سامراج کی کامیاب پیش بندیاں

تحریک احیائے علوم اور یورپ میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم برپا ہوئی جو...

تحریک احیائے علوم اور یورپ میں صنعتی انقلاب کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم برپا ہوئی جو بنیادی طور پر اپنی مصنوعات کی کھپت کے لیے ملکوں پر قبضے کی جنگ تھی۔ عالمی منڈیوں پر قبضے کی جنگ' تیل کی دریافت دوسری عالمی جنگ کا باعث بنی۔ پہلی عالمی جنگ اور اس سے پہلے عالمی طاقت کا محور برطانیہ تھا لیکن دوسری علمی جنگ کے بعد طاقت کا یہ محور یورپ سے امریکا منتقل ہو گیا۔ دوسری عالمی جنگ کو غیر ضروری طوالت امریکا نے اس لیے بھی دی تا کہ اپنے حلیف برطانیہ کو کمزور کر کے اس سے اپنی من مرضی کی شرائط منوائی جا سکیں۔ اس میں سب سے اہم برطانوی نو آبادیات کی آزادی تھی جو دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی ہوئی تھیں لیکن ان میں سب سے اہم نو آبادیات مشرق وسطیٰ اور برصغیر میں تھیں۔

مشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخائر تھے جن پر مغربی صنعتی ملکوں کی ترقی کا دارومدار تھا۔ مغربی ملکوں کی صنعتی اور معاشی ترقی اس لیے بھی ضروری تھی کہ سوویت یونین کے ساتھ جنگ میں فتح حاصل کرنی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں سلطنت عثمانیہ کی بندر بانٹ عمل میں آئی ۔عرب ملکوں میں بانٹ دیا گیا جس میں سعودی عرب عراق شام وغیرہ دوسرے ممالک شامل تھے۔ یہ ایک طرح سے برطانیہ کے ہاتھوں مشرق وسطیٰ کی پہلی ری برتھ تھی جس سے برصغیر جڑا ہوا تھا۔ چنانچہ برصغیر کی بھی ری برتھ ضروری ہو گئی۔ ایک ایسی تشکیل نو جس میں مشرق وسطیٰ میں تیل کے ذخائر کا تحفظ کیا جا سکے چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے برصغیر کوتقسیم کیا گیا۔ دیکھا آپ نے برطانیہ کی دور اندیشی کہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے پچاس سال پہلے ہی کام شروع کر دیا ۔

اگر ایسا نہ کیا جاتا تو اس زمانہ میں روس اور چین سے امنڈتا ہوا عوامی سوشلست انقلاب برصغیر کو فتح کر لیتا۔ چنانچہ پاکستان میں اگر طویل عرصہ آمریت رہی تو بھارت میں جمہوریت کا پرچم لہراتا رہا۔ پاکستان کے ذریعے اگر عرب بادشاہتوں کا تحفظ کیا گیا جو تیل اور اسرائیل کا تحفظ کر رہی تھیں تو بھارت کو بھی اپنی اوقات میں رکھا گیا چاہے یہ بھارت کے سوویت یونین کے ساتھ تعلقات ہوں یا پاکستانی ایٹم بموں کا دھماکہ۔ پاکستان کو امریکا نے خطے میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ سرمایہ دارانہ نظام جس میں آمریت سرمایہ اور سرمایہ دار کی ہوتی ہے' اس کا تحفظ سرمایہ دارانہ جمہوریت سے کیا گیا۔ وہ جمہوریت جس میں ایک عام آدمی کی کنٹری بیوشن محض ایک ووٹ ہے۔ انتخابات اور انتخابی ڈرامے میں وہ استعمال ہو جاتا ہے۔ ہوش اس کو اس وقت آتا ہے جب وہ ان انتخابی مراحل سے گزر جاتا ہے اور اس کی حیثیت ایک ہارے ہوئے جواری کی سی ہوتی ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام کے تحفظ کے لیے ہی برصغیر کو بھارت اور پاکستان میں تقسیم کیا گیا۔ ایک تو برصغیر کی وقت سے ایک سال قبل تقسیم کی گئی۔ دوسرے یہ انتہائی خونی تقسیم کی گئی۔ حالانکہ پر امن بھی ہو سکتی تھی جس میں لاکھوں جانوں کا ضیاع اور کروڑوں لوگ تباہ و برباد ہوئے۔ خونی تقسیم کے ذریعے اس چیز کو یقینی بنایا گیا کہ پاکستان اور بھارت ایک طویل مدت تک ایک دوسرے سے دوستی نہ کر سکیں۔ مشرق وسطیٰ کی تشکیل نو اور برصغیر کی تقسیم کے بعد جو سامراج کا کمزور پہلو تھا اسے مضبوط کر کے امریکا اور اس کے اتحادی لنگر لنگوٹ کس کر سوویت یونین کے خلاف صف آراء ہو گئے۔ لیکن اس سے پہلے ایک ضروری پیش بندی بھی کی گئی کہ پاکستان کو دو ٹکڑے کر دیا گیا کہ بنگال سوویت یونین کے خلاف امریکی جہاد میں کباب میں ہڈی نہ بنے۔

جس طرح برصغیر کی خونی تقسیم کے ذریعے پاکستانی پنجاب کو ہندوؤں اور سکھوں سے خالی کرا لیا گیا کیونکہ ان کی موجودگی میں نہ یہاں مذہبی جنونیت پروان چڑھ سکتی تھی جس کو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے سوویت یونین کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ پاکستانی پنجاب کو ہندوؤں اور سکھوں سے خالی کرانا اور بنگلہ دیش بنائے بغیر سوویت یونین پر فتح حاصل نہیں کی جا سکتی تھی۔ یہ 1980ء کی دہائی کا آغاز تھا جب پاکستان میں ایک نئی قیادت ابھر کر سامنے آئی یعنی نوازشریف برطانوی اخبار گارجین نواز شریف کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ''بھارت کے ساتھ امن تو سب جماعتیں چاہتی ہیں لیکن صرف نواز شریف ایسا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔


اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دائیں بازو کا طبقہ طاقتور ہے۔یہ طبقہ ان کی حب الوطنی پر سوال اٹھا سکتا ''۔ اس تفصیل میں جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ جانا جائے کہ سامراجی پلاننگ کیا ہوتی ہے۔ پہلے سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے برصغیر کو تقسیم کیا گیا پھر اسی ضمن میں پاکستان کو توڑ کر بنگلہ دیش بنایا گیا اور طالبان کے ذریعے سوویت یونین کو شکست دی گئی۔ لیکن اس تمام عمل کے دوران امریکی سامراج نے سوائے ایران کے پورے مشرق وسطی کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کر لیا۔

سوویت یونین کی شکست سے لے کر مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر سمیت تمام اہداف کامیابی سے حاصل کر لیے سوائے ایران کے جس کے گرد کامیابی سے گھیرا ڈالا جا چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے برصغیر کی دوبارہ سے ری برتھ اپنے آخری مرحلے پرلگتی ہے۔ افغانستان کا ٹارگٹ بھی امریکا نے کامیابی سے مکمل کر لیا ہے۔ ایک سمجھوتے کے تحت امریکا افغانستان میں طالبان حکومت قائم کرنے جا رہا ہے۔ افغانستان سے امریکا کے نام نہاد انخلا کے باوجود افغانستان میں امریکی فوجی ا ڈوں پر اس کی افواج تعینات رہیں گی۔ دوسری طرف بحیرہ عرب میں اس کے طیارہ برادر جنگی جہاز بھی لنگر انداز رہیں گے۔

طالبان انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے میاں محمد نواز شریف کی قیادت میں موڈریٹ طبقے کو آگے لایا جائے گا جس میں اہم ترین رول میاں محمد نواز شریف صاحب کا ہو گا اور اس عمل میں آگے جا کر مولانا فضل الرحمٰن اور جماعت اسلامی بھی شامل ہو جائیں گے۔ اسی حقیقت کو الیکشن سے دو ہفتے پہلے اپنے کالم میں بیان کیا تھا کہ نواز شریف الیکشن میں کیوں کامیاب ہوں گے۔ یہی وہ پس منظر تھا جس کے نتجے میں حالیہ الیکشن کے ''انتہائی غیر متوقع نتائج'' سامنے آئے۔ مسئلہ کشمیر کا حل ہو یا بھارت سے دوستی و تجارت سوفٹ باڈر یا پاکستان میں سویلین بالا دستی اور مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ تاریخ کے اس مرحلے پر نواز شریف کا کردار تاریخی اور ناقابل فراموش ہو گا۔

جب کہ مشرق وسطی سے پاکستان تک کے علاقے کی ری برتھ تشکیل نو ہونے جا رہی ہے۔ پرانی سنگین غلطیوں کا ازالہ ہونے جا رہا ہے اور ان تمام مسائل کا حل ہونے جا رہا ہے جس نے اس خطے کو طویل عرصے سے خاک و خون میں ڈبو رکھا ہے پاکستان کی تمام روشن خیال ترقی پسند قوتوں کا فرض ہے کہ وہ اس تاریخی مرحلے پر نواز شریف کے ہاتھ مضبوط کریں۔ ترقی پسند قوتوں کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے بعد آخر کار تاریخی قوتوں نے ان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ وقت کا پلڑا ان کے حق میں جھک چکا ہے۔ اس موقعے سے فائدہ نہ اٹھانا نہ صرف ایک سنگین غلطی بلکہ ایک ناقابل معافی جرم ہو گا ...

نواز شریف صاحب کے لیے فوری طور پر اہم تاریخیں 20-19 مئی اور 23-22 تا 25 مئی ہیں۔
Load Next Story