سوختہ جاں عینی علی خان
عینی کے گھر والوں کا احسان کو صرف اتنا کہنا تھا کہ اسے احساس تنہائی نے مار ڈالا، شوہر سے بچھڑنے کا صدمہ وہ نہ سہہ سکی۔
قراۃ العین عینی علی خان نام ہے اس منحنی سی دبلی پتلی لڑکی کا جو ڈیڑھ سال قبل مجھے ایکسپریس اخبار میں ملنے آئی۔ totally out sider تھی۔ایک اجنبی سی بے چین روح۔ دنیا بھر کے دکھ سمیٹنے کی آرزو لیے خاک بسر ہوگئی۔ اپنے وجود سے بیگانہ ، کہتے ہیں کچھ سال ماڈلنگ کی تھی مگر پری پیکر بننے کے خبط سے ماورا، ہار سنگھار ، ناشتے ،لنچ اور ڈنر سے بے خبر، جو مل گیا کھا لیا ، جو دھل گیا پہن لیا ، سینڈل نہ سہی جوگر پہن لیے، ماڈلنگ بھی کرتی رہی مگر جلد اکتاکر تحقیق و فری لانس صحافت کے دشت نوردوں میں شامل ہوگئی۔
موقر انگریزی جریدہ ''ہیرالڈ'' کے لیے اس کے فیچر اور تصاویر میری نظر سے گزرتے رہے تھے، فیس بک ساتھی بھی تھی ،اس کی نیوز فوٹوگرافی بھی دیدنی تھی، قلندرانہ طبیعت پائی تھی لہذا اس سے گفتگو میں کبھی بوریت کا شائبہ نہ ہوتا، بہت سوال کرتی،ایک کے بعد دوسرا سوال مگر بلیغ اور واضح جواب کی جستجو اور خواہش کے ساتھ ۔
عینی سے تعارف اور گھریلو تعلق سے پہلے ایک دن میرے بھتیجے احسان شاہ کا فون آیا کہ ''چاچا عینی آپ سے ملنا چاہتی ہے،'' میں چونکا کہ کون عینی؟ اس لیے کہ چار عینی نام کی بنت حوائیں میرے لیے محترم ہیں، عینی نیازی،قرۃ العین عینی، میری بھتیجی عینی اور آگ کا دریا کی قرۃ العین حیدر عرف عینی آپا۔ احسان نے بتایا اس کی فنکار اور رائٹر دوست ہے اور لیاری میں آنا چاہتی ہے کھل جا سم سم کہتے ہوئے۔اس وقت اسے لیاری کے حوالہ سے اپنی کتاب مکمل کرنی ہے ، وہ اپنی تحقیق کے سلسلے میں آپ کا سر کھانے آرہی ہے، جواں سال احسان شاہ فلم سازی ، ڈرامہ ، اسکرپٹ اور ہدایتکاری کے شعبہ میں اپنا مستقبل سنورتا دیکھتے ہیں،ان کی اہلیہ نازین بلوچ بھی ذہنی اور فکری اعتبار سے ایک ہی پیج پر ہیں ۔
یوں عینی شام پانج بجے ایکسپریس کے دفتر پہنچیں ، کمر پر ایک بھاری بھرکم بیگ کا بوجھ اٹھائے مجھے کوریڈور میں ملیں سلام کیا، اور پھر ان سے دو گھنٹے تک گفتگو رہی۔ ساری گفتگو ٹیپ ہوئی، کیمرہ اٹھایا ، دو تین کلپ لے لیے، اور بغیر پانی،کولڈ ڈرنک اور چائے بسکٹ کے فوراً اٹھیں اور تعظیماً سلام اور یہ وعدہ کرتے ہوئے کہ بھرپور ملاقات لیاری میں ہوگی عینی یہ جا وہ جا۔ میں نے احسان سے معلومات لیں کہ عینی کے مشاغل ،ان کی صحافتی اور تحقیقی سمت کیا ہے اور کس علمی گھرانے سے اس کا تعلق ہے، احسان نے مختصراً کہا کہ چاچا وہ میری سمجھ میں بھی نہیں آئی ہے ، اپنے کام سے کام رکھنے والی لڑکی ہے، بہت سارے کام اور ان گنت موضوعات پر اس کے نوٹ بکس میں پوائنٹس کا دریا بہتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی پرچیوں اور تحریروں سے آراستہ صفحات کے ڈھیر اس کے پرانے بیگ میں نظر آتے ہیں، احسان نے کہا کہ عینی سے ملاقات بھی اتفاقاً ہوئی، کراچی کی ایک تقریب میں ملی، اناؤنسمنٹ کے بعد اس نے جب سنا کہ میرا تعلق لیاری کے ڈاکومنٹری فلمیں بنانے والی ینگ جنریشن سے ہے تو اس کی لیاری سے عقیدت ، محبت اورجذباتی وابستگی کا در کھلا ، وہ ایک پرجوش، خوش گفتار اور حقائق کی جستجو میں گم رائٹر کے طور پر لیاری میں ایک معاون اور دوست کی تلاش میں تھی اور میں اسے مل گیا۔ بعد میں اس سے گھر جیسا رشتہ قائم ہوگیا، اس کی آنیاں تے جانیاں لگی رہیں، یہ وہ وقت تھا جب لیاری کی سیاسی و سماجی تقدیر گینگ وار کارندوں اور ان کے ارضی خداؤں کے ہاتھ میں تھی۔
جمہوریت کی نکسیر پھٹ چکی تھی، سیاسی شعور سے معمور علاقہ بد حال تھا، ہر طرف وحشتیں ناچ رہی تھیں۔ محنت کشوں کی زندگی عذاب بن چکی تھی۔ مگر عینی کے لیے لیاری کی کوئی گلی اجنبی نہیں تھی ، وہ رات دس بجے اچانک احمد شاہ بخاری روڈ پر واقع سید طفیل شاہ ہاؤس پہنچتی اور دوتین گھنٹے بعد اسی سرعت کے ساتھ رکشے میں بیٹھ کر ناظم آباد روانہ ہوجاتی، اسے کسی چیز کا ڈر نہ تھا، نڈر اور ونڈر گرل اس کی ذات میں ایک ہوگئے تھے۔ احسان نے کہا کہ وہ ایک چھلاوا تھی۔
عینی کے شوہر علی خان بھی ڈاکومنٹریزکی تیاری اورمختلف صحافتی اسائنمنٹس کی تکمیل کے لیے مشرق وسطیٰ اور گلف کے ممالک میں مصروف بتائے گئے ، میں نے کبھی عینی کی ذاتی زندگی کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا ، نہ ہی ان کے ناظم آباد کے گھر والوں ،امی ، ابو، نانی ، بہن بھائیوں کے بارے میں کبھی ڈیٹا طلب کیا ، مجھ پر اس کی لیاری میں آمدورفت اور احسان شاہ کے گھرانے سے اس کی الفت ایک ایسا تجربہ تھا کہ میری اپنی صحافتی زندگی کا عکس اس میں جھلکتا تھا، دیکھیں ناں کہاں لیاری کی پسماندگی، اس کے شب و روز اور کہاں اردو کی محبت میں اہل صحافت کے اشجار سایہ دار سے ملی محبت اور حوصلہ افزائی کا اثاثہ ۔
عینی ان دنوں کولمبیا یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی تیاری کے لیے مصروف تھی ۔ جاوید صبا کا ایک مشاعرہ میں شرکت کے لیے امریکا جانا ہوا تو میں نے صبا سے کہا کہ قراۃ العین عینی کو میں نے ن م دانش کی تلاش پر لگا دیا ہے اگر عینی مل جائے تو انھیں یاد دلادینا جب کہ عینی اس اسائنمنٹ کو زندگی یا موت کا مسئلہ بنا کر ن م دانش کو ڈھونڈ نکال لائیں، اس کام میں اس کی مدد سائیں حسن مجتبیٰ نے کی، عینی کا فون آیا کہ دانش سے ملاقات ہو گئی ، آپ کا پیغام پہنچایا مگر ان کا مکمل انٹرویو نہ کرسکی ،صرف ان کی ایک غزل ریکارڈ ہوسکی ۔
شاید اس وقت دانش موڈ میں نہ تھے کہ کوئی گفتگو کرلیں۔ عینی کو لیاری، بلوچی زبان، ڈائیلکٹ، فونیم اور تنقید وشاعری پر گفتگو بہت مرغوب تھی، سید ہاشمی کی بلوچی لغت ''سید گنج'' سمیت ان کے ناول ''نازک''، شاعری ،اردو مضامین پر کافی سوچ بچار کیا، بلوچی کو رومن رسم الخط میں بدلنے کے خلاف سید ہاشمی کے قسط وار مضامین میں عینی نے گہری دلچسپی لی، یہ قسطیں ابراہیم جلیس مرحوم نے اپنے جریدہ ''عوامی عدالت'' میں شایع کی تھیں۔ سید ہاشمی کی بطور ماہر لسانیات اور جرمن محقق ڈاکٹر سٹراسر کے ہمراہ بلوچی زبان پر تحقیق کی گرہیں کھولنے کے لیے عینی کے پاس سوالات کا پنڈورا بکس تھا ، اس بکھری لڑکی نے پروفیسر صبا دشتیاری کی تربیت اور نمود میں والدہ محترمہ بانل دشتیاری کی شاعری اور فکاہیہ مضامین جمع کیے ۔
لیاری گینگ وار کے اسباب ،اور حکومتی طرز عمل پر کافی صدمہ کا اظہار کیا، وہ لیاری کی تاریخ پر ٹھوس مواد کی دستیابی چاہتی تھی، ممتاز محقق حمید ناضر کی کتاب ''وادیٔ لیاری'' اور ''وادیٔ ملیر'' کی تلاش میں لگ گئی، مطلب یہ ہے کسی لمحہ کو ضایع کرنے کا اس کے پاس کوئی وقت نہ تھا۔ راقم کی کتاب ''لیاری کی کہانی'' امریکی کانگریس لائبریری سے لے کر احسان شاہ کو فیس بک پر پوسٹ کردی۔
ایک رات 10 بجے ہیرالڈ کی فیچر رائٹر زہرہ نواب کے ہمراہ کلری (لیاری) پہنچیں ، میں تھکا ہارا سٹیل پلنگ پر لیٹا تھا،آنکھیں بند تھیں،عینی نے زہرا صاحبہ سے کہا شاہ جی سو رہے ہیں کسی اور دن ان سے مل لیں گے۔ عینی کے گھر والوں کا احسان کو صرف اتنا کہنا تھا کہ اسے احساس تنہائی نے مار ڈالا، شوہر سے بچھڑنے کا صدمہ وہ نہ سہہ سکی، قریبی ذرایع بتاتے ہیں کہ علی خان نے اس سے ٹوٹ کے محبت کی ، علی خان نے ان کی ہر فرمائش پوری کی، کبھی مالی مشکل پیش نہیں آنے دی، مگر کیا بات ہوئی کہ عینی سب سے روٹھ کر دنیا سے رخصت ہوگئی۔
عینی کی انگریزی کتاب (The Missing daughters of Pakistan)مارکیٹ میں ہے، مگر اس کے لاتعداد مطبوعہ و غیر مطبوعہ مسودہ ہائے کتب جل کر راکھ ہوگئے۔ 22 جولائی کا دن میرے لیے خود کش دھماکہ سے کم نہ تھا۔انگریزی اخبار ڈان کو نیٹ پر کھولتے ہی میری نگاہ عینی کی دردانگیز موت کی خبر پر جم گئی۔
خبر کے مطابق عینی کے فلیٹ کا دروازہ اندر سے بند تھا اور اس نے ساری کتابیں سامنے سجاکر نہ معلوم خود کو شعلوں کے حوالے کیا یا شعلہ اس کے اندر سے اٹھا، کچھ نہیں پتا، آگ اس کے وجود سے دور رہی اور اس کی ساری تحقیقی متاع کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ پولیس نے خود کشی کا خدشہ ظاہر کیا ہے مگر جو لڑکی عورت کے ہر صدمہ کو دل سے لگا کر دشت صحافت میں دیوانی پھرتی رہی وہ کیسے دکھی عورتوں سے بے وفائی کا اتنا بڑا الزام اپنے سر لے سکتی ہے۔ عینی کے ساتھ کیا ہوا اس کی تحقیقات کے لیے سول سوسائٹی کو سوچنا ہوگا۔ عینی ہمارے مردہ ضمیر معاشرے کی سوختہ جاں اور سوختہ ساماں روح تھی جو اب لیاری کی گلیوں میں بھٹکتی رہے گی۔
موقر انگریزی جریدہ ''ہیرالڈ'' کے لیے اس کے فیچر اور تصاویر میری نظر سے گزرتے رہے تھے، فیس بک ساتھی بھی تھی ،اس کی نیوز فوٹوگرافی بھی دیدنی تھی، قلندرانہ طبیعت پائی تھی لہذا اس سے گفتگو میں کبھی بوریت کا شائبہ نہ ہوتا، بہت سوال کرتی،ایک کے بعد دوسرا سوال مگر بلیغ اور واضح جواب کی جستجو اور خواہش کے ساتھ ۔
عینی سے تعارف اور گھریلو تعلق سے پہلے ایک دن میرے بھتیجے احسان شاہ کا فون آیا کہ ''چاچا عینی آپ سے ملنا چاہتی ہے،'' میں چونکا کہ کون عینی؟ اس لیے کہ چار عینی نام کی بنت حوائیں میرے لیے محترم ہیں، عینی نیازی،قرۃ العین عینی، میری بھتیجی عینی اور آگ کا دریا کی قرۃ العین حیدر عرف عینی آپا۔ احسان نے بتایا اس کی فنکار اور رائٹر دوست ہے اور لیاری میں آنا چاہتی ہے کھل جا سم سم کہتے ہوئے۔اس وقت اسے لیاری کے حوالہ سے اپنی کتاب مکمل کرنی ہے ، وہ اپنی تحقیق کے سلسلے میں آپ کا سر کھانے آرہی ہے، جواں سال احسان شاہ فلم سازی ، ڈرامہ ، اسکرپٹ اور ہدایتکاری کے شعبہ میں اپنا مستقبل سنورتا دیکھتے ہیں،ان کی اہلیہ نازین بلوچ بھی ذہنی اور فکری اعتبار سے ایک ہی پیج پر ہیں ۔
یوں عینی شام پانج بجے ایکسپریس کے دفتر پہنچیں ، کمر پر ایک بھاری بھرکم بیگ کا بوجھ اٹھائے مجھے کوریڈور میں ملیں سلام کیا، اور پھر ان سے دو گھنٹے تک گفتگو رہی۔ ساری گفتگو ٹیپ ہوئی، کیمرہ اٹھایا ، دو تین کلپ لے لیے، اور بغیر پانی،کولڈ ڈرنک اور چائے بسکٹ کے فوراً اٹھیں اور تعظیماً سلام اور یہ وعدہ کرتے ہوئے کہ بھرپور ملاقات لیاری میں ہوگی عینی یہ جا وہ جا۔ میں نے احسان سے معلومات لیں کہ عینی کے مشاغل ،ان کی صحافتی اور تحقیقی سمت کیا ہے اور کس علمی گھرانے سے اس کا تعلق ہے، احسان نے مختصراً کہا کہ چاچا وہ میری سمجھ میں بھی نہیں آئی ہے ، اپنے کام سے کام رکھنے والی لڑکی ہے، بہت سارے کام اور ان گنت موضوعات پر اس کے نوٹ بکس میں پوائنٹس کا دریا بہتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی پرچیوں اور تحریروں سے آراستہ صفحات کے ڈھیر اس کے پرانے بیگ میں نظر آتے ہیں، احسان نے کہا کہ عینی سے ملاقات بھی اتفاقاً ہوئی، کراچی کی ایک تقریب میں ملی، اناؤنسمنٹ کے بعد اس نے جب سنا کہ میرا تعلق لیاری کے ڈاکومنٹری فلمیں بنانے والی ینگ جنریشن سے ہے تو اس کی لیاری سے عقیدت ، محبت اورجذباتی وابستگی کا در کھلا ، وہ ایک پرجوش، خوش گفتار اور حقائق کی جستجو میں گم رائٹر کے طور پر لیاری میں ایک معاون اور دوست کی تلاش میں تھی اور میں اسے مل گیا۔ بعد میں اس سے گھر جیسا رشتہ قائم ہوگیا، اس کی آنیاں تے جانیاں لگی رہیں، یہ وہ وقت تھا جب لیاری کی سیاسی و سماجی تقدیر گینگ وار کارندوں اور ان کے ارضی خداؤں کے ہاتھ میں تھی۔
جمہوریت کی نکسیر پھٹ چکی تھی، سیاسی شعور سے معمور علاقہ بد حال تھا، ہر طرف وحشتیں ناچ رہی تھیں۔ محنت کشوں کی زندگی عذاب بن چکی تھی۔ مگر عینی کے لیے لیاری کی کوئی گلی اجنبی نہیں تھی ، وہ رات دس بجے اچانک احمد شاہ بخاری روڈ پر واقع سید طفیل شاہ ہاؤس پہنچتی اور دوتین گھنٹے بعد اسی سرعت کے ساتھ رکشے میں بیٹھ کر ناظم آباد روانہ ہوجاتی، اسے کسی چیز کا ڈر نہ تھا، نڈر اور ونڈر گرل اس کی ذات میں ایک ہوگئے تھے۔ احسان نے کہا کہ وہ ایک چھلاوا تھی۔
عینی کے شوہر علی خان بھی ڈاکومنٹریزکی تیاری اورمختلف صحافتی اسائنمنٹس کی تکمیل کے لیے مشرق وسطیٰ اور گلف کے ممالک میں مصروف بتائے گئے ، میں نے کبھی عینی کی ذاتی زندگی کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا ، نہ ہی ان کے ناظم آباد کے گھر والوں ،امی ، ابو، نانی ، بہن بھائیوں کے بارے میں کبھی ڈیٹا طلب کیا ، مجھ پر اس کی لیاری میں آمدورفت اور احسان شاہ کے گھرانے سے اس کی الفت ایک ایسا تجربہ تھا کہ میری اپنی صحافتی زندگی کا عکس اس میں جھلکتا تھا، دیکھیں ناں کہاں لیاری کی پسماندگی، اس کے شب و روز اور کہاں اردو کی محبت میں اہل صحافت کے اشجار سایہ دار سے ملی محبت اور حوصلہ افزائی کا اثاثہ ۔
عینی ان دنوں کولمبیا یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کی تیاری کے لیے مصروف تھی ۔ جاوید صبا کا ایک مشاعرہ میں شرکت کے لیے امریکا جانا ہوا تو میں نے صبا سے کہا کہ قراۃ العین عینی کو میں نے ن م دانش کی تلاش پر لگا دیا ہے اگر عینی مل جائے تو انھیں یاد دلادینا جب کہ عینی اس اسائنمنٹ کو زندگی یا موت کا مسئلہ بنا کر ن م دانش کو ڈھونڈ نکال لائیں، اس کام میں اس کی مدد سائیں حسن مجتبیٰ نے کی، عینی کا فون آیا کہ دانش سے ملاقات ہو گئی ، آپ کا پیغام پہنچایا مگر ان کا مکمل انٹرویو نہ کرسکی ،صرف ان کی ایک غزل ریکارڈ ہوسکی ۔
شاید اس وقت دانش موڈ میں نہ تھے کہ کوئی گفتگو کرلیں۔ عینی کو لیاری، بلوچی زبان، ڈائیلکٹ، فونیم اور تنقید وشاعری پر گفتگو بہت مرغوب تھی، سید ہاشمی کی بلوچی لغت ''سید گنج'' سمیت ان کے ناول ''نازک''، شاعری ،اردو مضامین پر کافی سوچ بچار کیا، بلوچی کو رومن رسم الخط میں بدلنے کے خلاف سید ہاشمی کے قسط وار مضامین میں عینی نے گہری دلچسپی لی، یہ قسطیں ابراہیم جلیس مرحوم نے اپنے جریدہ ''عوامی عدالت'' میں شایع کی تھیں۔ سید ہاشمی کی بطور ماہر لسانیات اور جرمن محقق ڈاکٹر سٹراسر کے ہمراہ بلوچی زبان پر تحقیق کی گرہیں کھولنے کے لیے عینی کے پاس سوالات کا پنڈورا بکس تھا ، اس بکھری لڑکی نے پروفیسر صبا دشتیاری کی تربیت اور نمود میں والدہ محترمہ بانل دشتیاری کی شاعری اور فکاہیہ مضامین جمع کیے ۔
لیاری گینگ وار کے اسباب ،اور حکومتی طرز عمل پر کافی صدمہ کا اظہار کیا، وہ لیاری کی تاریخ پر ٹھوس مواد کی دستیابی چاہتی تھی، ممتاز محقق حمید ناضر کی کتاب ''وادیٔ لیاری'' اور ''وادیٔ ملیر'' کی تلاش میں لگ گئی، مطلب یہ ہے کسی لمحہ کو ضایع کرنے کا اس کے پاس کوئی وقت نہ تھا۔ راقم کی کتاب ''لیاری کی کہانی'' امریکی کانگریس لائبریری سے لے کر احسان شاہ کو فیس بک پر پوسٹ کردی۔
ایک رات 10 بجے ہیرالڈ کی فیچر رائٹر زہرہ نواب کے ہمراہ کلری (لیاری) پہنچیں ، میں تھکا ہارا سٹیل پلنگ پر لیٹا تھا،آنکھیں بند تھیں،عینی نے زہرا صاحبہ سے کہا شاہ جی سو رہے ہیں کسی اور دن ان سے مل لیں گے۔ عینی کے گھر والوں کا احسان کو صرف اتنا کہنا تھا کہ اسے احساس تنہائی نے مار ڈالا، شوہر سے بچھڑنے کا صدمہ وہ نہ سہہ سکی، قریبی ذرایع بتاتے ہیں کہ علی خان نے اس سے ٹوٹ کے محبت کی ، علی خان نے ان کی ہر فرمائش پوری کی، کبھی مالی مشکل پیش نہیں آنے دی، مگر کیا بات ہوئی کہ عینی سب سے روٹھ کر دنیا سے رخصت ہوگئی۔
عینی کی انگریزی کتاب (The Missing daughters of Pakistan)مارکیٹ میں ہے، مگر اس کے لاتعداد مطبوعہ و غیر مطبوعہ مسودہ ہائے کتب جل کر راکھ ہوگئے۔ 22 جولائی کا دن میرے لیے خود کش دھماکہ سے کم نہ تھا۔انگریزی اخبار ڈان کو نیٹ پر کھولتے ہی میری نگاہ عینی کی دردانگیز موت کی خبر پر جم گئی۔
خبر کے مطابق عینی کے فلیٹ کا دروازہ اندر سے بند تھا اور اس نے ساری کتابیں سامنے سجاکر نہ معلوم خود کو شعلوں کے حوالے کیا یا شعلہ اس کے اندر سے اٹھا، کچھ نہیں پتا، آگ اس کے وجود سے دور رہی اور اس کی ساری تحقیقی متاع کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ پولیس نے خود کشی کا خدشہ ظاہر کیا ہے مگر جو لڑکی عورت کے ہر صدمہ کو دل سے لگا کر دشت صحافت میں دیوانی پھرتی رہی وہ کیسے دکھی عورتوں سے بے وفائی کا اتنا بڑا الزام اپنے سر لے سکتی ہے۔ عینی کے ساتھ کیا ہوا اس کی تحقیقات کے لیے سول سوسائٹی کو سوچنا ہوگا۔ عینی ہمارے مردہ ضمیر معاشرے کی سوختہ جاں اور سوختہ ساماں روح تھی جو اب لیاری کی گلیوں میں بھٹکتی رہے گی۔