ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کے خواب
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔
WASHINGTON:
پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی کراچی ملک کے سب سے بڑے شہر میں تبدیل ہوگیا مگر برسر اقتدار مسلم لیگ کی حکومت کو عوام کے لیے تعلیم و صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کی اہمیت کا احساس نہیں تھا۔ اس زمانے میں ترقی پسند طلبا نے تعلیم کو عام کرنے،تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی، فیسوں میں کمی اور طلبا کے لیے بسوں کے ٹکٹ میں رعایت جیسے بنیادی مطالبات کو منوانے کے لیے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن( ڈی ایس ایف) قائم کی جس کے بنانے والوں میں ڈاکٹر ہاشمی، ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر فاروق، مرزا کاظم وغیرہ قابل ذکر تھے۔
ان طلبا نے 8 جنوری 1953 کو اپنے حقوق کو منوانے کے لیے ایک تحریک چلائی۔ مسلم لیگی حکومت نے پولیس کی طاقت سے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی مگر پولیس کی فائرنگ اور لاٹھی چارج سے طلبا کے عزائم کم نہ ہوئے۔ بالآخر وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو طلبا کے مطالبات منظور کرنے پڑے مگر حکومت نے ڈی ایس ایف کے رہنمائوں کو کراچی جیل میں نظر بند کردیا۔ ان رہنمائوں میں ادیب الحسن رضوی بھی شامل تھے۔ ان کے ساتھ انقلابی رہنما حسن ناصر شہید بھی جیل میں بند تھے۔
انھوں نے جیل سے انٹر سائنس کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا جب کہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ وہ سرجری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے۔ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے برطانیہ سے واپسی پر سول اسپتال کراچی میں ملازمت اختیار کی اور گردے کے علاج کے لیے 8بستروں کے وارڈ سے ایک نئے مشن کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنے ساتھ اپنے نوجوان ڈاکٹروں کی ٹیم جمع کی جن کا مقصد ایک چھوٹے سے وارڈ کو عظیم الشان میڈیکل کمپلیکس میں تبدیل کرنا اور ہر مریض کا اس کی عزت نفس مجروح کیے بغیر علاج کرنا تھا۔
یوں آج سرکاری شعبے میں قائم سندھ انسٹی ٹیوٹ آف نیورولاجی اور ٹرانسپلانٹیشن کا شمار دنیا کے اعلیٰ میڈیکل انسٹی ٹیوٹس میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے لیے محض سرکاری گرانٹ پر ہی تکیہ نہیں کیا بلکہ نجی شعبے کو بھی اپنے مشن میں شریک کیا۔ یوں سرکاری ادارے میں بغیر کسی فائدے کے نجی شعبے کے عطیات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے ۔ معروف سرمایہ کارگھرانے دیوان گروپ کی مالیاتی مدد سے دیوان فاروق میڈیکل کمپلیکس تعمیر ہوا۔ اس میڈیکل کمپلیکس کی زمین حکومت سندھ نے عطیہ کی ۔
اس طرح 6 منزلہ جدید عمارت پر 300بیڈ پر مشتمل کمپلیکس کی تعمیر ہوئی۔ اس کمپلیکس میں متعدد جدید آپریشن تھیٹر، لیکچرز ہال ، او پی ڈی وغیرہ کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ایک جدید آڈیٹوریم بھی تعمیر کیا گیا۔ اس آڈیٹوریم میں میڈیکل سائنس سے متعلق کانفرنس، ورکشاپس، سیمینارز وغیرہ کے علاوہ انسانی حقوق سے آگہی اور ادبی پروگرام بھی منعقد ہوتے ہیں۔ معروف غیر ملکی اور ملکی ماہرین ،ادیب، شاعر، صحافی اور محققین اس آڈیٹوریم میں منعقد ہونے والے پروگراوں میں شرکت کرچکے ہیں۔گردے کے کینسر کے علاج کے لیے حنیفہ بائی حاجیانی کمپلیکس تعمیر ہوا۔
سندھ اسمبلی نے 1991 میں سول اسپتال کے گردہ وارڈ کو انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل کرنے کا قانون متفقہ طور پر منظور کیا۔ 2005 میں ایس آئی یو ٹی کو چیریٹل ٹرسٹ میں تبدیل کردیا گیا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن کی کوششوں سے بچوں اور بڑوں میں گردے سے متعلق مختلف بیماریوں کی تشخیص کے لیے علیحدہ علیحدہ او پی ڈی شروع ہوئیں اور علیحدہ علیحدہ آپریشن ہونے لگے۔ اس کے ساتھ ہی گردے کی پتھری کو کچلنے کے لیے لیپسو تھریپی کی مشین جو اپنے وقت کی مہنگی ترین مشین تھی ایس آئی یو ٹی میں لگ گئی۔
یہ وہ وقت تھا جب کراچی کے دو یا تین اسپتالوں میں یہ مشین لگائی گئی تھی جہاں مریضوں سے اس جدید طریقہ علاج کے لیے خطیر رقم وصول کی جاتی تھی مگر سیوٹ میں یہ سہولت بغیر کسی معاوضے کے فراہم کی جاتی تھی۔ اسی طرح گردوں کے کام نہ کرنے کی بناء پر مریضوں کی اموات کی شرح خاصی زیادہ تھی مگر ایس آئی یو ٹی میں ڈائیلیسز مشین لگادی گئی۔ یوں ناامید ہونے والے مریض اپنے ناکارہ گردوں کے بجائے ڈائیلیسزمشین کے ذریعے خون صاف کراکے عام زندگی گزارنے کے قابل ہوئے۔
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی قیادت میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے گردے کے ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ کیا۔انھوں نے ایک تندرست فرد کا گردہ ایک ایسے شخص کو لگایا جس کا گردہ ناکارہ ہوچکا تھا۔ ناکارہ گردے والے مریضوں کے لیے زندگی کی ایک نئی امید پیدا ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب نے انسانی اعضاء کی تجارت کو روکنے کے لیے قریبی رشتے داروں کو ڈونرز کے طور پر قبول کرنا شروع کیا۔ ہمارے ملک میں اعضاء کی پیوندکاری کے حوالے سے فرسودہ خیالات پائے جاتے تھے، بعض رجعت پسند گردے کی پیوند کاری کو غیر اسلامی قرار دیتے تھے جب کہ کچھ لوگوں نے اعضاء کی خریدو فروخت شروع کردی تھی۔
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اعضاء کی پیوند کاری کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے ایک مہم منظم کی۔ انھوں نے مختلف مکاتب فکر کے علماء سے اس بارے میں آراء جمع کیں۔ اعضاء کی پیوندکاری کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کے لیے سیمینارز اور کانفرنس منعقد ہوئیں اور ذرایع ابلاغ پر بھرپور پروگرام منعقد کیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی اعضاء کی پیوندکاری کے کاروبار کو روکنے کے لیے قانون سازی کے لیے منظم کوششیں کی گئیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن کو ملک میں ایک جامع قانون کے نفاذ کے لیے انتھک کوشش کرنی پڑی۔ اس قانون کا مسودہ ایک طویل عرصے تک سینیٹ میں التواء کا شکار رہا۔
قومی اسمبلی نے اس بل کی منظوری دی۔ اس بل کے نفاذ کے باوجود ملک میں یہ کاروبار جاری ہے۔ پنجاب کے بعض گائوں میں تمام غریب مردوں نے معمولی رقم کے لیے اپنے گردے فروخت کیے، ایک زمانے میں بھارت اعضاء کی خریدوفروخت کی ایک بڑی منڈی بن گیا تھا مگر وہاں قانون نافذ ہونے کے بعد اس کاروبار میں کمی ہوئی جب کہ پاکستان میں یہ کاروبار اب بھی جاری ہے۔ سپریم کورٹ میں اس حوالے سے ایک پٹیشن اب بھی زیر سماعت ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ایس آئی یو ٹی میں ہر سال گردے کی پیوندکاری کے 544 آپریشن ہوتے ہیں، یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
سیوٹ میں گزشتہ سال کے دوران 30 لاکھ مریضوں کا او پی ڈی میں علاج ہوا جب کہ 8 لاکھ 25 ہزار مریض مختلف شعبوں میں علاج کے لیے داخل کیے گئے۔ اسی طرح 7 لاکھ سے زیادہ مختلف نوعیت کے آپریشن ہوئے، اس طرح 22 ڈائیلاسز کے سیشن ہوئے اور ایس آئی یو ٹی کی لیب میں 4کروڑ ٹیسٹ کیے گئے۔ایک زمانے میں سیوٹ کی پرانی عمارت کی چھت پر مختلف جانوروں کے لیور کے آپریشن کے تجربات ہوتے تھے مگر سیوٹ میں لیور ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ ہوا، یوں مریضوں کے لیے مفت میں ایک نئی سہولت مہیا ہوگئی اور اب لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے چین، بھارت اور یورپ جانے والے مریض بھی ایس آئی یو ٹی کا رخ کرنے لگے۔
ڈاکٹر ادیب الحسن کی قیادت میں ڈاکٹروں نے گردے کے امراض کے خاتمے کے لیے یہ خدمات تو انجام دی ہیں مگر اس ٹیم نے ملک میں ہونے والے زلزلے، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات میں انسانی جانیں بچانے کے لیے بھی حیرت انگیز خدمات انجام دی ہیں۔ جب 2005 میں آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا تو ادیب صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ مظفرآباد اور متاثرہ علاقوں میں گئے جہاں سیکڑوں مریضوں کے آپریشن کیے گئے اور ایک جدید اسپتال حکومت آزاد کشمیر کے حوالے کیا گیا۔ ملک میں گزشتہ برسوں کے دوران آنے والے سیلابوں کے دوران پنجاب اور سندھ میں ایس آئی یو ٹی کی ٹیموں نے مریضوں کی جانیں بچانے کے لیے حیرت انگیز خدمات انجام دیں۔
ایس آئی یو ٹی کے دو سیٹلائٹ اسٹیشن ڈرگ روڈ کینٹ بازار اور اپوا اسپتال ناظم آباد میں کام کررہے ہیں جہاں روزانہ مریضوں کاڈائیلاسز کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا ایک اہم کارنامہ سکھر میں ایک مکمل اسپتال کا قیام ہے۔ ایس آئی یو ٹی کے سینئر ڈاکٹر پروفیسر مرلی کا کہنا ہے کہ یہ اسپتال سندھ کے اضلاع گھوٹکی، میرپور ماتھیلو، ڈھرکی، جیکب آباد، کندھ کوٹ، کشمور اور شکار پور کے علاوہ بلوچستان اور سرائیکی علاقے کے غریب عوام کو بھی طبی سہولتیں فراہم کررہے ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن اور ان کی ٹیم کے عزائم بلند ہیں مگر ان عزائم کی تکمیل کے لیے عوام کے تعاون کی ضرورت ہے۔
رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے میں زکوۃ ، فطرے اور خیرات کی رقم سے مریضوں کے علاج کے اس اہم ادارے کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ ادیب الحسن رضوی نے طالب علم کی حیثیت سے استحصال سے پاک معاشرے کے لیے جدجہد کی تھی، ان کے خواب ہر غریب شہری کے خواب ہیں۔
پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی کراچی ملک کے سب سے بڑے شہر میں تبدیل ہوگیا مگر برسر اقتدار مسلم لیگ کی حکومت کو عوام کے لیے تعلیم و صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کی اہمیت کا احساس نہیں تھا۔ اس زمانے میں ترقی پسند طلبا نے تعلیم کو عام کرنے،تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی، فیسوں میں کمی اور طلبا کے لیے بسوں کے ٹکٹ میں رعایت جیسے بنیادی مطالبات کو منوانے کے لیے ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن( ڈی ایس ایف) قائم کی جس کے بنانے والوں میں ڈاکٹر ہاشمی، ڈاکٹر سرور، ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی، ڈاکٹر فاروق، مرزا کاظم وغیرہ قابل ذکر تھے۔
ان طلبا نے 8 جنوری 1953 کو اپنے حقوق کو منوانے کے لیے ایک تحریک چلائی۔ مسلم لیگی حکومت نے پولیس کی طاقت سے اس تحریک کو کچلنے کی کوشش کی مگر پولیس کی فائرنگ اور لاٹھی چارج سے طلبا کے عزائم کم نہ ہوئے۔ بالآخر وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو طلبا کے مطالبات منظور کرنے پڑے مگر حکومت نے ڈی ایس ایف کے رہنمائوں کو کراچی جیل میں نظر بند کردیا۔ ان رہنمائوں میں ادیب الحسن رضوی بھی شامل تھے۔ ان کے ساتھ انقلابی رہنما حسن ناصر شہید بھی جیل میں بند تھے۔
انھوں نے جیل سے انٹر سائنس کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا جب کہ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے ڈاؤ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کیا۔ وہ سرجری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے۔ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے برطانیہ سے واپسی پر سول اسپتال کراچی میں ملازمت اختیار کی اور گردے کے علاج کے لیے 8بستروں کے وارڈ سے ایک نئے مشن کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنے ساتھ اپنے نوجوان ڈاکٹروں کی ٹیم جمع کی جن کا مقصد ایک چھوٹے سے وارڈ کو عظیم الشان میڈیکل کمپلیکس میں تبدیل کرنا اور ہر مریض کا اس کی عزت نفس مجروح کیے بغیر علاج کرنا تھا۔
یوں آج سرکاری شعبے میں قائم سندھ انسٹی ٹیوٹ آف نیورولاجی اور ٹرانسپلانٹیشن کا شمار دنیا کے اعلیٰ میڈیکل انسٹی ٹیوٹس میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے انسٹی ٹیوٹ کے قیام کے لیے محض سرکاری گرانٹ پر ہی تکیہ نہیں کیا بلکہ نجی شعبے کو بھی اپنے مشن میں شریک کیا۔ یوں سرکاری ادارے میں بغیر کسی فائدے کے نجی شعبے کے عطیات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہے ۔ معروف سرمایہ کارگھرانے دیوان گروپ کی مالیاتی مدد سے دیوان فاروق میڈیکل کمپلیکس تعمیر ہوا۔ اس میڈیکل کمپلیکس کی زمین حکومت سندھ نے عطیہ کی ۔
اس طرح 6 منزلہ جدید عمارت پر 300بیڈ پر مشتمل کمپلیکس کی تعمیر ہوئی۔ اس کمپلیکس میں متعدد جدید آپریشن تھیٹر، لیکچرز ہال ، او پی ڈی وغیرہ کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ایک جدید آڈیٹوریم بھی تعمیر کیا گیا۔ اس آڈیٹوریم میں میڈیکل سائنس سے متعلق کانفرنس، ورکشاپس، سیمینارز وغیرہ کے علاوہ انسانی حقوق سے آگہی اور ادبی پروگرام بھی منعقد ہوتے ہیں۔ معروف غیر ملکی اور ملکی ماہرین ،ادیب، شاعر، صحافی اور محققین اس آڈیٹوریم میں منعقد ہونے والے پروگراوں میں شرکت کرچکے ہیں۔گردے کے کینسر کے علاج کے لیے حنیفہ بائی حاجیانی کمپلیکس تعمیر ہوا۔
سندھ اسمبلی نے 1991 میں سول اسپتال کے گردہ وارڈ کو انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل کرنے کا قانون متفقہ طور پر منظور کیا۔ 2005 میں ایس آئی یو ٹی کو چیریٹل ٹرسٹ میں تبدیل کردیا گیا۔ ڈاکٹر ادیب الحسن کی کوششوں سے بچوں اور بڑوں میں گردے سے متعلق مختلف بیماریوں کی تشخیص کے لیے علیحدہ علیحدہ او پی ڈی شروع ہوئیں اور علیحدہ علیحدہ آپریشن ہونے لگے۔ اس کے ساتھ ہی گردے کی پتھری کو کچلنے کے لیے لیپسو تھریپی کی مشین جو اپنے وقت کی مہنگی ترین مشین تھی ایس آئی یو ٹی میں لگ گئی۔
یہ وہ وقت تھا جب کراچی کے دو یا تین اسپتالوں میں یہ مشین لگائی گئی تھی جہاں مریضوں سے اس جدید طریقہ علاج کے لیے خطیر رقم وصول کی جاتی تھی مگر سیوٹ میں یہ سہولت بغیر کسی معاوضے کے فراہم کی جاتی تھی۔ اسی طرح گردوں کے کام نہ کرنے کی بناء پر مریضوں کی اموات کی شرح خاصی زیادہ تھی مگر ایس آئی یو ٹی میں ڈائیلیسز مشین لگادی گئی۔ یوں ناامید ہونے والے مریض اپنے ناکارہ گردوں کے بجائے ڈائیلیسزمشین کے ذریعے خون صاف کراکے عام زندگی گزارنے کے قابل ہوئے۔
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کی قیادت میں ڈاکٹروں کی ٹیم نے گردے کے ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ کیا۔انھوں نے ایک تندرست فرد کا گردہ ایک ایسے شخص کو لگایا جس کا گردہ ناکارہ ہوچکا تھا۔ ناکارہ گردے والے مریضوں کے لیے زندگی کی ایک نئی امید پیدا ہوگئی۔ ڈاکٹر صاحب نے انسانی اعضاء کی تجارت کو روکنے کے لیے قریبی رشتے داروں کو ڈونرز کے طور پر قبول کرنا شروع کیا۔ ہمارے ملک میں اعضاء کی پیوندکاری کے حوالے سے فرسودہ خیالات پائے جاتے تھے، بعض رجعت پسند گردے کی پیوند کاری کو غیر اسلامی قرار دیتے تھے جب کہ کچھ لوگوں نے اعضاء کی خریدو فروخت شروع کردی تھی۔
ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی نے اعضاء کی پیوند کاری کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے ایک مہم منظم کی۔ انھوں نے مختلف مکاتب فکر کے علماء سے اس بارے میں آراء جمع کیں۔ اعضاء کی پیوندکاری کے بارے میں آگہی پیدا کرنے کے لیے سیمینارز اور کانفرنس منعقد ہوئیں اور ذرایع ابلاغ پر بھرپور پروگرام منعقد کیے گئے۔ اس کے ساتھ ہی اعضاء کی پیوندکاری کے کاروبار کو روکنے کے لیے قانون سازی کے لیے منظم کوششیں کی گئیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن کو ملک میں ایک جامع قانون کے نفاذ کے لیے انتھک کوشش کرنی پڑی۔ اس قانون کا مسودہ ایک طویل عرصے تک سینیٹ میں التواء کا شکار رہا۔
قومی اسمبلی نے اس بل کی منظوری دی۔ اس بل کے نفاذ کے باوجود ملک میں یہ کاروبار جاری ہے۔ پنجاب کے بعض گائوں میں تمام غریب مردوں نے معمولی رقم کے لیے اپنے گردے فروخت کیے، ایک زمانے میں بھارت اعضاء کی خریدوفروخت کی ایک بڑی منڈی بن گیا تھا مگر وہاں قانون نافذ ہونے کے بعد اس کاروبار میں کمی ہوئی جب کہ پاکستان میں یہ کاروبار اب بھی جاری ہے۔ سپریم کورٹ میں اس حوالے سے ایک پٹیشن اب بھی زیر سماعت ہے۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ایس آئی یو ٹی میں ہر سال گردے کی پیوندکاری کے 544 آپریشن ہوتے ہیں، یہ شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔
سیوٹ میں گزشتہ سال کے دوران 30 لاکھ مریضوں کا او پی ڈی میں علاج ہوا جب کہ 8 لاکھ 25 ہزار مریض مختلف شعبوں میں علاج کے لیے داخل کیے گئے۔ اسی طرح 7 لاکھ سے زیادہ مختلف نوعیت کے آپریشن ہوئے، اس طرح 22 ڈائیلاسز کے سیشن ہوئے اور ایس آئی یو ٹی کی لیب میں 4کروڑ ٹیسٹ کیے گئے۔ایک زمانے میں سیوٹ کی پرانی عمارت کی چھت پر مختلف جانوروں کے لیور کے آپریشن کے تجربات ہوتے تھے مگر سیوٹ میں لیور ٹرانسپلانٹ کا کامیاب تجربہ ہوا، یوں مریضوں کے لیے مفت میں ایک نئی سہولت مہیا ہوگئی اور اب لیور ٹرانسپلانٹ کے لیے چین، بھارت اور یورپ جانے والے مریض بھی ایس آئی یو ٹی کا رخ کرنے لگے۔
ڈاکٹر ادیب الحسن کی قیادت میں ڈاکٹروں نے گردے کے امراض کے خاتمے کے لیے یہ خدمات تو انجام دی ہیں مگر اس ٹیم نے ملک میں ہونے والے زلزلے، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات میں انسانی جانیں بچانے کے لیے بھی حیرت انگیز خدمات انجام دی ہیں۔ جب 2005 میں آزاد کشمیر میں زلزلہ آیا تو ادیب صاحب اپنی ٹیم کے ہمراہ مظفرآباد اور متاثرہ علاقوں میں گئے جہاں سیکڑوں مریضوں کے آپریشن کیے گئے اور ایک جدید اسپتال حکومت آزاد کشمیر کے حوالے کیا گیا۔ ملک میں گزشتہ برسوں کے دوران آنے والے سیلابوں کے دوران پنجاب اور سندھ میں ایس آئی یو ٹی کی ٹیموں نے مریضوں کی جانیں بچانے کے لیے حیرت انگیز خدمات انجام دیں۔
ایس آئی یو ٹی کے دو سیٹلائٹ اسٹیشن ڈرگ روڈ کینٹ بازار اور اپوا اسپتال ناظم آباد میں کام کررہے ہیں جہاں روزانہ مریضوں کاڈائیلاسز کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا ایک اہم کارنامہ سکھر میں ایک مکمل اسپتال کا قیام ہے۔ ایس آئی یو ٹی کے سینئر ڈاکٹر پروفیسر مرلی کا کہنا ہے کہ یہ اسپتال سندھ کے اضلاع گھوٹکی، میرپور ماتھیلو، ڈھرکی، جیکب آباد، کندھ کوٹ، کشمور اور شکار پور کے علاوہ بلوچستان اور سرائیکی علاقے کے غریب عوام کو بھی طبی سہولتیں فراہم کررہے ہیں۔ ڈاکٹر ادیب الحسن اور ان کی ٹیم کے عزائم بلند ہیں مگر ان عزائم کی تکمیل کے لیے عوام کے تعاون کی ضرورت ہے۔
رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے میں زکوۃ ، فطرے اور خیرات کی رقم سے مریضوں کے علاج کے اس اہم ادارے کی ضروریات پوری کی جاسکتی ہیں۔ ادیب الحسن رضوی نے طالب علم کی حیثیت سے استحصال سے پاک معاشرے کے لیے جدجہد کی تھی، ان کے خواب ہر غریب شہری کے خواب ہیں۔