الیکشن کمیشن کی ناکامی
جنرل پرویز مشرف نے 2002ء کے انتخابات کے متوقع نتائج کے حصول کے لیے اپنے خصوصی سیل قائم کیا تھا
'' پچیس جولائی کو چیف الیکشن کمشنر سو رہے تھے۔ '' چیف جسٹس ثاقب نثار نے انتخابات میں الیکشن کمیشن کی کارکردگی پر یہ رائے دے کر بہت سے گوشے عیاں کر دیے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی مہم شروع کردی ، احتجاج کرنے والوں کے خلاف مقدمات قائم ہوئے مگر تحریک انصاف نے حزب اختلاف کی جماعتوں کے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات کی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی سے تحقیقات کی حمایت توکردی مگرکیا یہ حمایت عمران خان کی پہلی تقریرکی طرح ہی ہوگی؟ عمران خان 26 جولائی کو انتخابات میں اکثریت حاصل ہونے کے بعد یہ اعلان کیا تھا کہ وہ مخالف جماعتوں کے ہر حلقے کوکھولنے کے مؤقف کی حمایت کریں گے مگر پھر لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقے میں سعد رفیق کی درخواست پر دوبارہ گنتی کو عدالت عظمی میں چیلنج کر کے اپنے مؤقف سے انحراف کیا۔عام انتخابات انعقاد سے پہلے ہی متنازعہ سمجھے جانے لگے تھے ۔
مسلم لیگ ن کی قیادت نے عبوری حکومتوں کے قیام سے قبل ہی الزام لگایا تھا کہ پولیٹیکل انجنیئرنگ کے ذریعے متوقعہ انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر 25 جولائی کو انتخابی نتائج سے مشتمل فارم 45 کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید نظام کے ذریعے ریٹرننگ افسر تک منتقلی اور ریٹرننگ افسروں نے اپنے حلقے کے حتمی نتائج اس جدید نظام کے ذریعے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے انتخابی سیل میں منتقلی کے نظام کی معطلی ، 24 گھنٹوں کے بعد انتخابات کے نتائج کے اعلان اور بیلٹ پیپرز کی گنتی کے موقعے پر پولنگ اسٹیشنوں سے بے دخلی کے الزامات سے انتخابات کی ساکھ کو دھچکا لگا تھا، مگر نادرا الیکشن کمیشن کے انتخابی نتائج فراہم کرنے کے نظام کی ناکامی کے بارے میں متضاد مؤقف سے ہی معاملات مشکوک ہوگئے۔ بعض اخبارات میں تو یہ رپورٹیں بھی شایع ہوئیں کہ ریٹرننگ افسروں نے موبائل فون کے ذریعے پریزائیڈ نگ افسروں کو رات 10:00 بجے کے بعد یہ ہدایات دی تھی کہ نتائج بھیجنے کا نظام معطل ہوچکا ہے اس بناء پر نتائج کو قدیم طریقے سے ریٹرننگ افسروں کے دفاتر تک پہنچایا جائے۔
انتخابات کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کا کہنا ہے کہ انتخابات کا معیارگزشتہ انتخابات سے کم تر تھا اور سیاسی جماعتوں کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے ۔ ان الزامات کو اس وقت اور تقویت ملی جب تحریک انصاف نے بھی نتائج جلد فراہم کرنے کے نظام کے ناکارہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی نے سینیٹ میں تحریک التواء پیش کردی تھی۔ انتخابات میں دھاندلیوں اور ان کی تحقیقات کا معاملہ خاصا قدیم ہے۔ ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے انتخابات 1970ء میں ہوئے۔
ان انتخابات کے نتائج پرکسی بھی سیاسی جماعت نے اعتراض نہیں کیا۔ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ، سندھ اور پنجاب سے پیپلزپارٹی، بلوچستان اور سرحد سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے نمایندے اکثریت سے کامیاب ہوئے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں 1977 کے انتخابات خاصے متنازعہ ثابت ہوئے۔ ان انتخابات کے پولنگ کے دن سے قبل وزیر اعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ بلا مقابلہ منتخب ہوگئے تھے۔ مخالف جماعتوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد کی قیادت نے الزام لگایا تھا کہ ان کے امیدواروں کو اغواء کرلیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات والے دن پی این اے نے دھاندلیوں کا الزام لگا کر صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ پی این اے کی قیادت دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کررہی تھی مگر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کسی طور پر اس مطالبے پر توجہ نہیں دی۔
امریکا کی سرپرستی میں پی این اے کی تحریک کو منظم کیا گیا تو نوبت لاہور اور کراچی میں مارشل لاء کے نفاذ تک پہنچی۔ ڈالر مارکیٹ میں سستا ہوا۔ وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو اور پی این اے کی قیادت دوبارہ انتخابات پر متفق ہوئی تو 5 جولائی کی رات میں جنرل ضیاء الحق نے قبضہ کرلیا ۔ بھٹو صاحب گرفتار ہوئے اور ملک 10 برسوں کے لیے مارشل لاء کی سیاہ رات میں دھکیل دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے 1988ء کے انتخابات میں پنجاب میں مقتدرہ قوتوں کی مداخلت کا الزام لگایا تاکہ میاں نواز شریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد پنجاب میں حکومت قائم کرے۔ صدر غلام اسحاق نے قومی اسمبلی کا اجلاس اس وقت بلایا تھاجب پنجاب اسمبلی میں میاں نواز شریف کو اکثریت حاصل ہوگئی تھی۔ 1992ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگائے۔ اسی طرح 1993ء اور 1997ء کے انتخابات میں کبھی میاں نواز شریف اور کبھی بے نظیر بھٹو نے دھاندلی کے الزامات لگائے۔
جنرل پرویز مشرف نے 2002ء کے انتخابات کے متوقع نتائج کے حصول کے لیے اپنے خصوصی سیل قائم کیا تھا۔ عمران خان جنرل مشرف کے صدارت کے لیے ہوئے والے متنازعہ ریفرنڈم کی حمایت کے باوجود اقتدار کے میدان سے باہر چلے گئے تھے۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹوکی شہادت کے بعد انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کی مگر مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے انتخابی دھاندلیوں کا الزام لگایا تھا ۔ ان کا کہاتھا کہ یہ سب کچھ جنرل مشرف کے معاونین نے کیا۔ صدر آصف علی زرداری نے 2013ء کے انتخابات کو ''آر اوز'' کا انتخاب قرار دیا۔ طالبان نے عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے نہ دی۔ عمران خان نے ان انتخابات کے فوراً بعد پنجاب کے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا۔
اس وقت مبصرین کو حیرت تھی کہ عمران خان کراچی میں ہونے والی انتخابی دھاندلیوں پر احتجاج نہیں کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے عمران خان کے مطالبے پر توجہ نہیں دی۔ الیکشن ٹریبونل کی روایتی کارروائی نے نوجوانوں کو مایوس کیا۔ عمران خان انتخابی دھاندلی کے مطالبے کو منوانے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیتے رہے ، یوں وفاقی حکومت مفلوج ہوگئی۔ وفاقی حکومت کو عمران خان کے مطالبے پر توجہ دینی پڑی اور اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک کی قیادت میں عدالتی کمیشن قائم ہوا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں منظم دھاندلی کے امکان کو رد کیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر لاہور میں اسپیکر ایاز صادق کے حلقے میں دوبارہ انتخابات ہوئے جس میں ایاز صادق نے علیم خان کو شکست دی۔
عدلیہ نے گزشتہ دنوں سعد رفیق کے حلقہ میں دھاندلیوں کے بارے میں فیصلہ میں الزامات کو رد کیا۔ 2018ء میں ان چار حلقوں میں سے ایک سیالکوٹ سے خواجہ آصف بھی دوبارہ منتخب ہوئے۔ سعد رفیق عمران خان سے چند سو ووٹوں سے ہار گئے مگر اس حلقے میں انتخاب مشکوک ہوا۔ اگرچہ عمران خان چار حلقوں میں انتخابی دھاندلیوں کو ثابت نہ کرسکے مگر انھوں نے اس معاملے کو پورے ملک میں رائے عامہ کو ہموارکرنے میں بھرپور استعمال کیا۔ ان کا نعرہ دھاندلیوں اورکرپشن کا خاتمہ نوجوانوں کے دل کی آواز بن گیا۔
اب عمران خان کو اسی صورتحال کا سامنا ہے جس کا سامنا میاں نواز شریف نے 2013ء میں کیا تھا مگر نواز شریف اس صورتحال کے پس پردہ محرکات کے خطرناک اثرات کو محسوس نہ کرسکے تھے۔ عمران خان کو اپنی پہلی تقریر کا پاس کرتے ہوئے ہر اس حلقے میں دوبارہ گنتی یا دوبارہ انتخابات کے مطالبے کی حمایت کرنی چاہیے تھی جہاں دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہوں اور نئی حکومت کو اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ دوبارہ گنتی ، الیکشن ٹریبونل کے فیصلے اور ضمنی انتخابات سمیت تمام مراحل 90 دن میں مکمل ہوجائیں۔ اب الیکشن کمیشن کی ناکامی ثابت ہوگئی۔ نئی پارلیمنٹ کو انتخابات کے دوران ہونے والی خامیوں کو دور کرنے، الیکشن کمیشن کو زیادہ خود مختار بنانے اورکمیشن کو ''محکمہ زراعت'' کے اثرات سے بچانے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔
مسلم لیگ ن کی قیادت نے عبوری حکومتوں کے قیام سے قبل ہی الزام لگایا تھا کہ پولیٹیکل انجنیئرنگ کے ذریعے متوقعہ انتخابات کے نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر 25 جولائی کو انتخابی نتائج سے مشتمل فارم 45 کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید نظام کے ذریعے ریٹرننگ افسر تک منتقلی اور ریٹرننگ افسروں نے اپنے حلقے کے حتمی نتائج اس جدید نظام کے ذریعے اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے انتخابی سیل میں منتقلی کے نظام کی معطلی ، 24 گھنٹوں کے بعد انتخابات کے نتائج کے اعلان اور بیلٹ پیپرز کی گنتی کے موقعے پر پولنگ اسٹیشنوں سے بے دخلی کے الزامات سے انتخابات کی ساکھ کو دھچکا لگا تھا، مگر نادرا الیکشن کمیشن کے انتخابی نتائج فراہم کرنے کے نظام کی ناکامی کے بارے میں متضاد مؤقف سے ہی معاملات مشکوک ہوگئے۔ بعض اخبارات میں تو یہ رپورٹیں بھی شایع ہوئیں کہ ریٹرننگ افسروں نے موبائل فون کے ذریعے پریزائیڈ نگ افسروں کو رات 10:00 بجے کے بعد یہ ہدایات دی تھی کہ نتائج بھیجنے کا نظام معطل ہوچکا ہے اس بناء پر نتائج کو قدیم طریقے سے ریٹرننگ افسروں کے دفاتر تک پہنچایا جائے۔
انتخابات کی نگرانی کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پلڈاٹ کا کہنا ہے کہ انتخابات کا معیارگزشتہ انتخابات سے کم تر تھا اور سیاسی جماعتوں کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہیے ۔ ان الزامات کو اس وقت اور تقویت ملی جب تحریک انصاف نے بھی نتائج جلد فراہم کرنے کے نظام کے ناکارہ ہونے پر تشویش کا اظہار کیا اور تحریک انصاف کے سینیٹر اعظم سواتی نے سینیٹ میں تحریک التواء پیش کردی تھی۔ انتخابات میں دھاندلیوں اور ان کی تحقیقات کا معاملہ خاصا قدیم ہے۔ ملک میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے انتخابات 1970ء میں ہوئے۔
ان انتخابات کے نتائج پرکسی بھی سیاسی جماعت نے اعتراض نہیں کیا۔ ان انتخابات میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ، سندھ اور پنجاب سے پیپلزپارٹی، بلوچستان اور سرحد سے نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے نمایندے اکثریت سے کامیاب ہوئے مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں 1977 کے انتخابات خاصے متنازعہ ثابت ہوئے۔ ان انتخابات کے پولنگ کے دن سے قبل وزیر اعظم اور چاروں وزرائے اعلیٰ بلا مقابلہ منتخب ہوگئے تھے۔ مخالف جماعتوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد کی قیادت نے الزام لگایا تھا کہ ان کے امیدواروں کو اغواء کرلیا گیا تھا۔ قومی اسمبلی کے انتخابات والے دن پی این اے نے دھاندلیوں کا الزام لگا کر صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کیا ۔ پی این اے کی قیادت دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کررہی تھی مگر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کسی طور پر اس مطالبے پر توجہ نہیں دی۔
امریکا کی سرپرستی میں پی این اے کی تحریک کو منظم کیا گیا تو نوبت لاہور اور کراچی میں مارشل لاء کے نفاذ تک پہنچی۔ ڈالر مارکیٹ میں سستا ہوا۔ وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو اور پی این اے کی قیادت دوبارہ انتخابات پر متفق ہوئی تو 5 جولائی کی رات میں جنرل ضیاء الحق نے قبضہ کرلیا ۔ بھٹو صاحب گرفتار ہوئے اور ملک 10 برسوں کے لیے مارشل لاء کی سیاہ رات میں دھکیل دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے 1988ء کے انتخابات میں پنجاب میں مقتدرہ قوتوں کی مداخلت کا الزام لگایا تاکہ میاں نواز شریف کی قیادت میں اسلامی جمہوری اتحاد پنجاب میں حکومت قائم کرے۔ صدر غلام اسحاق نے قومی اسمبلی کا اجلاس اس وقت بلایا تھاجب پنجاب اسمبلی میں میاں نواز شریف کو اکثریت حاصل ہوگئی تھی۔ 1992ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات لگائے۔ اسی طرح 1993ء اور 1997ء کے انتخابات میں کبھی میاں نواز شریف اور کبھی بے نظیر بھٹو نے دھاندلی کے الزامات لگائے۔
جنرل پرویز مشرف نے 2002ء کے انتخابات کے متوقع نتائج کے حصول کے لیے اپنے خصوصی سیل قائم کیا تھا۔ عمران خان جنرل مشرف کے صدارت کے لیے ہوئے والے متنازعہ ریفرنڈم کی حمایت کے باوجود اقتدار کے میدان سے باہر چلے گئے تھے۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹوکی شہادت کے بعد انتخابات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے کامیابی حاصل کی مگر مسلم لیگ ق کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے انتخابی دھاندلیوں کا الزام لگایا تھا ۔ ان کا کہاتھا کہ یہ سب کچھ جنرل مشرف کے معاونین نے کیا۔ صدر آصف علی زرداری نے 2013ء کے انتخابات کو ''آر اوز'' کا انتخاب قرار دیا۔ طالبان نے عوامی نیشنل پارٹی اور پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے نہ دی۔ عمران خان نے ان انتخابات کے فوراً بعد پنجاب کے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا۔
اس وقت مبصرین کو حیرت تھی کہ عمران خان کراچی میں ہونے والی انتخابی دھاندلیوں پر احتجاج نہیں کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف نے عمران خان کے مطالبے پر توجہ نہیں دی۔ الیکشن ٹریبونل کی روایتی کارروائی نے نوجوانوں کو مایوس کیا۔ عمران خان انتخابی دھاندلی کے مطالبے کو منوانے کے لیے اسلام آباد میں دھرنا دیتے رہے ، یوں وفاقی حکومت مفلوج ہوگئی۔ وفاقی حکومت کو عمران خان کے مطالبے پر توجہ دینی پڑی اور اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک کی قیادت میں عدالتی کمیشن قائم ہوا۔ اس کمیشن نے اپنی رپورٹ میں منظم دھاندلی کے امکان کو رد کیا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر لاہور میں اسپیکر ایاز صادق کے حلقے میں دوبارہ انتخابات ہوئے جس میں ایاز صادق نے علیم خان کو شکست دی۔
عدلیہ نے گزشتہ دنوں سعد رفیق کے حلقہ میں دھاندلیوں کے بارے میں فیصلہ میں الزامات کو رد کیا۔ 2018ء میں ان چار حلقوں میں سے ایک سیالکوٹ سے خواجہ آصف بھی دوبارہ منتخب ہوئے۔ سعد رفیق عمران خان سے چند سو ووٹوں سے ہار گئے مگر اس حلقے میں انتخاب مشکوک ہوا۔ اگرچہ عمران خان چار حلقوں میں انتخابی دھاندلیوں کو ثابت نہ کرسکے مگر انھوں نے اس معاملے کو پورے ملک میں رائے عامہ کو ہموارکرنے میں بھرپور استعمال کیا۔ ان کا نعرہ دھاندلیوں اورکرپشن کا خاتمہ نوجوانوں کے دل کی آواز بن گیا۔
اب عمران خان کو اسی صورتحال کا سامنا ہے جس کا سامنا میاں نواز شریف نے 2013ء میں کیا تھا مگر نواز شریف اس صورتحال کے پس پردہ محرکات کے خطرناک اثرات کو محسوس نہ کرسکے تھے۔ عمران خان کو اپنی پہلی تقریر کا پاس کرتے ہوئے ہر اس حلقے میں دوبارہ گنتی یا دوبارہ انتخابات کے مطالبے کی حمایت کرنی چاہیے تھی جہاں دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہوں اور نئی حکومت کو اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ دوبارہ گنتی ، الیکشن ٹریبونل کے فیصلے اور ضمنی انتخابات سمیت تمام مراحل 90 دن میں مکمل ہوجائیں۔ اب الیکشن کمیشن کی ناکامی ثابت ہوگئی۔ نئی پارلیمنٹ کو انتخابات کے دوران ہونے والی خامیوں کو دور کرنے، الیکشن کمیشن کو زیادہ خود مختار بنانے اورکمیشن کو ''محکمہ زراعت'' کے اثرات سے بچانے کے لیے قانون سازی کرنی چاہیے۔