جماعتی مفادات اور قومی مفادات

ترقی یافتہ ملکوں کی سیاست میں سرمایہ دارانہ نظام کی بقا اور استحکام کے عناصر تو دیکھے جاسکتے ہیں لیکن۔۔۔

zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

KARACHI:
ترقی یافتہ ملکوں کی سیاست میں سرمایہ دارانہ نظام کی بقا اور استحکام کے عناصر تو دیکھے جاسکتے ہیں لیکن ان ملکوں کی سیاست میں ذاتی اور جماعتی مفادات کو قومی مفادات کے تابع رکھنے کا پہلو نمایاں رہتا ہے اسی وجہ سے یہ ملک سیاسی انارکی اور سماجی انتشار سے بڑی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔

لیکن پسماندہ ملکوں کا المیہ یہ ہے کہ ان ملکوں میں ذاتی اور جماعتی مفادات قومی مفادات کے تابع نہیں رہتے بلکہ قومی مفادات پر حاوی رہتے ہیں۔ 2008 کے انتخابات کے بعد مرکز میں مسلم لیگ (ن) بھی پی پی حکومت کا حصہ رہی جو ایک مثبت بات تھی، اسی طرح سندھ حکومت میں پی پی کے ساتھ متحدہ اور اے این پی شامل رہیں یہ بھی ایک مثبت فیصلہ تھا لیکن کچھ ہی عرصے بعد مسلم لیگ پی پی حکومت سے علیحدہ ہوگئی، اس کی جو وجوہات بتائی گئیں کیا ان کا حل علیحدگی کے علاوہ کوئی اور نہ تھا؟ اگر اس علیحدگی کے اسباب کی غیر جانبدارانہ تحقیق کی جائے تو یقیناً یہی نتیجہ برآمد ہوگا کہ اس علیحدگی کے پیچھے دونوں جماعتوں کے سیاسی مفادات تھے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ علیحدگی کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات کا ایسا شرمناک سلسلہ شروع ہوا کہ اسے دیکھ کر عوام کو سیاست ہی سے گھن آنے لگی اور یہ سلسلہ آہستہ آہستہ اختلافات سے بڑھ کر ذاتی اور جماعتی دشمنی تک پہنچ گیا۔

سندھ حکومت میں شامل تینوں جماعتوں کے درمیان بہت کم عرصے میں اختلافات کا سانپ سر اٹھانے لگا اور بات قبائلی دشمنی اور نوبت خون خرابے تک پہنچ گئی۔ متحدہ اور اے این پی کے درمیان حائل ہونے والے اختلافات کو اگر پی پی خلوص دل سے ختم کرنا چاہتی تو یہ اختلافات ختم ہوسکتے تھے لیکن یہاں بھی سیاسی مفادات حاوی رہے، جس کا نتیجہ مستقل انتشار کی شکل میں موجود رہا اور اس مفاداتی سیاست کی وجہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے کی اصل ذمے داری پوری نہ کرسکی۔ متحدہ اور پی پی کے درمیان بار بار شدید اختلافات ابھرتے رہے، متحدہ بار بار حکومت سے باہر آتی اور اندر جاتی رہی، یوں سندھ حکومت مستقل انتشار کا شکار رہی اور عوامی مسائل اس سیاست کی نذر ہوتے رہے۔

پاکستان کی سیاست میں دھوم دھڑکے کے ساتھ ایک نئے عنصر تحریک انصاف کا اضافہ ہوا۔ عمران خان کی شخصیت عوام میں اس لیے پرکشش تھی کہ عمران خان تاہنوز اقتدار کے جھروکوں سے دور تھا اور لوٹ مار کی بدنامیوں سے بچا ہوا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران اپنی اس اچھی شہرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام میں ایک پرکشش منشور کے ساتھ جاتا اور عوام کو یقین دلاتا کہ اگر وہ برسراقتدار آیا تو عوام کے دیرینہ مسائل کس طرح حل کرے گا۔


لیکن عمران خان نے یہ مثبت راستہ اختیار کرنے کے بجائے مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر حملوں کا منفی راستہ اختیار کیا اور جواب میں مسلم لیگ کی قیادت نے بھی وہی راستہ اختیار کیا جو پسماندہ ملکوں کی سیاست کا مرکز و محور بنا ہوا ہے یعنی ذاتی اور جماعتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینا۔ دونوں جماعتوں نے بھاری سرمائے کے ساتھ بڑے بڑے جلسوں کا سلسلہ شروع کیا، جن میں لاکھوں کی تعداد میں عوام اس امید پر آتے رہے کہ شاید یہاں ان کے مسائل کا کوئی حل ملے، لیکن ہوا یہ کہ عوام اس جماعتی اور قبائلی سیاست میں اس طرح ملوث ہوتے گئے کہ انھوں نے اپنے مستقبل اور اپنے مسائل کو بھلادیا اور اس جماعتی سیاست کا ایندھن بن گئے، جس کا سارا فائدہ سیاسی رہنما کو ہوا اور پہلے سے تقسیم عوام مزید تقسیم ہوگئے۔

سندھ میں سب سے بڑا تضاد متحدہ اور سندھی قوم پرستوں کے درمیان ہے، سندھی قوم پرستوں کو یہ شکایت ہے کہ وہ مہاجروں کی آمد کی وجہ سے ان کے سیاسی مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے اور وہ آہستہ آہستہ اقلیت میں تبدیل ہورہے ہیں۔ مہاجر تقسیم کے جبر کی وجہ سے سندھ کا ناگزیر حصہ بن گئے، سندھی قومی پرستوں کو اس حقیقت کا ادراک کرکے اردو اسپیکنگ کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے تھا لیکن وہ بوجوہ ایسا نہ کرسکے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مہاجروں کے حقوق کا نعرہ لے کر ایم کیو ایم میدان میں آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے سندھ کے شہری علاقوں میں اس قدر مقبول ہوگئی کہ اس نے انتخابی سیاست میں اپنا سکہ جمالیا۔

متحدہ کی ذمے داری تھی کہ وہ سندھی قوم پرستوں کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے ان کے قریب جاتی لیکن یہ بات ہماری بالادست قوتوں کے حق میں نہ تھی، سو انھوں نے ایسے کھیل کھیلے کہ یہ دونوں کمیونٹیاں ایک دوسرے سے دور ہی نہیں ہوئیں بلکہ ایک دوسرے سے برسر پیکار ہوگئیں اور اس جنگ میں اتنی شدت سے الجھ گئیں کہ انھیں یہ خیال بھی نہیں رہا کہ اب کراچی نہ سندھیوں کا شہر رہا نہ مہاجروں کا یہ مختلف طاقتوں کا ایک ایسا شہر بن گیا ہے جہاں ہر طاقت کا واحد مقصد یہ نظر آرہا ہے کہ اس شہر کی چیرپھاڑ میں وہ زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرے، حتیٰ کہ پنجاب کی مدبر قیادت بھی سندھ کو متحد کرنے کے بجائے سندھ کے تضادات کو بڑھاتی نظر آرہی ہے۔ اس ملک میں کوئی ایسی طاقت نظر نہیں آرہی ہے جو سیاسی تضادات کو ایمانداری اور سنجیدگی سے حل کرنے کی اہلیت رکھتی ہو۔

11 مئی کے انتخابی نتائج نے اس بدتر صورت حال کو مزید بدتر بنادیا ہے، کوئی کسی کا مینڈیٹ تسلیم کرنے کو تیار نیہں اور مبینہ دھاندلیوں کے الزامات کے ساتھ تشدد کے ایسے راستے پر چل پڑا ہے کہ اگر اس صورت حال کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا گیا اور سیاسی جماعتیں جماعتی اور ذاتی مفادات کی سیاست سے باہر آکر قومی اور عوامی مفادات کو اہمیت نہ دیں گی تو یہ صوبہ ایک ناقابل بیان خون خرابے کی طرف چلا جائے گا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ اس صوبے میں متصادم قوتیں یعنی پی پی پی، اے این پی، متحدہ اور قوم پرست سب طبقاتی سیاست کے دعویدار ہیں اور سب کا دعویٰ یہی ہے کہ وہ عوام کے مسائل حل کرے اور عوامی سیاست کرنے پر یقین رکھتے ہیں مگرجب ان کی عملی سیاست پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ عوام کو تقسیم کرنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔ تحریک انصاف جہاں اپنے جمہوری حق کا مطالبہ کر رہی ہے وہیں کراچی اور پنجاب میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف اپنے مظاہروں میں محض اپنی طاقت بڑھانے کی خاطر ایسی جماعتوں کو ساتھ ملا رہی ہیں جنھیں عوام نے واضح طور پر مسترد کردیا ہے، یہ سیاست جماعتی مفادات کو قومی مفادات سے بالاتر ثابت کرنے کی سیاست ہے جس کی حمایت نہیں کی جاسکتی، وہ میاں نواز شریف سیاسی دشمنیاں بھلاکر سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کر رہے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ جماعتی مفادات کو قومی مفادات کے تابع کیا جائے۔ کیا نواز شریف پاکستانی سیاسی روایات کو توڑ کر جماعتی مفادات کو قومی مفادات کے تابع کرنے کے لیے تیار ہیں؟
Load Next Story