رسول بخش

رسول بخش نماز کے بعد اپنے ساتھی مزدوروں سے اپنی غربت اور پریشانی پر بات کرنا چاہتا ہے۔

zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

میں نے اس سے پوچھا۔'' تم ناشتے میں کیا کھاتے ہو''

اس نے دور خلائوں میں دیکھتے ہوئے کہا '' جی، روٹی پیاز کبھی کبھی روٹی چائے'' ۔

''تمہاری بستی کے لوگوں کا ناشتہ کیا ہوتا ہے؟''

''میری بستی میں سارے لوگ میری طرح غریب ہیں وہ بھی ناشتہ پیاز، روٹی یا چائے روٹی سے کرتے ہیں۔''

''تم کام کیا کرتے ہو؟''

''میں ایک کاٹن ملز میں مزدور ہوں''

'' تمہیں پتا ہے تمہارا سیٹھ کیا ناشتہ کرتا ہے؟''

''جی میں نے دیکھا نہیں، سنا ہے سیٹھوں کے ڈائننگ ٹیبل پر اتنی نعمتیں ہوتی ہیں جن کو گنا نہیں جاسکتا۔''

''سیٹھ ملز میں کیا کرتا ہے، جی اس کا خوبصورت آفس ہے جس میں ٹھنڈی مشین لگی ہوئی ہے سیٹھ دو تین گھنٹے کے لیے آتا ہے اور اپنی خوبصورت سیکریٹری کو ہدایات دے کر چلاجاتا ہے۔ سیٹھ کے پاس کئی نئی نئی کاریں ہیں، سیٹھ کا چپراسی بتاتا ہے کہ ایک ایک گاڑی کئی کئی کروڑ کی ہے۔ سیٹھ کے ہر بیٹے، ہر بیٹی کے پاس ایسی ہی چمچماتی ہوئی گاڑیاں ہیں۔ مجھے ایک بار ڈرائیور سامان اٹھانے کے لیے سیٹھ کے گھر لے گیا تھا۔ آپ کو کیا بتائوں مولوی صاحب جس جنت کے گھروں کی تعریف کرتے ہیں مجھے لگتا ہے سیٹھ کا گھر بھی جنت کے گھروں جیسا ہی ہوگا۔''

'' تمہاری تنخواہ کیا ہے؟''

''جی سر پندرہ ہزار''


'' بچے کتنے ہیں؟''

''سات لڑکے دو لڑکیاں''

''بچے کیا کرتے ہیں؟''

'' جی دو قالین کی فیکٹری میں کام کرتے ہیں''

''کتنی تنخواہ ملتی ہے؟''

''جی تنخواہ ملتی نہیں، ہمارے باپ نے ہماری بہن کی شادی پر سیٹھ سے قرضہ لیا تھا، ہماری تنخواہ قرضے میں کٹ جاتی ہے۔ بابا بتارہا تھا ابھی دس سال تک تنخواہ کٹتی رہے گی۔ گھر کا گزر کیسے ہوتا ہے باپ کی تنخواہ ماں کی مزدوری سے، میری ماں جھاڑو برتن کا کام کرتی ہے صبح جاتی ہے شام کو آتی ہے۔ ماں نے بتایا وہ آٹھ گھروں میں کام کرتی ہے جب شام میں گھر آتی ہے تو تھک کر چور ہوجاتی ہے۔ میری بہنیں اس کے پیر ہاتھ دباتی ہیں۔ اب وہ بوڑھی ہورہی ہے نا تھک جاتی ہے۔ تمہارے چھوٹے بھائی پڑھنے جاتے ہیں؟ جی نہیں ہمارے باپ کے پاس اتنی فیس نہیں کہ وہ بھائیوں کو پڑھاسکے۔ ہماری ماں ہماری ایک بہن کو قرآن حفظ کرارہی ہے دوسری بیکار رہتی ہے۔

جس لڑکے سے میں بات کررہا تھا اس کی عمر 18 سال ہوگی ہماری ملازمہ کا گھر بھی فتو کے گھر کے برابر تھا، فتو کا پورا نام فتح محمد تھا، وہ اس سے پہلے جس مالک کے پاس کام کرتا تھا کام کیا بچے سنبھالتا تھا مالک اسے فتو کے نام سے بلاتا تھا، اب سارے ہی لوگ فتح محمد کو فتو کے نام سے پکارتے تھے۔ فتو کا باپ جس فیکٹری میں کام کرتا تھا اس فیکٹری کے مالک کا نام راجو تھا۔ لوگ اسے سیٹھ راج محمد کے نام سے بلاتے تھے۔ ہمارے ملک میں غریب لوگوں کے نام بگاڑ کر پکارنا ایک عام بات ہے اور امیر آدمی راجو سے سیٹھ راج محمد بن جاتا ہے۔

فتو کا باپ شہر کی ایک کاٹن ملز میں مزدوری کرتا ہے، روزانہ آٹھ گھنٹے سخت محنت کے بعد اسے مہینے کے پندرہ ہزار ملتے ہیں۔ فتو کے سات بھائی ہیں دو بہنیں ہیں کل گیارہ آدمی پندرہ ہزار میں گزر کرنا چاہیں تو ان کے ناشتے میں پیاز روٹی ہی ہوگی ان کا لنچ ڈنر دال روٹی سے ہی ہوگا۔ فتو کے باپ کا نام رسول بخش ہے وہ شہر کی ایک کاٹن ملز میں کام کرتا ہے جہاں آٹھ گھنٹے کام کی ماہانہ تنخواہ پندرہ ہزار ہے۔

رسول بخش اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھا ہے کہ اسے پکی نوکری مل گئی ہے، اس نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے مالک راجو عرف راجہ فتح محمد سے جو قرض لیا تھا اس قرض کی وجہ سے رسول بخش کی نوکری پکی ہوگئی وہ اس وقت تک نوکری چھوڑ نہیں سکتا جب تک قرض کی قسطیں ادا نہیں ہوجاتیں اور قسطیں ادا ہونے میں ابھی 10 سال باقی ہیں۔ ابھی رسول بخش کی ایک بیٹی شادی کے قابل ہے، رسول بخش کو اپنی بیٹی کی بڑی فکر ہے بڑی بیٹی کا قرض اتارنے میں ابھی دس سال ہیں۔ سیٹھ راجہ نے رسول بخش کے بچوں کی تعداد دیکھ کر اس کی قسط کم کردی جس کے لیے رسول بخش سیٹھ کا بہت مشکور ہے۔ رسول بخش کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ قرض کی قسطیں ختم ہونے تک اس کی بیٹی کی شادی کی عمر نکل جائے گی۔

رسول بخش کے ملز میں پانچ سو افراد یعنی مزدور کام کرتے ہیں۔ ان پانچ سو مزدوروں کی سخت محنت سے سیٹھ لاکھوں روپے روزانہ کمارہا ہے۔ اس کے پاس نئی ماڈل کی تین گاڑیاں ہیں،اس کے بیٹے بیٹیوں کے پاس بھی نئی نئی گاڑیاں ہیں۔ رسول بخش کی بستی میں اس جیسے ہزاروں غریب رہتے ہیں جو پیاز روٹی سے ناشتہ کرتے ہیں۔ سب کسی نہ کسی ملز یا کارخانے میں کام کرتے ہیں۔ گندی بستی میں رہتے ہیں ان کے بچے تعلیم سے محروم ہیں، ان کی بیٹیوں کی شادی کی عمر نکلی جارہی ہے، رسول بخش پانچ وقت کا نمازی ہے، وہ اپنی بستی کی مسجد میں نماز پڑھتا ہے، مسجد نمازیوں سے بھری رہتی ہے۔

سب نماز پڑھ کر اﷲ رب العزت کے حضور اپنی غربت دور کرنے کی دعا بڑے صدق دل سے کرتے ہیں۔ لیکن ان کی غربت ختم نہیں ہوتی کیونکہ یہ غربت اﷲ نے نہیں دی بلکہ رسول بخش کے مالک اور اس کی برادری نے دی ہے، رسول بخش نماز کے بعد اپنے ساتھی مزدوروں سے اپنی غربت اور پریشانی پر بات کرنا چاہتا ہے لیکن مسجد کے امام صاحب کہتے ہیں کہ مسجد اﷲ کا گھر میں یہاں دین کی باتیں تو کی جاسکتی ہیں، دنیا کی باتیں نہیں کی جاسکتی۔ نمازی امام سے خوف زدہ رہتے ہیں اور مسجد میں دنیا کی باتیں کرنے سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ رسول بخش پہلی بیٹی کی شادی کا قرض اتارنے میں لگا ہوا ہے دوسری بیٹی کی شادی کی عمر نکلی جارہی ہے۔ رسول بخش پریشان ہے۔
Load Next Story