آزادی کے غلام

گوروں کے دور سے غلامی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ کئی صورتوں میں اب بھی جاری و ساری ہے۔۔۔

shaikhjabir@gmail.com

یہاں ہوائے مخالف کبھی چلی ہی نہیں
جھکائو ایک ہی جانب کو ہے درختوں کا

گوروں کے دور سے غلامی کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ کئی صورتوں میں اب بھی جاری و ساری ہے۔ یہاں تک کہ نسل در نسل منتقل ہونے والا یہ سلسلہ ہمارے مجموعی مزاج کا حصہ بن چکا ہے۔ حالیہ نام نہاد انتخابی عمل کے فوراً بعد یہ سوال اور بھی شدت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کیا واقعی ہم آزاد ہیں؟ عام فرد بھی یہ دیکھنے اور سوچنے لگا ہے کہ فیصلے کہیں اور ہی ہوتے ہیں۔

ناحق ہم مجبوروں پہ تہمت ہے خود مختاری کی
جو چاہیں سو آپ کرے ہیں ، ہم کو عبث بدنام کیا

اور یہ صرف ہمارا ہی المیہ نہیں ہے۔ یورپ اور امریکا کہ جہاں سے یہ وبا پھوٹی ہے، کیا اصلاً وہاں آزادی ہے؟ یا آزادی کے نام پر ایک نئی طرز غلامی متعارف ہوچکی ہے، رائج ہوچکی ہے، مسلط ہوچکی ہے؟ جان رالز آج کے دور کا اخلاقیات اور فلسفۂ سیاسیات کا بہت بڑا اور اگر میں غلطی نہیں کررہا تو سب سے بڑا نام۔ آپ کی کتابیں ''تھیوری آف جسٹس''، ''پولیٹیکل لبرل ازم'' وغیرہ آج کے دور کا بہت بڑا کام ہیں۔
آزادی اور لبرل فکر پر آپ آج کی سب سے توانا آواز ہیں۔ آپ کے ساتھی اور شارح برٹن ڈریبن تھے۔ آپ بذاتِ خود ہاورڈ کے ایک با اثر فلسفی تھے۔

وہاں ڈریبن نے تین دہائیوں تک فلسفے کی تعلیم دی ہے۔ ڈریبن لکھتے ہیں ''ہم نے یہ طے کر رکھا ہے کہ کوئی پاگل ہی ہوگا جو (آزاد دستوری جمہوریہ میں) رہنا پسند نہ کرے... اگر کسی کو آزاد دستوری جمہوریہ میں رہنے کے فوائد نظر نہیں آتے تو میں نہیں جانتا کہ اسے کیسے قائل کیا جائے، جب کبھی میں ''رالز'' پر بات کرنے کہیں جاتا ہوں اور مجھ سے ایسا سوال پوچھ لیا جائے تو میں مکمل طور پر خالی الذہن ہوجاتا ہوں۔ آپ ایڈولف ہٹلر کو کیا جواب دیں گے؟ کوئی جواب نہیں، آپ اسے گولی ماردیں گے، آپ اسے دلائل نہیں دے سکتے۔ اس سوال کے جواب میں کوئی دلیل نہیں ہے۔ میں اس پر بات بھی نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ (ڈریبن 2003:328-329، ایمفے سیس ان دی اوریجنل)

ڈریبن کی اور لبرلز کی ایسی چیزیں پڑھ کر مجھے روایتی معاشرے یاد آتے ہیں۔ روایتی معاشروں میں دیکھا گیا ہے کہ لوگوں کے کچھ اعتقادات ہوتے ہیں۔ کچھ ایمانیات اور ایقان کے معاملات ہوا کرتے ہیں۔ عام طور پر ایمان اور یقین کے اور اعتقادات کے مسائل کو عمومی یا منطقی گفتگو سے علیحدہ رکھا جاتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ آزادی، جمہوریت، حقوق انسانی، سرمایہ داری وغیرہ بھی عین ایسا ہی اعتقادی معاملہ نظر آتا ہے۔ بغیر کسی دلیل کے یہ فرض کرلیا گیا کہ یہ سب درست اور عین حق ہے، اب آگے بات کی جائے۔ رالز اور ڈریبن آزادی اور دستوری جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں۔ اگر آپ نے دلیل مانگی تو ڈریبن آپ کو گولی مار دینگے اور ڈریبن کے متبعین ایسا کر رہے ہیں۔ کیا افغانستان پر آزادی کے نام پر حملہ نہیں ہوا۔ برس ہا برس سے آزادی کے نام پر قتل کیے جارہے ہیں۔


یہ نعرہ بھی عجیب ہے۔ یعنی آزادی کا نام لے کر، آزادی کا نعرہ لگا کر ایک خاص طرز کی غلامی رائج کردی گئی ہے۔ آپ اس خاص طرز کی آزادی کے غلام بن کر تو رہ سکتے ہیں لیکن آپ کو اپنی آزادی تج کر جینے کی آزادی نہیں۔ آسانی کے لیے یوں کہہ لیں کہ آپ پردہ اتارنے کے لیے آزاد ہیں، پردہ کرنے کے لیے آزاد نہیں۔ آپ دستوری جمہوریت کو ماننے کے لیے آزاد ہیں، اسے رد کرنے اور اس پر سوالات اٹھانے کے لیے آزاد نہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں بھی تمام تر مباحث یک رخی ہوتے ہیں۔

پہلے ہی سے یہ طے کرلیا جاتا ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ، دستوری جمہوریت درست ہے، حق ہے۔ اب بات شروع کی جاتی ہے۔ ابتدا میں جو شعر عرض کیا تھا اسی کا مصرع ذہن میں گونج رہا ہے ''جھکائو ایک ہی جانب کو ہے درختوں کا''۔ ''تذکرہ'' تھا مغرب کا۔ اب ذرا ''ہولوکاسٹ'' کو ذہن میں لائیں۔ کیا اس موضوع پر بات کرنے کی آزادی ہے؟ نہیں جناب آپ اس پر سوالات اٹھانے یا اسے رد کرنے کے لیے آزاد نہیں۔ آپ فوراً گرفتار کرلیے جائیں گے اور آپ کو سزا ہوجائے گی، اور یہ تو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جاتا ہے۔ ان معاملات کا تو خیر سے کوئی ذکر ہی نہیں جو اس طرح پیش آتے ہیں جیسے ہمارے جاگیردار خفا ہو کر مزارع سے پیش آتے ہیں۔ یہ ہے آزادی۔ اس آزادی پر سب خوش ہیں۔ خوش ہوں نہ ہوں، خاموش تو ہیں ہی۔

کئی جمہوریائوں میں آپ کو سواستیکا کی علامت بنانے کی بھی اجازت نہیں ہے، فوراً گرفتار کرلیے جائیں گے۔ ''ہیرٹز'' اسرائیل کا قدیم ترین (1918) اخبار ہے۔ 16 جنوری 2013 کو خبر دیتا ہے کہ جرمنی کی عدالت نے برطانوی کیتھولک اسقف رچرڈ ولیم سن کو 1800 یورو جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ اسقف نے 2008 میں ایک سوئیڈش ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہہ دیا تھا کہ ''میرا نہیں خیال کہ جنگ عظیم دوئم کے دوران یہودیوں کو گیس چیمبرز میں ہلاک کیا گیا ہو۔'' بس اس بیان پر آپ کو سزا ہوگئی ہے، اور شاید کیتھولک اسقف ہونے کی بنا پر محض جرمانے کی رعایت کی گئی ہو۔ اگر کسی پاکستانی نژاد نے یہ کہہ دیا ہوتا تو نہ معلوم کیا کیا مقدمات قائم ہوچکے ہوتے۔

آزادی کے اس دور میں آج بھی باقاعدہ غلاموں کی منڈیاں قائم ہیں اور ان کی تجارت ہوتی ہے۔ افلاطون سے لے کر ولیم وِن ووڈ ریڈ (1838 تا 1875) تک کتنے ہی افراد ہیں جو غلاموں کی تجارت کے فوائد گنواتے نظر آتے ہیں، اور یہ بزرگوار کوئی عام آدمی نہ تھے۔ مشہور برطانوی تاریخ دان، سیاح اور فلسفی اور ڈارون کے دوست تھے۔ آپ کی کتابوں ''دی مارٹیڈم آف مین'' 1872 اور ''دی آؤٹ کاسٹ'' 1875 کو ''تھنکرز لائبریری'' میں شامل کیا گیا ہے۔ اب ذرا 14 مئی کے برطانوی اخبار ڈیلی میل کی خبرکو دیکھیں۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ''چیلیسا'' کے مہنگے ترین علاقے میں چھاپا مار کر مشرقی یورپ کی 9 عورتوں کو آزادی دلوائی، انھیں غلام بنا کر رکھا گیا تھا اور عصمت فروشی کا اڈا چلایا جاتا تھا۔ اخبار یہاں سے حاصل ہونے والی یومیہ آمدنی 20 ہزار پونڈ بتاتا ہے۔ اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں اس طرح کے غلام کہ جن کی بطور جنس خرید و فروخت کی جارہی ہو، کی تعداد دو کروڑ دس لاکھ سے متجاوز ہے۔

آج کی غلامی کی ایک بڑی شکل معاشی غلامی ہے۔ ہم تخلیقِ زر کے عمل سے واقف ہی نہیں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ کاغذی کرنسی کہاں سے آتی ہے؟ کون اس کا مالک ہے؟ کون انھیں تخلیق کرتا ہے؟ خاص کر ڈالرز۔ ہم سوچتے ہی نہیں ہیں کہ تخلیق زر کے عمل نے کس طرح ہماری معاشرت، ہمارے رویوں اور ہماری اقدار کو تبدیل یا برباد کردیا ہے۔ ہمارے سامنے صرف نتیجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ آج دنیا کے 40 فی صد سے زائد وسائل اور دولت پر دنیا کے صرف ایک فی صد افراد کا تسلط ہے۔ آپ نے کبوتر بازوں کے پاس پلنے والے کبوتروں کو دیکھا ہوگا۔

یہ بتایئے وہ آزاد ہوتے ہیں یا غلام؟ ہم میں سے ہر ہر فرد کو یوں خواہشوں کا غلام بنادیا گیا ہے کہ ہم تمام زندگی اشیاء کے حصول کی جدوجہد میں صرف کردیتے ہیں۔ یہاں تک کہ حاصل کی گئی اشیاء کو برتنے کی، اور ناتمام خواہشوں کی حسرت لیے، ہم دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ میرا ایک سوال ہے۔ آپ جانتے ہیں میرے ذہن میں سوالات بہت ابلتے رہتے ہیں۔ اک ذرا توقف، بند آنکھوں سے دل پر توجہ کریں اور بتائیں صرف بچوں کے بہتر مستقبل کے نام پر کتنے افراد غلام بنائے جاتے ہیں؟

مجھ کو تھکنے نہیں دیتا، یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
Load Next Story