پنجاب میں ریٹرننگ افسران کی وجہ سے الیکشن ہارے صدر زرداری
الیکشن کے وقت استعفیٰ نہیں دیا تو اب دینے کا جواز نہیں، شکست تسلیم کرتے ہیں
صدر آصف علی زرداری نے کہاہے کہ انتخابات میں ریٹرننگ افسران (آراوز) نے اہم کردار ادا کیا اگر مجھے موجودہ الیکشن کے ریٹرننگ افسران (آراوز) مل جائیں تو صدارتی الیکشن جیت سکتا ہوں۔
صدارت سے استعفیٰ کیوں دوں؟ اپنی آئینی مدت پوری کروں گا،الیکشن کے وقت صدارت سے استعفیٰ نہیں دیاتو اب استعفیٰ دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ طالبان اور دہشت گردی کی وجہ سے پنجاب میں انتخابی مہم نہیں چلا سکے، دھمکیوں کے علاوہ عدلیہ بھی ہمارے خلاف تھی سب محازوں پر لڑنا مشکل تھا اور وہ سب کچھ نہ کر پائے جو کرنا تھا ۔ انتخابات میں شکست تسلیم کرتے ہیں جس پارٹی کو مینڈیٹ ملاہے اس سے حلف لوں گا،اپوزیشن لیڈر اسی پارٹی کا ہوگا جس کی نشستیں زیادہ ہوں گی۔ الیکشن میں ایسا ماحول پیدا کیا گیا جس میں ہمیں پنجاب میں 40 سے 45 نشستوں پر الیکشن ہرایا گیا اور یہ نشتیں ہم آراوز کی وجہ سے ہار گئے ۔
ان خیالات کااظہار انھوں نے بلاول ہاؤس میںسیفما کے وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔ صدر نے کہا کہ ہم 25 یا 26 نشستوں کیلیے ایک نئے بھٹو کی قربانی نہیں دے سکتے تھے۔ اگر بے نظیر بھٹو 2008 کے الیکشن میں گھر بیٹھ جاتیں تو زیادہ سے زیادہ 10 سے 12 نشستوں کا فرق پڑنا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ صرف بلاول ہی نہیں میرے تینوں بچے سیاست کریں گے۔ نواز شریف کو متقفہ وزیراعظم کیلیے ووٹ دینے کا فیصلہ ہاؤس کی سوچ اور ان کے طرز عمل کو دیکھ کر ہوگا ۔ انھوں نے کہا کہ منظور وٹو کو پنجاب کی روایتی اور برادریوں کی سیاست کیلیے پارٹی کا صدر بنایا گیا انھیں نظر یاتی حوالے سے پارٹی کا صدر نہیں بنایا گیا تھا۔ منظور وٹو نے اس مقصد کیلیے کوشش بھی کی اور کام بھی کیا یہ الگ بات ہے کہ نتائج نہیں دے سکے۔ بجلی کا بحران ختم نہیں کرسکے جس کا الیکشن میں نقصان ہوا ہے ۔
جب آٹھ اٹھ گھنٹے بجلی نہ دے پا رہے ہوں تو لوگ کیوں ووٹ دیں گے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ عدالت کے فیصلے کے باعث انتخابی مہم نہ چلا سکا اگر وزیراعظم ہوتا تو پھر آزادانہ طور پر انتخابی مہم چلاتا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اس جماعت کا ہوگا جس کے پاس اکثریت ہوگی اگر عمران خاں کے پاس اکثریت ہوگی تو ہمیں ان کے اپوزیشن لیڈر بننے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ایک سوال کہ اگر 2013کے الیکشن دوبارہ ہوتے تو وہ کیا کرتے جس کے جواب میں صدر زرداری نے کہ وہ استعفی دے کر خود پارٹی کی قیادت کرتے اور الیکشن کمپین چلاتے۔ انھوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کو انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں ملی۔
ایک سوال کے جواب میں انھوںنے کہاکہ پیپلزپارٹی کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کا بیٹا اغوا ہوگیا ،دوسرے سابق وزیراعظم راجا پرویزاشرف عدالتوں کے چکر لگاتے رہے اس طرح راجا پرویز اشرف عدالتوں میں اپنی عزت بچانے میں لگے رہے اور یوسف رضا گیلانی اپنے بیٹوں کو بچانے میں لگے رہے اور مجھے خود ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد ایوان صدر تک محدور ہونا پڑا۔ اس وجہ سے پارٹی نے بغیر قیادت کے الیکشن لڑا۔ ایک سوال کے جواب میںانھوں نے کہاکہ الیکشن میں پنجاب میں ہماری حکمت عملی کامیاب نہیں رہی، ہم سے 45 سیٹیں چھین لی گئیں۔ صدر زرداری نے کہاکہ بلاول، آصفہ اور بختاور تینوں سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ بلاول کب پاکستان آئیں گے یہ بعد میں بتائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی اپنی شکست سے سیکھے گی اور آج پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے اجلاس میں شکست کے حوالے سے غور کیا جائے گا اور آئندہ کی حکمت عملی بنائے جائے گی۔
صدارت سے استعفیٰ کیوں دوں؟ اپنی آئینی مدت پوری کروں گا،الیکشن کے وقت صدارت سے استعفیٰ نہیں دیاتو اب استعفیٰ دینے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ طالبان اور دہشت گردی کی وجہ سے پنجاب میں انتخابی مہم نہیں چلا سکے، دھمکیوں کے علاوہ عدلیہ بھی ہمارے خلاف تھی سب محازوں پر لڑنا مشکل تھا اور وہ سب کچھ نہ کر پائے جو کرنا تھا ۔ انتخابات میں شکست تسلیم کرتے ہیں جس پارٹی کو مینڈیٹ ملاہے اس سے حلف لوں گا،اپوزیشن لیڈر اسی پارٹی کا ہوگا جس کی نشستیں زیادہ ہوں گی۔ الیکشن میں ایسا ماحول پیدا کیا گیا جس میں ہمیں پنجاب میں 40 سے 45 نشستوں پر الیکشن ہرایا گیا اور یہ نشتیں ہم آراوز کی وجہ سے ہار گئے ۔
ان خیالات کااظہار انھوں نے بلاول ہاؤس میںسیفما کے وفد سے ملاقات کے دوران کیا۔ صدر نے کہا کہ ہم 25 یا 26 نشستوں کیلیے ایک نئے بھٹو کی قربانی نہیں دے سکتے تھے۔ اگر بے نظیر بھٹو 2008 کے الیکشن میں گھر بیٹھ جاتیں تو زیادہ سے زیادہ 10 سے 12 نشستوں کا فرق پڑنا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ صرف بلاول ہی نہیں میرے تینوں بچے سیاست کریں گے۔ نواز شریف کو متقفہ وزیراعظم کیلیے ووٹ دینے کا فیصلہ ہاؤس کی سوچ اور ان کے طرز عمل کو دیکھ کر ہوگا ۔ انھوں نے کہا کہ منظور وٹو کو پنجاب کی روایتی اور برادریوں کی سیاست کیلیے پارٹی کا صدر بنایا گیا انھیں نظر یاتی حوالے سے پارٹی کا صدر نہیں بنایا گیا تھا۔ منظور وٹو نے اس مقصد کیلیے کوشش بھی کی اور کام بھی کیا یہ الگ بات ہے کہ نتائج نہیں دے سکے۔ بجلی کا بحران ختم نہیں کرسکے جس کا الیکشن میں نقصان ہوا ہے ۔
جب آٹھ اٹھ گھنٹے بجلی نہ دے پا رہے ہوں تو لوگ کیوں ووٹ دیں گے۔ سندھ میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے۔ عدالت کے فیصلے کے باعث انتخابی مہم نہ چلا سکا اگر وزیراعظم ہوتا تو پھر آزادانہ طور پر انتخابی مہم چلاتا۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اس جماعت کا ہوگا جس کے پاس اکثریت ہوگی اگر عمران خاں کے پاس اکثریت ہوگی تو ہمیں ان کے اپوزیشن لیڈر بننے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ایک سوال کہ اگر 2013کے الیکشن دوبارہ ہوتے تو وہ کیا کرتے جس کے جواب میں صدر زرداری نے کہ وہ استعفی دے کر خود پارٹی کی قیادت کرتے اور الیکشن کمپین چلاتے۔ انھوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی کو انتخابات میں لیول پلینگ فیلڈ نہیں ملی۔
ایک سوال کے جواب میں انھوںنے کہاکہ پیپلزپارٹی کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کا بیٹا اغوا ہوگیا ،دوسرے سابق وزیراعظم راجا پرویزاشرف عدالتوں کے چکر لگاتے رہے اس طرح راجا پرویز اشرف عدالتوں میں اپنی عزت بچانے میں لگے رہے اور یوسف رضا گیلانی اپنے بیٹوں کو بچانے میں لگے رہے اور مجھے خود ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد ایوان صدر تک محدور ہونا پڑا۔ اس وجہ سے پارٹی نے بغیر قیادت کے الیکشن لڑا۔ ایک سوال کے جواب میںانھوں نے کہاکہ الیکشن میں پنجاب میں ہماری حکمت عملی کامیاب نہیں رہی، ہم سے 45 سیٹیں چھین لی گئیں۔ صدر زرداری نے کہاکہ بلاول، آصفہ اور بختاور تینوں سیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ بلاول کب پاکستان آئیں گے یہ بعد میں بتائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی اپنی شکست سے سیکھے گی اور آج پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے اجلاس میں شکست کے حوالے سے غور کیا جائے گا اور آئندہ کی حکمت عملی بنائے جائے گی۔