جناح کا پاکستان

جناح برٹش انڈیا میں اقلیتوں کے مساویانہ حقوق اور صوبائی خودمختاری کے سب سے بڑے داعی اور وکیل تھے۔

muqtidakhan@hotmail.com

کل کا سورج جب طلوع ہوگا تو اس ملک کے قیام کو اکہتر برس مکمل ہوچکے ہوں گے۔ اس دوران ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ اس معاملہ کے مختلف پہلوئوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ اس پر طرہ یہ کہ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اکہتر برس گزر جانے کے باجود یہ فیصلہ نہیں ہوسکا کہ اس ملک کی سمت کیا ہوگی؟ اور اس کا نظم حکمرانی کیا ہوگا؟

کوئی اسے اسرائیل سے تشبیہ دیتے ہوئے تھیوکریٹک ریاست بنانے پر اصرار کررہا ہے۔ کوئی آئرلینڈ کی نظیر پیش کرتے ہوئے جدید ریاست بنانے کی بات کررہا ہے، جس نے آزادی کے حصول کے لیے مذہب کا سہارا تو ضرور لیا، لیکن آزادی کے بعد ایک جدید جمہوریہ کے طور پر اپنا تشخص تشکیل دیا۔ مگر کسی نے بانیان ملک کے تصور ملک کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

پاکستان کے قیام کے اسباب اور اس کے وجود کو سمجھنے کے لیے نہ بیوروکریسی کے سرخیل چوہدری محمد علی اور ان کے مخصوص نوکرشاہی کے ٹولے کے اقدامات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی مذہبی رہنمائوں اور اکابرین کی تشریحات و تفسیر پر تکیہ کرنے سے اس ملک کے قیام کے مقاصد کو سمجھا جاسکتا ہے۔ پاکستان کو سمجھنے کے لیے اس کے بانیان بالخصوص محمد علی جناح جنھیں اہل پاکستان عقیدت واحترام میں قائد اعظم کہتے ہیں، ان کی 1916ء سے 1946ء کے دوران سیاسی وفکری سرگرمیوں کا غیر جانبدارانہ جائزہ لینا ضروری ہے۔

ان کے طرزحیات، سیاسی نظریات اور سماجی تعلقات کے بارے میں نکتہ نظر کو سمجھنے کے لیے ان پر لکھی گئی کتابیں، مقالے اور دیگر تحاریر کا عرق ریزی کے ساتھ مطالعہ کی ضرورت ہے۔ ان کے سیاسی کردار اور فکری میلانات کو سمجھنے کے لیے شخصیت پرستی اور عقیدت مندی کے سحر سے باہر نکل کر حالات کی معروضیت اور تاریخ کے جبر کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ اس پہلو کو بھی سمجھنا ہوگا کہ اس دور کے برصغیر میں ایک سے بڑھ کر ایک جید عالم کی موجودگی میں مسلمانانِ ہند نے ایک کاٹھیاواڑی وکیل جس کا طرز حیات مکمل طورپر مغربی تھا، اپنی قیادت کے لیے کیوں منتخب کیا؟

جناح کے تصورات کو سمجھنے کے لیے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، ان کی 1916ء سے 1946ء کے دوران 30 سالہ سیاسی سرگرمیوں کا مطالعہ کیا جائے، تو یہ بات بالکل واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ جناح برٹش انڈیا میں اقلیتوں کے مساویانہ حقوق اور صوبائی خودمختاری کے سب سے بڑے داعی اور وکیل تھے۔ اس کے علاوہ وہ آزادی اظہار اور محنت کشوں کے حقوق کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ بمبئی کرانیکل نامی اخبار پر پابندی کے خلاف آواز اٹھانا اور 1926ء میں مرتب کیے جانے والے انڈسٹریل ریلیشن قوانین میں مزدور دوست شقیں شامل کروانا، ان کے فکری رجحانات کی واضح طور پر عکاسی کرتے ہیں۔


دسمبر 1916ء کا لکھنو پیکٹ اور 1929ء میں نہرو رپورٹ کے ردعمل میں پیش کردہ چودہ نکات ان کی وسیع البنیاد سیاسی بصیرت کے منہ بولتے ثبوت تھے۔ گو کہ مارچ 1940ء میں آل انڈیا مسلم لیگ شمال مغربی اور جنوب مشرقی ہند میں مسلم اکثریتی ریاستوں کی خود مختاری کی قرارداد منظور کرچکی ہوتی ہے۔ مگر اس کے باوجود قائداعظم نے 1946ء (کابینہ مشن) تک ہندوستان کو متحد رکھنے اور تقسیم سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مگر کانگریس میں موجود اعلیٰ جاتیوں (Upper Caste) نے ان کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ کیونکہ انھیں خطرہ تھا کہ اگر مسلمان اور نچلی جاتیوں (Untouchables) کے درمیان اتحاد قائم ہوگیا، تو اوپری ذات کے ہندوئوں کے لیے اقتدار میں رہنا ممکن نہیں رہے گا۔ یہ نکتہ کئی کتابوں بالخصوص جسونت سنگھ کی کتاب میں بھی موجود ہے۔

اگر جناح بنیاد پرست مسلمان ہوتے اور قیام پاکستان کا مقصد ایک تھیوکریٹک ریاست ہوتا، تو وہ ماسٹر تارا سنگھ سے ملاقات کرکے انھیں پاکستان میں شمولیت کی دعوت نہ دیتے۔ انھیں یہ یقین نہ دلاتے کہ سکھوں کے پاکستان میں شامل ہوجانے کی صورت میں انھیں نہ صرف مساوی شہری حقوق حاصل ہوں گے، بلکہ پنجاب کی سرکار میں انھیں مساوی حصہ بھی دیا جائے گا۔ انھیں یہ بھی اندازہ تھا کہ دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پورے برصغیر میں پھیلے مسلمانوں کو ہندوستان کے کسی ایک حصے میں جمع کرنا اور اس اصول کی بنیاد پر مملکت کا حصول ممکن نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل خودمختار ریاستوں (States) کا تصور پیش کیا، وہ چاہتے تھے کہ ان ریاستوں کا ہندو اکثریتی صوبوں پر مشتمل ریاستوں کے ساتھ کنفیڈریشن ہو، تاکہ ہندوستان ایک اکائی کے طور پر عالمی منظرنامہ پر ابھرے (بحوالہ عائشہ جلال)۔

انھیں اس بات کا بھی اندازہ تھا کہ نئے ملک میں مسلمانوں کے تمام فرقوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ غیر مسلم بھی اس ریاست کے شہری ہوں گے۔ چنانچہ پاکستان کے قومی جھنڈے میں سفید پٹی اور دستورساز اسمبلی سے پالیسی تقریر ان کے فکری رجحانات اور نئی ریاست کے مستقبل کے بارے میں ان کی سوچ کا واضح اظہار ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے برطانیہ جاتے ہوئے ایک ایسا ہندوستان چھوڑکر جانے کی منصوبہ بندی کرچکا تھا، جو اس کے بعد امریکا کا دست نگر ہو۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنی تربیت یافتہ بیوروکریسی کو استعمال کیا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ جیسے ہی تقسیم ہند یقینی ہوئی، چوہدری محمد علی کی زیر قیادت سینئر بیوروکریٹس کے ایک ٹولہ نے درپردہ جناح کے تصور ریاست پر انتہائی مہارت کے ساتھ نقب زنی شروع کردی۔ اس عمل کا پہلا مظاہرہ بانی پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں کئی گئی تقریر کا سنسر کیا جانا تھا۔ جسے اس زمانے کے روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین نے جزوی طور پر ناکام بنادیا۔ مگر یہ سلسلہ قائد کی وفات کے بعد زیادہ شدومد کے ساتھ شروع ہوگیا۔ پاکستان کے تصور ریاست کو کنفوژن کا شکار کرنے میں بیوروکریسی کے اسی ٹولے کا کلیدی کردار ہے، جس میں دیگر ریاستی ادارے اپنے ادارہ جاتی مفاد میں حصہ دار بنتے چلے گئے۔

بیوروکریسی کے اس مخصوص ٹولے نے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ان تمام مذہبی جماعتوں اور ان کے اکابرین کو پاکستان آنے کی دعوت دی، جو 13 اگست 1947ء تک پاکستان کے مخالف تھے۔ ان مذہبی رہنمائوں نے پاکستان کے تشخص اور شناخت کو تنگ نظر مسلکی فکر سے منسلک کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان کے عوام کو جب بھی آزادانہ انتخاب کا موقع ملا، انھوں نے مذہب (زیادہ تر مسلک) کے نام پر قائم جماعتوں کو رد کیا ہے۔ ان کا ووٹ بینک پاکستان میں کبھی 8 فیصد سے زیادہ نہیں رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ملک کے بعض اداروں اور نادیدہ قوتوں کی سرپرستی کے باعث نہ صرف یہ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں، بلکہ ریاستی پالیسی سازی پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔

2018ء کے انتخابات کے بارے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے تحفظات اپنی جگہ، لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام نے ایک بار پھر مسلکی بنیادوں پر قائم مذہبی جماعتوں کو رد کردیا ہے۔ اب یہ اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف پر منحصر ہے کہ وہ کسی حد تک ان جماعتوں کے دبائو سے خود آزاد کرکے جناح کے تصور پاکستان کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر تحریک انصاف واقعی تبدیلی کی خواہاں ہے، تو اسے دیگر اقدامات کے ساتھ جناح کا اصل پاکستان بحال کرنا ہوگا۔ جو مذہبی جماعتوں کے پالیسی سازی پر گڑے غیرآئینی پنجوں سے نجات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
Load Next Story