کیا آزادی کے ثمرات میں تاخیر کے ازالے کا وقت آن پہنچا

’’ یہ داغ داغ اُجا لا یہ شب گزیدہ سفر ‘‘ سے… ’’روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں‘‘ تک۔

’’ یہ داغ داغ اُجا لا یہ شب گزیدہ سفر ‘‘ سے… ’’روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں‘‘ تک۔ فوٹو: انٹرنیٹ

تقسیم ہند پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں مگر ان میں سر فہر ست فرانسیسی نژاد دو مصنفین لاریکولنز اور ڈومنیک لاپیر کی مشترکہ کتاب "Freedom at midnight" (فریڈم ایٹ میڈ نائٹ) یعنی 'آزادیٔ نیم شب 'کتاب کو عالمی سطح پر تسلیم کیاجا تا ہے۔

اگرچہ اس کتاب میں کسی حد تک ان دونوں مصنفین کا جھکائو کانگریس ،مہاتما گاندھی اورپنڈت جواہر لال نہروکی طرف رہا ہے جس کی بنیاد ی وجہ کانگریس کا سیکولر جمہور ری بھارت کا پراپیگنڈہ تھا لیکن اس کے باوجود ان مصفین نے قائد اعظم محمد علی جناح کو عظیم لیڈرتسلیم کیا ہے۔ اس کتاب میں بہت سے مقامات پر لارڈ مائونٹ بیٹن کی پنڈت جواہر لال نہرو سے دوستی اور تعلقا ت کا ذکر کیا گیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں مائونٹ بیٹن اور نہرو کی پہلی ملاقات سنگاپور میں ہوئی تھی جب مائو نٹ بیٹن جنوب مشرقی ایشیا میں اتحادی فوج کے سپہ سالار تھے۔

انہوں نے اپنے سارے مشیروں کی مخالفت کے باوجود نہرو سے ملاقات کی اور ملاقات کے دوران پیش گوئی کی کہ نہرو ہی ہندوستان کے وزیر اعظم ہوں گے اور پھر جب مائونٹ بیٹن 1943 ء میں احمد نگر آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ نہرو احمد نگر کے قلعے میں قید ہیں تو انہوں نے نہرو سے ملنے کی اجازت مانگی مگر انتظامیہ نے اجازت نہیں دی اور جب یہ بات نہر و کو معلوم ہوئی تو انہوں نے لارڈمائو نٹ بیٹن کی تعریف یوں کی، ''سارے انگریز ایک طرح کے نہیں ہوتے،، لارڈ مائونٹ بیٹن بطور وائسرائے مارچ 1947ء میں ہندوستان میں آئے، 3 جون کو اعلان آزادی کیا اور پھر 18 جولائی 1947 ء کو قانون آزادی ہند کے بعد 14 اور 15 اگست کو دونوں ملکوں پاکستان اور بھارت کو آزادی دے دی۔ یہاں نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی انسانی ہجرت ہوئی بلکہ لاکھوں افراد فسادات میں جان کی بازی ہار گئے۔

اس کتاب میں وہ قائد اعظم کے عزم و ہمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں،،جون1946 ء میں قائد اعظم کو ان کے معالج نامور فزیشن ڈاکٹر جے اے ایل پٹیل نے ایکسرے کرکے یہ بتا دیا تھا اُ نہیں ٹی بی ہے جواُن کے دونوں پھیپڑوں کو بری طرح متاثر کرچکی ہے، اس لیے اب وہ بہت کم مدت کے لیے زندہ رہیں گے جناح اس انکشاف پر چونکے نہیں بلکہ یوں لگا جیسے وہ اس بات سے آگاہ تھے۔ اس موقع پر انہوں نے زیر لب کہا، '' اب پہلے سے دو گنا کام کرنا ہو گا''۔ انہوں نے اپنے معالج سے وعدہ لیا کہ یہ راز ،راز ہی رہے گا اور ڈاکٹر پٹیل نے بھی واقعی اس را ز کو راز رکھا، اگر یہ راز عیاں ہوجاتا تو کانگریس اور انگریز وں کی جانب سے تقسیم ہند اور آزادی میں تاخیر کر دی جاتی اور جب قائد اعظم دنیا سے کوچ کرجاتے پھر شائد پوری مسلم لیگ میں کو ئی اور شخصیت ایسی نہ تھی جو پاکستان بنا سکتی۔

جنگ آزادی1857 ء میں ہندوستانیوں کی شکست کے بعد انگریز نہ صرف پورے ہند وستان پر قابض ہو گئے بلکہ طویل جد و جہد کے ذریعے انہوں نے ہندوستان کو مرکزیت دیکر مستحکم حکومت قائم کرلی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد اگرچہ انگر یز دنیا کے24% رقبے اور25% آبادی کاحکمران بن گیا تھا مگر وہ اس جنگ میں اپنی کافی طا قت کھو چکا تھا۔ اُس کی جگہ امریکہ اب ایک مضبو ط اقتصادی ،معاشی اور فوجی قوت بن کر اُبھر رہا تھا جو1911 میں دنیا میں اپنا پہلا طیارہ بردار بحری بیڑ بھی بنا چکا تھا۔

اِدھر ہندوستان میں آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنما خصوصا پنڈت جواہر لال نہرو کے والد پنڈت موتی لال نہرو، اور مسلم لیگ کے رہنما قائد اعظم محمد علی جناح اس حقیقت کا سیاسی ادراک رکھتے تھے۔ قائد اعظم نے 1916 کے میثاق لکھنو سے ہندو مسلم اتحاد کی بنیاد پر ہندوستان کو آزاد کرانے کی بہت مخلصانہ کو شش کی تھی مگر انہیں1928 کی نہرو رپورٹ سے شدید مایوسی ہوئی تھی، اس کے باوجود انہوں نے 1929 اپنے مشہور چودہ نکات پیش کرکے ہندو مسلم اتحاد کو بچانے کی کوشش کی اور ہندوستان کو مشترکہ طور پر آزادکرانے کے لیے کانگریس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا جسے جھٹک دیا گیا۔ اس پر علامہ اقبال نے1930 میں الہ آباد میں پاکستان کا واضح تصور پیش کیا ۔

1937 کے انتخابات کے بعد جب صوبوں میںوزارتیں قائم کرنے کا مرحلہ آیا تو کانگریس نے اپنی کامیابی کے زعم میں آل انڈیا مسلم لیگ سے نہایت حقارت کا سلوک کیا ، اس کے بعد یہی حقارت ان مسلمانوں کے ساتھ بھی برتی گئی جنہوں نے کانگریس میں شامل ہو کر مسلم لیگ کی مخالفت کی تھی۔ اس رحجان کا بالکل صیح اندازہ قائداعظم نے لگایا اور یوں 23 مارچ 1940 کو لاہور میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے صرف چھ سال کے اندر پاکستان قائم کر کے دنیا کو حیران کردیا۔

قیام پاکستان کے وقت کانگریس اور انگریزوں نے ہر طرح سے یہ کوشش کی کہ یہ نئی مملکت نا کام ہو جائے اور اسی لیے مشرقی پنجاب میں مسلم اکثریت کے علاقے گورداسپور،فیروزپور،اور زیرہ بھارت میں شامل کر وا کر یہاں بلوائیوں کے جتھے کے جتھے بھیجے اور خود اس سازش پر عملدرآمد سردار پاٹیل نے کروایا۔ مغربی پاکستا ن میں اس قتل عام کی وجہ سے زیادہ تعداد میں مسلمان مہاجرین کو دھکیل دیا گیا جب کہ مشرقی پاکستان میں، جہاں ہندوں کا تناسب 21% تھا ممکنہ ہندو مسلم فسادات کو روکنے کے لیے گاندھی جی اور حسین شہید سہروردی نے اہم کردار ادا کیا۔

اس وقت مغربی پاکستان سے45 لاکھ ہندوں سکھوں نے بھارت ہجرت کی جب کے اس کے مقابلے میں بھارت سے 65 لاکھ مسلمان ہجرت کرکے مغربی پاکستان آئے یوں اس پاکستان کی خاطر لاکھوں افراد شہید ہوئے اور65 لاکھ مسلمانوں نے اپنا گھر بار چھوڑا۔ تقسیم کے فورا بعد پاکستان کی نہروں کا پانی بھارت نے روک لیا ،اثاثوں کی تقسیم میں بد دیانتی کی انڈین سنٹرل بنک کے چار ارب رروپے کے سرمائے میں سے ایک ارب پاکستان کا حصہ تھا جس میں سے صرف 20 کروڑ روپے پاکستان کو دئیے گئے اور ساتھ ہی کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھات کے درمیان جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں پاکستان نے آدھا کشمیر آزاد کروا لیا ،مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ بیور کریسی کی شکل میں اور بعض دوسرے مفاد پرست افراد کی صورت میں ایسے لو گ بھی پا کستان کی حکومت کے شعبوں میں آئے جن کے بارے میں قائد اعظم کو کہنا پڑا تھاکہ ان کے پاس کچھ کھوٹے سکے آگئے ہیں ،معلوم نہیں کہ یہ کھوٹے سکے آگئے تھے یا ان کی جیب میں ڈال دیئے گئے تھے غالبا یہی احسا سات اس وقت مشہور شاعر فیض احمد فیض کے تھے جنہوں نے اس وقت نظم کہی تھی جس کا عنوان تھا:

صبح ِ آزادی۔اگست۱۹۴۷

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر

یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لیکر

چلے تھے یار کہ مل جائینگے کہیں نہ کہیں

فلک کے دشت ستاروں کی آخری منزل

کہیں تو ہو گا شب ِ سست موج کا ساحل

کہیں تو جا کے رُکے گا سفینۂ غمِ دل

جواں لہو کی پُر اسرار شاہراہوں سے

چلے جو یار تو دامن پہ کتنے ہاتھ پڑے

پکارتی رہیں روحیں بدن بلاتے رہے

بہت عزیز تھی لیکن رخِ سحر کی لگن

بہت قریں تھا حسینانِ نور کا دامن

سبک سبک تھی تمنا دبی دبی تھی تھکن

سنا ہے ہو بھی چکا ہے فراقِ ظلمت و نور

سنا ہے ہو بھی چکا ہے وصالِ منز ل و گام

بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور

نشاطِ وصل حلال و عذابِ ہجر حرام


جگر کی آگ ، نظر کی اُمنگ دل کی جلن

کسی پہ چارہء ہجراں کا کچھ اثر ہی نہیں

کہاں سے آئی نگارِ صبا کدھر کو چلی

ابھی چراغِ سرِ رہ کو کچھ خبر ہی نہیں

ابھی گرانیِ شب میں کمی نہیں آئی

نجاتِ دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی

بڑھے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

قائد اعظم ان کھوٹے سکوں کو پہچاننے لگے تھے کہ وہ بیماری جو اب نہایت طاقتور ہو چکی تھی، جس کے ساتھ قائد اعظم اپنی قوت ارادی بل پر کم ازکم ڈیڑھ سال تک نبرد آزما رہے تھے آخر کار ان پر حاوی ہو گئی اور آزادی کے صرف ایک سال 28 دن بعد وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ لیاقت علی خان نے بطور وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پا کستان کو مضبوط کیا۔ ملک نے ترقی کی لیکن دشمنوں نے انہیں 1951 میں شہید کر دیا۔ اس کے بعد سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا ایک سلسلہ چل نکلا جس نے پاکستان کو بہت نقصان پہنچایا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک اپنے قیام کے پہلے 40 برسوں میں مستحکم اور متوازن انداز میں ترقی کرتا رہا۔ مگر سویت یونین کے افغانستان سے رخصت ہوتے ہی صورتحال بدلنے لگی 1990 کی دہائی کو دنیا میں حیران کن اور تیز رفتاری تبدیلوں کی دہائی کہا جاتا ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مغربی یورپ اور امریکہ نے اس وقت تک اپنی بعض ایجا دات اور ان سے منسلک اقتصادی پالیسیوں کو خاموشی سے چھپائے رکھا، شائد وہ سابق سویت یونین اور مشرقی یورپ میں کمیونزم کے مکمل خاتمے کے انتظا ر میں تھے اور جونہی یہ عمل مکمل ہوا اور1990 میں سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان ہوا تو بہت ہی مختصر مدت میں ٹیلی کیمنوکیشن،سیٹلائٹ اینڈ اسپیس ٹیکنالوجی ،کی بنیادی پر اس وسیع دنیا کو گلوبل ولیج قرار دے دیا گیا۔

اشتراکی نظامِ معیشت کی شکست پر فاتح سرمایہ دارانہ نظامِ معیشت نے ڈبیلو ٹی اوکے تحت پوری دنیا میںٹیکسوں اور تجارت کے نئے اصول و ضوابط رائج کئے اور اس کے ساتھ سرمایہ دارانہ معیشت رکھنے والی قوتوں نے امریکہ کے نیو ورلڈ آڈر کو مستحکم کیا جس میں واضح اور درپردہ عسکری فوجی قوت کا استعمال جاری ہے ،سرد جنگ کے خاتمے کے اعلان کے ساتھ ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے عنوان سے دنیا میں ایک نئی طرز کی ایسی جنگ چھیڑی گئی جو سرحدوں کے بجائے شہروں اور آبادیوں میں شروع ہو ئی دنیا کی بڑی قوتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت اس پراکسی وار میں مصروف عمل ہیں حالانکہ بحیثت ریاست یہ عالمی غارت گر خود کو پُرامن ،تہذیب و اخلاق کا محافظ ظا ہر کرتے ہیں۔

جو ممالک اس صورتحال یعنی د ہشت گردی سے سب سے زیادہ متا ثر ہوئے ان میں پاکستان سر فہرست ہے۔ پاکستا ن نے اپنی مختصر تاریخ میں بھارت سے تین جنگیں لڑیں جو روائتی انداز میں دونوں ملکوں کی سرحدوں پر فوجوں کے درمیان لڑی گئیں۔ دہشت گردی کی جنگ 'جس کا ایک بہت بڑا محاذ میڈیا بھی ہے اور جسے 1990 کی دہائی میں عالمی سطح پر ڈیزائن کیا گیا' 2000 ء یعنی نئے ہزاریے کے آغاز پر پوری شدت سے شروع کردی گئی۔ اس جنگ کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اس نوعیت کی جنگ میں کامیابی حاصل کی ہو۔آج اس کا اعترف پوری دنیا کرتی ہے ۔

2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تحریک انصاف کامیاب ہوئی ہے جو ہماری پارلیمانی تاریخ میں ایک ایسی نئی جماعت ہے جو نوجوانوں کی اکثریت کے ووٹ لے کر آئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آیا تحریک انصاف اپنے منشور پر عملدآمد کروا پائے گی یا نہیں، لیکن ملک کی جمہوری تاریخ اس بار یعنی 2018 ء میں یوں بھی مختلف ہے کہ اعددی اعتبار سے اس مرتبہ ا پوزیشن قومی اسمبلی اور سینٹ میں جتنی مضبو ط ہے تاریخ میں کبھی نہیں تھی۔

اگر سیاست میں حزب اقتدار اور حزب اختلا ف دنوں نے جمہوری اقدار کو اپنائے رکھا تو اُمید ہے کہ پاکستان جمہوری طاقت کے ساتھ تعمیر وترقی کی منا زل اتنی تیز رفتاری سے طے کر ئے گا کہ ماضی میں ہونے والی تاخیر کا ازالہ ہو جائے گا۔ فیض احمد فیض نے پہلے یو م آزدی پر کہا تھا کہ ( یہ داغ داغ اجلا یہ شب گزیدہ سحر ) مگر اس کے کچھ عرصہ بعد جب ملک نے ترقی کی اور کچھ سماجی شعور بیدار ہوا تو کہا ( روشن کہیں بہار کے امکاں ہو ئے تو ہیں ۔گلشن میں چاک چند گریباں ہو ئے تو ہیں ) یوں اس بار ہم اپنا 72 واں یوم آزادی منا رہے ہیں تو ہماری پارلیمنٹ ایک نئے انداز سے پوری قوم کی رہنمائی کے لیے سفر کا آغاز کر رہی ہے۔

اس موقع پر چاہے حزب اقتدار ہو یا حزب اختلاف، سب کو ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے کا عہد کرنا چاہیے۔ یہ بھی خوش قسمتی ہے کہ مشترکہ حزب اختلاف میں ملک کے تمام حصوں کی نمائندگی موجود ہے، دوسری جانب حزب اقتدار میں آنے والی جماعت بھی اس بار ایک ایسی جماعت ہے جس کو چاروں صوبوں سے نمائندگی ملی ہے اور یہ بھی یہ طے کرلیا گیا ہے کہ اب ملک سے کرپشن ،اقربا پروری ،ناانصافی کا خاتمہ ہو گا۔ امید کرنی چاہیے کہ اب بلا تفریق ان تمام مجرموں کو انصا ف کے کٹہر ے میں لایا جائے گا جو ملک کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے رہے ہیں۔ نو منتخب پارلیمنٹ احتساب کے لیے مل کر ایسی قانون سازی کرے کہ مستقبل میں ہمارے پیارے ملک پاکستان میں کرپشن بددیانتی،اور اقربا پروری کے سارے دروازے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیںاور احمد ندیم قاسمی کی یہ دعا پوری ہو جائے۔

خدا کرے کہ میری عرضِ پاک پر اُترے

وہ فصلِ گل جسے اندیشہ ء زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کھلا رہے صدیوں

یہاں خزاں کو گذرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز کہ جس کی کو ئی مثال نہ ہو

خدا کرئے کہ نہ خم ہو سرِ وقارِ وطن

اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال

کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرئے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے

حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

 
Load Next Story