بصرہ کا تاجدار ِاولیا

آپؒ کے ارشادات بڑے دل پذیر ہیں۔

آپؒ کے ارشادات بڑے دل پذیر ہیں۔ فوٹو: فائل

YAMOUSSOUKRO:
حضرت خواجہ امام حسن بصری رضی اللہ عنہ ایک عظیم باعمل عالم تھے اور زاہد ومتقی بھی۔ نبی اکرم ﷺِ کی سنت پر سختی سے عمل کرتے اور ہمیشہ خشیت الٰہی میں غرق رہتے۔

آپ کی والدہ ماجدہ ، حضرت ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی کنیز تھیں۔جب بچپن میں آپ کی والدہ کسی کام میں مصروف ہوتیں اورآپ رونے لگتے تو ام المومنین رضی اللہ عنہا آپ کو گود میں اٹھا کر دودھ پلانے لگتیں۔ اندازہ فرمائیے کہ جس نے ام المومنین کا دودھ پیا ہو، اس کے مراتب کس قدر بلند و بالاہوں گے۔

بچپن میں آپ نے ایک دن نبی کریم ﷺ کے پیالے کاپانی پی لیا۔جب نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کہ میرے پیالے کا پانی کس نے پیا؟ توحضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا :'' حسن نے''۔ یہ سن کر حضور ﷺ نے فرمایا '' اس نے جس قدر میرے پیالے میں سے پانی پیا ہے ،اسی قدر میرا علم اس میں نفوذکرگیا ۔ ''

حضرت فریدالدین عطارؒ ''تذکرہ الالیاء '' میں لکھتے ہیں :''جب حضرت خواجہ حسن بصریؒ کی ولادت ہوئی تو گھر والوں نے آپ کو مرادِ رسولﷺ، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے فرمایا :'' اس کا نام حسن رکھو کیوں کہ یہ بہت ہی حسین اور خوبرو ہے۔'' حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی تربیت فرمائی اور ہمیشہ یہی دعا کیا کرتی تھیں :'' اے اللہ ! حسن کو مخلوق کارہنما بنادے۔'' چناں چہ دنیا نے دیکھا کہ آپ یکتاے روزگار بزرگوں میں سے ہوئے۔ایک سو بیس صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے شرفِ نیاز حاصل ہوا، جن میں ستر شہَداے بدر بھی شامل ہیں۔ آپ کے ارشاداتِ عالیہ میں سے چند ایک جواہرپارے درج ذیل ہیں۔

٭بھیڑ بکریاں انسانوں سے زیادہ باخبر ہوتی ہیں کیوں کہ چرواہے کی ایک آواز پر چرنا چھوڑدیتی ہیں اور انسان اپنی خواہشات کی خاطر احکامِ الٰہی کی بھی پروا نہیں کرتا۔

٭ بْروں کی صحبت سے بچو ، کیوں کہ صحبت بد نیک لوگوں سے دور کردیتی ہے۔

٭فکر ایک ایسا آئینہ ہے جس میں نیک و بد کا مشاہد ہ کیا جاسکتا ہے۔

٭قانع شخص مخلوق سے بے نیاز ہوجاتا ہے اور جس نے گوشہ نشینی اختیار کرلی سلامت رہا۔ اور جس نے نفسانی خواہشات کو ترک کردیا وہ آزاد ہوگیا۔جس نے حسد سے اجتناب کیا اس نے محبت حاصل کرلی۔

٭تقویٰ کے تین مدارج ہیں۔ اول : غیض و غضب کے عالم میں سچی بات کہنا، دوم : ان اشیا سے احتراز کرنا جن سے اللہ تعالیٰ نے اجتناب کا حکم دیا ہے ، سوم : احکامِ الٰہی پر راضی برضا ہونا۔


٭تین افراد کی غیبت درست ہے۔ اول : لالچی کی ، دوم : فاسق کی ، سوم : ظالم بادشاہ کی۔

٭ انسان کو ایسے مکان میں بھیجا گیا ہے جہاں کے تمام حلال و حرام کا محاسبہ کیاجائے گا۔

٭ہر فرد دنیا سے تین تمنائیں لیے ہوئے چلاجاتا ہے۔اول: جمع کرنے کی حرص، دوم : جو کچھ حاصل کرنا چاہا وہ نہ ہوسکا، سوم : توشہ آخرت جمع نہ کرسکا۔

٭جو دنیا کو محبوب تصور نہیں کرتے نجات انھیں کا حصہ ہے۔ اور اسیرِ دنیا خود کو ہلاکت میں ڈال لیتا ہے۔

٭نفس سے زیادہ دنیا میں کوئی شَے سرکش نہیں۔اور اگر تم دیکھنا چاہتے ہوکہ تمہارے بعد دنیاکی کیا کیفیت ہوگی تو یہ دیکھ لو کہ دوسرے لوگوں کے جانے کے بعد کیا نوعیت رہی۔

٭ جس کے پیروکار بے وقوف لوگ ہوں اس کی قلبی حالت درست نہیں۔

٭جس چیز کی تم دوسروں کو نصیحت کرتے ہو پہلے خود اس پر عمل پیرا ہوجائو،جب ہی سچے کہلائو گے۔

٭جو شخص تم سے دوسروں کے عیوب بیان کرتا ہے وہ یقینا دوسروں سے تمہاری بْرائی بھی کرتا ہوگا۔

٭دوستوں اورمہمانوںپر اخراجات کاحساب اللہ تعالیٰ نہیں لیتا لیکن جو اپنے ماں باپ پر خرچ کیاجائے اس کاحساب ہوگا۔

٭ جس نماز میں دل جمعی نہ ہو وہ وجہِ عذاب بن جاتی ہے۔
Load Next Story