ایک دلیر لڑکی کی سبق آموز داستان جہد
مفلوج بہن کی تیمارداری نے مجھے کیا سکھایا؟
اگر زندگی نے مجھے ایک چیز سکھائی تو وہ یہ کہ انسان اسی وقت اپنے اندر موجود صلاحیت اور قوت سے آشنا ہوتاہے جب اس پر مشکل وقت آجائے۔ بڑی بہن کے حادثے سے پہلے تک میں بھی خود سے حقیقی معنوں میں مل ہی نہیں پائی۔
اس وقت میں محض پندرہ برس کی تھی، اور ایک لاپرواہ نوجوان۔میری بہن سمجھدار اور شوخ لڑکی تھی، مگر بچپن میں وہ مجھے کافی تنگ کیا کرتی ۔ عمر میں پانچ سال بڑی ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بڑے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے رویوں کو درست ٹھہراتی ، شاید اسی لیے ہم دونوں کا تعلق محض رسمی بن گیا اور ہم الگ تھلگ سے رہنے لگے۔
ایک دن وہ ڈرائیونگ کر رہی تھی، تب گاڑی پل سے نیچے گر گئی۔ ایک اور گاڑی نے اسے ٹکر مار دی۔ اس کو دائمی نقصان پہنچا اور کمر سے نیچے جسم کا نچلا حصہ مفلوج ہو گیا۔اس حادثے نے سب کچھ تبدیل کر ڈالا۔یہ چودہ برس پہلے کی بات ہے۔جلد میں اپنی بہن کی سب سے اہم تیمادار بن گئی ۔ میں نے اپنا تمام وقت اس کے لیے وقف کر دیا ۔گھر والوں نے اس کی مدد کے لیے نرسز رکھی تھیں مگر ان کی جانب سے بھاری فیس کے مطالبے اور پرائیویسی والے خدشات کے پیش نظر ہم نے انہیں فارغ کر دیا۔
میرے والدین اس تمام تر صورتحال سے ٹوٹ گئے مگر خود کو حوصلہ دینے اور پُرامید رکھنے میں کامیاب رہے ۔ اپنی بہن کی ذمہ داریوں کا ایک بڑا حصہ اپنے سر لے کر میں نے ان کی پریشانی کو کچھ کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے طے کیا کہ میں اکیلے ہی سب کچھ سنبھال سکتی ہوں۔ بہن کے لیے چلنا اب تاحیات جدوجہد کا نام تھا۔ اسیصاف رکھنے سے لے کر فزیوتھراپی کا خیال رکھنے اور بالآخر جذباتی سہارا بننے تک میں ہی ان سب چیزوں کی ذمہ دار تھی۔یہ سب بہت مشکل تھا ۔ مجھے ہر وقت بہن کی فکر لگی رہتی تھی۔ میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس کے کمرے میں اسے چیک کرنے جاتی۔ مجھے اس بات کو یقینی بنانا ہوتا تھا کہ وہ بستر پر درست انداز میں لیٹی ہو؛ سوتے وقت جسم ٹھیک پوزیشن میں ہو تاکہ پریشر کی وجہ سے جسم میں سوزش پیدا نہ ہو۔
جن دنوں وہ پریشانیوں سے تنگ آ کر اپنی بھڑاس مجھ پر نکال بیٹھتی،تو وہ میرے لیے سب سے زیادہ امتحان کا وقت ہوتا۔ اس کی اور اپنی جنگوں سے نمٹنا انتہائی اکتاہٹ کا شکار بنا دیتا۔ ایسے مواقع پر اپنی خواہشوں اور آرزوؤں کو اپنی بہن کی خاطر دبا دینے سے ایک چھوٹی سی فتح کا احساس پیدا ہوتا ، مگر کسی دن میرے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ۔مگر بعد میں خود کو اپنی خودغرضی پر جھڑک دیتی۔
مسلسل ذہنی پریشانی اور بے خواب راتوں کے باوجود بھی میں ہر صبح کلاس لینے میں کامیاب رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے میری پڑھائی کا نقصان ہوا ۔ میرا زیادہ سے زیادہ وقت بہن کا خیال رکھنے میں صرف ہوتا۔اس وجہ سے پڑھائی پر زیادہ توجہ نہ دے پاتی ۔میری معاشرتی زندگی بھی انتہائی محدود ہو گئی ۔ جب میرے دوست کبھی ملاقاتیں کرتے، کبھی شاپنگ پر ساتھ جاتے یا پھر کسی دن ریسٹورینٹ میں کھانا کھاتے، میں اپنی بہن کے ہمراہ ہسپتالوں، چیک اپس اور ان کے فالو اپس وغیرہ میں مصروف ہوتی۔
دوستوں کے ساتھ شامل ہونے سے بار بار انکار کرنے کی وجہ سے انہوں نے مجھے بلانا چھوڑ دیا۔ انہیں سمجھ ہی نہ آتا کہ میں کیوں انکار کرتی تھی۔ اب میں بالکل اداس اور اکیلا محسوس کرنے لگی۔میرے چاچا واحد شخص تھے جو میری رنجشوں کو سنتے ۔ وہ بچپن سے ہی میرے کافی قریب رہے تھے۔ جب کبھی مجھ پر کوئی مشکل دن آتا ، تو وہ مجھے صابر اور ثابت قدم رہنے کا حوصلہ دیتے اور خدا پر بھروسہ کرنے کی نصیحت کرتے۔
امتحانی نتائج کا اعلان ہوا۔ میں اچھے گریڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔ اس کا جشن نہ تو گھر اور نہ ہی اسکول میں منایا گیا، مگر جس صورتحال سے میں گزر رہی تھی، اس حساب سے میں نے اسے بڑی کامیابی تصور کیا۔سماجی حلقوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی ناامیدی و مایوسی کے باوجود مجھے احساس ہوا، اگر میں خود میں امید پیدا نہیں کروں گی، تو میری بہن کی ہمت کون بندھائے گا؟ مجھے ان کی تیمارداری اور اپنے خواب پانے کی دوڑ میں توازن برقرار رکھنا تھا۔
میری بہن کو صبح کے اوقات میں میری سب سے زیادہ ضرورت ہوتی تھی، لہٰذا میں نے ایک لا کالج کی شام کی کلاسز میں داخلہ لے لیا۔ میں خود پر کافی نازاں اور شاداں تھی؛ مجھے ایک معتبر ادارے میں داخلہ مل گیا اور لگنے لگا کہ میں اب وکیل بن جاؤں گی۔ میری بہن نے بھی اپنا ٹائم ٹیبل میری کلاسز کے مطابق تبدیل کر لیا جس میں نہانے اور سونے کا شیڈول بھی شامل تھا۔جب بات دوستوں سے میل جول کی آئی تو میں نے بھی بہتر حکمت عملی سے کام لینا شروع کردیا۔ میں صرف تب ہی باہر نکلتی جس وقت مجھے پورا یقین ہو جاتا کہ بہن کو میری ضرورت نہیں پڑے گی۔
ابتدا میں یہ طریقہ کار آمد محسوس ہوا مگر میں اسے جاری نہیں رکھ سکی۔ میرے لیے دوستوں کے درمیان خوش رہنا مشکل ہو گیا کیونکہ اندر سے مجھے اپنی بہن کی ہی فکر رہتی۔میں جب بھی جہاں بھی جاتی، تو میرے دماغ میں ایسے ہی سوالات اٹھتے کہ میری غیر موجودگی میں وہ اپنا خیال کیسے رکھے گی؟ کیا ضرورت کے وقت بلڈ پریشر کی مریضہ میری والدہ اس کی مدد کر پائیں گی؟ اگر وہیل چیئر پر بیٹھتے وقت وہ گر گئی تو؟
آخرِکار میں یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ پائی اور لا کالج کو خیرباد کہہ دیا۔ جب میں اپنے دوستوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے کوشاں دیکھتی تو خود پر ترس آنے لگتا ۔ مگر بہرحال یہ احساس بھی جلد ختم ہو گیا۔ میں نے خود کو اپنی بہن کا خیال رکھنے کے لیے کمربستہ کیا اور ایسے خوابوں کا تعاقب شروع کیا جو میرے ایسے حالات میں میرے لیے ممکن تھے ۔میں نے فری لانسنگ، تدریس اور فلاحی کاموں جیسی عارضی ملازمتیں کرنا شروع کیں۔ اس طرح مجھے بہن کی ضروریات کا خیال رکھنے کے لیے بہت سارا وقت مل جاتا جو سالہا سال تک تقریباً ویسی ہی رہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ اس کے اعصاب ٹھیک ہونے لگے تھے اور وہ تھوڑی حد تک خود سے کچھ کام کرنے لگی ۔
بہن کی زندگی میں آنے والی بہتری کو دیکھنا ہی میرے لیے سب سے بہترین تحفہ ہے۔ سالہاسال کی نگہداشت کے بعد اب وہ اپنے کام کم سے کم مدد کے ساتھ کر لیتی ہے۔ وہ اب کھڑی ہو پاتی ہے اور کچھ مشینی پرزوں کی مدد سے تھوڑی سی چہل قدمی کرتی ہیں۔مگر جو چیز مجھے اپنی بہن پر سب سے زیادہ فخرمند بناتی ہے، وہ ہے اس کی ملازمت! ایسا معاشرہ جو معذور افراد کے لیے بالکل بھی دوستانہ نہیں، وہاں رہنے کے باوجود وہ ایک معتبر ادارے کے ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ میں کام کر رہی ہے۔
جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں اب زیادہ مضبوط، زیادہ صابر اور زیادہ مثبت ہو چکی ۔ بہن کا خیال رکھنا ہی میرا سب سے زیادہ حقیقی امتحان تھا۔اس مشکل وقت نے مجھے بہن سے تعلق مزید بہتر طور پر جوڑنے میں مدد کی۔ وہ حادثہ ہم دونوں کو اتنا قریب لے آیا کہ اب ہمارے علیحدہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ماضی میں اپنی زندگیوں کا سیاہ باب یاد کرتے ہوئے آج ہم ہنسی مذاق کر سکتے ہیں۔شکر ہے کہ ہم بہتری کی جانب گامزن ہیں۔اس امتحان سے ہم نے یہ سیکھا کہ زندگی اتنی آسان نہیں ہوتی! بعض اوقات ہمیں ایسے امتحانوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے جن کی آپ کو توقع بھی نہیں ہوتی۔مگر ہمارے شعور کا ایسے چیلنجز سے ہی گہرا تعلق ہے اور ان سے نمٹنے کا بہترین طریقہ ثابت قدم ہو کر ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود میں یقین پیدا کریں اور صابر رہیں، اور میری بہن کے بغیر میں یہ سب کچھ نہ کر پاتی۔
اس وقت میں محض پندرہ برس کی تھی، اور ایک لاپرواہ نوجوان۔میری بہن سمجھدار اور شوخ لڑکی تھی، مگر بچپن میں وہ مجھے کافی تنگ کیا کرتی ۔ عمر میں پانچ سال بڑی ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بڑے ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے رویوں کو درست ٹھہراتی ، شاید اسی لیے ہم دونوں کا تعلق محض رسمی بن گیا اور ہم الگ تھلگ سے رہنے لگے۔
ایک دن وہ ڈرائیونگ کر رہی تھی، تب گاڑی پل سے نیچے گر گئی۔ ایک اور گاڑی نے اسے ٹکر مار دی۔ اس کو دائمی نقصان پہنچا اور کمر سے نیچے جسم کا نچلا حصہ مفلوج ہو گیا۔اس حادثے نے سب کچھ تبدیل کر ڈالا۔یہ چودہ برس پہلے کی بات ہے۔جلد میں اپنی بہن کی سب سے اہم تیمادار بن گئی ۔ میں نے اپنا تمام وقت اس کے لیے وقف کر دیا ۔گھر والوں نے اس کی مدد کے لیے نرسز رکھی تھیں مگر ان کی جانب سے بھاری فیس کے مطالبے اور پرائیویسی والے خدشات کے پیش نظر ہم نے انہیں فارغ کر دیا۔
میرے والدین اس تمام تر صورتحال سے ٹوٹ گئے مگر خود کو حوصلہ دینے اور پُرامید رکھنے میں کامیاب رہے ۔ اپنی بہن کی ذمہ داریوں کا ایک بڑا حصہ اپنے سر لے کر میں نے ان کی پریشانی کو کچھ کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے طے کیا کہ میں اکیلے ہی سب کچھ سنبھال سکتی ہوں۔ بہن کے لیے چلنا اب تاحیات جدوجہد کا نام تھا۔ اسیصاف رکھنے سے لے کر فزیوتھراپی کا خیال رکھنے اور بالآخر جذباتی سہارا بننے تک میں ہی ان سب چیزوں کی ذمہ دار تھی۔یہ سب بہت مشکل تھا ۔ مجھے ہر وقت بہن کی فکر لگی رہتی تھی۔ میں راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس کے کمرے میں اسے چیک کرنے جاتی۔ مجھے اس بات کو یقینی بنانا ہوتا تھا کہ وہ بستر پر درست انداز میں لیٹی ہو؛ سوتے وقت جسم ٹھیک پوزیشن میں ہو تاکہ پریشر کی وجہ سے جسم میں سوزش پیدا نہ ہو۔
جن دنوں وہ پریشانیوں سے تنگ آ کر اپنی بھڑاس مجھ پر نکال بیٹھتی،تو وہ میرے لیے سب سے زیادہ امتحان کا وقت ہوتا۔ اس کی اور اپنی جنگوں سے نمٹنا انتہائی اکتاہٹ کا شکار بنا دیتا۔ ایسے مواقع پر اپنی خواہشوں اور آرزوؤں کو اپنی بہن کی خاطر دبا دینے سے ایک چھوٹی سی فتح کا احساس پیدا ہوتا ، مگر کسی دن میرے بھی صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ۔مگر بعد میں خود کو اپنی خودغرضی پر جھڑک دیتی۔
مسلسل ذہنی پریشانی اور بے خواب راتوں کے باوجود بھی میں ہر صبح کلاس لینے میں کامیاب رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے میری پڑھائی کا نقصان ہوا ۔ میرا زیادہ سے زیادہ وقت بہن کا خیال رکھنے میں صرف ہوتا۔اس وجہ سے پڑھائی پر زیادہ توجہ نہ دے پاتی ۔میری معاشرتی زندگی بھی انتہائی محدود ہو گئی ۔ جب میرے دوست کبھی ملاقاتیں کرتے، کبھی شاپنگ پر ساتھ جاتے یا پھر کسی دن ریسٹورینٹ میں کھانا کھاتے، میں اپنی بہن کے ہمراہ ہسپتالوں، چیک اپس اور ان کے فالو اپس وغیرہ میں مصروف ہوتی۔
دوستوں کے ساتھ شامل ہونے سے بار بار انکار کرنے کی وجہ سے انہوں نے مجھے بلانا چھوڑ دیا۔ انہیں سمجھ ہی نہ آتا کہ میں کیوں انکار کرتی تھی۔ اب میں بالکل اداس اور اکیلا محسوس کرنے لگی۔میرے چاچا واحد شخص تھے جو میری رنجشوں کو سنتے ۔ وہ بچپن سے ہی میرے کافی قریب رہے تھے۔ جب کبھی مجھ پر کوئی مشکل دن آتا ، تو وہ مجھے صابر اور ثابت قدم رہنے کا حوصلہ دیتے اور خدا پر بھروسہ کرنے کی نصیحت کرتے۔
امتحانی نتائج کا اعلان ہوا۔ میں اچھے گریڈ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔ اس کا جشن نہ تو گھر اور نہ ہی اسکول میں منایا گیا، مگر جس صورتحال سے میں گزر رہی تھی، اس حساب سے میں نے اسے بڑی کامیابی تصور کیا۔سماجی حلقوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی ناامیدی و مایوسی کے باوجود مجھے احساس ہوا، اگر میں خود میں امید پیدا نہیں کروں گی، تو میری بہن کی ہمت کون بندھائے گا؟ مجھے ان کی تیمارداری اور اپنے خواب پانے کی دوڑ میں توازن برقرار رکھنا تھا۔
میری بہن کو صبح کے اوقات میں میری سب سے زیادہ ضرورت ہوتی تھی، لہٰذا میں نے ایک لا کالج کی شام کی کلاسز میں داخلہ لے لیا۔ میں خود پر کافی نازاں اور شاداں تھی؛ مجھے ایک معتبر ادارے میں داخلہ مل گیا اور لگنے لگا کہ میں اب وکیل بن جاؤں گی۔ میری بہن نے بھی اپنا ٹائم ٹیبل میری کلاسز کے مطابق تبدیل کر لیا جس میں نہانے اور سونے کا شیڈول بھی شامل تھا۔جب بات دوستوں سے میل جول کی آئی تو میں نے بھی بہتر حکمت عملی سے کام لینا شروع کردیا۔ میں صرف تب ہی باہر نکلتی جس وقت مجھے پورا یقین ہو جاتا کہ بہن کو میری ضرورت نہیں پڑے گی۔
ابتدا میں یہ طریقہ کار آمد محسوس ہوا مگر میں اسے جاری نہیں رکھ سکی۔ میرے لیے دوستوں کے درمیان خوش رہنا مشکل ہو گیا کیونکہ اندر سے مجھے اپنی بہن کی ہی فکر رہتی۔میں جب بھی جہاں بھی جاتی، تو میرے دماغ میں ایسے ہی سوالات اٹھتے کہ میری غیر موجودگی میں وہ اپنا خیال کیسے رکھے گی؟ کیا ضرورت کے وقت بلڈ پریشر کی مریضہ میری والدہ اس کی مدد کر پائیں گی؟ اگر وہیل چیئر پر بیٹھتے وقت وہ گر گئی تو؟
آخرِکار میں یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ پائی اور لا کالج کو خیرباد کہہ دیا۔ جب میں اپنے دوستوں کو اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے کوشاں دیکھتی تو خود پر ترس آنے لگتا ۔ مگر بہرحال یہ احساس بھی جلد ختم ہو گیا۔ میں نے خود کو اپنی بہن کا خیال رکھنے کے لیے کمربستہ کیا اور ایسے خوابوں کا تعاقب شروع کیا جو میرے ایسے حالات میں میرے لیے ممکن تھے ۔میں نے فری لانسنگ، تدریس اور فلاحی کاموں جیسی عارضی ملازمتیں کرنا شروع کیں۔ اس طرح مجھے بہن کی ضروریات کا خیال رکھنے کے لیے بہت سارا وقت مل جاتا جو سالہا سال تک تقریباً ویسی ہی رہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ اس کے اعصاب ٹھیک ہونے لگے تھے اور وہ تھوڑی حد تک خود سے کچھ کام کرنے لگی ۔
بہن کی زندگی میں آنے والی بہتری کو دیکھنا ہی میرے لیے سب سے بہترین تحفہ ہے۔ سالہاسال کی نگہداشت کے بعد اب وہ اپنے کام کم سے کم مدد کے ساتھ کر لیتی ہے۔ وہ اب کھڑی ہو پاتی ہے اور کچھ مشینی پرزوں کی مدد سے تھوڑی سی چہل قدمی کرتی ہیں۔مگر جو چیز مجھے اپنی بہن پر سب سے زیادہ فخرمند بناتی ہے، وہ ہے اس کی ملازمت! ایسا معاشرہ جو معذور افراد کے لیے بالکل بھی دوستانہ نہیں، وہاں رہنے کے باوجود وہ ایک معتبر ادارے کے ہیومن ریسورس ڈپارٹمنٹ میں کام کر رہی ہے۔
جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں اب زیادہ مضبوط، زیادہ صابر اور زیادہ مثبت ہو چکی ۔ بہن کا خیال رکھنا ہی میرا سب سے زیادہ حقیقی امتحان تھا۔اس مشکل وقت نے مجھے بہن سے تعلق مزید بہتر طور پر جوڑنے میں مدد کی۔ وہ حادثہ ہم دونوں کو اتنا قریب لے آیا کہ اب ہمارے علیحدہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ماضی میں اپنی زندگیوں کا سیاہ باب یاد کرتے ہوئے آج ہم ہنسی مذاق کر سکتے ہیں۔شکر ہے کہ ہم بہتری کی جانب گامزن ہیں۔اس امتحان سے ہم نے یہ سیکھا کہ زندگی اتنی آسان نہیں ہوتی! بعض اوقات ہمیں ایسے امتحانوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑتا ہے جن کی آپ کو توقع بھی نہیں ہوتی۔مگر ہمارے شعور کا ایسے چیلنجز سے ہی گہرا تعلق ہے اور ان سے نمٹنے کا بہترین طریقہ ثابت قدم ہو کر ان کا مقابلہ کرنا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود میں یقین پیدا کریں اور صابر رہیں، اور میری بہن کے بغیر میں یہ سب کچھ نہ کر پاتی۔