ووٹ کی عزت کے خلاف سازشیں
اشرافیہ کی کوشش تھی کہ اپوزیشن حلف نہ اٹھاکر ایک آئینی بحران پیدا کردے۔
اپوزیشن کے بعض اکابرین اس قدر بے صبرے ہو رہے تھے کہ انتخابی نتائج ابھی پوری طرح اناؤنس بھی نہیں ہوئے تھے کہ یہ حضرات تحریک شروع کرنے پر بضد تھے اور اپنیساتھیوں کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ پارلیمنٹ میں حلف برداری سے پرہیز کریں کیونکہ اگر احتیاط کو بالائے طاق رکھ کر حلف لینے میں جلدی کی گئی تو اس کے نتیجے میں کالا بخار ہو سکتا ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بخار جان لیوا ہو سکتا ہے۔
اس جلد بازی کے نتائج کو سمجھنے والے اور چاروں اطراف پر نظر رکھنے والے بابوں نے ان جلد بازوں کو سمجھایا کہ جلدی کاکام محاورے کے مطابق شیطان کا ہوتا ہے، ذراتوقف فرمائیے سب کچھ آپ کی مرضی کے مطابق ہو گا۔ اس عقلیاتی دم دلاسے کے نتیجے میں جلد بازوں کو صبر کرنا پڑا اور سیانے ساتھیوں کے مشورے پر پارلیمنٹ میں حلف اٹھانے پر بھی تیار ہوگئے، لیکن اس بات پر بہرحال اڑ گئے کہ احتجاج پارلیمنٹ کے اندر بھی ہوگا اور پارلیمنٹ کے باہر بھی، لیکن اس بات کی غالباً وضاحت نہیں کی گئی کہ احتجاج نرم ہوگا یا پہیہ جام قسم کا۔
بہرحال احتجاج ضرور ہوگا، احتجاج اگر پارلیمنٹ کے اندر ہوگا تو پارلیمنٹ کا کام ٹھپ ہوجائے گا اور اگر سڑکوں پر ہوگا تو عوام کا کام ٹھپ ہوجائے گا۔2013ء کے الیکشن بھی دھاندلیوں کے حوالے سے بدنام تھے لیکن نہ کسی بابو نے احتجاج کی کال دی، نہ کسی بابے نے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انتخابات کے نتیجے میں کوئی عمران جیسا منہ پھٹ نہیں تھا بلکہ سب کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سرکڑھائی میں تھا۔
عمران خان کا تعلق نہ صرف مڈل کلاس سے ہے بلکہ اس میں مڈل کلاس کی ''پہلے آپ'' والی اخلاقیات بھی ہے، اسی اخلاقیات کے زیر اثر عمران نے کہا کہ میں وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہوں گا بلکہ اسپیکر ہاؤس بھی مل جائے تو میرا گزارا ہو جائے گا۔ اس عاجزانہ خواہش کی توصیف کرنے کے بجائے ہماری محترم اور ''عوامی اپوزیشن'' نے شور مچانا شروع کیا کہ اسپیکر ہاؤس تو پارلیمنٹ کی ملکیت ہے اس میں وزیراعظم کیسے رہ سکتا ہے، وزیر اعظم کا تعلق بھلا پارلیمنٹ سے کیا ہوسکتا ہے؟
پارلیمنٹ کے حقیقی مالک عوام ہوتے ہیں اورہماری جمہوریت کے علم بردار کہتے ہیں انتخابات میں عوام جس لیڈر کو چن لیتے ہیں پارلیمنٹ اس کا سیکنڈ گھر ہوتا ہے، ہم حیران ہیں کہ کیا جمہوری سیاست اس قدر گئی گزری ہوتی ہے کہ وزیراعظم ازراہ سادگی وزیر اعظم ہاؤس میں قیام کے بدلے اسپیکر ہاؤس میں قیام کرنے کو ترجیح دے رہا ہے تو اس کی سادگی کی تعریف کرنے کے بجائے یہ بتایا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم اسپیکر ہاؤس میں اس لیے نہیں ٹھہر سکتا کہ اسپیکر ہاؤس پارلیمنٹ کی ملکیت ہے، اس میں وزیر اعظم قیام نہیں کرسکتا۔ ہماری رائج الوقت جمہوریت میں اسپیکر وزیر اعظم سے بڑا ہوتا ہے اس کا استحقاق بھی بڑا ہوتا ہے۔
اس قسم کی ہلکی ذہنیت اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ ملک پارلیمنٹ، وزیر اعظم ہاؤس اسپیکر ہاؤس گورنر ہاؤس چیف منسٹر ہاؤس اور ایوان صدر سب کے مالک عوام ہیں اور 71 سال سے عوام کو یہ باور کراکر رکھا جا رہا ہے کہ تم کچی بستی کے ایک کچے مکان کے مالک ہو، اس 71 سالہ فریبی اور دھوکا باز کلچر کا پردہ پہلی بار ایک مڈل کلاسر اٹھا رہا ہے اور اس خوف سے کہ اگر عوام جمہوریت کو جمہوریت میں اپنے مقام جمہوریت میں اپنی طاقت کو پہچاننے لگیں تو پھر انھیں کچی بستیوں میں پہنچا دیں گے۔ اس خوف نے ان کے ہوش حواس گم کردیے ہیں ۔
عمران خان نے ابھی اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھایا ہے، اشرافیہ کی کوشش تھی کہ اپوزیشن حلف نہ اٹھاکر ایک آئینی بحران پیدا کردے لیکن 70 سالہ پرانے گھاگ سیاستدان جانتے ہیں کہ ایسا کرنا کئی خطروں کو دعوت دینا ہے، سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اپوزیشن کے بیسیوں ارکان کی جان نیب کے پنجے میں پھنسی ہوئی ہے، اگر ذرا اونچی اڑان کی طرف جاتے ہیں تو ڈوری کھنچ جاتی ہے۔ اپنے طبقاتی بھائیوں کو اڈیالہ کے وزیراعظم ہاؤس میں محسوس کرکے ان مہان ہستیوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں اوروہ ایسے کسی کام سے دور بھاگتے ہیں جو انھیں اڈیالہ سے نزدیک کرسکتا ہے۔
2014ء میں بھی عمران خان کے خوف سے اپوزیشن متحد ہوگئی تھی، بدقسمتی سے ہماری اپوزیشن دو بڑی اشرافیائی پارٹیوں پر مشتمل ہے باقی سب باراتی ہیں اور وہی کچھ کرتے ہیں جو اشرافیہ انھیں بتاتی ہے، برا ہو پاناما لیکس کا اس نے پہلی بار دنیا کی اشرافیہ کے چہروں پر پڑے پردوں کو ہٹا دیا ہے اور عوام ان کے اصلی چہرے دیکھ کر گھن کھا رہے ہیں۔ اب رعب داب کا فسوں بے اثر ہوتا جا رہا ہے، اس صورتحال کو سنبھالا دینے کے لیے اقتدار ضروری ہے اور بدقسمتی سے عوام نے اس بار دشمن کو سب سے زیادہ ووٹ دے کر ''ووٹ کی عزت'' کا بھرم رکھ لیا ہے، بے خیالی میں ''ووٹ کو عزت دو'' کا نعرہ لگانے والوں کو اگر یہ علم یا اندازہ ہوتا کہ عوام ووٹ کو حقیقی معنوں میں عزت دیں گے تو شاید یہ نعرہ لگایا ہی نہ جاتا۔
ہم نے اپنے پچھلے کالم میں کہا تھا کہ ہمارا اگلا کالم عمران خان کی کوتاہیوں کے جائزے پر مشتمل ہوگا لیکن اپوزیشن کی جمہوریت نوازی اور اندر اور باہر کی تحریکوں کے اعلان کی وجہ سے ہم اپنا وعدہ وفا نہ کرسکے، عوام بلاشبہ قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں لیکن اپنی قوت کے درست استعمال پر ہی قوت کا سرچشمہ سرخرو ہوسکتا ہے، عوام کا امتحان ہے کہ وہ اپنے طبقاتی دوستوں اور دشمنوں کو پہچانیں ورنہ قوت کا سرچشمہ طبقاتی دشمنوں کے ہاتھوں میں بھی جاسکتا ہے۔ ہمارا یہ کالم چھپنے تک بہت کچھ ہوچکا ہوگا۔
اس جلد بازی کے نتائج کو سمجھنے والے اور چاروں اطراف پر نظر رکھنے والے بابوں نے ان جلد بازوں کو سمجھایا کہ جلدی کاکام محاورے کے مطابق شیطان کا ہوتا ہے، ذراتوقف فرمائیے سب کچھ آپ کی مرضی کے مطابق ہو گا۔ اس عقلیاتی دم دلاسے کے نتیجے میں جلد بازوں کو صبر کرنا پڑا اور سیانے ساتھیوں کے مشورے پر پارلیمنٹ میں حلف اٹھانے پر بھی تیار ہوگئے، لیکن اس بات پر بہرحال اڑ گئے کہ احتجاج پارلیمنٹ کے اندر بھی ہوگا اور پارلیمنٹ کے باہر بھی، لیکن اس بات کی غالباً وضاحت نہیں کی گئی کہ احتجاج نرم ہوگا یا پہیہ جام قسم کا۔
بہرحال احتجاج ضرور ہوگا، احتجاج اگر پارلیمنٹ کے اندر ہوگا تو پارلیمنٹ کا کام ٹھپ ہوجائے گا اور اگر سڑکوں پر ہوگا تو عوام کا کام ٹھپ ہوجائے گا۔2013ء کے الیکشن بھی دھاندلیوں کے حوالے سے بدنام تھے لیکن نہ کسی بابو نے احتجاج کی کال دی، نہ کسی بابے نے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انتخابات کے نتیجے میں کوئی عمران جیسا منہ پھٹ نہیں تھا بلکہ سب کی پانچوں انگلیاں گھی میں اور سرکڑھائی میں تھا۔
عمران خان کا تعلق نہ صرف مڈل کلاس سے ہے بلکہ اس میں مڈل کلاس کی ''پہلے آپ'' والی اخلاقیات بھی ہے، اسی اخلاقیات کے زیر اثر عمران نے کہا کہ میں وزیر اعظم ہاؤس میں نہیں رہوں گا بلکہ اسپیکر ہاؤس بھی مل جائے تو میرا گزارا ہو جائے گا۔ اس عاجزانہ خواہش کی توصیف کرنے کے بجائے ہماری محترم اور ''عوامی اپوزیشن'' نے شور مچانا شروع کیا کہ اسپیکر ہاؤس تو پارلیمنٹ کی ملکیت ہے اس میں وزیراعظم کیسے رہ سکتا ہے، وزیر اعظم کا تعلق بھلا پارلیمنٹ سے کیا ہوسکتا ہے؟
پارلیمنٹ کے حقیقی مالک عوام ہوتے ہیں اورہماری جمہوریت کے علم بردار کہتے ہیں انتخابات میں عوام جس لیڈر کو چن لیتے ہیں پارلیمنٹ اس کا سیکنڈ گھر ہوتا ہے، ہم حیران ہیں کہ کیا جمہوری سیاست اس قدر گئی گزری ہوتی ہے کہ وزیراعظم ازراہ سادگی وزیر اعظم ہاؤس میں قیام کے بدلے اسپیکر ہاؤس میں قیام کرنے کو ترجیح دے رہا ہے تو اس کی سادگی کی تعریف کرنے کے بجائے یہ بتایا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم اسپیکر ہاؤس میں اس لیے نہیں ٹھہر سکتا کہ اسپیکر ہاؤس پارلیمنٹ کی ملکیت ہے، اس میں وزیر اعظم قیام نہیں کرسکتا۔ ہماری رائج الوقت جمہوریت میں اسپیکر وزیر اعظم سے بڑا ہوتا ہے اس کا استحقاق بھی بڑا ہوتا ہے۔
اس قسم کی ہلکی ذہنیت اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ ملک پارلیمنٹ، وزیر اعظم ہاؤس اسپیکر ہاؤس گورنر ہاؤس چیف منسٹر ہاؤس اور ایوان صدر سب کے مالک عوام ہیں اور 71 سال سے عوام کو یہ باور کراکر رکھا جا رہا ہے کہ تم کچی بستی کے ایک کچے مکان کے مالک ہو، اس 71 سالہ فریبی اور دھوکا باز کلچر کا پردہ پہلی بار ایک مڈل کلاسر اٹھا رہا ہے اور اس خوف سے کہ اگر عوام جمہوریت کو جمہوریت میں اپنے مقام جمہوریت میں اپنی طاقت کو پہچاننے لگیں تو پھر انھیں کچی بستیوں میں پہنچا دیں گے۔ اس خوف نے ان کے ہوش حواس گم کردیے ہیں ۔
عمران خان نے ابھی اپنے عہدے کا حلف نہیں اٹھایا ہے، اشرافیہ کی کوشش تھی کہ اپوزیشن حلف نہ اٹھاکر ایک آئینی بحران پیدا کردے لیکن 70 سالہ پرانے گھاگ سیاستدان جانتے ہیں کہ ایسا کرنا کئی خطروں کو دعوت دینا ہے، سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اپوزیشن کے بیسیوں ارکان کی جان نیب کے پنجے میں پھنسی ہوئی ہے، اگر ذرا اونچی اڑان کی طرف جاتے ہیں تو ڈوری کھنچ جاتی ہے۔ اپنے طبقاتی بھائیوں کو اڈیالہ کے وزیراعظم ہاؤس میں محسوس کرکے ان مہان ہستیوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں اوروہ ایسے کسی کام سے دور بھاگتے ہیں جو انھیں اڈیالہ سے نزدیک کرسکتا ہے۔
2014ء میں بھی عمران خان کے خوف سے اپوزیشن متحد ہوگئی تھی، بدقسمتی سے ہماری اپوزیشن دو بڑی اشرافیائی پارٹیوں پر مشتمل ہے باقی سب باراتی ہیں اور وہی کچھ کرتے ہیں جو اشرافیہ انھیں بتاتی ہے، برا ہو پاناما لیکس کا اس نے پہلی بار دنیا کی اشرافیہ کے چہروں پر پڑے پردوں کو ہٹا دیا ہے اور عوام ان کے اصلی چہرے دیکھ کر گھن کھا رہے ہیں۔ اب رعب داب کا فسوں بے اثر ہوتا جا رہا ہے، اس صورتحال کو سنبھالا دینے کے لیے اقتدار ضروری ہے اور بدقسمتی سے عوام نے اس بار دشمن کو سب سے زیادہ ووٹ دے کر ''ووٹ کی عزت'' کا بھرم رکھ لیا ہے، بے خیالی میں ''ووٹ کو عزت دو'' کا نعرہ لگانے والوں کو اگر یہ علم یا اندازہ ہوتا کہ عوام ووٹ کو حقیقی معنوں میں عزت دیں گے تو شاید یہ نعرہ لگایا ہی نہ جاتا۔
ہم نے اپنے پچھلے کالم میں کہا تھا کہ ہمارا اگلا کالم عمران خان کی کوتاہیوں کے جائزے پر مشتمل ہوگا لیکن اپوزیشن کی جمہوریت نوازی اور اندر اور باہر کی تحریکوں کے اعلان کی وجہ سے ہم اپنا وعدہ وفا نہ کرسکے، عوام بلاشبہ قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں لیکن اپنی قوت کے درست استعمال پر ہی قوت کا سرچشمہ سرخرو ہوسکتا ہے، عوام کا امتحان ہے کہ وہ اپنے طبقاتی دوستوں اور دشمنوں کو پہچانیں ورنہ قوت کا سرچشمہ طبقاتی دشمنوں کے ہاتھوں میں بھی جاسکتا ہے۔ ہمارا یہ کالم چھپنے تک بہت کچھ ہوچکا ہوگا۔