شام کی رکنیت معطل کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے
عالمی برادری کاضمیرجاگ جائےگااورروہنگیا مسلمانوں کا قتل عام بند...
لاہور:
سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں غیرمعمولی دو روزہ اسلامی سربراہ کانفرنس شروع ہو گئی جس میں مسلم امہ کو درپیش چیلنجز پر غور اور مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا جائے گا' میانمار کے مسلمانوں کی نسل کشی کا معاملہ بھی ایجنڈے میں شامل ہے، کانفرنس میں شام و مشرق وسطیٰ کی عمومی صورتحال، مسئلہ فلسطین، لبنان کی صورتحال بھی زیر بحث آ سکتی ہے۔
یہ اجلاس طویل وقفے کے بعد اور ایک ایسے وقت پر بلایا گیا ہے جب کئی مسلم ممالک میں انقلابات برپا ہو چکے ہیں اور وہاں نئی حکومتیں قائم ہیں جیسے تیونس' مصر اور لیبیا جب کہ شام میں گزشتہ کئی ماہ سے ایک شورش کی سی کیفیت ہے جس میں ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف فوج کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے' دوسری جانب میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا جا رہا ہے جس کے خلاف اب تک انسانی حقوق کی پاسداری یقینی بنانے کے لیے کام کرنے والی کسی عالمی تنظیم نے کوئی آواز بلند نہیں کی۔ اگرچہ تاخیر کے ساتھ ہی سہی لیکن او آئی سی نے اس بارے میں آواز بلند کرنے کی ٹھانی ہے لہٰذا امید کی جا سکتی ہے کہ اب عالمی برادری کا ضمیر جاگ جائے گا اور روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام بند کرانے کے لیے میانمار کی قیادت پر عالمی دبائو بڑھے گا۔
شام کا مسئلہ بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ گمبھیر بنتا جا رہا ہے جس پر مسلم اُمہ کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کانفرنس نے شام کی رکنیت معطل کر دی ہے۔ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر اس معاملے کو پرکھا جائے تو محسوس ہو گا رکنیت کی معطلی اس مسئلے کا حل نہیں ہے' اس طرح تو غیرملکی قوتوں کو شام پر چڑھ دوڑنے کا موقع مل جائے گا جس سے ظاہر ہے کہ ابتری پھیلے اور حالات میں بہتری کی کوئی گنجائش اگر اس وقت موجود ہے بھی تو وہ ختم ہو جائے گی لہٰذا ضروری ہے کہ شام کے تنازع کا کوئی قابل عمل مستقل حل تلاش کیا جائے۔
اس بارے میں اس لیے سنجیدہ سوچ بچار کی جانی چاہیے کہ شام کے معاملے میں مسلم ممالک تقسیم کا شکار بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے جدہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران، شام میں بیرونی مداخلت اور تنظیم سے اس کے اخراج کی مخالفت کرے گا۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے پیر کو سعودی نائب وزیر خارجہ عبداللہ بن عبدالعزیز اور ترک وزیر خارجہ احمد داوید اوغلو سے ملاقات کی جس میں علاقائی مسائل باہمی تعلقات اور شام کی صورتحال پر غور کیا گیا۔
توقع کی جاتی ہے کہ ہماری وزیر خارجہ دونوں رہنمائوں کو ان معاملات میں پاکستان کے نقطہ نظر سے آگاہ کرنے میں کامیاب رہی ہوں گی۔ یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ او آئی سی کا اجلاس امت مسلمہ کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے مددگار ثابت ہو گا۔
سعودی عرب کے شہر مکہ مکرمہ میں غیرمعمولی دو روزہ اسلامی سربراہ کانفرنس شروع ہو گئی جس میں مسلم امہ کو درپیش چیلنجز پر غور اور مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت پر زور دیا جائے گا' میانمار کے مسلمانوں کی نسل کشی کا معاملہ بھی ایجنڈے میں شامل ہے، کانفرنس میں شام و مشرق وسطیٰ کی عمومی صورتحال، مسئلہ فلسطین، لبنان کی صورتحال بھی زیر بحث آ سکتی ہے۔
یہ اجلاس طویل وقفے کے بعد اور ایک ایسے وقت پر بلایا گیا ہے جب کئی مسلم ممالک میں انقلابات برپا ہو چکے ہیں اور وہاں نئی حکومتیں قائم ہیں جیسے تیونس' مصر اور لیبیا جب کہ شام میں گزشتہ کئی ماہ سے ایک شورش کی سی کیفیت ہے جس میں ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف فوج کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے' دوسری جانب میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا جا رہا ہے جس کے خلاف اب تک انسانی حقوق کی پاسداری یقینی بنانے کے لیے کام کرنے والی کسی عالمی تنظیم نے کوئی آواز بلند نہیں کی۔ اگرچہ تاخیر کے ساتھ ہی سہی لیکن او آئی سی نے اس بارے میں آواز بلند کرنے کی ٹھانی ہے لہٰذا امید کی جا سکتی ہے کہ اب عالمی برادری کا ضمیر جاگ جائے گا اور روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام بند کرانے کے لیے میانمار کی قیادت پر عالمی دبائو بڑھے گا۔
شام کا مسئلہ بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ گمبھیر بنتا جا رہا ہے جس پر مسلم اُمہ کو سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کانفرنس نے شام کی رکنیت معطل کر دی ہے۔ زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر اس معاملے کو پرکھا جائے تو محسوس ہو گا رکنیت کی معطلی اس مسئلے کا حل نہیں ہے' اس طرح تو غیرملکی قوتوں کو شام پر چڑھ دوڑنے کا موقع مل جائے گا جس سے ظاہر ہے کہ ابتری پھیلے اور حالات میں بہتری کی کوئی گنجائش اگر اس وقت موجود ہے بھی تو وہ ختم ہو جائے گی لہٰذا ضروری ہے کہ شام کے تنازع کا کوئی قابل عمل مستقل حل تلاش کیا جائے۔
اس بارے میں اس لیے سنجیدہ سوچ بچار کی جانی چاہیے کہ شام کے معاملے میں مسلم ممالک تقسیم کا شکار بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے جدہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران، شام میں بیرونی مداخلت اور تنظیم سے اس کے اخراج کی مخالفت کرے گا۔ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے پیر کو سعودی نائب وزیر خارجہ عبداللہ بن عبدالعزیز اور ترک وزیر خارجہ احمد داوید اوغلو سے ملاقات کی جس میں علاقائی مسائل باہمی تعلقات اور شام کی صورتحال پر غور کیا گیا۔
توقع کی جاتی ہے کہ ہماری وزیر خارجہ دونوں رہنمائوں کو ان معاملات میں پاکستان کے نقطہ نظر سے آگاہ کرنے میں کامیاب رہی ہوں گی۔ یہ توقع بھی کی جاتی ہے کہ او آئی سی کا اجلاس امت مسلمہ کے اتحاد اور یکجہتی کے لیے مددگار ثابت ہو گا۔