تبدیلی ذات کی ہم آہنگی کا نام ہے
ترقی بھی کیسی ترقی تھی، جس میں اس ملک کے چالیس فیصد غریب لوگ شامل ہی نہیں تھے۔
ہر طرف جشن آزادی کے ترانے گونج رہے ہیں، دکانوں و عمارتوں کی سجاوٹ قابل دید ہے، ہر جگہ چھوٹے بڑے پرچم لہرا رہے ہیں، بچے و جوان بے ساختہ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فضائوں میں آزادی کا احساس تیر رہا ہے۔
دوسری جانب جمہوری عمل اپنی تکمیل کا سفر طے کررہا ہے۔ تحریک انصاف اقتدار کے ایوان میں داخل ہوچکی ہے۔ عمران خان ملک کے نئے وزیراعظم کے طور پر بہت پرامید ہیں۔ وہ کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور ملک کو مزید ترقی سے ہمکنار کریں گے۔ سب سے بڑی بات کہ اس ملک کے نوجوان ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن کوئی بھی تبدیلی دل، ذہن و روح کو شامل کیے بغیر نہیں لائی جاسکتی۔
سچ تو یہ ہے کہ ہماری عادات بگڑی ہوئی ہیں۔ ہم حقوق کی با ت تو کرتے ہیں مگر اپنے فرائض سے آگاہ نہیں ہیں۔ ہم جب تک مضبوط قوت ارادی کا سہارا نہیں لیں گے، یہ تبدیلی فقط کاغذی کارروائیوں تک محدود رہے گی۔
آپ سوچتے ہیں کہ اپنی عادات ترک کردیں گے، جو دوستوں و گھر والوں کو بری لگتی ہیں، مگر آپ ایسا نہیں کرپاتے۔ کیوں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس سے اس ملک کا مستقبل وابستہ ہے۔ کوئی بھی عادت ہو، جیسے کام پر دیر سے جانے کی عادت ہو، جھوٹ بولنے کا خلفشار ہو۔ بے ایمانی مزاج کا حصہ بن جائے یا پھر کام چوری ہو۔ یہ سب معمولات نہ فقط ذاتی طور پر نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ اجتماعی طور پر ملک کے لیے بہت بڑا خسارہ بن جاتے ہیں۔ ایک دن کا کاروبار معطل ہوجاتا ہے تو کروڑوں کا نقصان پہنچتا ہے۔ آپ جب گھنٹہ دیر سے پہنچتے ہیں تو لاکھوں کا خسارہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی نشے کی عادت ہو۔ چاہے چائے، سگریٹ ہی کیوں نہ ہو، کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ درآمدات ملک کے بجٹ پر بوجھ بن جاتی ہیں۔ آپ کا پیسہ اور صحت الگ برباد ہوتے ہیں۔
جہاں تک صحت کا تعلق ہے تو جسمانی صحت سے زیادہ ذہنی صحت متاثرہ ہے۔ مگر کوئی یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ وہ ڈپریشن یا اینگزائٹی کا شکار ہے۔ اسے علاج سے زیادہ تبدیلی درکار ہے۔
تبدیلی کا ذکر اس ملک میں خوب ہوا ہے۔ تبدیلی آئے گی۔ تبدیلی لائیں گے۔ تبدیلی آچکی ہے۔
لیکن یہ بات طے ہے کہ نوجوان یا معمر لوگ قطعی تبدیل نہیں ہوسکتے۔ دنیا کا سب سے مشکل کام تبدیل ہونا ہے۔ آپ روز تبدیل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر برسوں تک وہی رہتے ہیں جو روز ازل سے تھے۔ وہی عادات، وہی معمولات اور وہی گھسی پٹی باتیں اور بحث مباحثے اور حل کوئی بھی نہیں۔ جتنی افراط یہاں باتوں کی ہے کہیں اور نہیں ملے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم تبدیل کیوں نہیں ہوسکتے؟ اس کا جواب بھی سن لیجیے کہ پچیس سال کے نوجوان جو مارشل لا اور دنگے فساد کا ماحول دیکھ چکے ہیں، سخت بوریت اور مایوسی کا شکار ہیں، انھیں امریکا، کینیڈا و یورپ کا ویزا درکار ہے۔ ویزا کا چراغ ملتے ہی بدل جائیں گے۔ محنت کے بغیر نوکری اور پروموشنز چاہئیں، اور مل بھی جاتے ہیں۔ خوابوں کی تعبیر جہاں سستی اور آرڈر پر مل جاتی ہو وہاں ہر خوشی عارضی اور مشروط ہوتی ہے۔
تبدیلی اس وقت ممکن ہے جب ہم اندر سے بدل جائیں۔ اندر سے بدلنے کے لیے یا تو معجزہ ہو یا پھر کوئی حادثہ رونما ہوجائے۔ اب تو لوگ معجزے پر یقین کھو چکے ہیں اور حادثے بھی بے اثر۔ حادثے اس قدر ہوئے ہیں کہ وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ذہن کے دو حصے بتائے جاتے ہیں۔ دایاں ذہن اور بایاں ذہن۔ ان کے کام الگ ہیں۔ دایاں ذہن تعمیری اور خواب دیکھنے کے عمل سے تعلق رکھتا ہے۔ کھیل کود و تخلیقی سرگرمیاں جن کا حصہ کہلاتی ہیں۔ فنکار و ادیب دائیں ذہن کے حامل ہوتے ہیں۔ جب کہ بائیں ذہن کے لوگ وہ ہیں جو نظم و ضبط کے قائل، حقیقت پسند اور منطقی کہلاتے ہیں۔ (یہ الگ بات کہ یہ حقیقت پسندی و منطق غیر مشروط ہو) لہٰذا اس ملک کے اکثر لوگ Left Brain یعنی کھبے ذہن کے حامل افراد ہیں۔ بائین ذہن کے لوگ کامیاب پیشہ ور افراد ہیں، جو جلدی تبدیل نہیں ہوسکتے۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ تبدیلی فقط ترقی یا محض خوشحالی کا نام ہے؟ ترقی اور خوشحالی کے ساتھ دل کی خوشی شامل نہ ہو یا روح سرشار نہ ہو تو ترقی کا کیا فائدہ۔
ہمارے ملک میں آج تک مادی ترقی ہوتی رہی ہے۔ کسی نے ذہن و روح کی آبیاری نہیں کی۔ ذہن بے سکون اور روح مرجھائے ہوئے پھول کی مانند رہی۔
ترقی بھی کیسی ترقی تھی، جس میں اس ملک کے چالیس فیصد غریب لوگ شامل ہی نہیں تھے۔ ان کے لیے نہ صحتمند کھانا ہے نہ علاج ہے، نہ سائبان اور نہ ہی تحفظ۔ یہ زندگی کے بدحال راستوں پر رینگ کر چلنے والے مسافر ہیں۔ ان کے لیے کسی نے کیوں نہیں سوچا؟ اور یہ مسائل دیمک کی طرح ملک کو چاٹتے رہے۔
ہم کیوں پرانی سوچ، عادات، رویے اور انداز نہیں بدل سکتے؟ کیونکہ یہ سوچ ہمارے لاشعور میں پختہ ہوچکی ہے۔ تبدیلی کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے ذہن کا مکالمہ بدل ڈالیں۔ ہم خود رحمی کی کیفیت سے باہر نکل کر سوچیں۔ ذات کے بھنور سے باہر نکل کر غیر جانبدار آنکھ سے دنیا کو سمجھنے کی کوشش کریں اور منفی سوچ ترک کردیں۔
تبدیلی ہمارے یہ بچے لے کر آئیں گے جو جمہورت کے درخت تلے پروان چڑھیں گے، ان کی پرورش ذہنی تفریق کے خانوں سے ہٹ کر کرنی ہوگی۔
ہم موثر، مثبت اور مصالحتی خودکلامی کو راستہ دیں۔ نفرت، تعصب اور کدورت کو جڑ سے اٹھا کر باہر پھینکیں۔ اور ایک نئی صبح کا منظر دیکھیں۔ سورج کو محسوس کریں۔ اس کی روشن کرنوں و گرمی کا لطف اٹھائیں۔ ہوا کی تازگی کو اندر اتار کے محسوس کریں کہ نیا پن کسے کہتے ہیں، اور سبزے کو اپنے تھکے ماندے خیال کے گرد بن لیں۔
تبدیلی، احساس کو شامل کرکے محسوس کی جاتی ہے۔ سوچ کے نئے تناظر اور ذات کی مکمل ہم آہنگی کانام ہے۔
دوسری جانب جمہوری عمل اپنی تکمیل کا سفر طے کررہا ہے۔ تحریک انصاف اقتدار کے ایوان میں داخل ہوچکی ہے۔ عمران خان ملک کے نئے وزیراعظم کے طور پر بہت پرامید ہیں۔ وہ کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور ملک کو مزید ترقی سے ہمکنار کریں گے۔ سب سے بڑی بات کہ اس ملک کے نوجوان ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن کوئی بھی تبدیلی دل، ذہن و روح کو شامل کیے بغیر نہیں لائی جاسکتی۔
سچ تو یہ ہے کہ ہماری عادات بگڑی ہوئی ہیں۔ ہم حقوق کی با ت تو کرتے ہیں مگر اپنے فرائض سے آگاہ نہیں ہیں۔ ہم جب تک مضبوط قوت ارادی کا سہارا نہیں لیں گے، یہ تبدیلی فقط کاغذی کارروائیوں تک محدود رہے گی۔
آپ سوچتے ہیں کہ اپنی عادات ترک کردیں گے، جو دوستوں و گھر والوں کو بری لگتی ہیں، مگر آپ ایسا نہیں کرپاتے۔ کیوں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس سے اس ملک کا مستقبل وابستہ ہے۔ کوئی بھی عادت ہو، جیسے کام پر دیر سے جانے کی عادت ہو، جھوٹ بولنے کا خلفشار ہو۔ بے ایمانی مزاج کا حصہ بن جائے یا پھر کام چوری ہو۔ یہ سب معمولات نہ فقط ذاتی طور پر نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ اجتماعی طور پر ملک کے لیے بہت بڑا خسارہ بن جاتے ہیں۔ ایک دن کا کاروبار معطل ہوجاتا ہے تو کروڑوں کا نقصان پہنچتا ہے۔ آپ جب گھنٹہ دیر سے پہنچتے ہیں تو لاکھوں کا خسارہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی نشے کی عادت ہو۔ چاہے چائے، سگریٹ ہی کیوں نہ ہو، کروڑوں کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ درآمدات ملک کے بجٹ پر بوجھ بن جاتی ہیں۔ آپ کا پیسہ اور صحت الگ برباد ہوتے ہیں۔
جہاں تک صحت کا تعلق ہے تو جسمانی صحت سے زیادہ ذہنی صحت متاثرہ ہے۔ مگر کوئی یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ وہ ڈپریشن یا اینگزائٹی کا شکار ہے۔ اسے علاج سے زیادہ تبدیلی درکار ہے۔
تبدیلی کا ذکر اس ملک میں خوب ہوا ہے۔ تبدیلی آئے گی۔ تبدیلی لائیں گے۔ تبدیلی آچکی ہے۔
لیکن یہ بات طے ہے کہ نوجوان یا معمر لوگ قطعی تبدیل نہیں ہوسکتے۔ دنیا کا سب سے مشکل کام تبدیل ہونا ہے۔ آپ روز تبدیل ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر برسوں تک وہی رہتے ہیں جو روز ازل سے تھے۔ وہی عادات، وہی معمولات اور وہی گھسی پٹی باتیں اور بحث مباحثے اور حل کوئی بھی نہیں۔ جتنی افراط یہاں باتوں کی ہے کہیں اور نہیں ملے گی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم تبدیل کیوں نہیں ہوسکتے؟ اس کا جواب بھی سن لیجیے کہ پچیس سال کے نوجوان جو مارشل لا اور دنگے فساد کا ماحول دیکھ چکے ہیں، سخت بوریت اور مایوسی کا شکار ہیں، انھیں امریکا، کینیڈا و یورپ کا ویزا درکار ہے۔ ویزا کا چراغ ملتے ہی بدل جائیں گے۔ محنت کے بغیر نوکری اور پروموشنز چاہئیں، اور مل بھی جاتے ہیں۔ خوابوں کی تعبیر جہاں سستی اور آرڈر پر مل جاتی ہو وہاں ہر خوشی عارضی اور مشروط ہوتی ہے۔
تبدیلی اس وقت ممکن ہے جب ہم اندر سے بدل جائیں۔ اندر سے بدلنے کے لیے یا تو معجزہ ہو یا پھر کوئی حادثہ رونما ہوجائے۔ اب تو لوگ معجزے پر یقین کھو چکے ہیں اور حادثے بھی بے اثر۔ حادثے اس قدر ہوئے ہیں کہ وہ اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ ذہن کے دو حصے بتائے جاتے ہیں۔ دایاں ذہن اور بایاں ذہن۔ ان کے کام الگ ہیں۔ دایاں ذہن تعمیری اور خواب دیکھنے کے عمل سے تعلق رکھتا ہے۔ کھیل کود و تخلیقی سرگرمیاں جن کا حصہ کہلاتی ہیں۔ فنکار و ادیب دائیں ذہن کے حامل ہوتے ہیں۔ جب کہ بائیں ذہن کے لوگ وہ ہیں جو نظم و ضبط کے قائل، حقیقت پسند اور منطقی کہلاتے ہیں۔ (یہ الگ بات کہ یہ حقیقت پسندی و منطق غیر مشروط ہو) لہٰذا اس ملک کے اکثر لوگ Left Brain یعنی کھبے ذہن کے حامل افراد ہیں۔ بائین ذہن کے لوگ کامیاب پیشہ ور افراد ہیں، جو جلدی تبدیل نہیں ہوسکتے۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ تبدیلی فقط ترقی یا محض خوشحالی کا نام ہے؟ ترقی اور خوشحالی کے ساتھ دل کی خوشی شامل نہ ہو یا روح سرشار نہ ہو تو ترقی کا کیا فائدہ۔
ہمارے ملک میں آج تک مادی ترقی ہوتی رہی ہے۔ کسی نے ذہن و روح کی آبیاری نہیں کی۔ ذہن بے سکون اور روح مرجھائے ہوئے پھول کی مانند رہی۔
ترقی بھی کیسی ترقی تھی، جس میں اس ملک کے چالیس فیصد غریب لوگ شامل ہی نہیں تھے۔ ان کے لیے نہ صحتمند کھانا ہے نہ علاج ہے، نہ سائبان اور نہ ہی تحفظ۔ یہ زندگی کے بدحال راستوں پر رینگ کر چلنے والے مسافر ہیں۔ ان کے لیے کسی نے کیوں نہیں سوچا؟ اور یہ مسائل دیمک کی طرح ملک کو چاٹتے رہے۔
ہم کیوں پرانی سوچ، عادات، رویے اور انداز نہیں بدل سکتے؟ کیونکہ یہ سوچ ہمارے لاشعور میں پختہ ہوچکی ہے۔ تبدیلی کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے ذہن کا مکالمہ بدل ڈالیں۔ ہم خود رحمی کی کیفیت سے باہر نکل کر سوچیں۔ ذات کے بھنور سے باہر نکل کر غیر جانبدار آنکھ سے دنیا کو سمجھنے کی کوشش کریں اور منفی سوچ ترک کردیں۔
تبدیلی ہمارے یہ بچے لے کر آئیں گے جو جمہورت کے درخت تلے پروان چڑھیں گے، ان کی پرورش ذہنی تفریق کے خانوں سے ہٹ کر کرنی ہوگی۔
ہم موثر، مثبت اور مصالحتی خودکلامی کو راستہ دیں۔ نفرت، تعصب اور کدورت کو جڑ سے اٹھا کر باہر پھینکیں۔ اور ایک نئی صبح کا منظر دیکھیں۔ سورج کو محسوس کریں۔ اس کی روشن کرنوں و گرمی کا لطف اٹھائیں۔ ہوا کی تازگی کو اندر اتار کے محسوس کریں کہ نیا پن کسے کہتے ہیں، اور سبزے کو اپنے تھکے ماندے خیال کے گرد بن لیں۔
تبدیلی، احساس کو شامل کرکے محسوس کی جاتی ہے۔ سوچ کے نئے تناظر اور ذات کی مکمل ہم آہنگی کانام ہے۔