تذکرہ کچھ خارجہ پالیسی کا

آزاد خارجہ پالیسی کی باتیں تو بڑے زور و شور سے ہوتی ہیں مگر یہ ہمارے یہاں ناپید ہے۔

anisbaqar@hotmail.com

BERLIN:
تقریباً 70 برس بیت گئے، مگر خارجہ پالیسی میں امریکا نوازی جوں کی توں ہے، بلکہ اقتصادی کمزوری نے ہمیں امریکی ہمنواؤں کا حاشیہ بردار بناکے رکھ دیا ہے۔ ذرا غور کریں نہر سوئز کا مسئلہ ہو یا یمن کی کشیدگی، ہم پیش پیش ہیں۔ یہاں تک کہ ترکی کا سیاسی محاذ ہو یا شام کی روش، ہم امریکی طرز عمل کے حامی رہے اور آج تک شام کے مضافات میں جو چھوٹی موٹی جنگ جاری ہے ہمارے یہاں خبروں کا دائرہ شام مخالف ہے۔

مگر کچھ عرصے سے ہم نے اپنی نظریں دوسری طرف بھی کرنی شروع کر دیں۔ عمران خان کی جیت کے بعد روس سے فوجی رابطوں کی کچھ باتیں سنائی دے رہی ہیں۔ جن میں اقتصادی محاذ پر اسٹیل مل کی بحالی اور فوجی تعلقات یقیناً پاکستان کی جانب سے نئی پیش رفت ہے۔ عوام کی بیداری اور حمایت نے عمران خان کی حکومت کو مزید قوت عطا کی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ نئے فیصلے کرسکیں۔ ان کا ایک فیصلہ یہ بھی ہے کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے مابین سیاسی قربت کا آغاز کریں گے۔ کاش کہ ایسا ممکن ہو کیونکہ ایک امریکی نواز جب کہ دوسرا بے نیاز اور اپنی راہ از خود مقرر کرنے پر آمادۂ کار۔

مگر عام لوگ جو عالمی سیاسی منظر کو نہ دیکھ پاتے ہیں اور نہ پڑھ پاتے ہیں وہ اس کو اسلام کے دور مکاتب کی جنگ سمجھتے ہیں۔ جب کہ ایسا ہرگز نہیں، کیونکہ بعض عرب ریاستیں جو ایرانی اسلامی موقف کی ہمنوا ہیں، وہ بھی سعودی شہنشاہی کی ہمنوا ہیں، جس کا واضح ثبوت بحرین کی مملکت ہے، جہاں کبھی کبھی ایرانی موقف کی حمایت کی آواز سنائی نہیں دیتی ہے اور آج کل سعودی عرب میں جو حکومت ہے اس کے نوجوان حکمران محمد بن سلمان نے اپنے ابتدائی بیان میں سعودی حکومت کی سیاسی اور مذہبی اساس کی وضاحت میں جو الفاظ ادا کیے۔

اس کا مختصر موقف یہ ہے کہ سعودی عرب میں چار مکاتب فکر اہل سنت کے ہیں اور ایک مکتب اہل تشیع کا۔ لہٰذا ایران اور سعودی عرب کے مابین فرقہ واریت کی جنگ نہیں بلکہ زاویہ نگاہ کا ٹکراؤ ہے، اس کو دور کرنے کے لیے ہمارے نئے وزیراعظم نے وضاحت کی ہے۔ اگر ایسا ہو جائے تو عالم اسلام میں یہ ایک نیا موڑ ہو گا اور اس کے اثرات مسلم اُمہ پر مثبت پڑیںگے اور آپس کی دوریاں قربت میں تبدیل ہوں گی۔

یہ مسئلہ کافی دقت طلب ہے مگر ملت اسلامیہ کی یہی خواہش ہے کہ ایران اور سعودی عرب باہم رفاقت کی سیڑھی چڑھیں۔ لوگوں کو اب تک ایران کا وہ وقت نہیں بھولا جب 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ایرانی ایئرپورٹ بھارت کے خلاف پاکستان نے استعمال کیے اور آج پاکستان کے بدترین معاشی حالات میں سعودی عرب نے 4 بلین ڈالر کا قرض دیا ہے، لیکن پاکستان نے شکریہ ادا کرنے کے علاوہ جو جملے استعمال کیے کہ وہ کینیڈا اور سعودی سفارتی جنگ میں سعودی عرب کے ساتھ ہے، یہ الفاظ غیر سیاسی اور آزاد خارجہ پالیسی سے میل نہیں کھاتے، کیونکہ کینیڈا میں لاکھوں پاکستانی نہ صرف ملازمت کر رہے ہیں بلکہ وہ شہریت کے حامل بھی ہیں اور زر کثیر ہر ماہ پاکستان بھیج رہے ہیں، جو پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن کینیڈا کے لیے ایسا بیان جو ادا کیا گیا اس یک طرفہ حمایت سے صرف یہ محسوس ہوا کہ یہ موجودہ امداد کی بنا پر دیا گیا۔


اب تک یہ سمجھ میں نہ آیا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے۔ آزاد خارجہ پالیسی کی باتیں تو بڑے زور و شور سے ہوتی ہیں مگر یہ ہمارے یہاں ناپید ہے اور موجودہ بیان ماضی کی خارجہ پالیسی کا ایک تسلسل ہے۔ البتہ پاکستانی حکمرانوں کو تقریباً 3 سال بعد یہ سمجھ میں آیا کہ افغان مسئلہ پر امریکا کا پاکستان کے عوام اور سرزمین کو استعمال کرنا اور امریکی پالیسی پر من و عن حمایت کرنا ایک فاش غلطی تھی، جس کے نتیجے میں پاکستان سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوا اور ملک میں طالبان نے ہر جگہ آتش دان جلا رکھا تھا۔ آخرکار پاک فوج نے ضرب عضب کے بعد ہی ملک کو استحکام نصیب ہوا اور خارجہ حکمت عملی میں تھوڑی بہت بہتری آئی ورنہ امریکی ہم آواز بنے ہوئے تھے۔

پہلے چین اور رفتہ رفتہ روس سے تعلقات بحال ہوئے، ورنہ آپ کو شاید وہ دن یاد ہو جب شام کی لڑائی آخری مرحلے میں تھی اور امریکی نواز قوتیں شام پر دباؤ بڑھا رہی تھیں تو چین اپنی فوج روس کے ساتھ شراکت داری میں روانہ کرنے کو تھا مگر اس سے قبل ہی امریکا نواز قوتیں عراق کے بعد شام میں بھی شکست کا گھونٹ پی بیٹھیں۔ مگر پاکستانی میڈیا امریکا نواز قوتوں کی درپردہ حمایت کرتا رہا اور آج بھی شامی باغیوں کو مظلوم قوت کے طور پر پیش کر رہا ہے، حالانکہ یہ لوگ شام کے باشندے نہیں ہیں۔

آپ اگر ذرا غور کریں تو شام کا وہی حشر ہوتا جو لیبیا کے صدر کرنل قذافی کا ہوا۔ چلیے فرد کی کوئی بات نہ کریں مگر یہ تو یاد رکھیں کہ جو ایک ویلفیئر اسٹیٹ تھی علاج، روٹی، کپڑا اور مکان سیز کتاب اسلامی سماجی انصاف پر مبنی مسودہ تھا مگر ان کے قتل کے بعد سیاہ فاموں کی منڈی لگنے لگی۔ امریکا اور برطانیہ نے لیبیا میں کون سی جمہوریت بحال کی، ہر شہر پر الگ ملیشیا قابض ہے اور کوئی واضح مرکزی حکومت نہیں، لہٰذا غلط ہو یا صحیح طریقہ مگر شام نئی خون ریزی سے بچ گیا۔ مگر کرنل قذافی جو پاکستان کا دیرینہ دوست تھا اس پر کسی رہنما نے میڈیا پر آہ نہ کی اور آج اور گزشتہ دنوں کے لیبیا کا موازنہ نہ کیا گیا۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بس ایک ہی سطر کافی ہے جو ایک سیاسی لیڈر کے بقول کوئی ملک آزاد خارجہ پالیسی پر عمل پیرا نہ ہو سکے گا، جب تک وہ ملک معاشی طور پر مضبوط نہ ہوگا۔ لہٰذا عمران خان کی سچائی، دیانت داری، ہوشیاری اور سیاسی تدبیروں کے باوجود وہ پاکستان کو فلاحی راہ پر چلانے میں کامیاب نہ ہو سکیں گے لیکن ان کی بلند بینی کے باوجود اہداف آسانی سے حاصل نہ ہوں گے، البتہ روپیہ کا سفر جس تیزی سے ڈالر کے مقابل پستی کی طرف روانہ تھا فوری پر تھم گیا۔ البتہ خارجہ امور پر کسی دانشمند کو امریکا، روس اور بھارت میں بٹھانا ہو گا۔

کیونکہ بھارت سے فوری طور پر کشمیر فرنٹ پر مباحثہ کے علاوہ پانی کا وقتی مسئلہ جب تک کہ بھاشا ڈیم نہیں بنتا، اس کے علاوہ ایران اور سعودی عرب کے مابین گفتگو کا آغاز، اول پہلو یمن کے موضوع پر جنگ بندی اور گفتگو کا آغاز جیسا کہ عمران خان نے اس خلیج کو پر کرنے کی وضاحت کی ہے۔ جس کا فوری اثر یہ ہوگا کہ ایران اور پاکستان کے مابین جو گیس پائپ لائن جو پاکستانی سرحدوں تک آگئی ہیں ان کا پاکستان کی سرزمین کو خوش آمدید کہنا ہو گا کیونکہ پاکستان اور سعودی تعلقات میں کسی بھی قسم کے شکوک و شبہات ختم ہوکر نئے خیر سگالی تعلقات پیدا ہونے کے روشن امکانات کی یہ نوید ہو گی۔
Load Next Story