں جن وجوہات کی بنا پر ووٹ دیے ان میں سے ایک یہ تھی کہ وہ پرانے سیاستدانوں سے سخت تنگ تھے اور نئے لوگوں کو عمران کی شکل میں آزمانا چاہتے تھے کیونکہ گزشتہ حکومتوں نے اپنی معینہ مدتوں میں حکمرانی کی ایسی بدترین مثالیں قائم کیں کہ لوگوں کو ان سے نفرت ہو گئی تھی اور اس شدید نفرت کی وجہ سے انھوں نے ووٹ دے کر نئے لوگوں کو منتخب کیا۔
ہمارے مستقبل کے متوقع حکمرانوں کی کامیابی کی دوسری بڑی وجہ بھی اس پہلی وجہ کا شاخسانہ تھی کیونکہ سابقہ حکمرانوں نے ملک کے معاشی حالات اس قدر خراب کر دیے جس کی وجہ سے آج ملک میں مہنگائی کی لہر رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی چنانچہ عوام نے عمران خان کی پارٹی سے توقعات وابستہ کر لی ہیں کہ اس کے پاس جادو کا کوئی چراغ ہے جس سے عوام کے حالات راتوں رات ٹھیک ہو جائیں گے اور عمران خان اپنی طلسماتی شخصیت کی وجہ سے ملک کو معاشی بحران سے نکال لے گا۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کو جو ووٹ ملے ہیں وہ سابقہ حکومتوں کی بری کارکردگی اور کارستانیوں کا ردعمل ہے۔
قرآن پاک میں الناس، یعنی عوام کا لفظ بار ہا استعمال ہوا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے۔ 'ہم اقتدار اس کا مستحکم کرتے ہیں جو عامتہ الناس کو نفع دیتا ہے'۔ وہ ایمان والوں کا رب اور پروردگار تو ہے ہی لیکن ہر مخلوق کا رب بھی ہے اور اس میں کسی خاص مذہب کی قید نہیں ہے ۔ اللہ نے حکمرانوں کے اقتدار کی بقاء اور استحکام کے لیے یہ شرط لگا رکھی ہے کہ وہ عوام کی خدمت اور نفع کے کام کریں اور جو ایسا نہیں کرتے ان کے اقتدار کو ختم کر دیاجاتا ہے۔
عمران خان جن پر اللہ کی خاص رحمت ہوئی ہے وہ ایک حکمران بن کر اگر کتاب الٰہی کا مطالعہ کریں تو ان پر کئی خفیہ گوشے واضح ہوں گے اس کا اعلان ہے کہ اقتدار میں دیتا ہوں اور یہ بھی اعلان ہے کہ اقتدار کے لیے عوام کی خدمت لازم ہے اور شرط ہے ۔ میں کبھی مغربی اقوام کے عالمی اقتدار پر غورکرتا ہوں تو مجھے ان کی حکومتوں میں ''ما ینفع الناس'' یعنی جو عوام کو نفع دیتا ہے واضح دکھائی دیتا ہے۔ اس کے برعکس مسلمان ممالک میں حکومتیں عوام کی خدمت سے پوری طرح جی چراتی ہیں بلکہ ان کے مفادات کے خلاف کام بھی کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی دنیا آزاد نہیں ہے ان کی حکومتوں کے اقتدار ڈانواں ڈول رہتے ہیں کیونکہ وہ رب الناس کی عائد شرط پر پورے نہیں اترتے۔
برصغیر کی تاریخ میں ہمیں صرف ایک سیاستدان ایسا نظر آتا ہے اور وہ ہے محمد علی جناح جس نے صاف ستھری اور منافتوں سے پاک سیاست کی تھی ۔ جبھی تواپنے ایک غیر پاکستانی سوانح نگار کے مطابق انسانی تاریخ کا منفرد اور یکتا کارنامہ ''قیام پاکستان'' سر انجام دیا تھا عمران خان کی باتیں یہ عندیہ دے رہی ہیں کہ وہ سیاست کے اس انداز کو اپنانے کی جرات اور جسارت کرنے پر تیار ہیں اس پر ان کو مزید غور کرناچاہیے۔ وہ اس وقت ایک قابل رشک کامیابی رکھنے والے سیاستدان ہیں ۔ وہ سیاست کے گردو غبارمیں سے اچانک باہر آئے ہیں ۔ نہ گھر میں سیاست نہ کاروبار کوئی ایسا تھا جس کا سیاست سے تعلق ہوتا اور نہ ہی دوست احباب ایسے تھے لیکن ان سب کمزوریوں اور ناداریوں کے باوجود وہ سیاست کے میدان میں ایک امید بن کر ابھرے ہیں اور آج کے کامیاب ترین سیاستدان ہیں ۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ خود مثال بنیں گے اور تا کہ پاکستانی ان کی تقلید کریں ۔ اسی بات کا عوام انتظار کر رہے ہیں کوئی تو ایسا لیڈر بھی ہو جو ان کی طرح کا ہو۔
عوام کو اپنے ساتھ چلانے کے لیے ان کے ساتھ چلنا پڑتا ہے اور پاکستان کے معصوم عوام اپنے لیڈروں سے بہت زیادہ ڈسے جا چکے ہیں اب وہ کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں بلکہ قربانی مانگتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سے قربانی دیتے آئے مگر اب وقت آگیا ہے کہ لیڈر قوم کے لیے قربانی دے اور عمران خان اس قربانی کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ بے چینی سے عمران کے منتظر ہیں ان کے پیش رو سیاستدانوں اور حکمرانوں نے بھی بڑے بڑے دعوے کیے تھے اور مثالیں قائم کرنے کی باتیں کیں تھیں لیکن وہ صرف باتوں تک ہی محدود رہے اور اقتدار ان کو ان کے وعدوں سے کہیں دور لے گیا اور بالآخر وہ اقتدار کا ہی شکار بن گئے۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اگر ایک مثالی حکومت نہ دے سکے تو ان کا حشر زرداری اور نوازشریف کی حکومتوں سے بھی برا ہوگا اس لیے ان کی یہ کوشش اور خواہش ہے کہ ان کے ساتھ ایسا کچھ نہ ہو اور وہ عوام کے ووٹ کو عزت دیں اگر وہ سیاست کی دنیا میں کوئی نئی مثال قائم کر سکیں تویاد گار رہیں گے اور اقبال اور جناح کے پیرو کار ہونے کا حق ادا کریں گے۔
انتخابی مہم میں انھوں نے اپنی تقریروں میں جو کچھ کہا وہ اپنی جگہ لیکن عوام نے انھیں جن وجوہات کی بنا پر ووٹ دیے ان میں سے ایک یہ تھی کہ وہ پرانے سیاستدانوں سے سخت تنگ تھے اور نئے لوگوں کو عمران کی شکل میں آزمانا چاہتے تھے کیونکہ گزشتہ حکومتوں نے اپنی معینہ مدتوں میں حکمرانی کی ایسی بدترین مثالیں قائم کیں کہ لوگوں کو ان سے نفرت ہو گئی تھی اور اس شدید نفرت کی وجہ سے انھوں نے ووٹ دے کر نئے لوگوں کو منتخب کیا۔
ہمارے مستقبل کے متوقع حکمرانوں کی کامیابی کی دوسری بڑی وجہ بھی اس پہلی وجہ کا شاخسانہ تھی کیونکہ سابقہ حکمرانوں نے ملک کے معاشی حالات اس قدر خراب کر دیے جس کی وجہ سے آج ملک میں مہنگائی کی لہر رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی چنانچہ عوام نے عمران خان کی پارٹی سے توقعات وابستہ کر لی ہیں کہ اس کے پاس جادو کا کوئی چراغ ہے جس سے عوام کے حالات راتوں رات ٹھیک ہو جائیں گے اور عمران خان اپنی طلسماتی شخصیت کی وجہ سے ملک کو معاشی بحران سے نکال لے گا۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کو جو ووٹ ملے ہیں وہ سابقہ حکومتوں کی بری کارکردگی اور کارستانیوں کا ردعمل ہے۔
قرآن پاک میں الناس، یعنی عوام کا لفظ بار ہا استعمال ہوا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے۔ 'ہم اقتدار اس کا مستحکم کرتے ہیں جو عامتہ الناس کو نفع دیتا ہے'۔ وہ ایمان والوں کا رب اور پروردگار تو ہے ہی لیکن ہر مخلوق کا رب بھی ہے اور اس میں کسی خاص مذہب کی قید نہیں ہے ۔ اللہ نے حکمرانوں کے اقتدار کی بقاء اور استحکام کے لیے یہ شرط لگا رکھی ہے کہ وہ عوام کی خدمت اور نفع کے کام کریں اور جو ایسا نہیں کرتے ان کے اقتدار کو ختم کر دیاجاتا ہے۔
عمران خان جن پر اللہ کی خاص رحمت ہوئی ہے وہ ایک حکمران بن کر اگر کتاب الٰہی کا مطالعہ کریں تو ان پر کئی خفیہ گوشے واضح ہوں گے اس کا اعلان ہے کہ اقتدار میں دیتا ہوں اور یہ بھی اعلان ہے کہ اقتدار کے لیے عوام کی خدمت لازم ہے اور شرط ہے ۔ میں کبھی مغربی اقوام کے عالمی اقتدار پر غورکرتا ہوں تو مجھے ان کی حکومتوں میں ''ما ینفع الناس'' یعنی جو عوام کو نفع دیتا ہے واضح دکھائی دیتا ہے۔ اس کے برعکس مسلمان ممالک میں حکومتیں عوام کی خدمت سے پوری طرح جی چراتی ہیں بلکہ ان کے مفادات کے خلاف کام بھی کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی دنیا آزاد نہیں ہے ان کی حکومتوں کے اقتدار ڈانواں ڈول رہتے ہیں کیونکہ وہ رب الناس کی عائد شرط پر پورے نہیں اترتے۔
برصغیر کی تاریخ میں ہمیں صرف ایک سیاستدان ایسا نظر آتا ہے اور وہ ہے محمد علی جناح جس نے صاف ستھری اور منافتوں سے پاک سیاست کی تھی ۔ جبھی تواپنے ایک غیر پاکستانی سوانح نگار کے مطابق انسانی تاریخ کا منفرد اور یکتا کارنامہ ''قیام پاکستان'' سر انجام دیا تھا عمران خان کی باتیں یہ عندیہ دے رہی ہیں کہ وہ سیاست کے اس انداز کو اپنانے کی جرات اور جسارت کرنے پر تیار ہیں اس پر ان کو مزید غور کرناچاہیے۔ وہ اس وقت ایک قابل رشک کامیابی رکھنے والے سیاستدان ہیں ۔ وہ سیاست کے گردو غبارمیں سے اچانک باہر آئے ہیں ۔ نہ گھر میں سیاست نہ کاروبار کوئی ایسا تھا جس کا سیاست سے تعلق ہوتا اور نہ ہی دوست احباب ایسے تھے لیکن ان سب کمزوریوں اور ناداریوں کے باوجود وہ سیاست کے میدان میں ایک امید بن کر ابھرے ہیں اور آج کے کامیاب ترین سیاستدان ہیں ۔ وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ خود مثال بنیں گے اور تا کہ پاکستانی ان کی تقلید کریں ۔ اسی بات کا عوام انتظار کر رہے ہیں کوئی تو ایسا لیڈر بھی ہو جو ان کی طرح کا ہو۔
عوام کو اپنے ساتھ چلانے کے لیے ان کے ساتھ چلنا پڑتا ہے اور پاکستان کے معصوم عوام اپنے لیڈروں سے بہت زیادہ ڈسے جا چکے ہیں اب وہ کوئی قربانی دینے کو تیار نہیں بلکہ قربانی مانگتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ سے قربانی دیتے آئے مگر اب وقت آگیا ہے کہ لیڈر قوم کے لیے قربانی دے اور عمران خان اس قربانی کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ بے چینی سے عمران کے منتظر ہیں ان کے پیش رو سیاستدانوں اور حکمرانوں نے بھی بڑے بڑے دعوے کیے تھے اور مثالیں قائم کرنے کی باتیں کیں تھیں لیکن وہ صرف باتوں تک ہی محدود رہے اور اقتدار ان کو ان کے وعدوں سے کہیں دور لے گیا اور بالآخر وہ اقتدار کا ہی شکار بن گئے۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ اگر ایک مثالی حکومت نہ دے سکے تو ان کا حشر زرداری اور نوازشریف کی حکومتوں سے بھی برا ہوگا اس لیے ان کی یہ کوشش اور خواہش ہے کہ ان کے ساتھ ایسا کچھ نہ ہو اور وہ عوام کے ووٹ کو عزت دیں اگر وہ سیاست کی دنیا میں کوئی نئی مثال قائم کر سکیں تویاد گار رہیں گے اور اقبال اور جناح کے پیرو کار ہونے کا حق ادا کریں گے۔