ایک اہم موضوع

دونوں میں اختلافات بڑھتے گئے چنانچہ ایک شخصیت کے ایک سرگرم مرید نے دوسرے کے خلاف قلم اٹھایا.

barq@email.com

WASHINGTON:
آج ہمیں پُرانے اخبارات و رسائل کا ایک مشہور و معروف عنوان یاد آ رہا ہے جو قارئین کے خطوط کے اوپر درج ہوتا تھا کہ ''کس قیامت کے یہ نامے مرے نام آتے ہیں'' تو کچھ یہی ہمارے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ اب جو مکتوب ہمارے پیش نظر ہے، اس میں بھی ایک نہایت ہی متنازعہ پیچیدہ اور نازک موضوع پر ہم سے کچھ لکھنے کو کہا گیا ہے، یہ موضوع ایک شخصیت سے متعلق ہے جو پشتو ادب اور مذہبیات کا ایک بہت بڑا موضوع ہے۔

یہ شخصیت بنیادی طور پر عرب نژاد تھی ۔ پیدائش ان کی ہند میں ہوئی تھی لیکن پھر وزیرستان میں رہنے لگے تھے۔ بنیادی طور پر وہ وحدت الوجود کے پرچارک تھے اور اپنے اسی نظریے کی تبلیغ کے لیے کئی کتابیں لکھی تھیں جن میں سے ایک خاصی مشہور ہے۔ یہ مغلیہ سلطنت کے جلال الدین اکبر کا دور تھا۔ لیکن تصوف کا یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے لڑائیوں تک جا پہنچا، ان کے طرف داروں کا کہنا ہے کہ وہ مغلیہ سلطنت کا مخالف اور پشتونوں کی آزادی کا علمبردار تھا۔ مغلیہ ایمپائر سے اس کی شروع کی ہوئی یہ لڑائی اس کی تیسری پشت تک چلی، ادھر ٹھیک اسی وقت میں خیبر پختونخوا ہی میں ایک اور شخصیت بھی مصروف عمل تھی۔

دونوں میں اختلافات بڑھتے گئے چنانچہ ایک شخصیت کے ایک سرگرم مرید نے دوسرے کے خلاف قلم اٹھایا، کئی کتابیں اس کے خلاف لکھیں۔ ایک شخصیت کی تحریک میں وحدت الوجودی تصوف اور کچھ پشتون قومیت کے عناصر خاصے طاقت ور تھے خصوصاً ان کے مریدوں میں پشتو کے بہت بڑے صوفی شاعر بھی گزرے ہیں، اس لیے پشتون ادیبات میں ان کے طرف دار بہت زیادہ ہیں۔ دوسری شخصیت کے طرف دار شمال میں مردان اور سوات میں زیادہ پائے جاتے ہیں لیکن زیادہ تر مذہبی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیں مکتوب بھیجنے والے بھی سوات سے تعلق رکھتے ہیں۔اس لیے انھوں نے ہمیں ایک مذہبی رسالے میں شایع شدہ ایک مضمون کی نقل بھیجی ہے اور ہم سے خواہش ظاہر کی ہے کہ ہم بھی پشتونوں کی تاریخ کے اس بڑے جھگڑے پر کچھ لکھیں۔

ویسے ان کے خط سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شاید اہل شمال ہونے کے ناتے اپنی شخصیت کے زیادہ طرف دار ہیں اور دوسری شخصیت کو غلط ہی سمجھتے ہیں، اس موضوع پر افغانستان اور پاکستان میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اب تقریباً اکثریت ہی جنوب والے کی طرف داروں کی ہے لیکن پھر بھی یہ ایک تنازع تو ہے، چونکہ ہم کچھ ٹیڑھی قسم کے لوگوں میں سے ہیں اور ہر معاملے کو موجود اور دستیاب مواد کے بجائے اپنی نظر سے دیکھتے ہیں اس لیے ہماری نظر میں دونوں اطراف کے لوگ کچھ اتنے زیادہ بڑے اور قابل تعریف نہیں ہیں جتنے کہ اپنے طرف داروں کی نگاہ میں ہیں، سب سے زیادہ مزے کی بات تو یہ ہے کہ دونوں پشتون نہیں تھے، ایک ایرانی تھے اور دوسرے عرب تھے اور اس جھگڑے میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح ایرانیوں اور عربوں کی مخاصمت بھی کارفرما ہے لیکن ہمیشہ کی طرح اس جھگڑے کے لیے بھی بدنصیب پشتونوں ہی کی سرزمین منتخب کی گئی تھی جیسا کہ قدیم زمانوں سے لے کر آج جدید سیاست تک ہو رہا ہے کہ دنیا جہاں کے جھگڑے کھینچ کر یہیں پر لے آئے جاتے ہیں۔


وجہ اس کی یہ ہے کہ پشتونوں کو مرغوں کی طرح لڑانا بڑا آسان ہوتا ہے، اس جھگڑے میں مذہبی عنصر کو زیادہ ہائی لائٹ کر کے وہ اصل بنیاد اوجھل کر دی جاتی ہے جو زمانوں سے حکمرانیت کا وطیرہ رہی ہے۔ ویسے تو لڑاؤ اور حکومت کرو کی اصطلاح انگریزوں کے لیے مخصوص کی گئی ہے لیکن حقیقت میں یہ حکمرانیت اور حاکمیت کا بہت ہی پرانا ہتھیار ہے، قدیم مصر و بابل سے لے کر آج تک اس ہتھیار کو نہایت کامیابی سے ہر جگہ استعمال کیا جاتا رہا ہے، میکا ولی اور ہند کے چانکیہ مہاراج نے بھی اس ہتھیار کی بڑی تعریف کی ہے اور پھر خصوصاً پشتونوں کی سرزمین تو اس ''بیج'' کے لیے نہایت ہی زرخیر ہے، اس وقت بھی مغلیہ سلطنت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اس پشتون خطے پر مکمل بالادستی حاصل کرنے کا تھا چونکہ پشتونوں کی مخاصمت بہت پرانی تھی، بابر نے پشتون علاقے میں جو مینار بنائے تھے اس کا اعتراف اس نے خود بھی اپنی تزک میں کیا ہے، پھر ابراہیم لودھی بھی پشتون تھا اور شیر شاہ بھی پشتون تھا جس نے مغلیہ راج کو تقریباً ختم کر دیا تھا لیکن جب مغلیہ راج دوبارہ قائم ہوا تو ان کی نظر میں پشتون واحد دشمن تھے۔

جنگوں میں تو وہ ان کو آزما چکے تھے اور یہ خطرہ موجود تھا کہ پشتون کسی بھی وقت مغلوں کے مقابل آ سکتے ہیں چنانچہ وہی قدیم ہتھیار لڑاؤ اور حکومت کرو کو جھاڑ پونچھ کر اٹھا لیا گیا کیونکہ اکبر کے پاس بھی بڑا زبردست تھنک ٹینک نو رتنوں کی صورت میں موجود تھا، یہ دونوں شخصیات مغلیہ اسٹیبلشمنٹ کا حصہ تھے لیکن ان دونوں کو بھی اس کا احساس نہیں تھا، ایک تو شاید بابر اور اکبر کے کچھ رشتہ دار بھی تھے ان کو خاص طو پر ایران سے بلوا کر یہیں پر ''رشد و ہدایت'' کے کام میں لگا دیا گیا، حکمرانیت کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے کہ کس کا کیا عقیدہ ہے ان کو تو اپنے مقصد سے کام ہوتا ہے اور وہ مقصد ان دونوں کی مخاصمت سے اچھی طرح حاصل ہوا، پشتون مذہب کے نام پر بٹ گئے، شمال میںایک کا اثر زیادہ تھا اور جنوب میں دوسرے کے طرف دار زیادہ تھے، سچی بات تو یہ ہے کہ شمال والے نہایت پُرخلوص اور سچے بزرگ تھے ان کو خود بھی پتہ نہیں تھا کہ ان سے کیا کام لیا جا رہا ہے وہ تو صاف دلی سے دین کی خدمت کر رہے تھے ۔

صاحب کردار اور صحیح معنوں میں اللہ والے تھے لیکن حکمرانیت کا تو کمال یہی ہے کہ ہتھیار کو خود بھی پتہ نہیں چلنے دیتے کہ اس سے کیا کام لیا جا رہا ہے، البتہ ان کے ایک پیرو کار کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا لیکن ان کی بسیار خوری اور بسیار خوری ہی کی وجہ سے موت سے خود بخود ان کی شخصیت واضح ہو جاتی ہے اور پھر جنوب والے کے خلاف انھوں نے جو لہجہ اور زبان استعمال کی ہے وہ بھی کسی اللہ والے کی زبان نہیں ہو سکتی، ادھر جنوب والی شخصیت بھی مغل سلطنت خصوصاً اکبر کے ساتھ گہرے تعلقات رکھتی تھی بلکہ اکبر ان کے مرید تھے اور قیمتی تحائف بھیجتے تھے اور پھر ان کی تحریروں میں جو تکبر غرور بلکہ تفاخر پایا جاتا ہے وہ بھی اللہ والوں کا وطیرہ نہیں ہو سکتا، مطلب یہ کہ دونوں ہی فریق چاہے دانستہ ہوں یا نادانستہ مغل سلطنت کے مفادات کی آبیاری کر رہے تھے اور ان میں سے ایک بھی اتنا بے عیب نہیں ہے جتنے کہ ان کے طرف دار سمجھتے اور بیان کرتے ہیں۔

شاید مذہب کے لیے دونوں نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہوں لیکن پشتونوں میں نفاق اور محاذ آرائی کا باعث دونوں تھے ۔مکتوب نگار نے جس مضمون کی کاپی بھیجی ہے اس کے لکھنے والے کو ہمارے قبیلے یعنی صحافت سے متعلق بتایا ہے اور یہ درست ہے ان کے رسالے کا ''ڈپٹی کمشنر نمبر'' اب بھی ہمیں یاد ہے جو مردان کے ڈپٹی کمشنر کے بارے میں تھا۔
Load Next Story