کرپشن‘ غیرقانونی تقرریاں مزاحمت پر خاتون افسر سے بدترین سلوک
وزیرصنعت شہزادہ احسن نے نیلوفر حفیظ کا تبادلہ کردیا‘ بحالی کا عدالتی حکم ماننے سے بھی انکار
ISLAMABAD:
نگراں وزیر صنعت شہزادہ احسن اشرف شیخ نے سپریم کورٹ کے احکام کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے گریڈ20کی افسر نیلوفر حفیظ کو ایکسپلو سو ڈپارٹمنٹ اور دیگر ونگز میں کرپشن اور غیر قانونی تقرریوں کی مزاحمت کرنے پر انتہائی برے طریقے سے ہراساں کیا۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو ذرائع نے بتایا کہ نیلو فر حفیظ کی جانب سے دو سمریوں سے اختلافات پر نگراں وفاقی وزیر برہم ہوگئے اور انھوں نے16 اپریل کو کوئی وجہ بتائے بغیر خاتون افسر کے تبادلے کا حکم دیدیا جس پر وہ اسلام آباد ہائیکورٹ چلی گئیں، عدالت نے 29اپریل کو انکے تبادلے کے احکامات منسوخ کرتے ہوئے حکام کو ہدایت کی کہ نیلو فر کیس کو میرٹ پر لیا جائے۔ عدالت نے ان کی ری جوائنگ کا بھی حکم دیا تاہم نگران وفاقی وزیر نے عدالتی احکامات کو ماننے سے انکار کردیا، بعدازاں وفاقی وزیر نے نیلو فر کو سزاد ینے کیلئے انکے وزرات میں داخلے پر پابندی لگادی اور ایک ماہ سے زائد عرصہ تک گھر بٹھائے رکھا۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیسل سے گفتگو میں وفاقی وزیر نے الزامات کی تردید کی تاہم یہ تسلیم کیا کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ایک خط لکھ کر خاتون افسر کی خدمات واپس لینے کو کہا ہے۔ انہوں نے کرپشن کے الزامات کی بھی تردید کی اور کہا کہ بطور وفاقی وزیر یہ میرا اختیار ہے کہ ایسے افسر کو سرنڈر کردوں جو کارکردگی پر پورا نہیں اترتا۔ اس معاملے میں بھی میں نے ایسا ہی کیا تاہم زمینی حقائق وفاقی وزیر کے اس دعوے سے یکسر متضاد ہیں، نیلوفر حفیظ محنتی اور ایماندار افسر سمجھی جاتی ہیں۔
کھوسو کی زیر قیادت نگران سیٹ اپ آنے کے بعد انہوں نے ایک سے زائد اجلاسوں میں کرپشن اور اہم تقرریوں میں بے ضابطگیوں کے معاملات اٹھائے۔ ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کی اسلام آباد سے کراچی منتقلی کے معاملے اور کرپشن کے کم از کم4 مقدمات میں مطلوب شخص جاوید ملک کے تقرر نے وفاقی وزیر کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگادیا وفاقی وزیر نے جاوید ملک کے تقرر اور اس کے ساتھ ساتھ ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کی منتقلی میں غیر معمولی دلچسپی لی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان انیتا تراب کیس میں حکم دے چکی ہے کہ کسی بھی افسرکو ٹھوس وجوہات کے بغیر تبدیل کیا جاسکتا ہے نہ ہٹایا جاسکتا ہے، نیلوفر حفیظ کا معاملہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ایک سے زائد کیسز میں وزیر کے دبائو کے باوجود وہ قانون کی حکمرانی کیلئے مضبوطی سے کھڑی رہیں اورکرپشن کیخلاف لڑتی رہیں۔
وفاقی وزیر نے انکو سزا دینے کیلئے اختیارات کا غلط استعمال کیا، انہوں نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ احمد بخش لہری سے گزشتہ دو ہفتوں میں ایک سے زائد بار رابطہ کیا اور ان سے نیلو حفیظ کے معاملے میں عدالتی احکامات نظر انداز کرنے کو کہا، ذرائع کے مطابق لہری نے بھی انہیں مایوس نہیں کیا اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد کو دو ہفتوں تک التوا ء میں ڈالے رکھا۔ سیکرٹری شاہد رشید ایک کمزورافسر ثابت ہوئے، وہ پرکشش عہدوں پر غیر قانونی تقرریوں کی مزاحمت کرسکے نہ نیلو فر حفیظ کے غیر قانونی تبادلے کو روک سکے۔ وہ وفاقی وزیر کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے کہ بطور نگران وزیر ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کی منتقلی انکے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ اسی اثناء میں جبکہ جاوید ملک کا تقرر ایک سوالیہ نشان تھا، نگران وزیر نے ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کی اسلام آباد سے کراچی منتقلی کی منظوری دی۔
اس کا تجارتی تنظیموں کی طرف سے فوری ردعمل آیا، اس عمل نے کھوسو کی نگران حکومت کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگادیا۔ تجارتی تنظیموں کی اکثریت اس فیصلے کی مزاحمت کررہی ہے۔ ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ حسین چنہ جو نگران وزیر کیساتھ اپنے ناپاک روابط کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، پر الزام ہے کہ انہوں نے مختلف تنظیموں اور افراد میں رشوت بانٹ کر ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کی منتقلی کا فیصلہ ''خریدا'' تاہم چنہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ چنہ نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل سے گفتگو میں کہا کہ وہ اس الزام کو مسترد کرتے ہیں، شاہد رشید نے ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ میں کرپشن سے لاعلمی کا اظہار کیا، انہوں نے دعوی کیا کہ ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کی منتقلی سمیت تمام فیصلے میرٹ پر کئے گئے جبکہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ تبصرے کیلئے دستیاب نہیں ہوسکے۔
نگراں وزیر صنعت شہزادہ احسن اشرف شیخ نے سپریم کورٹ کے احکام کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے گریڈ20کی افسر نیلوفر حفیظ کو ایکسپلو سو ڈپارٹمنٹ اور دیگر ونگز میں کرپشن اور غیر قانونی تقرریوں کی مزاحمت کرنے پر انتہائی برے طریقے سے ہراساں کیا۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو ذرائع نے بتایا کہ نیلو فر حفیظ کی جانب سے دو سمریوں سے اختلافات پر نگراں وفاقی وزیر برہم ہوگئے اور انھوں نے16 اپریل کو کوئی وجہ بتائے بغیر خاتون افسر کے تبادلے کا حکم دیدیا جس پر وہ اسلام آباد ہائیکورٹ چلی گئیں، عدالت نے 29اپریل کو انکے تبادلے کے احکامات منسوخ کرتے ہوئے حکام کو ہدایت کی کہ نیلو فر کیس کو میرٹ پر لیا جائے۔ عدالت نے ان کی ری جوائنگ کا بھی حکم دیا تاہم نگران وفاقی وزیر نے عدالتی احکامات کو ماننے سے انکار کردیا، بعدازاں وفاقی وزیر نے نیلو فر کو سزاد ینے کیلئے انکے وزرات میں داخلے پر پابندی لگادی اور ایک ماہ سے زائد عرصہ تک گھر بٹھائے رکھا۔
ایکسپریس انویسٹی گیشن سیسل سے گفتگو میں وفاقی وزیر نے الزامات کی تردید کی تاہم یہ تسلیم کیا کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ایک خط لکھ کر خاتون افسر کی خدمات واپس لینے کو کہا ہے۔ انہوں نے کرپشن کے الزامات کی بھی تردید کی اور کہا کہ بطور وفاقی وزیر یہ میرا اختیار ہے کہ ایسے افسر کو سرنڈر کردوں جو کارکردگی پر پورا نہیں اترتا۔ اس معاملے میں بھی میں نے ایسا ہی کیا تاہم زمینی حقائق وفاقی وزیر کے اس دعوے سے یکسر متضاد ہیں، نیلوفر حفیظ محنتی اور ایماندار افسر سمجھی جاتی ہیں۔
کھوسو کی زیر قیادت نگران سیٹ اپ آنے کے بعد انہوں نے ایک سے زائد اجلاسوں میں کرپشن اور اہم تقرریوں میں بے ضابطگیوں کے معاملات اٹھائے۔ ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کی اسلام آباد سے کراچی منتقلی کے معاملے اور کرپشن کے کم از کم4 مقدمات میں مطلوب شخص جاوید ملک کے تقرر نے وفاقی وزیر کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگادیا وفاقی وزیر نے جاوید ملک کے تقرر اور اس کے ساتھ ساتھ ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کی منتقلی میں غیر معمولی دلچسپی لی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان انیتا تراب کیس میں حکم دے چکی ہے کہ کسی بھی افسرکو ٹھوس وجوہات کے بغیر تبدیل کیا جاسکتا ہے نہ ہٹایا جاسکتا ہے، نیلوفر حفیظ کا معاملہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ ایک سے زائد کیسز میں وزیر کے دبائو کے باوجود وہ قانون کی حکمرانی کیلئے مضبوطی سے کھڑی رہیں اورکرپشن کیخلاف لڑتی رہیں۔
وفاقی وزیر نے انکو سزا دینے کیلئے اختیارات کا غلط استعمال کیا، انہوں نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ احمد بخش لہری سے گزشتہ دو ہفتوں میں ایک سے زائد بار رابطہ کیا اور ان سے نیلو حفیظ کے معاملے میں عدالتی احکامات نظر انداز کرنے کو کہا، ذرائع کے مطابق لہری نے بھی انہیں مایوس نہیں کیا اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد کو دو ہفتوں تک التوا ء میں ڈالے رکھا۔ سیکرٹری شاہد رشید ایک کمزورافسر ثابت ہوئے، وہ پرکشش عہدوں پر غیر قانونی تقرریوں کی مزاحمت کرسکے نہ نیلو فر حفیظ کے غیر قانونی تبادلے کو روک سکے۔ وہ وفاقی وزیر کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے کہ بطور نگران وزیر ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کی منتقلی انکے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ اسی اثناء میں جبکہ جاوید ملک کا تقرر ایک سوالیہ نشان تھا، نگران وزیر نے ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کی اسلام آباد سے کراچی منتقلی کی منظوری دی۔
اس کا تجارتی تنظیموں کی طرف سے فوری ردعمل آیا، اس عمل نے کھوسو کی نگران حکومت کی ساکھ پر بھی سوالیہ نشان لگادیا۔ تجارتی تنظیموں کی اکثریت اس فیصلے کی مزاحمت کررہی ہے۔ ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ حسین چنہ جو نگران وزیر کیساتھ اپنے ناپاک روابط کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، پر الزام ہے کہ انہوں نے مختلف تنظیموں اور افراد میں رشوت بانٹ کر ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کی منتقلی کا فیصلہ ''خریدا'' تاہم چنہ اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ چنہ نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل سے گفتگو میں کہا کہ وہ اس الزام کو مسترد کرتے ہیں، شاہد رشید نے ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ میں کرپشن سے لاعلمی کا اظہار کیا، انہوں نے دعوی کیا کہ ایکسپلوسو ڈیپارٹمنٹ کی منتقلی سمیت تمام فیصلے میرٹ پر کئے گئے جبکہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ تبصرے کیلئے دستیاب نہیں ہوسکے۔