ن لیگ کو بلوچستان سندھ اور کے پی کے میں مشکلات کا سامنا ہے
زہری کی بطور وزیراعلیٰ بلوچستان نامزدگی سے وفاق کو بھی مشکلات پیش آسکتی ہیں
مسلم لیگ(ن) مرکز اور پنجاب میں آسانی سے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے مگر تین صوبوں میں اسے مشکلات کا سامنا ہے۔
ثناء اللہ زہری کی بطور وزیراعلیٰ بلوچستان نامزدگی زہری اور مینگل قبائل میں کشیدگی کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ ثناء اللہ زہری نے اپنے قافلے پر حملہ کا الزام مینگل پر لگایا تھا۔ میاں نواز شریف ایسی صورتحال سے بچنا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے وفاق میں بھی مشکلات پیدا ہونگی۔ وزارت اعلیٰ کی ڈور میں دوسری نمبر پر جان محمد جمالی کا نام لیا جا رہا ہے جوکہ نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کیلئے قابل قبول ہوسکتے ہیں مگر ن لیگی قیادت انکے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی ہے۔ ن لیگ، نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے اتفاق کیا ہے کہ چھوڑے گروپس کو حکومت میں شامل نہیں کیا جائیگا۔ اس صورتحال میں پہلی بار بلوچستان میں بی این پی (مینگل) کی قیادت میں مضبوط اپوریشن دیکھنے کو ملے گی۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت سندھ اور خیبرپختونخوا میں مختلف جماعتوں کی حکومتوں کے باعث مسائل سے بھی آگاہ ہے اور انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ دونوں صوبے این ایف سی ایوارڈ اور مشترکہ مفادات کونسل کے حوالے سے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ن لیگ نے جے یو آئی سے بھی رابطہ بحال رکھا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن کو طالبان سے مذاکرات کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں ن لیگ کے اتحادی وفاق میں بھی اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کیلئے سندھ کی صورتحال زیادہ پریشان کن ہے اور وفاق اور سندھ میں محاذ آرائی بھی شروع ہوسکتی ہے۔ گوکہ ن لیگ کو مرکز اور پنجاب میں اکثریت حاصل ہے مگر انہیں سیاسی استحکام کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
ثناء اللہ زہری کی بطور وزیراعلیٰ بلوچستان نامزدگی زہری اور مینگل قبائل میں کشیدگی کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ ثناء اللہ زہری نے اپنے قافلے پر حملہ کا الزام مینگل پر لگایا تھا۔ میاں نواز شریف ایسی صورتحال سے بچنا چاہتے ہیں کیونکہ اس سے وفاق میں بھی مشکلات پیدا ہونگی۔ وزارت اعلیٰ کی ڈور میں دوسری نمبر پر جان محمد جمالی کا نام لیا جا رہا ہے جوکہ نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کیلئے قابل قبول ہوسکتے ہیں مگر ن لیگی قیادت انکے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کر رہی ہے۔ ن لیگ، نیشنل پارٹی، پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے اتفاق کیا ہے کہ چھوڑے گروپس کو حکومت میں شامل نہیں کیا جائیگا۔ اس صورتحال میں پہلی بار بلوچستان میں بی این پی (مینگل) کی قیادت میں مضبوط اپوریشن دیکھنے کو ملے گی۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت سندھ اور خیبرپختونخوا میں مختلف جماعتوں کی حکومتوں کے باعث مسائل سے بھی آگاہ ہے اور انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ دونوں صوبے این ایف سی ایوارڈ اور مشترکہ مفادات کونسل کے حوالے سے مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ن لیگ نے جے یو آئی سے بھی رابطہ بحال رکھا ہے اور مولانا فضل الرحمٰن کو طالبان سے مذاکرات کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں ن لیگ کے اتحادی وفاق میں بھی اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کیلئے سندھ کی صورتحال زیادہ پریشان کن ہے اور وفاق اور سندھ میں محاذ آرائی بھی شروع ہوسکتی ہے۔ گوکہ ن لیگ کو مرکز اور پنجاب میں اکثریت حاصل ہے مگر انہیں سیاسی استحکام کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔