خوبصورت ملاپ
آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی متفقہ جماعت تھی۔ اب مقبولیت عوامی تجزیوں سے نکل کر بیلٹ پیپر پر آنے کا وقت تھا۔
دولہا دلہن دونوں خوبصورت ہوں تو کہا جاتا ہے کہ چاند سورج کی جوڑی ہے۔ دو کام ایک ساتھ اچھے ہوجائیں تو کہتے ہیں ''سونے پہ سہاگہ''۔ اس مرتبہ منگل کو یہ تو نہیں کہیں گے کہ جنگل میں منگل ہوگیا لیکن یہ ہم ضرور کہہ سکتے ہیں کہ سن دو ہزار بارہ کے آنے والے منگل کو ایک ٹکٹ میں دو مزے ہوگئے ہیں۔ خوبصورت ملاپ کو خواتین ''ایک پنتھ دو کاج'' بھی کہہ سکتی ہیں۔ اگست کے مہینے کا چودھواں دن چودھویں کی رات کی طرح تابناک ہوگیا ہے۔ خوبصورت محبوب سامنے ہو اور فل مون ہو تو شاعرانہ مزاج رکھنے والا محبوب کہہ سکتا ہے کہ ''ایک ہی رات میں دو چاند نظر آئے ہیں۔'' ہمیں آنے والے دن میں واقعی دو چاند ایک ساتھ نظر آنے والے ہیں۔ دو خوشیاں ایک ساتھ ہماری جھولی میں آنے میں اب چند گھنٹے رہ گئے ہیں۔
14 اگست کو مسلمانوں کو پاکستان ملا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو 47 میں ایک آزاد وطن ملا۔ مسلمانانِ ہند کو رمضان المبارک کی 27 ویں شب اور آزاد پاکستان کا پہلا یومِ آزادی ایک ساتھ نصیب ہوا۔ ایسا ہی موقع 33 سال قبل آیا تھا اور اب 2012 کا 14 اگست ایسے موقع پر آرہا ہے جب رمضان بھی ہے، آخری عشرہ بھی اور سب سے متبرک رات بھی قریب تر۔ صرف ایک دن کے فاصلے پر۔ کیا یہ یوں ہی ہوگیا؟ یہ اتفاق تھا؟ جی نہیں۔ یہ قدرت کا بہت بڑا اشارہ تھا کہ مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست کے 1366 برسوں کے بعد دوسری اسلامی ریاست دنیا کے نقشے پر وجود میں آئی تھی۔
مذہب کے نام پر بننے والی کائنات کی دوسری نظریاتی مملکت۔ وطن و ملک تو رنگ، نسل، زبان اور صدیوں تک ایک ساتھ رہنے پر وجود میں آتے ہیں۔ مدینہ طیبہ اور پاکستان یعنی ''پاک لوگوں کی سرزمین'' اسلام کے نام پر وجود میں آئی۔ اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات اس وقت دھرے کے دھرے رہ گئے جب یہودیوں نے اپنی ریاست مذہب کے نام پر بنائی۔ پھر عیسائیوں نے مشرقی تیمور مذہب کے نام پر بنایا۔ وہ لوگ لاجواب ہوگئے جو کہتے تھے کہ مذہب کے نام پر ریاستیں کس طرح وجود میں آتی ہیں؟
پاکستان کے قیام کے مرحلے، اس میں رکاوٹیں اور پھر ان کے ہٹ جانے کے بعد 14 اگست اور رمضان کی 27 ویں شب کا باہم ملاپ، چاند سورج کی جوڑی ہی تو تھی۔ واقعتاً کسی حاسد کا خون کتنا ہی جلے ہم اسے سونے پہ سہاگہ ہی تو کہیں گے۔ بچّوں کے لیے یہ ایک ٹکٹ میں دو مزے تو خواتین کے لیے ایک پنتھ دو کاج کی مانند ہے۔ ہماری مسلمانیت اور پاکستانیت کو مضبوط کرنے کی طرح۔ اگست کے چودھویں دن کے نزدیک تر رمضان کی مبارک ترین شب ہو تو کون ظالم اسے تابناک روز و شب نہ کہے گا۔ کسی دل کے اندھے کوایک ہی رات میں دو چاند نظر نہ آئیں تو کوئی کیا کرے؟ دو خوشیاں ایک ساتھ جھولی میں گررہی ہیں تو کوئی مایوسی کا مارا ''آدھے گلاس کے خالی'' ہونے کی دہائی دے تو کیا علاج کیا جائے؟
تاریخ کتنی ظالم ہے کہ نہ کوئی پاکستان کے قیام کو روک سکا اور نہ آزادی کے اس دن کو جب متبرک ترین مہینے کی متبرک ترین رات ہمیں مل رہی تھی۔ 1857 سے شروع ہونے والی جنگ آزادی کی ابتدا میں سید احمد نے انگریزی تعلیم کی طرف توجہ دلا کر مقابلہ کرنے پر آمادہ کیا۔ اکبر الٰہ آبادی نے انگریزوں کے رنگ میں رنگ نہ جانے پر مزاحیہ انداز میں شاعری کی۔ نئی صدی شروع ہوئی تو ڈھاکا میں نواب سلیم اﷲ خان نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ مسلمان نیند سے بیدار تو ہوچکے تھے لیکن ابھی تک بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ پھر مولانا محمد علی جوہر نے زوردار تحریروں اور شاہکار تقریروں سے جگایا۔
اس وقت تک ہندو کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف جدوجہد پر توجہ تھی۔ یوں گاندھی جی خلافت موومنٹ سے الگ ہوگئے۔ مسلمانوں کی کشتی بیچ منجدھار میں تھی۔ ایسے میں علامہ اقبال کی شاعری نے مکمل بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ابھی منہ دھو کر اور اٹھ کر چلنے کا معاملہ درپیش تھا۔ اقبال نے دوسرا کام محمد علی جناح کو اس جدوجہد کے لیے تیار کرکے کیا۔ ابھی 14 اگست اور 27 رمضان کی شب کا خوبصورت ملاپ کافی دور تھا۔
محمد علی جناح انگلینڈ سے برصغیر میں ایک نئی اننگز کھیلنے کے لیے آئے۔ اس وقت تک مسلمانانِ ہند بغیر کسی قائد کے تھے، غیر منظم تھے، بکھرے ہوئے تھے۔ نہ نشان راہ کا پتہ تھا نہ منزل کی خبر۔ قائد نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔ پہلا معرکہ 37ء کے انتخابات تھے۔ لیگ اور جناح کے کھاتے میں مایوسی تو تھی، لیکن کسی بھی مرحلے پر ناامیدی نہ تھی۔ کانگریس کی دو سالہ حکومت نے لیگ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ مسلمان ''مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ'' کے نعرے لگانے اور ''ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح'' کے گیت گانے لگ گئے۔ ابھی پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اﷲ کا مرحلہ آنا باقی تھا۔
لاہور میں 40ء کے مطالبہ پاکستان نے منزل تک پہنچنے کا کام آسان بنا دیا۔ انگریز کے جانے کے بعد ہندو کا خوف اور پھر ایک اسلامی مملکت کی تشکیل کا خواب۔ آنکھوں میں سپنے سجائے مسلمان لاہور سے پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔ اب آنے والے پانچ چھ سال اسی جدوجہد کے نام تھے۔ یہی جدوجہد مسلمانوں کو 14 اگست اور 27 ویں مبارک شب کے قریب لارہی تھی۔
آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی متفقہ جماعت تھی۔ اب مقبولیت عوامی تجزیوں سے نکل کر بیلٹ پیپر پر آنے کا وقت تھا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اسلامی مملکت کے سفر کی جانب آگے بڑھنا شروع کیا۔ بنگال، سندھ، یوپی، بہار میں مسلمان بہت بڑی اکثریت میں کامیاب ہوئے۔ پنجاب میں لیگ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ بلوچستان میں قبائل اور سرحد میں ریفرنڈم نے منزل قریب کردی۔ اب تاریخ کا چنائو کرنا تھا۔ انگریزوں کو بتانا تھا کہ کب تقسیم ہوگی اور کب پاکستان بنے گا۔
انگریزوں نے آزادی کے لیے جون 48 کا وقت معین کیا۔ یہ تو رمضان کا مہینہ نہ تھا۔ جب ماہ مقدس نہ تھا تو آخری عشرے کا بھی کوئی سوال نہ تھا۔ پھر 3 جون آیا اور ریڈیو پر خطاب کے ذریعے اگست کی 14 اور 15 کی درمیانی شب کا اعلان ہوا۔ ابھی ڈھائی مہینے باقی تھے۔ ابھی تین مرتبہ چاند دیکھا جانا تھا۔ ابھی ہلال کی رویت تین مرتبہ ہونی تھی اور اسلامی تاریخ کا تعیّن ہونا تھا۔ یہ طے تھا کہ آزادی رمضان کے آخری عشرے میں ملے گی۔ اب جب وہ دن آیا تو وہ صرف آزادی کا مبارک دن نہ تھا بلکہ 27 ویں شب بھی تھی۔ یہ رات عظیم تھی تو دوسرا دن جمعۃ المبارک تھا۔ رمضان کا آخری جمعہ، جمعۃ الوداع۔ ایک طرف غلامی وداع ہورہی تھی تو دوسری جانب رمضان بھی رخصت پر تھا۔
اب ہر 33 برسوں بعد ایسی ساعتیں آئیں گی جب دونوں دن قریب تر ہوں گے۔ کسی کو ایک تو کسی کو دو مواقع ملیں گے جب وہ 14 اگست اور 27 ویں شب کا خوبصورت ملاپ دیکھیں گے۔ بہت کم خوش نصیب ہوں گے جنھیں پوری زندگی میں ایسے تین مواقع ملیں۔ 14 اگست اور 27 ویں شب کے قریب اور باہم ملنے کے مواقع۔ مواقع خوبصورت ملاپ کے۔
14 اگست کو مسلمانوں کو پاکستان ملا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو 47 میں ایک آزاد وطن ملا۔ مسلمانانِ ہند کو رمضان المبارک کی 27 ویں شب اور آزاد پاکستان کا پہلا یومِ آزادی ایک ساتھ نصیب ہوا۔ ایسا ہی موقع 33 سال قبل آیا تھا اور اب 2012 کا 14 اگست ایسے موقع پر آرہا ہے جب رمضان بھی ہے، آخری عشرہ بھی اور سب سے متبرک رات بھی قریب تر۔ صرف ایک دن کے فاصلے پر۔ کیا یہ یوں ہی ہوگیا؟ یہ اتفاق تھا؟ جی نہیں۔ یہ قدرت کا بہت بڑا اشارہ تھا کہ مدینہ طیبہ کی اسلامی ریاست کے 1366 برسوں کے بعد دوسری اسلامی ریاست دنیا کے نقشے پر وجود میں آئی تھی۔
مذہب کے نام پر بننے والی کائنات کی دوسری نظریاتی مملکت۔ وطن و ملک تو رنگ، نسل، زبان اور صدیوں تک ایک ساتھ رہنے پر وجود میں آتے ہیں۔ مدینہ طیبہ اور پاکستان یعنی ''پاک لوگوں کی سرزمین'' اسلام کے نام پر وجود میں آئی۔ اعتراض کرنے والوں کے اعتراضات اس وقت دھرے کے دھرے رہ گئے جب یہودیوں نے اپنی ریاست مذہب کے نام پر بنائی۔ پھر عیسائیوں نے مشرقی تیمور مذہب کے نام پر بنایا۔ وہ لوگ لاجواب ہوگئے جو کہتے تھے کہ مذہب کے نام پر ریاستیں کس طرح وجود میں آتی ہیں؟
پاکستان کے قیام کے مرحلے، اس میں رکاوٹیں اور پھر ان کے ہٹ جانے کے بعد 14 اگست اور رمضان کی 27 ویں شب کا باہم ملاپ، چاند سورج کی جوڑی ہی تو تھی۔ واقعتاً کسی حاسد کا خون کتنا ہی جلے ہم اسے سونے پہ سہاگہ ہی تو کہیں گے۔ بچّوں کے لیے یہ ایک ٹکٹ میں دو مزے تو خواتین کے لیے ایک پنتھ دو کاج کی مانند ہے۔ ہماری مسلمانیت اور پاکستانیت کو مضبوط کرنے کی طرح۔ اگست کے چودھویں دن کے نزدیک تر رمضان کی مبارک ترین شب ہو تو کون ظالم اسے تابناک روز و شب نہ کہے گا۔ کسی دل کے اندھے کوایک ہی رات میں دو چاند نظر نہ آئیں تو کوئی کیا کرے؟ دو خوشیاں ایک ساتھ جھولی میں گررہی ہیں تو کوئی مایوسی کا مارا ''آدھے گلاس کے خالی'' ہونے کی دہائی دے تو کیا علاج کیا جائے؟
تاریخ کتنی ظالم ہے کہ نہ کوئی پاکستان کے قیام کو روک سکا اور نہ آزادی کے اس دن کو جب متبرک ترین مہینے کی متبرک ترین رات ہمیں مل رہی تھی۔ 1857 سے شروع ہونے والی جنگ آزادی کی ابتدا میں سید احمد نے انگریزی تعلیم کی طرف توجہ دلا کر مقابلہ کرنے پر آمادہ کیا۔ اکبر الٰہ آبادی نے انگریزوں کے رنگ میں رنگ نہ جانے پر مزاحیہ انداز میں شاعری کی۔ نئی صدی شروع ہوئی تو ڈھاکا میں نواب سلیم اﷲ خان نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ مسلمان نیند سے بیدار تو ہوچکے تھے لیکن ابھی تک بستر پر لیٹے ہوئے تھے۔ پھر مولانا محمد علی جوہر نے زوردار تحریروں اور شاہکار تقریروں سے جگایا۔
اس وقت تک ہندو کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف جدوجہد پر توجہ تھی۔ یوں گاندھی جی خلافت موومنٹ سے الگ ہوگئے۔ مسلمانوں کی کشتی بیچ منجدھار میں تھی۔ ایسے میں علامہ اقبال کی شاعری نے مکمل بیدار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ابھی منہ دھو کر اور اٹھ کر چلنے کا معاملہ درپیش تھا۔ اقبال نے دوسرا کام محمد علی جناح کو اس جدوجہد کے لیے تیار کرکے کیا۔ ابھی 14 اگست اور 27 رمضان کی شب کا خوبصورت ملاپ کافی دور تھا۔
محمد علی جناح انگلینڈ سے برصغیر میں ایک نئی اننگز کھیلنے کے لیے آئے۔ اس وقت تک مسلمانانِ ہند بغیر کسی قائد کے تھے، غیر منظم تھے، بکھرے ہوئے تھے۔ نہ نشان راہ کا پتہ تھا نہ منزل کی خبر۔ قائد نے مسلم لیگ کی قیادت سنبھالی۔ پہلا معرکہ 37ء کے انتخابات تھے۔ لیگ اور جناح کے کھاتے میں مایوسی تو تھی، لیکن کسی بھی مرحلے پر ناامیدی نہ تھی۔ کانگریس کی دو سالہ حکومت نے لیگ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔ مسلمان ''مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ'' کے نعرے لگانے اور ''ملت کا پاسباں ہے محمد علی جناح'' کے گیت گانے لگ گئے۔ ابھی پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اﷲ کا مرحلہ آنا باقی تھا۔
لاہور میں 40ء کے مطالبہ پاکستان نے منزل تک پہنچنے کا کام آسان بنا دیا۔ انگریز کے جانے کے بعد ہندو کا خوف اور پھر ایک اسلامی مملکت کی تشکیل کا خواب۔ آنکھوں میں سپنے سجائے مسلمان لاہور سے پورے ہندوستان میں پھیل گئے۔ اب آنے والے پانچ چھ سال اسی جدوجہد کے نام تھے۔ یہی جدوجہد مسلمانوں کو 14 اگست اور 27 ویں مبارک شب کے قریب لارہی تھی۔
آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی متفقہ جماعت تھی۔ اب مقبولیت عوامی تجزیوں سے نکل کر بیلٹ پیپر پر آنے کا وقت تھا۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اسلامی مملکت کے سفر کی جانب آگے بڑھنا شروع کیا۔ بنگال، سندھ، یوپی، بہار میں مسلمان بہت بڑی اکثریت میں کامیاب ہوئے۔ پنجاب میں لیگ سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ بلوچستان میں قبائل اور سرحد میں ریفرنڈم نے منزل قریب کردی۔ اب تاریخ کا چنائو کرنا تھا۔ انگریزوں کو بتانا تھا کہ کب تقسیم ہوگی اور کب پاکستان بنے گا۔
انگریزوں نے آزادی کے لیے جون 48 کا وقت معین کیا۔ یہ تو رمضان کا مہینہ نہ تھا۔ جب ماہ مقدس نہ تھا تو آخری عشرے کا بھی کوئی سوال نہ تھا۔ پھر 3 جون آیا اور ریڈیو پر خطاب کے ذریعے اگست کی 14 اور 15 کی درمیانی شب کا اعلان ہوا۔ ابھی ڈھائی مہینے باقی تھے۔ ابھی تین مرتبہ چاند دیکھا جانا تھا۔ ابھی ہلال کی رویت تین مرتبہ ہونی تھی اور اسلامی تاریخ کا تعیّن ہونا تھا۔ یہ طے تھا کہ آزادی رمضان کے آخری عشرے میں ملے گی۔ اب جب وہ دن آیا تو وہ صرف آزادی کا مبارک دن نہ تھا بلکہ 27 ویں شب بھی تھی۔ یہ رات عظیم تھی تو دوسرا دن جمعۃ المبارک تھا۔ رمضان کا آخری جمعہ، جمعۃ الوداع۔ ایک طرف غلامی وداع ہورہی تھی تو دوسری جانب رمضان بھی رخصت پر تھا۔
اب ہر 33 برسوں بعد ایسی ساعتیں آئیں گی جب دونوں دن قریب تر ہوں گے۔ کسی کو ایک تو کسی کو دو مواقع ملیں گے جب وہ 14 اگست اور 27 ویں شب کا خوبصورت ملاپ دیکھیں گے۔ بہت کم خوش نصیب ہوں گے جنھیں پوری زندگی میں ایسے تین مواقع ملیں۔ 14 اگست اور 27 ویں شب کے قریب اور باہم ملنے کے مواقع۔ مواقع خوبصورت ملاپ کے۔