ہاکی کی بقا یا ذبیحہ
ماہرین ایشین گیمز کے لیے پاکستانی ٹیم کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں
پاکستان میں اسکواش اور ہاکی دونوں ایک اعتبار سے خود رو قسم کے کھیل ہیں، جن میں کھلاڑیوں اور ٹیموں نے اپنا مقام خود پیدا کرکے دکھایا اور دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے، عوام کا مقبول ترین کھیل بھی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان کی پہچان یہ کھیل اب آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے، شاید کچھ عرصہ بعد پاکستانیوں کو اس سوال کا جواب بھی مشکل لگے کہ پاکستان کا قومی کھیل کون سا ہے۔ ایک زمانے میں گرین شرٹس اور وہائٹ نیکر میں ملبوس قومی ہاکی ٹیم دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت تھی، اس نے پوری دنیا میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ کر ملک کا نام روشن اور قوم کا سر فخر سے بلند کیا ہوا تھا۔
مگر اب اس قومی کھیل کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ کبھی کبھار کسی ایونٹ میں ہاکی ٹیم جان پکڑتی ہے تو سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ خوش گمانیاں جنم لینے لگتی ہیں کہ شاید پاکستان میں ہاکی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلے لیکن پھر مایوسیوں کے سائے گھیر لیتے ہیں۔ 4 مرتبہ ورلڈ کپ، 3 مرتب چیمپئنز ٹرافی، 3 مرتبہ اولمپکس اور ایشین گیمز وغیرہ میں سونے کا تمغہ جیتنے والی ہاکی ٹیم اور ہاکی کا کھیل اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن اور کھلاڑی دونوں مالی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، کھلاڑیوں کو 6 ماہ سے واجبات ملے، نہ اعلان کردہ انعامی رقم ملی، جس کے باعث انھوں نے تنگ آمد بجنگ آمد علم بغاوت بلند کرتے ہوئے واجبات نہ ملنے کی صورت میں 18 اگست سے شروع ہونے والے ایشین گیمز میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کھلاڑیوں نے ایک منعقدہ اجلاس کے بعد بتایا کہ کھلاڑیوں کے ڈیلی الاؤنسز کی مد میں لاکھوں روپے واجب الادا ہیں۔ 6 ماہ سے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں، حکومت مداخلت کرے۔ وہ ناانصافی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں نے بغیر الاؤنسز کے ہی چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کی تھی۔ وہ ایشین گیمز کے ٹرائلز دیں گے اور ٹریننگ میں بھی حصہ لیں گے، لیکن اگر 27 کھلاڑیوں کے تمام واجبات ادا نہیں کیے گئے تو وہ ایشین گیمز میں شرکت نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ 18 اگست سے جکارتہ میں شروع ہونے والے ایشین گیمز پاکستانی ہاکی کے لیے بے حد اہمیت کے حامل ہیں، اس میں گولڈ میڈل جیتنے کی صورت میں ہی پاکستان ٹیم اولمپکس میں واپس آسکتی ہے۔
ماہرین ایشین گیمز کے لیے پاکستانی ٹیم کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں۔ کھلاڑیوں کے احتجاج پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر سجاد کھوکھر نے کہا کہ ملک میں ہاکی کی بہتری کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ فیڈریشن کھلاڑیوں کی مالی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے اور مشکلات کے باوجود سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے گھر کا سامان بیچ کر بھی کھلاڑیوں کے واجبات ادا کریں گے۔ اب ہاکی فیڈریشن کا اعلامیہ سامنے آیا ہے کہ صدر ہاکی فیڈریشن خالد سجاد نے ذاتی حیثیت میں فنڈ کا انتظام کردیا ہے۔ انھوں نے کھلاڑیوں کے نام پیغام میں کہا ہے کہ انھوں نے وعدہ پورا کردیا ہے، اب ٹیم ایشین گیمز جیت کر قوم کو تحفہ دے۔ ٹیم کے کھلاڑیوں کا موقف ہے کہ سابق وزیراعظم کی جانب سے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو دی گئی دو لاکھ کی رقم ابھی بھی واجب الادا ہے۔
سیکریٹری پاکستان ہاکی فیڈریشن نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے ہاکی کے لیے سالانہ 15 کروڑ روپے کی رقم مختص کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہاکی نے پاکستان کو سب سے زیادہ فتوحات دلائیں لیکن اس کھیل سے وابستہ کھلاڑیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، کرکٹ میں صرف بھارت کو ہرانے پر 50 کروڑ دے دیے جاتے ہیں جب کہ ہاکی فیڈریشن کو 3 سال میں 35 کروڑ کی گرانٹ دی گئی۔ گزشتہ حکومت کی 18 کروڑ کی گرانٹ بھی تاحال نہیں مل سکی۔ کھلاڑیوں کے پاس سرکاری ملازمتیں نہیں ہیں، جو دی جاتی ہیں سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہیں۔ ان حالات میں ان کو مناسب معاوضہ بھی نہیں دیں گے تو وہ کیا پرفارم کریں گے؟
کچھ سابقہ کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ فیڈریشن نے ہی کھلاڑیوں کو احتجاج کے لیے اکسایا ہے تاکہ حکومت پر دباؤ ڈال کر روکے جانے والی 20 کروڑ کی گرانڈ جاری کرائی جاسکے۔ جب کہ کچھ سابق اولمپین کا موقف ہے کہ موجودہ فیڈریشن اب بھی ہاکی کو بلندیوں کی طرف لے جا رہی ہے۔ سلیم شیروانی، صفدر عباس، ناصر علی اور کئی دیگر نامور کھلاڑیوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ پاکستانی ٹیم کو ایشین گیمز میں شرکت کرنے دیں اس کے بعد جتنی تنقید کرنی ہے کریں، کھلاڑیوں کے حوصلے نہ گرائے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم درست سمت میں گامزن ہے۔ ٹیم کو ایشین چیمپئنز بننے کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے، اس نازک صورتحال میں ٹیم یا فیڈریشن پر تنقید کرنے کے بجائے سپورٹ کرنا چاہیے، تنقید سے ان کے فوکس کو خراب نہ کیا جائے، اس کا اثر براہ راست کھیل پر پڑے گا۔
اس بلاوجہ تنقید کے باعث کہیں ہمارے ہاتھ سے ایشین چیمپئنز بن کر اولمپک کوالیفائی کرنے کا سنہرا موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ہاکی کچھ مختصر ادوار کے علاوہ ہمیشہ سے حکومت کی عدم توجہ اور عدم دلچسپی کا شکار رہی ہے۔ مالی بے قاعدگیوں، اقربا پروری، من پسند اور غلط فیصلوں نے بھی اسے تباہی سے دوچار کیا ہے۔ ایشین گیمز کی تیاریوں کے سلسلے میں کراچی میں لگائے گئے کیمپ میں جن 27 ممکنہ کھلاڑیوں کو طلب کیا گیا تھا حیران کن طور پر ان تمام کھلاڑیوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ ہاکی کے معاملات میں پاکستان ہاکی فیڈریشن عرصہ دراز سے ہدف بہ تنقید ہے۔ فیڈریشن کے عہدیداروں پر الزامات لگتے رہے ہیں۔
ان کے خلاف نعرے بازی، بغاوت اور لابنگ ہوتی رہی ہے، ہاکی کے عروج کے زمانے میں مایہ ناز اولمپینز سے جبری استعفے لیے گئے، کبھی فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے قومی کیمپ ختم کیے گئے، کبھی اذلان شاہ ٹورنامنٹ سے قومی ٹیم کا نام واپس لیا گیا، کھلاڑیوں اور آفیشلز کو ان کے معمولی یومیہ الاؤنس سے محروم رکھنے کی شکایات تو عام ہیں۔ انتہائی شرم و خفت کا مقام ہے کہ چند سال پیشتر جب پاکستان ہاکی فیڈریشن فنڈز کی کمی کے باعث اپنے قومی ہاکی کیمپ ختم کرکے ہاکی کے میدان سے پسپائی اختیار کر رہی تھی، ہمارے سیاسی، عسکری اور کھیلوں کے حریف ملک بھارت کی ہاکی فیڈریشن نے ہمیں مالی امداد کی پیشکش کی تھی۔ یہ بھارت کا طنز و طعنہ تھا؟ ہماری حالت پر ترس تھا؟ یا پھر ہمارے منہ پر طمانچہ؟ ہمیں اس صورتحال سے دوچار کرنے کی ذمے داری کس کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔
مگر اب اس قومی کھیل کی زبوں حالی کا یہ عالم ہے کہ کبھی کبھار کسی ایونٹ میں ہاکی ٹیم جان پکڑتی ہے تو سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ خوش گمانیاں جنم لینے لگتی ہیں کہ شاید پاکستان میں ہاکی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلے لیکن پھر مایوسیوں کے سائے گھیر لیتے ہیں۔ 4 مرتبہ ورلڈ کپ، 3 مرتب چیمپئنز ٹرافی، 3 مرتبہ اولمپکس اور ایشین گیمز وغیرہ میں سونے کا تمغہ جیتنے والی ہاکی ٹیم اور ہاکی کا کھیل اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔
پاکستان ہاکی فیڈریشن اور کھلاڑی دونوں مالی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، کھلاڑیوں کو 6 ماہ سے واجبات ملے، نہ اعلان کردہ انعامی رقم ملی، جس کے باعث انھوں نے تنگ آمد بجنگ آمد علم بغاوت بلند کرتے ہوئے واجبات نہ ملنے کی صورت میں 18 اگست سے شروع ہونے والے ایشین گیمز میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کھلاڑیوں نے ایک منعقدہ اجلاس کے بعد بتایا کہ کھلاڑیوں کے ڈیلی الاؤنسز کی مد میں لاکھوں روپے واجب الادا ہیں۔ 6 ماہ سے ان کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے ہیں، حکومت مداخلت کرے۔ وہ ناانصافی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں نے بغیر الاؤنسز کے ہی چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کی تھی۔ وہ ایشین گیمز کے ٹرائلز دیں گے اور ٹریننگ میں بھی حصہ لیں گے، لیکن اگر 27 کھلاڑیوں کے تمام واجبات ادا نہیں کیے گئے تو وہ ایشین گیمز میں شرکت نہیں کریں گے۔ واضح رہے کہ 18 اگست سے جکارتہ میں شروع ہونے والے ایشین گیمز پاکستانی ہاکی کے لیے بے حد اہمیت کے حامل ہیں، اس میں گولڈ میڈل جیتنے کی صورت میں ہی پاکستان ٹیم اولمپکس میں واپس آسکتی ہے۔
ماہرین ایشین گیمز کے لیے پاکستانی ٹیم کو فیورٹ قرار دے رہے ہیں۔ کھلاڑیوں کے احتجاج پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر سجاد کھوکھر نے کہا کہ ملک میں ہاکی کی بہتری کے لیے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ فیڈریشن کھلاڑیوں کی مالی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے اور مشکلات کے باوجود سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ انھوں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ اپنے گھر کا سامان بیچ کر بھی کھلاڑیوں کے واجبات ادا کریں گے۔ اب ہاکی فیڈریشن کا اعلامیہ سامنے آیا ہے کہ صدر ہاکی فیڈریشن خالد سجاد نے ذاتی حیثیت میں فنڈ کا انتظام کردیا ہے۔ انھوں نے کھلاڑیوں کے نام پیغام میں کہا ہے کہ انھوں نے وعدہ پورا کردیا ہے، اب ٹیم ایشین گیمز جیت کر قوم کو تحفہ دے۔ ٹیم کے کھلاڑیوں کا موقف ہے کہ سابق وزیراعظم کی جانب سے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو دی گئی دو لاکھ کی رقم ابھی بھی واجب الادا ہے۔
سیکریٹری پاکستان ہاکی فیڈریشن نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے ہاکی کے لیے سالانہ 15 کروڑ روپے کی رقم مختص کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہاکی نے پاکستان کو سب سے زیادہ فتوحات دلائیں لیکن اس کھیل سے وابستہ کھلاڑیوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، کرکٹ میں صرف بھارت کو ہرانے پر 50 کروڑ دے دیے جاتے ہیں جب کہ ہاکی فیڈریشن کو 3 سال میں 35 کروڑ کی گرانٹ دی گئی۔ گزشتہ حکومت کی 18 کروڑ کی گرانٹ بھی تاحال نہیں مل سکی۔ کھلاڑیوں کے پاس سرکاری ملازمتیں نہیں ہیں، جو دی جاتی ہیں سیاسی بنیادوں پر ہوتی ہیں۔ ان حالات میں ان کو مناسب معاوضہ بھی نہیں دیں گے تو وہ کیا پرفارم کریں گے؟
کچھ سابقہ کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ فیڈریشن نے ہی کھلاڑیوں کو احتجاج کے لیے اکسایا ہے تاکہ حکومت پر دباؤ ڈال کر روکے جانے والی 20 کروڑ کی گرانڈ جاری کرائی جاسکے۔ جب کہ کچھ سابق اولمپین کا موقف ہے کہ موجودہ فیڈریشن اب بھی ہاکی کو بلندیوں کی طرف لے جا رہی ہے۔ سلیم شیروانی، صفدر عباس، ناصر علی اور کئی دیگر نامور کھلاڑیوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ساتھیوں کو مشورہ دیا کہ پاکستانی ٹیم کو ایشین گیمز میں شرکت کرنے دیں اس کے بعد جتنی تنقید کرنی ہے کریں، کھلاڑیوں کے حوصلے نہ گرائے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی ٹیم درست سمت میں گامزن ہے۔ ٹیم کو ایشین چیمپئنز بننے کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے، اس نازک صورتحال میں ٹیم یا فیڈریشن پر تنقید کرنے کے بجائے سپورٹ کرنا چاہیے، تنقید سے ان کے فوکس کو خراب نہ کیا جائے، اس کا اثر براہ راست کھیل پر پڑے گا۔
اس بلاوجہ تنقید کے باعث کہیں ہمارے ہاتھ سے ایشین چیمپئنز بن کر اولمپک کوالیفائی کرنے کا سنہرا موقع ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ہاکی کچھ مختصر ادوار کے علاوہ ہمیشہ سے حکومت کی عدم توجہ اور عدم دلچسپی کا شکار رہی ہے۔ مالی بے قاعدگیوں، اقربا پروری، من پسند اور غلط فیصلوں نے بھی اسے تباہی سے دوچار کیا ہے۔ ایشین گیمز کی تیاریوں کے سلسلے میں کراچی میں لگائے گئے کیمپ میں جن 27 ممکنہ کھلاڑیوں کو طلب کیا گیا تھا حیران کن طور پر ان تمام کھلاڑیوں کا تعلق پنجاب سے ہے۔ ہاکی کے معاملات میں پاکستان ہاکی فیڈریشن عرصہ دراز سے ہدف بہ تنقید ہے۔ فیڈریشن کے عہدیداروں پر الزامات لگتے رہے ہیں۔
ان کے خلاف نعرے بازی، بغاوت اور لابنگ ہوتی رہی ہے، ہاکی کے عروج کے زمانے میں مایہ ناز اولمپینز سے جبری استعفے لیے گئے، کبھی فنڈ نہ ہونے کی وجہ سے قومی کیمپ ختم کیے گئے، کبھی اذلان شاہ ٹورنامنٹ سے قومی ٹیم کا نام واپس لیا گیا، کھلاڑیوں اور آفیشلز کو ان کے معمولی یومیہ الاؤنس سے محروم رکھنے کی شکایات تو عام ہیں۔ انتہائی شرم و خفت کا مقام ہے کہ چند سال پیشتر جب پاکستان ہاکی فیڈریشن فنڈز کی کمی کے باعث اپنے قومی ہاکی کیمپ ختم کرکے ہاکی کے میدان سے پسپائی اختیار کر رہی تھی، ہمارے سیاسی، عسکری اور کھیلوں کے حریف ملک بھارت کی ہاکی فیڈریشن نے ہمیں مالی امداد کی پیشکش کی تھی۔ یہ بھارت کا طنز و طعنہ تھا؟ ہماری حالت پر ترس تھا؟ یا پھر ہمارے منہ پر طمانچہ؟ ہمیں اس صورتحال سے دوچار کرنے کی ذمے داری کس کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے۔