مشرف بغاوت کیس میں نئی حکومت کا موقف مختلف ہو سکتا ہے سپریم کورٹ

پی سی اوانفرادی اقدام نہیں بلکہ نام نہادریاست بچاؤمہم کاحصہ تھا،ریمارکس

مشرف مجرم قرارپاچکے،صرف سزادیناباقی ہے،اے کے ڈوگر، سماعت کل تک ملتوی فوٹو اے ایف پی

سابق وزیراعظم بینظیر بھٹوکے قتل کیس میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویزمشرف کی ضمانت منظورکرلی جبکہ سپریم کورٹ میں بغاوت کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان نے ریمارکس دیے کہ پی سی او انفرادی اقدام نہیں تھابلکہ نام نہاد ریاست بچاؤمہم کا حصہ تھا

۔جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے ہو سکتا ہے کہ حکومت کی تبدیلی سے پرویزمشرف اورپی سی اوکے بارے میں سرکاری موقف بھی تبدیل ہوجائے۔جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف بغاوت کے مقدمے کے اندراج کیلئے دائر درخواستوںکی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس جواد نے ریمارکس دیے کہ نئی نمائندہ حکومت آنے میں چند دن لگیں گے ممکن ہے کہ اس حکومت کا موقف اس مقدمے کے بارے میں الگ ہو ۔اے کے ڈوگر ایڈووکیٹ نے جواب الجواب میں موقف اپنایاکہ پرویز مشرف کو غداری کے الزام میں مجرم قرار دیا جا چکا ہے اب انھیں صرف سزا دیناباقی ہے۔




جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا بتایا جائے کہ کیا غداری کے مجرم کی سزا معاف کرنے کا صدرکو وہی اختیار حاصل ہے جو دیگر جرائم کی سزاؤں میں ہے؟ اے کے ڈوگر نے بتایا کہ غدارکو سزا دینا آئین کا حکم ہے اور صدر آئین کیخلاف نہیں جا سکتے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا تسلی سے جواب دیا جائے کیونکہ یہ ایک اہم مقدمہ ہے ۔فاضل جج کا کہنا تھا کہ اگر حکومت پی سی اوکی دستاویزکو تسلیم نہ کرے تو پھر قانون کی نظر میں اس کی کیا حیثیت ہوگی۔جسٹس خلجی عارف نے کہا پی سی او انفرادی اقدام نہیں تھا، جسٹس جواد نے کہا یہ تو اس وقت کی ریاست بچاؤ مہم کا حصہ تھا لیکن پھر بھی وکلاء دفاع کا کہنا یہ ہے کہ ان کے موکل کو قانون کے مطابق نوٹس جاری نہیں ہوا۔عدالت نے کیس کی مزیدسماعت جمعرات تک ملتوی کردی ۔
Load Next Story