تیزی سے بدلتے وقت کے نئے تیور
تقریباً ایک ہفتہ قبل ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کے ایک ٹیلی فونک خطاب میں مبینہ طور پر کراچی...
تقریباً ایک ہفتہ قبل ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کے ایک ٹیلی فونک خطاب میں مبینہ طور پر کراچی کو پاکستان سے علیحدہ کرنے، صحافیوں اور بعض اینکر پرسنوں کے بارے میں نسبتاً چند سخت الفاظ کیا ادا ہوئے، ملک میں ایک ہلچل سی مچ گئی۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں اور خصوصاً پاکستانی نژاد برطانوی اور کینیڈین شہریوں کی طرف سے محولہ بالا مبینہ بیان پر مناظر سامنے آئے ہیں، انھوں نے ہم سب کو ششدر کر رکھا ہے حالانکہ جناب الطاف حسین نے اپنے اس بیان کی وضاحت کر دی ہے لہٰذا اس معاملے کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔
پچھلے تین عشروں کے دوران قائدِ تحریک نے پاکستان کی مرکزی اور صوبائی سیاست میں جو نمایاں ترین کردار ادا کیا ہے، اِس نے اُن کے مسلّمہ سیاسی رہنما ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے تاہم حالیہ انتخابات میں اُنہوں نے جس اسلوب میں نواز شریف کو ''پنجابیوں کے لیڈر'' کے نام پر مبارکباد دی، اِس سے مایوسی ہوئی ہے۔بہر حال سیاست میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔انھوں نے اپنے مبینہ متنازعہ بیان کے بعد جب یہ کہا کہ میرے الفاظ سے اگر صحافیوں کی دل آزاری ہوئی ہے تو معذرت چاہتا ہوں، قبول کر لیا گیا۔
قائدِ تحریک کے الفاظ کی بازگشت ابھی تک سُنی جا سکتی ہے۔ مسلم لیگ نون کے چوہدری نثار علی خان نے بھی ردعمل ظاہر کیا اور جناب عمران خان نے بھی اُس وقت لب کشائی کی جب 17 مئی کو برطانوی ہائی کمشنر نے ٹیلی فون پر کپتان کی خیریت دریافت کی۔ دریں اثنا اسلام آباد میں متعین برطانوی ہائی کمشنر مسٹر ایڈم تھامسن نے اپنے گھر میں پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ مجھے ذاتی حیثیت میں معلوم ہے کہ اِس پریس کانفرنس کا مقصد یہ نہ تھا کہ قائدِ تحریک کے خطاب کے بارے میں بات کی جائے بلکہ اِس کا بنیادی مدعا و مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں ہونے والے تازہ انتخابات کے بارے میں برطانوی حکومت کا نقطۂ نظر بھی پیش کیا جائے اور الیکشن کی تحسین بھی کی جائے لیکن اخبار نویسوں کے تند سوالات کے سامنے تھامسن صاحب بہہ سے گئے۔ قائدِ تحریک چونکہ برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ایسے میں اُن سے منسوب بعض متنازعہ باتوں کے حوالے سے برطانوی ہائی کمشنر سے پے در پے کئی سوالات کا پوچھا جانا غیر فطری نہیں تھا۔ اِس حوالے سے ایڈم تھامسن نے حکومتِ پاکستان پر جو طنز کیا ہے، وہ بھی قابلِ غور ہے۔ ہم خواہش کر سکتے ہیں: کاش، ایک فریق کی طرف سے یہ صورتحال نہ ہی پیدا ہوتی تو زیادہ مناسب تھا۔
ایم کیو ایم کا کردار کئی معاملات میں قابلِ ستائش ہے۔ مثال کے طور پر: (1) یہ پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے تقریباً تمام اعلیٰ عہدیدار اور گزشتہ حکومتوں میں رہنے والے صوبائی اور وفاقی وزراء اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے (2) یہ جماعت مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے اور ووٹ مانگنے سے خود بھی اجتناب کرتی ہے اور اِس سے بے زاری کا اظہار بھی (3) خصوصاً گزشتہ پانچ برسوں کے دوران جب ملک بھر میں جعلی ڈگریوں کا بِگل بجا اور کئی سیاسی جماعتوں کے کئی ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی اِس بنیاد پر نااہل بھی قرار پائے اور تادیب کے سزا وار بھی لیکن ایم کیو ایم واحد جماعت تھی جس کا ایک بھی رکنِ اسمبلی جعلی ڈگری کے الزام میں عدالتوں کو مطلوب و ماخوذ نہ ہوا (4) قائدِ تحریک خود بھی اور اُن کی جماعت بھی، بحیثیتِ مجموعی ہمیشہ لبرل ازم کا پرچم اٹھائے رہے ہیں اور اِس حوالے سے کبھی دو رُخ نہیں رہے۔ پاکستان، جہاں شدت پسندی انتہائوں کو چھُو رہی ہے، میں لبرل ازم کی بات کرنا آسان نہیں (5) ایم کیو ایم نے ہمیشہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کی مذمت کی ہے اور اِس بارے میں کبھی ایسا لہجہ اختیار نہیں کیا جسے ''بین السطور'' یا نیم دروں نیم بروں کا عنوان دیا جا سکے (6) اِس جماعت نے ہمیشہ جاگیر داروں اور جاگیر داری، وڈیروں اور وڈیرہ ازم کی کھل کر مخالفت و مذمت کی ہے کہ اِن لعنتوں نے ملک بھر میں کئی سماجی عوارض کو جنم دیا ہے۔
اِن جُملہ محاسن کے باوصف جب ہم بعض ایسے بیانات کو، جنھیں بدقسمتی سے مرکزِ گریز قوتوں کی ہمنوائی کے مترادف رکھا جا سکتا ہے، سامنے رکھتے ہیں تو سچی بات ہے افسوس بھی ہوتا ہے اور دل بھی دُکھتا ہے۔
جیسا کہ سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے بھی کہا ہے، قائدِ تحریک کی تردید قبول کر لینی چاہیے۔ جب کوئی رہنما اپنے کسی بیان کی تردید کرتا ہے، اُس سے برأت کا اظہار کرتا ہے یا خود سے منسوب حرفِ مطبوعہ سے لاتعلقی ظاہر کرتا ہے تو اُسے مان لینا چاہیے۔ ہمارے ہاں کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں میں تقریباً یکساں خامیاں، کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔ اخبارات و ٹیلی ویژن پر اُن پر کڑی تنقید کی جاتی ہے، نجی ٹی وی کی اسکرینوں پر اُن کے سربراہوں کے خاکے اُڑائے جاتے ہیں لیکن اِس ضمن میں بھی ایم کیو ایم اور اُن کے قائد خوش قسمت ہیں جن پر کم سے کم تنقیدہوتی ہے۔ میڈیا اُن کی تضحیک کرنے سے ہمیشہ احتراز اور گریز کا راستہ اختیار کرتا ہے۔
ایم کیو ایم میں جتنا پوٹینشل ہے، اِس کے قائدین جو ویِژن رکھتے ہیں، اِس جماعت کے اندر جناب مصطفٰے کمال ایسے جو باکمال کارکن پائے جاتے ہیں جنہوں نے محنت سے کراچی کی ھیٔت بدل کر رکھ دی، ہمیں حق الیقین ہے کہ وہ ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ماڈل بننے کی خصوصیات رکھتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ خاک نشینوں کے ساتھ بیٹھ کر محل نشینوں کو چیلنج کر سکتی ہے اور اُس نے ایسا کیا بھی ہے لیکن درمیان میں جب بعض متنازعہ باتیں سامنے آتی ہیں تو ملک بھر میں اُن سے ہمدردیاں رکھنے والوں کے دل ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں۔
ہمارے سیاستدانوں کو غالباً پورا ادراک نہیں ہے کہ پاکستان میں میڈیا کی بدولت تبدیلی کی جو تیز ہوائیں چل نکلی ہیں، اُن کے سوسائٹی، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر کیسے کیسے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اِس کا اندازہ محض ایک مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی میں ''پاکستان تحریکِ انصاف'' کے جناب عارف علوی کس اسلوب میں ایک با وسائل اور پُر اثر جماعت سے مکالمہ کر رہے ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں بھی اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی۔ وہ کراچی کے ایک حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کے حوالے سے جس طرح بے نیام ہوئے ہیں، کیا اِسے تیزی سے بدلتے وقت کے نئے تیوروں کا نام نہیں دیا جا سکتا؟
پچھلے تین عشروں کے دوران قائدِ تحریک نے پاکستان کی مرکزی اور صوبائی سیاست میں جو نمایاں ترین کردار ادا کیا ہے، اِس نے اُن کے مسلّمہ سیاسی رہنما ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے تاہم حالیہ انتخابات میں اُنہوں نے جس اسلوب میں نواز شریف کو ''پنجابیوں کے لیڈر'' کے نام پر مبارکباد دی، اِس سے مایوسی ہوئی ہے۔بہر حال سیاست میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے۔انھوں نے اپنے مبینہ متنازعہ بیان کے بعد جب یہ کہا کہ میرے الفاظ سے اگر صحافیوں کی دل آزاری ہوئی ہے تو معذرت چاہتا ہوں، قبول کر لیا گیا۔
قائدِ تحریک کے الفاظ کی بازگشت ابھی تک سُنی جا سکتی ہے۔ مسلم لیگ نون کے چوہدری نثار علی خان نے بھی ردعمل ظاہر کیا اور جناب عمران خان نے بھی اُس وقت لب کشائی کی جب 17 مئی کو برطانوی ہائی کمشنر نے ٹیلی فون پر کپتان کی خیریت دریافت کی۔ دریں اثنا اسلام آباد میں متعین برطانوی ہائی کمشنر مسٹر ایڈم تھامسن نے اپنے گھر میں پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔ مجھے ذاتی حیثیت میں معلوم ہے کہ اِس پریس کانفرنس کا مقصد یہ نہ تھا کہ قائدِ تحریک کے خطاب کے بارے میں بات کی جائے بلکہ اِس کا بنیادی مدعا و مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں ہونے والے تازہ انتخابات کے بارے میں برطانوی حکومت کا نقطۂ نظر بھی پیش کیا جائے اور الیکشن کی تحسین بھی کی جائے لیکن اخبار نویسوں کے تند سوالات کے سامنے تھامسن صاحب بہہ سے گئے۔ قائدِ تحریک چونکہ برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ایسے میں اُن سے منسوب بعض متنازعہ باتوں کے حوالے سے برطانوی ہائی کمشنر سے پے در پے کئی سوالات کا پوچھا جانا غیر فطری نہیں تھا۔ اِس حوالے سے ایڈم تھامسن نے حکومتِ پاکستان پر جو طنز کیا ہے، وہ بھی قابلِ غور ہے۔ ہم خواہش کر سکتے ہیں: کاش، ایک فریق کی طرف سے یہ صورتحال نہ ہی پیدا ہوتی تو زیادہ مناسب تھا۔
ایم کیو ایم کا کردار کئی معاملات میں قابلِ ستائش ہے۔ مثال کے طور پر: (1) یہ پاکستان کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے تقریباً تمام اعلیٰ عہدیدار اور گزشتہ حکومتوں میں رہنے والے صوبائی اور وفاقی وزراء اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے (2) یہ جماعت مذہب کی بنیاد پر سیاست کرنے اور ووٹ مانگنے سے خود بھی اجتناب کرتی ہے اور اِس سے بے زاری کا اظہار بھی (3) خصوصاً گزشتہ پانچ برسوں کے دوران جب ملک بھر میں جعلی ڈگریوں کا بِگل بجا اور کئی سیاسی جماعتوں کے کئی ارکانِ صوبائی و قومی اسمبلی اِس بنیاد پر نااہل بھی قرار پائے اور تادیب کے سزا وار بھی لیکن ایم کیو ایم واحد جماعت تھی جس کا ایک بھی رکنِ اسمبلی جعلی ڈگری کے الزام میں عدالتوں کو مطلوب و ماخوذ نہ ہوا (4) قائدِ تحریک خود بھی اور اُن کی جماعت بھی، بحیثیتِ مجموعی ہمیشہ لبرل ازم کا پرچم اٹھائے رہے ہیں اور اِس حوالے سے کبھی دو رُخ نہیں رہے۔ پاکستان، جہاں شدت پسندی انتہائوں کو چھُو رہی ہے، میں لبرل ازم کی بات کرنا آسان نہیں (5) ایم کیو ایم نے ہمیشہ دہشت گردوں اور دہشت گردی کی مذمت کی ہے اور اِس بارے میں کبھی ایسا لہجہ اختیار نہیں کیا جسے ''بین السطور'' یا نیم دروں نیم بروں کا عنوان دیا جا سکے (6) اِس جماعت نے ہمیشہ جاگیر داروں اور جاگیر داری، وڈیروں اور وڈیرہ ازم کی کھل کر مخالفت و مذمت کی ہے کہ اِن لعنتوں نے ملک بھر میں کئی سماجی عوارض کو جنم دیا ہے۔
اِن جُملہ محاسن کے باوصف جب ہم بعض ایسے بیانات کو، جنھیں بدقسمتی سے مرکزِ گریز قوتوں کی ہمنوائی کے مترادف رکھا جا سکتا ہے، سامنے رکھتے ہیں تو سچی بات ہے افسوس بھی ہوتا ہے اور دل بھی دُکھتا ہے۔
جیسا کہ سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب نے بھی کہا ہے، قائدِ تحریک کی تردید قبول کر لینی چاہیے۔ جب کوئی رہنما اپنے کسی بیان کی تردید کرتا ہے، اُس سے برأت کا اظہار کرتا ہے یا خود سے منسوب حرفِ مطبوعہ سے لاتعلقی ظاہر کرتا ہے تو اُسے مان لینا چاہیے۔ ہمارے ہاں کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں میں تقریباً یکساں خامیاں، کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔ اخبارات و ٹیلی ویژن پر اُن پر کڑی تنقید کی جاتی ہے، نجی ٹی وی کی اسکرینوں پر اُن کے سربراہوں کے خاکے اُڑائے جاتے ہیں لیکن اِس ضمن میں بھی ایم کیو ایم اور اُن کے قائد خوش قسمت ہیں جن پر کم سے کم تنقیدہوتی ہے۔ میڈیا اُن کی تضحیک کرنے سے ہمیشہ احتراز اور گریز کا راستہ اختیار کرتا ہے۔
ایم کیو ایم میں جتنا پوٹینشل ہے، اِس کے قائدین جو ویِژن رکھتے ہیں، اِس جماعت کے اندر جناب مصطفٰے کمال ایسے جو باکمال کارکن پائے جاتے ہیں جنہوں نے محنت سے کراچی کی ھیٔت بدل کر رکھ دی، ہمیں حق الیقین ہے کہ وہ ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر ماڈل بننے کی خصوصیات رکھتی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ خاک نشینوں کے ساتھ بیٹھ کر محل نشینوں کو چیلنج کر سکتی ہے اور اُس نے ایسا کیا بھی ہے لیکن درمیان میں جب بعض متنازعہ باتیں سامنے آتی ہیں تو ملک بھر میں اُن سے ہمدردیاں رکھنے والوں کے دل ٹوٹ ٹوٹ جاتے ہیں۔
ہمارے سیاستدانوں کو غالباً پورا ادراک نہیں ہے کہ پاکستان میں میڈیا کی بدولت تبدیلی کی جو تیز ہوائیں چل نکلی ہیں، اُن کے سوسائٹی، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر کیسے کیسے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اِس کا اندازہ محض ایک مثال سے لگایا جا سکتا ہے کہ کراچی میں ''پاکستان تحریکِ انصاف'' کے جناب عارف علوی کس اسلوب میں ایک با وسائل اور پُر اثر جماعت سے مکالمہ کر رہے ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں بھی اور الیکٹرانک میڈیا میں بھی۔ وہ کراچی کے ایک حلقے میں دوبارہ انتخابات کرانے کے حوالے سے جس طرح بے نیام ہوئے ہیں، کیا اِسے تیزی سے بدلتے وقت کے نئے تیوروں کا نام نہیں دیا جا سکتا؟