تعلیم کو اولین اہمیت دی جانی چاہیے
پاکستان میں 2 کروڑ 70 لاکھ سے زائد بچے دیگر بہت سی نعمتوں کے ساتھ علم جیسی نعمت سے بھی محروم ہیں۔
KARACHI:
پاکستان میں 2 کروڑ 70 لاکھ سے زائد بچے دیگر بہت سی نعمتوں کے ساتھ علم جیسی نعمت سے بھی محروم ہیں۔ ان میں سے 70 لاکھ ایسے بچے بھی ہیں جنہوں نے کسی اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا اور نہ ہی انھیں ''ا،ب'' کا پتہ ہے۔ عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اسکولوں میں داخلے کی کم اور چھوڑنے کی بلند شرح 2 بڑے مسائل ہیں جن پر فوری طورپر قابو پایا جانا ضروری ہے۔اخباری رپورٹ کے مطابق اس وقت پنجاب میں سب سے زیادہ 13.5 ملین (یعنی ایک کروڑ پینتیس لاکھ) بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ جب کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں غربت کی وجہ سے بچے اسکولوں سے نکلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، خیبر پختونخوا، فاٹا اور بلوچستان کے دیہی علاقوں میں اسکول نہ ہونے کی وجہ سے بچے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھتے۔
کئی علاقوں میں اسکول صرف پرائمری یا مڈل تک اور گرلز اسکول نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں اور لڑکے لڑکیوں کی اکٹھے تعلیم حاصل کرنے کا تصور بھی دیہی علاقوں میں نہیں ہے۔ اسی وجہ سے یہاں لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کے بجائے الٹا حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 6 سے 16 سال کے دیہی علاقوں کے 23 فیصد اور شہری علاقوںکے 7 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان تعلیمی میدان کے لیے طے شدہ مقاصد 2015ء تک حاصل نہیں کر سکتا، اس وقت پرائمری تک تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی 50 فیصد بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے یہ ایک حوصلہ شکن تصویر ہے اور ایک ایسی افسوسناک مثال ہے جو تخلیق مملکت خدا داد میں ازل سے ہی نظر آ رہی ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں جب آئے دن وزارتیں ٹوٹتی اور بنتی تھیں اور جس کے بارے میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے مذاق میں کہا تھا کہ میں اتنی جلدی دھوتیاں تبدیل نہیں کرتا جتنی تیزی سے پاکستان میں وزارتیں بدل جاتی ہیں۔
غالباً اسی ہڑبونگ کے نتیجے میں ملک پر مارشل لاء لگ گیا اور ملک و قوم کی درست سمت ہی اوجھل ہو گئی۔ گو کہ بہانہ بازی کے لیے دلائل ڈھونڈنا بھی کوئی کٹھن کام نہیں جیسے فارسی والے کہتے ہیں کہ ''خوئے بدرا بہانۂ بسیار''مطلب یہ کہ عادت بری ہو تو بہانوں کی کیا کمی۔ لہذا ہمارے ارباب اختیار کو اعتراف کر لینا چاہیے کہ انھوں نے اپنے بنیادی فرائض سے کما حقہ انصاف نہیں کیا۔ اور اقوام عالم میں ہماری پہچان ایک پسماندہ اور جاہل قوم کی رہ گئی ہے۔ ہمارا سبز پاسپورٹ بے توقیر ہو گیا۔ دنیا بھر کے کسی دور دراز مقام پر کوئی ناخوش گوار واقعہ ہو جائے تو اس کے ڈانڈے فوراً ہی پاکستان یا پاکستانیوں سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اور کچھ نہیں تو ہماری بدنامی میں ہی مزید اضافہ ہو سکے۔
اہل دانش میں یہ گمان پایا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں سب سے زیادہ اہمیت تعلیم اور ٹیکنالوجی کی ہے۔ دنیا میں وہی ممالک با عزت اور بالادست ہیں جو تعلیم و ٹیکنالوجی میں آگے ہیں۔ تعلیم و ٹیکنالوجی میں ملک و قوم کی ناؤ پار لگانے میں استاد کا کردار سر فہرست ہے جسے ہمارے فرسودہ تعلیمی نظام میں سب سے پست درجے پر رکھ دیا گیا ہے۔ اس سے بھلا کس بنیاد پر یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ قوم کے بچوں میں ''مقدر کے سکندر'' قسم کے کامیاب کردار پیدا کریں۔ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں استاد کا مقام سب سے زیادہ عزت والا ہے اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کا اپنے کیریئر کے لیے اولین انتخاب درس و تدریس کا پیشہ ہی ہوتا ہے۔ ہمارا قومی خزانہ بے شک استاد کو بھاری تنخواہ فوری طور پر نہ دے سکے عزت و احترام تو دے سکتا ہے جس پر کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا۔ استاد کو تکریم دو وہ قوم کو عروج آشنا کر دے گا۔
پاکستان میں 2 کروڑ 70 لاکھ سے زائد بچے دیگر بہت سی نعمتوں کے ساتھ علم جیسی نعمت سے بھی محروم ہیں۔ ان میں سے 70 لاکھ ایسے بچے بھی ہیں جنہوں نے کسی اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا اور نہ ہی انھیں ''ا،ب'' کا پتہ ہے۔ عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے اسکولوں میں داخلے کی کم اور چھوڑنے کی بلند شرح 2 بڑے مسائل ہیں جن پر فوری طورپر قابو پایا جانا ضروری ہے۔اخباری رپورٹ کے مطابق اس وقت پنجاب میں سب سے زیادہ 13.5 ملین (یعنی ایک کروڑ پینتیس لاکھ) بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ جب کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں غربت کی وجہ سے بچے اسکولوں سے نکلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، خیبر پختونخوا، فاٹا اور بلوچستان کے دیہی علاقوں میں اسکول نہ ہونے کی وجہ سے بچے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھتے۔
کئی علاقوں میں اسکول صرف پرائمری یا مڈل تک اور گرلز اسکول نام کی کوئی چیز موجود ہی نہیں اور لڑکے لڑکیوں کی اکٹھے تعلیم حاصل کرنے کا تصور بھی دیہی علاقوں میں نہیں ہے۔ اسی وجہ سے یہاں لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کے بجائے الٹا حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 6 سے 16 سال کے دیہی علاقوں کے 23 فیصد اور شہری علاقوںکے 7 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان تعلیمی میدان کے لیے طے شدہ مقاصد 2015ء تک حاصل نہیں کر سکتا، اس وقت پرائمری تک تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی 50 فیصد بچے اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے یہ ایک حوصلہ شکن تصویر ہے اور ایک ایسی افسوسناک مثال ہے جو تخلیق مملکت خدا داد میں ازل سے ہی نظر آ رہی ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں جب آئے دن وزارتیں ٹوٹتی اور بنتی تھیں اور جس کے بارے میں اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے مذاق میں کہا تھا کہ میں اتنی جلدی دھوتیاں تبدیل نہیں کرتا جتنی تیزی سے پاکستان میں وزارتیں بدل جاتی ہیں۔
غالباً اسی ہڑبونگ کے نتیجے میں ملک پر مارشل لاء لگ گیا اور ملک و قوم کی درست سمت ہی اوجھل ہو گئی۔ گو کہ بہانہ بازی کے لیے دلائل ڈھونڈنا بھی کوئی کٹھن کام نہیں جیسے فارسی والے کہتے ہیں کہ ''خوئے بدرا بہانۂ بسیار''مطلب یہ کہ عادت بری ہو تو بہانوں کی کیا کمی۔ لہذا ہمارے ارباب اختیار کو اعتراف کر لینا چاہیے کہ انھوں نے اپنے بنیادی فرائض سے کما حقہ انصاف نہیں کیا۔ اور اقوام عالم میں ہماری پہچان ایک پسماندہ اور جاہل قوم کی رہ گئی ہے۔ ہمارا سبز پاسپورٹ بے توقیر ہو گیا۔ دنیا بھر کے کسی دور دراز مقام پر کوئی ناخوش گوار واقعہ ہو جائے تو اس کے ڈانڈے فوراً ہی پاکستان یا پاکستانیوں سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے تاکہ اور کچھ نہیں تو ہماری بدنامی میں ہی مزید اضافہ ہو سکے۔
اہل دانش میں یہ گمان پایا جاتا ہے کہ کسی بھی ملک کی ترقی میں سب سے زیادہ اہمیت تعلیم اور ٹیکنالوجی کی ہے۔ دنیا میں وہی ممالک با عزت اور بالادست ہیں جو تعلیم و ٹیکنالوجی میں آگے ہیں۔ تعلیم و ٹیکنالوجی میں ملک و قوم کی ناؤ پار لگانے میں استاد کا کردار سر فہرست ہے جسے ہمارے فرسودہ تعلیمی نظام میں سب سے پست درجے پر رکھ دیا گیا ہے۔ اس سے بھلا کس بنیاد پر یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ قوم کے بچوں میں ''مقدر کے سکندر'' قسم کے کامیاب کردار پیدا کریں۔ مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں استاد کا مقام سب سے زیادہ عزت والا ہے اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کا اپنے کیریئر کے لیے اولین انتخاب درس و تدریس کا پیشہ ہی ہوتا ہے۔ ہمارا قومی خزانہ بے شک استاد کو بھاری تنخواہ فوری طور پر نہ دے سکے عزت و احترام تو دے سکتا ہے جس پر کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا۔ استاد کو تکریم دو وہ قوم کو عروج آشنا کر دے گا۔