پاکستان کی اقتصادی ترقی کیلیے ناگزیر پہلا حصہ

پاکستان ایک زرعی ملک ہے، 70% آبادی کا انحصار زراعت پر ہے اور زراعت کے لیے پانی کی اشد ضرورت ہے۔۔۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے، 70% آبادی کا انحصار زراعت پر ہے اور زراعت کے لیے پانی کی اشد ضرورت ہے، پانی کی کمی اور پاور کے کم ہونے کی وجہ سے ہم مسائل میں جکڑ رہے ہیں، انڈسٹری بند ہونے کی وجہ سے بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے، طویل لوڈشیڈنگ اور ساتھ ہی آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے ہوشربا اضافے سے ملک انتہائی بحرانیت کا شکار ہے۔

زراعت اور پاور ہی دو اہم چیزیں ہیں جو ملک کو خوشحال بناسکتی ہیں اور ان کے لیے ڈیم کا ہونا بہت ضروری ہے، تاکہ پانی کو ذخیرہ کرکے استفادہ حاصل کیا جاسکے۔ مگر ان اہم مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ پاکستان میں تعمیر ہونے والا مٹی کا سب سے بڑا ڈیم تربیلا 1976 میں بنایاگیا، جس کا مقصد آبپاشی کے لیے پانی کا حصول اور اس کو کنٹرول کرنا تھا، جب کہ بجلی کا حصول ایک ثانوی مقصد ہے، لیکن کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا بنیادی مقصد بجلی کا حصول ہے، جب کہ آبپاشی کے لیے پانی کی فراہمی اس کا ثانوی مقصد ہے، 1976 کے بعد ہم کوئی بڑا ڈیم نہیں بناسکے۔

کالاباغ ڈیم کا منصوبہ بنایاگیا مگر وہ سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا، حالانکہ ملکی ترقی کے لیے کالاباغ ڈیم ناگزیر ہوچکا ہے اور اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ کالاباغ ڈیم میں 3600 میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہوگی، جو ایشیا میں کسی ایک مقام پر پیدا کی جانے والی برقی توانائی کی سب سے بڑی مقدار ہوگی، تربیلا ڈیم سے مل کر کام کرنے کی بنیاد پر اس کی تعمیر کے نتیجے میں تربیلا کی برقی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔

پاکستان بجلی کی شدید قلت کا شکار ہے، کئی گھنٹے روزانہ ہونے والی ہوشربا لوڈ شیڈنگ کے ساتھ بجلی کی ضرورت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، اس تیزی سے اضافے کے باوجود تربیلا ڈیم کے بعد بجلی کی پیداوار کا کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا جاسکا، بجلی پیدا کرنے والے ادارے کے تخمینے کے مطابق بجلی کی مانگ میں ہر سال 20% اضافہ ہورہا ہے۔ بجلی کی بڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر اور اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کی اشد ضرورت ہے، ورنہ تاریکی اس ملک کا مقدر بن جائے گی۔

کئی برسوں سے بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہورہا ہے، ہر بجٹ میں اور ہر مہینے نرخ بڑھا کر عوام پر بجلی گرادی جاتی ہے، جب بھی کوئی حکومت اقتصادی طور پر مشکلات کا شکار ہوتی ہے، اس کے پاس اس کے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا تو وہ یوٹیلٹی بلوں میں اضافہ کرکے اپنا مسئلہ حل کرلیتی ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے سے صنعتوں پر سنگین منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور 50% فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں، علاوہ ازیں بجلی کے نرخوں میں اضافے سے بجلی چوری کے واقعات میں اضافہ ایک فطری بات ہے، اگر اس طرح بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوتا رہا تو یقیناً اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی عام لوگوں کے بس میں نہیں رہے گی، بعض دفعہ حکومت غیر ملکی کمپنیوں سے معاہدے زیادہ نرخوں پر کرتی ہے تو وہ ملکی مفاد میں نہیں ہوتے۔

اور نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر واپڈا کو اربوں روپے ادائیگی کرنا پڑتی ہے، اس ساری صورتحال کے پیش نظر ملک کو سستی بجلی پیدا کرنے والے کسی منصوبے کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کسی نعمت سے کم نہیں۔ کسی بھی قوم کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے اقتصادی طورپر مستحکم ہونا بہت ضروری ہے۔


پاکستان کے ایٹمی تجربات کے بعد اب کوئی بھی ملک پاکستان کو طاقت کے زور پر غلام نہیں بناسکتا، پاکستان اقتصادی قوت اور ایشین ٹائیگر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی اقتصادی حالت کو بہتر بنایا جاسکے، صنعتوں کو فروغ دینا انتہائی ضروری ہے لیکن اس وقت ہی صنعتوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے جب ہمارے پاس انھیں رواں رکھنے کے لیے بجلی موجود ہو۔ جہاں بجلی کی فراہمی صنعتوں کے لیے ضروری ہے وہاں یہ بات بھی بہت اہمیت کی حامل ہے کہ بجلی کے نرخ مناسب سطح پر ہوں، زراعت میں بھی اضافے کے لیے بجلی کا ہونا بہت ضروری ہے، زراعت میں بجلی کے استعمال میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ اراضی کی آبپاشی کے لیے ٹیوب ویل اور ٹربائن کا استعمال بڑھتا جارہا ہے اور پھر لائیو اسٹاک اور پولٹری کے لیے بھی بجلی کی اشد ضرورت ہے۔

پاکستان کی معیشت کا انحصار زراعت پر ہے، جب کہ زراعت کے لیے پانی کی فراہمی کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، تاریخی حوالے سے پاکستان کی ترقی پانی کی کمی کے باعث متاثر ہورہی ہے، پانی کی اس کمی سے نبرد آزما ہونے کے لیے ڈیم کا ہونا اشد ضروری ہے اور ڈیم آبپاشی کے لیے پانی کی وافر مقدار کی دستیابی کا باعث ہوگا اور یہ اضافہ 79 ملین ایکڑ فٹ سالانہ ہوگا۔ نئے ڈیم کی تعمیر سے تربیلا اور منگلا کی آبپاشی کی گنجائش بھی واپس آجائے گی جو روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔

اس وقت ملک کی آبادی18 کروڑ کے لگ بھگ ہے ، غذائی ضرورت پوری کرنے کے لیے کئی ملین ٹن گندم کی ضرورت ہے، جب کہ کل خراج کا نصف ہم پیداوار لے رہے ہیں اور نصف کا انحصار دوسرے ممالک پر ہے، جو صرف ڈیم کی تعمیر سے ہی پوری کی جاسکتی ہے، ڈیم کی تعمیر سے ہم 2.2 ملین ہیکڑ نئی اراضی زیر کاشت لاسکتے ہیں، جس میں سندھ کی 8 ملین ایکڑ، پنجاب 0.61 ملین ایکڑ، خیبر پختونخوا 0.5 اور بلوچستان کی بھی 0.5 ملین ایکڑ زمین شامل ہوگی۔ آبپاشی کے لیے زیادہ پانی کی فراہمی سے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ ہوگا، منگلا ڈیم کی تعمیر سے ہم اپنی پیداوار 1.2 ٹن فی ہیکڑ سے 2.1 ٹن فی ہیکڑ تک لے گئے جب کہ تربیلا ڈیم کی تعمیر سے پیداوار 2.1 سے بڑھ کر 3 ٹن فی ہیکڑ ہوگئی۔

دریائے سندھ کا پانی انتہائی طریقے سے بہتا ہے، اس دریا کا 75% پانی صرف 3 ماہ اور باقی 25% پانی 9 ماہ کے درمیان بہتا ہے، ہمیں پانی کے اس بہائو کو منظم Regulate کرنا ہے، کیونکہ ساڑھے 3 کروڑ ایکڑ فٹ پانی ہر سال ہماری نا اہلی کی وجہ سے سمندر میں بہہ کر ضائع ہوجاتا ہے، کالاباغ ڈیم بننے سے سندھ کو سارا سال وافر مقدار میں پانی ملے گا جس سے سندھ اور چولستان کی صحرائی زمینیں سیراب ہوںگی، علاوہ ازیں طغیانی کے مہینوں کے علاوہ جب دریا میں پانی کی مقدار کم ہوجاتی ہے تو سمندر کا نمکین پانی واپس دریا میں چڑھنے لگتا ہے، ڈیم کی تعمیر سے پانی ایک منظم طریقے سے دریا میں بہے گا جس سے دریا میں میٹھے پانی کی مقدار میں اضافہ ہوگا، دریائے سندھ کے پانی پر کنٹرول نہ ہونے کی وجہ سے دریا کا 75% پانی تین ماہ میں بہہ کر سمندر میں چلا جاتا ہے اور برسات میں بارشوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے دریائے سندھ میں طغیانی آجاتی ہے جو سیلاب کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔

یہ سیلاب بڑے پیمانے پر تباہی لاتا ہے اور بے شمار لوگوں کے گھر برباد ہوجاتے ہیں اور جانی نقصان بھی ہوتا ہے، کئی ہزار ایکڑ فصلیں زیر آب آنے سے تباہ ہوجاتی ہیں، کالاباغ ڈیم کا کثیر المقاصد منصوبہ جہاں بجلی پیدا کرنے اور اراضی کو پانی فراہمی کے کام آئے گا وہاں یہ منصوبہ دریا کے بہائو کی جانب واقع علاقوں میں املاک اور انسانی جانوں کو سیلاب سے پہنچنے والے نقصان کی شدت کو بھی بڑی حد تک کم کردے گا۔ ہر باشعور شخص اگر کالاباغ ڈیم پروجیکٹ پر غور کرے تو اس پر بات وا ضح ہوجائے گی کہ کالاباغ ڈیم پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔

1995 میں زراعت کے متعلق ٹاسک فورس نے انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اپنے دریائی پانی کا صرف 11% حصہ ذخیرہ کرتا ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں بھارت اپنے دریائوں کے پانی کا 25% ذخیرہ کرکے ہر وقت نئے ڈیم بنانے کی تیاریاں کررہا ہے، لیکن پاکستان اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کسی جھیل کا اضافہ نہیں کررہا۔ اگر صورتحال اسی طرح برقرار رہی تو کہیں ایسا نہ ہو کہ پاکستان کا حشر بھی ایتھوپیا اور صومالیہ جیسا ہوجائے۔

(جاری ہے)
Load Next Story