امریکی دباؤ اور آئی ایم ایف
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اپنے آپ کو دنیا کا ٹھیکے دار اور چوہدری سمجھتا ہے۔
ابھی پاکستان کی نئی منتخب حکومت نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی بھی نہیں کہ امریکا نے اپنا دباؤ بڑھانا شروع کر دیا ۔ بھارت نواز امریکا کی موجودہ حکومت کو پاکستان سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ امریکی وزیرخارجہ مائیک پوپیو نے آئی ایم ایف پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان میں اقتدار سنبھالنے والی نئی حکومت کو بیل آؤٹ پیکیج فراہم نہ کرے امریکی وزیر خارجہ نے اپنے موقف کے حق میں یہ نرالی منطق پیش کی ہے کہ پاکستان اس پیکیج سے سی پیک کے حوالے سے حاصل کیا گیا چین کا قرضہ اتارے گا۔ امریکا کا یہ رویہ معاندانہ بھی ہے اور جارحانہ بھی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا کا ٹھیکے دار اور چوہدری سمجھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کیا امریکا کا کوئی ذیلی یا ماتحت ادارہ ہے، یا امریکا کی رعیت ہے؟ امریکا کوکوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ آئی ایم ایف کو دھمکی یا ڈکٹیشن دے۔ امریکا کا یہ طرز عمل عالمی اداروں کی ساکھ کو متاثر کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے جس کی سخت مذمت کرنا ضروری ہے۔
آئی ایم ایف ایک مکمل طور پرخود مختار ادارہ ہے جس کی ایک آزاد حیثیت ہے۔ یہ کسی بھی ملک کا تابع فرمان نہیں ہے۔اس کے اپنے وضع کردہ قواعد وضوابط ہیں جن میں مداخلت کرنے کا کسی بھی ملک کوکوئی حق نہیں پہنچتا ۔اس عالمی مالیاتی ادارے کے قیام کا اصل اور بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ جب کوئی ملک معاشی مشکلات کا شکار ہو تو بیل آؤٹ پیکیج کی مدد سے اسے اقتصادی گرداب سے باہر نکالا جائے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی معیشت کی ابتری میں افغانستان کی صورتحال کا بہت بڑا ہاتھ ہے جس کا ذمے دار امریکا ہے جس کا ساتھ دینے کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکا اس مشکل وقت میں خود بھی پاکستان کی مدد کرتا اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کو بھی پاکستان کی مدد کی ترغیب دیتا، لیکن طوطا چشمی امریکا کی عادت بلکہ پرانی روایت ہے۔ امریکا کے اس رویے کے حوالے سے اس کے سوا بھلا اورکیا کہا جاسکتا ہے:
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات جولائی 1950 سے قائم ہیں جب پاکستان اس ادارے کا ممبر بنا تھا۔ اس وقت دنیا کے 188 ممالک اس کے رکن ہیں جن میں امریکا بھی شامل ہے۔ ہر ممبر ملک اپنے کوٹے کے مطابق آئی ایم ایف کے فنڈز میں اپنے حصے کی رقم جمع کراتا ہے۔ اقتصادی حالات خراب ہونے کی صورت میں اس ادارے کا کوئی بھی ممبر ملک آئی ایم ایف سے اپنے کوٹے کے تناسب سے یا اس سے زیادہ قرضہ حاصل کرسکتا ہے، لیکن یہ کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ نے اسے اسی کام کے لیے مقررکیا ہے۔
دنیا بھرکے ماہرین ملکی اور عالمی مالیاتی اداروں اور اقتصادی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں اور مالیاتی مسائل پر تحقیق کرکے ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔ اس ادارے کا کام محض تھیوری کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس پر مالیاتی بحران کی شکار معیشتوں کی بحالی کی ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف اپنے فنڈز سے بحران میں گھرے ہوئے معاشی طور پرکمزور ممالک کے اقتصادی امراض کا علاج کرکے ان کی صحت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
دنیا کے بہت سے ممالک آئی ایم ایف سے فائدہ حاصل کرکے اپنی معاشی حالت کو درست کرچکے ہیں۔ ان ممالک کی فہرست خاصی طویل ہے۔ یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ امریکا پاکستان اور آئی ایم ایف کے معاملے میں اپنی ٹانگ اڑا رہا ہے۔ معاملہ آئی ایم ایف اور پاکستان کا ہے۔ امریکا کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے لیے جانے والے قرضے کوکب اورکہاں استعمال کرے گا۔ امریکا خواہ مخواہ خدائی فوج دار بننے کوشش نہ کرے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کینگ شوان نے امریکی بیان کے دو ٹوک جواب میں امریکا سے کہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو مشورہ دینے کے بجائے جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری کے عمل میں شراکت کرے۔
امریکی رویے کے حوالے سے چین کا یہ ردعمل بروقت بھی ہے اور برمحل بھی۔ اس کے علاوہ یہ پاکستان کے حق میں ایک مثبت پیغام اور اعانت کا عندیہ بھی ہے۔ چین بارہا اس حقیقت کا واضح طور پر بھرپور اظہار بھی کرچکا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بے مثال اور بے دریغ قربانیاں دی ہیں جس کی تلافی امریکا نے ابھی تک نہیں کی ہے۔ امریکا کا فرض تھا کہ پاکستان کی ان قربانیوں کا معقول صلہ دیتا اور اپنے برے وقت کے ساتھی پاکستان کی نہ صرف خود بھرپور مدد کرتا بلکہ پوری دنیا کی تجارتی منڈیاں بھی اس کے لیے کھلوانے میں پوری طرح تعاون کرتا، مگر ایسا کرنے کے بجائے امریکا نے پاکستان کے کولیشن سپورٹ فنڈ میں کٹوتی کردی جو سراسر بے انصافی اورکھلم کھلا زیادتی ہے۔
پوری دنیا اس حقیقت کو جانتی اور مانتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں پاکستان کو امریکا کے کسی بھی اتحادی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ مالی اورجانی نقصان اٹھانا پڑا ہے جس نے اس کی معیشت کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس عظیم تعاون کے بدلے میں امریکا پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اپنا بھرپورکردار ادا کرتا، لیکن امریکا نے نہ صرف یہ کردار ادا کرنے سے پہلو تہی کرکے پاکستان کو سخت مایوس کیا ہے بلکہ انتہائی بے وفائی اور سفاکی کا ثبوت دیتے ہوئے آئی ایم ایف کو پاکستان کے خلاف ڈکٹیشن دے رہا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں بھی پاکستان امریکا کی جانب سے اس قسم کے منفی رویوں کا شکار رہا ہے۔ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد بھی امریکا نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا جس کا خمیازہ پاکستانی قوم تب سے آج تک مسلسل بھگت رہی ہے۔ پاکستان 60 کے عشرے سے امریکا کا ہر موقعے پر ساتھ دیتا چلا آ رہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکا نے پاکستان کے تعاون کے اعتراف میں اس کی وہ مدد نہیں کی جو اخلاقی طور پر اس کا فرض بنتا تھا۔ ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں پر بھی یہ دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ بھی پاکستان کی کوئی مدد کرنے سے ہاتھ اٹھا لیں۔
امریکی حکومت نے یہ اخلاق سوز حرکت ایسے نازک وقت پرکی ہے جب پاکستان شدید مالی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور نئی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے موقعے پر نہایت سنگین قسم کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ متوقع وزیر اعظم عمران خان نے عزم محکم کا مظاہرہ کرتے ہوئے واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ دباؤ میں آنے کے بجائے امریکا کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات رکھیں گے۔ ان کے اس عزم کی پوری قوم بھرپور حمایت کرے گی۔
پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے یہ امر نہایت اطمینان کا باعث ہے کہ پاک چین دوستی نہ صرف ہر آزمائش پر پوری اتری ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی جڑیں گہری سے گہری اور مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہیں۔ مستقبل کی پاکستانی حکومت کی قیادت نے یہ واضح عندیہ دیا ہے کہ آیندہ پاک چین تعلقات کو نہ صرف مزید فروغ حاصل ہوگا بلکہ نئے پاکستان کی نئی حکومت زندگی کے مختلف شعبوں میں چین کے کامیاب تجربوں اور اصلاحات سے خاطر خواہ فائدہ بھی اٹھائے گی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو دنیا کا ٹھیکے دار اور چوہدری سمجھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کیا امریکا کا کوئی ذیلی یا ماتحت ادارہ ہے، یا امریکا کی رعیت ہے؟ امریکا کوکوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ آئی ایم ایف کو دھمکی یا ڈکٹیشن دے۔ امریکا کا یہ طرز عمل عالمی اداروں کی ساکھ کو متاثر کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے جس کی سخت مذمت کرنا ضروری ہے۔
آئی ایم ایف ایک مکمل طور پرخود مختار ادارہ ہے جس کی ایک آزاد حیثیت ہے۔ یہ کسی بھی ملک کا تابع فرمان نہیں ہے۔اس کے اپنے وضع کردہ قواعد وضوابط ہیں جن میں مداخلت کرنے کا کسی بھی ملک کوکوئی حق نہیں پہنچتا ۔اس عالمی مالیاتی ادارے کے قیام کا اصل اور بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ جب کوئی ملک معاشی مشکلات کا شکار ہو تو بیل آؤٹ پیکیج کی مدد سے اسے اقتصادی گرداب سے باہر نکالا جائے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کی معیشت کی ابتری میں افغانستان کی صورتحال کا بہت بڑا ہاتھ ہے جس کا ذمے دار امریکا ہے جس کا ساتھ دینے کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکا اس مشکل وقت میں خود بھی پاکستان کی مدد کرتا اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کو بھی پاکستان کی مدد کی ترغیب دیتا، لیکن طوطا چشمی امریکا کی عادت بلکہ پرانی روایت ہے۔ امریکا کے اس رویے کے حوالے سے اس کے سوا بھلا اورکیا کہا جاسکتا ہے:
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ تعلقات جولائی 1950 سے قائم ہیں جب پاکستان اس ادارے کا ممبر بنا تھا۔ اس وقت دنیا کے 188 ممالک اس کے رکن ہیں جن میں امریکا بھی شامل ہے۔ ہر ممبر ملک اپنے کوٹے کے مطابق آئی ایم ایف کے فنڈز میں اپنے حصے کی رقم جمع کراتا ہے۔ اقتصادی حالات خراب ہونے کی صورت میں اس ادارے کا کوئی بھی ممبر ملک آئی ایم ایف سے اپنے کوٹے کے تناسب سے یا اس سے زیادہ قرضہ حاصل کرسکتا ہے، لیکن یہ کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے بلکہ اقوام متحدہ نے اسے اسی کام کے لیے مقررکیا ہے۔
دنیا بھرکے ماہرین ملکی اور عالمی مالیاتی اداروں اور اقتصادی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں اور مالیاتی مسائل پر تحقیق کرکے ان کا حل تلاش کرتے ہیں۔ اس ادارے کا کام محض تھیوری کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس پر مالیاتی بحران کی شکار معیشتوں کی بحالی کی ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف اپنے فنڈز سے بحران میں گھرے ہوئے معاشی طور پرکمزور ممالک کے اقتصادی امراض کا علاج کرکے ان کی صحت کی بحالی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
دنیا کے بہت سے ممالک آئی ایم ایف سے فائدہ حاصل کرکے اپنی معاشی حالت کو درست کرچکے ہیں۔ ان ممالک کی فہرست خاصی طویل ہے۔ یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ امریکا پاکستان اور آئی ایم ایف کے معاملے میں اپنی ٹانگ اڑا رہا ہے۔ معاملہ آئی ایم ایف اور پاکستان کا ہے۔ امریکا کو اس سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے لیے جانے والے قرضے کوکب اورکہاں استعمال کرے گا۔ امریکا خواہ مخواہ خدائی فوج دار بننے کوشش نہ کرے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کینگ شوان نے امریکی بیان کے دو ٹوک جواب میں امریکا سے کہا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کو مشورہ دینے کے بجائے جنوبی ایشیا میں سرمایہ کاری کے عمل میں شراکت کرے۔
امریکی رویے کے حوالے سے چین کا یہ ردعمل بروقت بھی ہے اور برمحل بھی۔ اس کے علاوہ یہ پاکستان کے حق میں ایک مثبت پیغام اور اعانت کا عندیہ بھی ہے۔ چین بارہا اس حقیقت کا واضح طور پر بھرپور اظہار بھی کرچکا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بے مثال اور بے دریغ قربانیاں دی ہیں جس کی تلافی امریکا نے ابھی تک نہیں کی ہے۔ امریکا کا فرض تھا کہ پاکستان کی ان قربانیوں کا معقول صلہ دیتا اور اپنے برے وقت کے ساتھی پاکستان کی نہ صرف خود بھرپور مدد کرتا بلکہ پوری دنیا کی تجارتی منڈیاں بھی اس کے لیے کھلوانے میں پوری طرح تعاون کرتا، مگر ایسا کرنے کے بجائے امریکا نے پاکستان کے کولیشن سپورٹ فنڈ میں کٹوتی کردی جو سراسر بے انصافی اورکھلم کھلا زیادتی ہے۔
پوری دنیا اس حقیقت کو جانتی اور مانتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ میں پاکستان کو امریکا کے کسی بھی اتحادی ملک کے مقابلے میں سب سے زیادہ مالی اورجانی نقصان اٹھانا پڑا ہے جس نے اس کی معیشت کی چولیں ہلاکر رکھ دی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس عظیم تعاون کے بدلے میں امریکا پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں اپنا بھرپورکردار ادا کرتا، لیکن امریکا نے نہ صرف یہ کردار ادا کرنے سے پہلو تہی کرکے پاکستان کو سخت مایوس کیا ہے بلکہ انتہائی بے وفائی اور سفاکی کا ثبوت دیتے ہوئے آئی ایم ایف کو پاکستان کے خلاف ڈکٹیشن دے رہا ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں بھی پاکستان امریکا کی جانب سے اس قسم کے منفی رویوں کا شکار رہا ہے۔ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد بھی امریکا نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا جس کا خمیازہ پاکستانی قوم تب سے آج تک مسلسل بھگت رہی ہے۔ پاکستان 60 کے عشرے سے امریکا کا ہر موقعے پر ساتھ دیتا چلا آ رہا ہے لیکن اس کے باوجود امریکا نے پاکستان کے تعاون کے اعتراف میں اس کی وہ مدد نہیں کی جو اخلاقی طور پر اس کا فرض بنتا تھا۔ ستم ظریفی کی انتہا تو یہ ہے کہ بین الاقوامی اداروں پر بھی یہ دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ بھی پاکستان کی کوئی مدد کرنے سے ہاتھ اٹھا لیں۔
امریکی حکومت نے یہ اخلاق سوز حرکت ایسے نازک وقت پرکی ہے جب پاکستان شدید مالی مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور نئی حکومت کو اقتدار سنبھالنے کے موقعے پر نہایت سنگین قسم کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ متوقع وزیر اعظم عمران خان نے عزم محکم کا مظاہرہ کرتے ہوئے واضح اشارہ دیا ہے کہ وہ دباؤ میں آنے کے بجائے امریکا کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات رکھیں گے۔ ان کے اس عزم کی پوری قوم بھرپور حمایت کرے گی۔
پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے یہ امر نہایت اطمینان کا باعث ہے کہ پاک چین دوستی نہ صرف ہر آزمائش پر پوری اتری ہے بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی جڑیں گہری سے گہری اور مضبوط سے مضبوط تر ہو رہی ہیں۔ مستقبل کی پاکستانی حکومت کی قیادت نے یہ واضح عندیہ دیا ہے کہ آیندہ پاک چین تعلقات کو نہ صرف مزید فروغ حاصل ہوگا بلکہ نئے پاکستان کی نئی حکومت زندگی کے مختلف شعبوں میں چین کے کامیاب تجربوں اور اصلاحات سے خاطر خواہ فائدہ بھی اٹھائے گی۔