انتخابی نتائج پی ایس پی کے کارکن مایوس ہو کر راستہ بدلنے لگے

متحدہ قومی موومنٹ کا احتجاجی مظاہرہ، الیکشن میں دھاندلی کے الزامات

عام انتخابات میں ضلع حیدر آباد میں ایم کیو ایم کو صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پی ایس حلقہ 64 سے ہاتھ دھونا پڑا فوٹو:فائل

عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد تبدیل ہونے والی سیاسی فضا کے سب سے زیادہ اثرات پاک سرزمین پارٹی پر ہوئے ہیں۔ پی ایس پی سے وابستہ شخصیات نے ایم کیوایم میں واپسی یا پھر پاکستان تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کرنے پر غور شروع کر دیا ہے جب کہ ایم کیوایم کا تو یہ دعوٰی کہ ان کے وہ کارکنان جو کسی بھی وجہ سے انہیں چھوڑ کر پی ایس پی میں چلے گئے تھے اب واپس آرہے ہیں۔

گزشتہ دنوں اس حوالے سے ایم کیوایم حیدرآباد کے سیکٹر جی سے متعلق چند تصاویر بھی میڈیا کو جاری کی گئی تھیں۔ پاک سرزمین پارٹی کے صدر انیس قائم خانی کا تعلق حیدرآباد سے ہی ہے اور وہ خود بھی اس صورتِ حال سے لاعلم نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انیس احمد قائم خانی نے کارکنوں کو پی ایس پی سے جوڑے رکھنے کے لیے ضلع حیدرآباد کی تنظیم کو کارکنوں کا ورکرز کنونشن منعقد کرنے کی ہدایت کی۔ پچھلے دنوں ہونے والے پی ایس پی کے اس ورکرز کنونشن میں پارٹی کے چیئرمین سید مصطفٰی کمال کے ساتھ انیس احمد قائم خانی اور سندھ کونسل کے صدر شبیر احمد قائم خانی بھی شریک ہوئے۔

ورکرز کنونشن سے خطاب میں بھی سید مصطفٰی کمال نے عام انتخابات اور اس میں ہونے والے دھاندلیوں کے ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ حیدرآباد کے کارکنوں کی تعریف کی اور ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ناکام سمجھنے والے سن لیں کہ ہم پیچھے ہٹنے والے نہیں، ہم عوام کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں اور اس میں ضرور کام یاب ہوں گے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کراچی کے امن اور اس کے ہر علاقے میں تمام قومیتوں کے لوگوں کی بلاخوف و خطر آمد و رفت کو پی ایس پی کا کارنامہ بتایا۔ لیکن مصطفٰی کمال نے اس خطاب میں بھی ایم کیو ایم کا نام لیے بغیر اس پر تنقید کے نشتر چلائے اور کہا کہ کراچی میں 17سے 4 سیٹ پر آنے والے آج جشن منا رہے ہیں۔ پہلے بھی ان کے میئر، چیئرمین اور کونسلرز تھے، ایم این ایز اور ایم پی ایز بھی ان کے تھے، کیا پہلے مسائل حل ہوئے جو اب ہو جائیں گے۔

مصطفٰی کمال نے حیدرآباد کے کارکنوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان سے سوال بھی کیا کہ ہم سب کتنے پرسکون ہیں، کیا جیتنے والوں کے بھی ایسے چہرے ہوتے ہیں؟ کیا الیکشن ہارنے والوں کا جذبہ ایسا ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ حیدرآباد کے کارکنان کا حوصلہ دیکھ کر اندازہ ہوا کہ ہم کام یاب ہوئے ہیں۔

عام انتخابات میں ضلع حیدر آباد میں ایم کیو ایم کو صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پی ایس حلقہ 64 سے ہاتھ دھونا پڑا اور پیپلز پارٹی کے امیدوار عبدالجبار خان یہاں کام یاب ہوئے ہیں۔ اس نشست پر ہارنے والے ایم کیو ایم کے امیدوار یونس گدی کی جانب سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے درخواست دی گئی تھی جسے ریٹرننگ افسر نے اس بنیاد پر مسترد کردیا کہ درخواست گزار سماعت کے موقع پر پیش نہیں ہوئے۔


ریٹرننگ افسر کے فیصلے کو ایم کیو ایم کے امیدوار یونس گدی نے سابق ایم پی اے محمد دلاور قریشی ایڈووکیٹ کی معرفت سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ مذکورہ درخواست کی سماعت کے موقع پر عدالت عالیہ نے درخواست گزار کی یہ استدعا تو مسترد کر دی کہ عدالت اس نشست پر امیدوار کی کام یابی کا نوٹی فیکیشن جاری کرنے سے روکے، لیکن عدالت نے درخواست سماعت کے لیے منظورکر لی ہے اور فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان نے مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف ایک طرف تو قانونی و آئینی جنگ کا آغاز کر دیا ہے اور دوسری طرف تنظیم اورکارکنوں کو متحرک رکھنے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی شروع کررکھا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان حیدرآباد ڈسٹرکٹ کے تحت بھی اس حوالے سے یہاں پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیاگیا ۔

جس میں حیدرآباد سے ہی تعلق رکھنے والے کراچی میں مقیم ڈپٹی کنوینر کنور نوید جمیل خصوصی طور پر شریک ہوئے جب کہ احتجاج میں سندھ تنظیمی کمیٹی کے رکن اسلم بھٹو، حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے نومنتخب اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی صابر قائم خانی، صلاح الدین، ندیم صدیقی، راشد خلجی، ناصر حسین قریشی کے علاوہ یونس گدی اور حیرت انگیز طور پر میئر حیدرآباد سید طیب حسین بھی شریک ہوئے۔ کنور نوید جمیل کا بھی اپنے خطاب میں کہنا تھاکہ اگر الیکشن کمیشن اور اس کے ساتھ الیکشن میں فعال کردار ادا کرنے والوں کو یہی سب کرنا تھا تو پھر اس الیکشن پر پاکستان کے عوام کی خون پسینے کی کمائی سے اکیس ارب روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔

یہ کام تو چند کروڑ روپے میں بھی ہوسکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس الیکشن میں بیلٹ پیپر کا کاغذ یورپ سے منگوایا گیا جب کہ پولنگ اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمرے لگائے اور یہ کیمرے اس کی اصل قیمت سے چار گنا زاید کرائے پر حاصل کیے تاکہ دنیا کو دکھایا جائے کہ پاکستان میں صاف اور شفاف الیکشن ہوئے ہیں، لیکن الیکشن کمیشن اور الیکشن میں فعال کردار ادا کرنے والے ادارے یہ بھول گئے کہ صرف ان کے پاس ہی طاقت اور قوت نہیں بلکہ سب سے بڑی انصاف کرنے والی وہ ذات ہے اور وہی تمام حقائق اپنی مخلوق کے سامنے لے آتا ہے۔ آج ہرکوئی اس الیکشن پر لعن طعن کر رہا ہے۔

کنور نوید جمیل نے یہ دعوٰی بھی کیاکہ الیکشن کے موقع پر صرف کراچی و حیدر آباد کے پولنگ اسٹیشنوں پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاروں کو تعینات کیاگیا جب کہ باقی پورے سندھ میں پیپلز پارٹی کو دھاندلی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا گیا جس نے اپنے بھرتی کردہ افسران اور پولیس کے ذریعے دھاندلی کی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیاکہ بیلٹ پیپر کے لیے بیرون ملک سے منگوائے گئے کاغذ کے حوالے سے آڈٹ کرایا جائے، جتنے پولنگ اسٹیشنوں سے ایم کیو ایم کے ایجنٹوں کو زبردستی باہر نکال کر نتائج بنائے گئے ان تمام پولنگ اسٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کرائی جائے اور پولنگ اسٹیشنوں پر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی پولنگ کا وقت ختم ہو جانے اور نتائج تیار کرنے کے وقت کی ریکارڈنگ تمام جماعتوں کے امیدواروں اور ان کے پولنگ ایجنٹوں کو بلا کر دکھائی جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔

عام انتخابات کے بعد ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے حیدر آباد میں احتجاجی مظاہرے کی صورت میں پہلی سیاسی سرگرمی کی گئی تھی، لیکن مبصرین کے بقول دو قومی اور تین صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کرنے والی اس جماعت کے احتجاجی مظاہرے کے شرکا کی تعداد قابل ذکر نہیں تھی۔ اس سے متعلق ایم کیو ایم کے ذرایع کا کہنا ہے کہ الیکشن سے قبل ایم کیو ایم پاکستان بہادرآباد اور پی آئی بی میں بٹی ہوئی تھی، لیکن الیکشن میں پتنگ کی جیت کے لیے اختلافات بھلا دیے گئے تھے، تاہم الیکشن کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد دوبارہ تفریق پیدا ہوگئی ہے جو صرف اسی صورت ختم ہو سکتی ہے جب رابطہ کمیٹی ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ آکر کارکنوں کے تحفظات دور کرے۔
Load Next Story