نیا گھر بسانا ہے۔۔۔

رشتہ طے کرنے کے معیارات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے

رشتہ طے کرنے کے معیارات پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

خداوند کریم نے عورت کا ایک خوب صورت روپ بیٹی کی صورت میں عطا کیا ہے۔

بیٹی کی پیدایش یقیناً ایک خاندان کی تکمیل کرتی ہے۔ مرد بیٹی کا باپ بننے کے بعد اپنے اوپر ایک احساسِ اور ذمہ داری محسوس کرتا ہے، جس میں خوشی کی آمیزش اور سکون بھی پنہاں ہوتا ہے۔ بچیوں کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ کسی نازک پودے کی مانند اُسے زندگی کے بدلتے موسموں، دکھوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ یوں یہ ننھی سی گڑیا جوانی کی دہلیز پہ قدم رکھتی ہے اور پھر والدین اُس کے رشتے کی تلاش کے لیے فکر مند ہونے لگتے ہیں۔

ہمارا معاشرہ جس تیزی سے تبدیلی کی روش پہ ہے۔ اُس میں معیاری رشتوں کی تلاش ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش جہاں بیٹی والوں کو ہوتی ہے وہیں بیٹے کے لیے بھی گھر گھر لڑکی دیکھنے کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ مسئلہ جتنا آسان اور سادہ نوعیت کا نظر آتا ہے، در حقیقت اُتنا ہی سنگین ہے۔ جس کی بنیاد پر ہمارے معاشرے میں بہت سی اخلاقی قدروں کو پامال کیا جا رہا ہے۔

لڑکے والے بڑے رعب اور دبدبے اور شان کے ساتھ لڑکی دیکھنے کے لیے تشریف فرما ہوتے ہیں۔ لڑکی والے آؤ بھگت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اب یہ لڑکے والوں کا فیصلہ کہ وہ سرسری نگاہ ڈال کے آگے بڑھ جائیں یا بات آگے بڑھائیں۔ زیادہ تر رشتے رد ہونے کے اسباب میں خوب صورتی کی کمی، چھوٹا قد، مُٹاپا، زاید عمر وغیرہ شامل ہیں، لیکن ان تمام عوامل میں پیسے کی ریل پیل بھی بد قسمتی سے بہت اہم کردار ادا کرنے لگی ہے۔

لڑکی کو شوکیس میں رکھے کسی آرایشی چیز کی طرح پیش کیا جاتا ہے۔ بارہا لڑکے والے آتے ہیں اور نہ جانے کتنی بار لڑکی کو اُن کے سامنے لایا جاتا ہے۔ بر ابر رد کیے جانے یا بات نہ بننے کی صورت میں یہ سلسلہ بعض اوقات سالہا سال چلتا رہتا ہے۔ یوں اُس معصوم ننھی پری کی خوشیاں مانند پڑنا شروع ہو جاتی ہیں۔ عمر کا بڑھنا ہر سال اُسے اپنی ہی ذات میں ایک مجرم محسو س کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ بعض اوقات کم مائیگی کا احساس جسمانی اور ذہنی عوارض کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ والدین غیر شعوری طور پر بیٹی کی شادی کی طرف سے اتنے فکرمند ہو جاتے ہیں، کہ وہ اپنی ہی بیٹی میں احساس کم تری کو جگانے لگتے ہیں اور وہ لڑکی خود کو والدین پر بوجھ سمجھنے لگتی ہے۔ والدین ان جانے میں اُسی بیٹی کی شخصیت تباہ کردیتے ہیں جسے انہوں نے پھولوں کی طرح رکھا ہوتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ لڑکیوں کے رشتے بالکل ہی نہیں آتے۔ بچیوں والے ہر گھر میں ان پیغامات کا سلسلہ رہتا ہے۔ پھر رشتے کی تلاش میں اِتنے مسائل کیوں ہیں؟ اِس صورت حال کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر ڈالنا نا انصافی ہوگی۔ ہمارے زاویۂ نگاہ سے دونوں ہی فریق برابر کے ذمہ دار ہیں۔ رشتوں کی تلاش میں مسائل کی سب اہم وجہ اُس پیمانے اور معیار میں تبدیلی ہے جو ہم نے اپنا لیے ہیں۔ رشتہ ایسی جگہ کرنا چاہیے، جو سیرت و کردار، تعلیم، دیانت داری اور حسن اخلاق جیسی دولت سے مالا مال ہو۔ یہ خوبیاں جس میں بھی ہوںگی، وہ یقینا ایک پاکیزہ بہتر اور سمجھ دار جیون ساتھی کی حیثیت سے ساتھ نبھائے گا، لیکن ہمارے معاشرے میں اب رشتوں کی تلاش کے لیے واحد پیمانہ دولت مقرر کر دیا گیا ہے۔

والدین عموماً اپنی بیٹی کے لیے ایسے رشتے کی تلاش میں ہوتے ہیں، جو نہ صرف اچھا کھاتا کماتا ہو، بلکہ عمر میں بھی مناسب ہو، ساتھ ہی گھر ذاتی ملکیت کا ہو۔ خاندان بڑا نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔ ذرا سوچیے جس لڑکے میں اتنے گن ہوں گے وہ تیس سال سے کم کا تو ہونے سے رہا۔ پڑھائی، نوکری، عہدہ اور پھر گھر بنانے تک بالوں میں سفیدی آہی جائے گی۔ کماؤ پوت 38 سال کے لڑکے کے لیے چندے آفتاب، چندے ماہتاب 18 سالہ لڑکی کی تلاش شروع کر دی جاتی ہے اور اَٹھائیس تیس برس کی لڑکیاں اکثر اچھے رشتوں کی تلاش میں بیٹھی رہ جاتی ہیں۔ قسمت مہربان ہو جائے تو الگ بات ورنہ وقت ہاتھ سے نکلتا رہتا ہے۔


دوسرا اہم مسئلہ لڑکی کا ملازمت پیشہ ہونا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ جو وسیع النظری کا دعوا کرتے ہیں۔ وہ اپنے روشن خیالی کے خانے سے ملازمت پیشہ لڑکیوں کو خارج کر دیتے ہیں۔ اُن کے خیال میں نوکری کرنے والی لڑکیاں اچھی خاتونِ خانہ ثابت نہیں ہو سکتیں۔ پڑھائی کے بعد رشتہ طے نہ ہو تو پھر بہت سی لڑکیاں ضرورت نہ ہونے کے باوجود ملازمت اختیار کر لیتی ہیں۔ بات ذرا تلخ مگر صد فی صد حقیقت پر مبنی ہے کہ یہ سارے مسائل ہمارے خود ساختہ ہیں۔ بہر صورت یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے ہر طرف عتاب کا نشانہ لڑکیاں ہی بنتی ہیں۔ کسی اور پہ تو زور نہیں، لیکن والدین چاہیں تو اپنی بیٹیوں کو اِس عذاب سے خود ہی بہت آسانی سے نکال سکتے ہیں۔ فقط کوشش کر کے اپنے نظریات اور اپنی تلاش کے پیمانے بدلنے ہوں گے۔

٭سب سے پہلے تو بیٹی کے جوان ہوتے ہی گھر میں بات بے بات اُس کی شادی یا شادی کے بعد کی زندگی کا ذکر مت کیجیے۔ اِس طرح وہ غیر شعوری طور پر بہت چھوٹی عمر سے ہی شادی کے خواب بُننا شروع کر دیتی ہے، جو کہ اُس کی شخصیت پر بعض اوقات منفی اثرات بھی مرتب کرتا ہے۔

٭اکثر والدین بیٹی کے اٹھارہ بیس سال کی عمر سے دن رات اِسی فکر میں مبتلا نظر آتے ہیں کہ رشتے کیوں نہیں آرہے؟ جو کہ بالکل غلط ہے۔ والدین کی فکر بجا، لیکن یہ بھی خیال رکھیں کہ اس کا ازالہ لڑکی کو بوجھ سمجھ کر ممکن نہیں۔ ایسا کرنے سے اُس لڑکی کی خود اعتمادی ختم ہو جاتی ہے جواس کی قوت فیصلہ کو متاثر کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی خیال رہے کہ ابھی شادی کی عمر نکلی نہیں ہے۔

٭رشتہ آنے کی صورت میں جلد بازی میں انکار کرنا عقل مندی نہیں۔ اچھی طرح غور وفکر اور چھان بین کر لیں۔ اگر لڑکا شریف، خاندانی اور برسرروزگارہے تو ضرور سوچیے۔ صرف پیسے، شکل و صورت، عمر یا گھر کے ذاتی ملکیت کے ہونے نا ہونے کو عذر بنانا حماقت ہے۔

٭رشتہ چاہے اپنوں میں ہو یا غیروں میں، ہر موڑ پہ زندگی پہلے سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ اگر اُمیدوں کے مطابق بیٹی کے لیے بَر مل بھی جائے تو آگے کی زندگی بھی خوابوں کی مانند پرسکون اور آسایشوں سے بھرپور ہو۔

٭اپنی بیٹی کی تربیت کرتے وقت اُس کی شخصیت کو مضبوط بنانے کی کوشش کیجیے، اُسے اتنا اعتماد دیجیے کہ وہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کر سکے۔ آسایشوں کی کمی اُس کی زندگی پہ اثر انداز نہ ہو، بلکہ اُس میں خود اپنا گھر سنبھالنے کی صلاحیت ہو۔

٭من پسند رشتوں کی تلاش ایک طرف، مگر اس سے پہلے اپنی بیٹی کی شخصیت کو مکمل اور لچک دار بنائیے تاکہ وہ جس ماحول میں جائے اُس سے سمجھوتا کرنے کی خوبی موجودہو اور آپ اپنی بیٹی کے مستقبل میں اُس پر مکمل اعتماد کر سکیں کہ وہ چاہے جن لوگوں کے درمیان ہو اُس کی شخصیت دوسروں کو ضرور متاثر کرے گی۔

شادی بیاہ رشتے طے کرنا ایک نازک موڑ تو ہے، لیکن ظاہری چکا چوند سے مرعوب ہونے کے بجائے باطن پر بھی نظر رکھیں۔ شادی ایک ایسا راستہ ہے، جس پر دو فرد مل کر ایک نئی زندگی کا آغاز کرتے ہیں اور در حقیقت ہمیشہ ساتھ چلنے کا اقرار کرتے ہیں۔ بیٹی چاہے اپنی ہو یا پرائی۔ بیٹیاں سب کی ایک سی ہوتی ہیں، لڑکے کے رشتے طے کرتے ہوئے اخلاقی قدروں کی پامالی اپنی بیٹیوں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اگر ہر فرد انفرادی ذمہ داری رکھے تو یقینا ہم اپنی بیٹیوں کو پُر اعتماد اور محبت بھری فضا میں خو ب صورت زندگی دے سکتے ہیں۔
Load Next Story