اندرون سندھ آم کے باغات پر ڈاکوؤں کا راج برآمدی ہدف کو خطرہ 10 سے 25 لاکھ روپے تک بھتہ طلب
ڈکیت مافیا نے نگراں حکومت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اندرون سندھ آم کے باغات پر دھاوا بول دیا ہے۔
ڈکیت مافیا نے نگراں حکومت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اندرون سندھ آم کے باغات پر دھاوا بول دیا ہے۔
ڈکیتوں نے آم کے ٹھیکداروں کو بھاری مالیت کی پرچیاں بھیج دی ہیں جن میں 10لاکھ سے 25لاکھ روپے تک بھتا طلب کیا گیا ہے اور نہ دینے کی صورت میں آم کے ٹھیکداروں کے ساتھ باغات میں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ سندھ میں آم کی پیداوار کے لحاظ سے اہمیت کے حامل ٹنڈوالہ یار کے ٹھیکیداروں کے مطابق آم کے سیزن میں ڈکیت باغات سے بھاری مالیت کا بھتا وصول کرتے ہیں تاہم اس سال ڈکیتوں کی جانب سے انتہائی بھاری رقوم مانگی جارہی ہیں ڈکیتوں کے مختلف گروہ سرگرم عمل ہیں اور ڈی پی او کو شکایت کیے جانے کے باوجود کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جارہی۔
کراچی فروٹ منڈی کو آم فراہم کرنے والے ایک ٹھیکیدار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سابقہ ڈی پی او نے ڈکیتوں کے خلاف موثر اقدامات کیے تھے جس سے گزشتہ کئی سیزن میں بھتا وصولی میں کمی واقع ہوئی تھی تاہم اس سال ڈکیت مافیا کے حوصلے بلند ہیں اور کھلے عام باغات پر دن دیہاڑے دھاوا بول کر ٹھیکداروں اور لیبر کو ہراساں کررہے ہیں۔ ٹھیکیداروں کے مطابق ڈاکوؤں کی جانب سے بھاری مالیت کا بھتا طلب کیے جانے کے بارے میں متعلقہ ڈی پی او کرم اﷲ کو آگاہ کرتے ہوئے ٹھیکداروں اور لیبر کو تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے تاہم ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے باغات کے ٹھیکے داروں کے ساتھ لیبر کو بھی سخت خدشات لاحق ہیں۔
ٹھیکداروں کے مطابق آم کے سیزن میں بہت سے مزدور پنجاب سے آکر باغات میں مزدوری کرتے ہیں اور دوسرے صوبے سے آنے والے مزدوروں نے ڈاکوؤں کی دھمکی کے بعد باغات میں کام کرنے سے انکار کردیا ہے جس سے آم کے باغات سے پھل توڑ کر منڈیوں کو روانہ کرنے کا عمل متاثر ہوگا۔ ادھر کراچی فروٹ منڈی کے آڑھتیوں اور ایکسپورٹرز نے بھی اندرون سندھ آم کے باغات سے بھتا خوری پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے نگراں وزیر اعلیٰ سندھ، آئی جی سندھ اور چیف سیکریٹری سندھ سے اپیل کی ہے کہ آم کے باغات پر دھاوا بولنے والے ڈاکوؤں کے گروہوں کیخلاف سخت ایکشن لیا جائے، بصورت دیگر آم کے باغات کا مال خریدنے کیلیے ایڈوانس ادائیگی کرنیوالے تاجروں اور ایکسپورٹرز کو شدید نقصان کا سامنا ہوگا اور اس سال ملک سے آم کی برآمد کا ہدف بھی دشوار ہوجائیگا جس سے ملک کو قیمتی زرمبادلہ کے نقصان کا سامنا ہوگا۔
ڈکیتوں نے آم کے ٹھیکداروں کو بھاری مالیت کی پرچیاں بھیج دی ہیں جن میں 10لاکھ سے 25لاکھ روپے تک بھتا طلب کیا گیا ہے اور نہ دینے کی صورت میں آم کے ٹھیکداروں کے ساتھ باغات میں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ سندھ میں آم کی پیداوار کے لحاظ سے اہمیت کے حامل ٹنڈوالہ یار کے ٹھیکیداروں کے مطابق آم کے سیزن میں ڈکیت باغات سے بھاری مالیت کا بھتا وصول کرتے ہیں تاہم اس سال ڈکیتوں کی جانب سے انتہائی بھاری رقوم مانگی جارہی ہیں ڈکیتوں کے مختلف گروہ سرگرم عمل ہیں اور ڈی پی او کو شکایت کیے جانے کے باوجود کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جارہی۔
کراچی فروٹ منڈی کو آم فراہم کرنے والے ایک ٹھیکیدار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ سابقہ ڈی پی او نے ڈکیتوں کے خلاف موثر اقدامات کیے تھے جس سے گزشتہ کئی سیزن میں بھتا وصولی میں کمی واقع ہوئی تھی تاہم اس سال ڈکیت مافیا کے حوصلے بلند ہیں اور کھلے عام باغات پر دن دیہاڑے دھاوا بول کر ٹھیکداروں اور لیبر کو ہراساں کررہے ہیں۔ ٹھیکیداروں کے مطابق ڈاکوؤں کی جانب سے بھاری مالیت کا بھتا طلب کیے جانے کے بارے میں متعلقہ ڈی پی او کرم اﷲ کو آگاہ کرتے ہوئے ٹھیکداروں اور لیبر کو تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی گئی ہے تاہم ابھی تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے باغات کے ٹھیکے داروں کے ساتھ لیبر کو بھی سخت خدشات لاحق ہیں۔
ٹھیکداروں کے مطابق آم کے سیزن میں بہت سے مزدور پنجاب سے آکر باغات میں مزدوری کرتے ہیں اور دوسرے صوبے سے آنے والے مزدوروں نے ڈاکوؤں کی دھمکی کے بعد باغات میں کام کرنے سے انکار کردیا ہے جس سے آم کے باغات سے پھل توڑ کر منڈیوں کو روانہ کرنے کا عمل متاثر ہوگا۔ ادھر کراچی فروٹ منڈی کے آڑھتیوں اور ایکسپورٹرز نے بھی اندرون سندھ آم کے باغات سے بھتا خوری پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے نگراں وزیر اعلیٰ سندھ، آئی جی سندھ اور چیف سیکریٹری سندھ سے اپیل کی ہے کہ آم کے باغات پر دھاوا بولنے والے ڈاکوؤں کے گروہوں کیخلاف سخت ایکشن لیا جائے، بصورت دیگر آم کے باغات کا مال خریدنے کیلیے ایڈوانس ادائیگی کرنیوالے تاجروں اور ایکسپورٹرز کو شدید نقصان کا سامنا ہوگا اور اس سال ملک سے آم کی برآمد کا ہدف بھی دشوار ہوجائیگا جس سے ملک کو قیمتی زرمبادلہ کے نقصان کا سامنا ہوگا۔