سچ کی آزادی
کہتے ہیں مصیبت تنہا نہیں آتی بلکہ یہ ہوتا ہے کہ مصائب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
نومبر 1852، سوہو جو لندن کا مزدور علاقہ ہے اور جہاں گھروں کے نام پر غلیظ دڑبوں میں انسانوں کے زندہ پنجرے آباد ہیں اس سے متصل ڈین اسٹریٹ کے چھوٹے چھوٹے دو کمروں پر مشتمل ایک مکان میں افلاس مجسم اور امیروں کی دنیا پر طنز کی ایک انوکھی تحریر کا پیکر شاہکار کتابوں اور کاغذوں سے پٹے ہوئے فرش پر ایک ادھیڑ عمر انسان غور و فکر میں ڈوبا اِدھر سے ادھر اور ادھر سے اِدھر گھوم رہا ہے، برابر کے کمرے میں محبوب بیوی اپنے بیمار بچّے کے سرہانے بیٹھی موت اور زندگی کے درمیان اس ننھے سے لختِ جگر کی جدوجہد کو یاس اور بے چارگی کی وحشت زدہ اور اشک فراموش آنکھوں سے ٹک ٹک دیکھ رہی ہے۔
اس کے لیے یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے۔ اسی بستر پر اس کی یہی آنکھیں جن میں بارہا آنسو ابھر ابھر کر سوکھ چکے ہیں، پہلے بھی اپنے کلیجے کے معصوم ٹکڑوں کو اس طرح ایک نہیں دو دو بار بھوک اور افلاس کے ہاتھوں اجڑتے دیکھ چکی ہے۔ گھر میں پیسہ نہیں کہ بیمار بچّے کے لیے چھٹانک بھر دودھ ہی مہیا کیا جاسکے، دوا تو بہت دور کی بات ہے۔ بچّے کی ماں اپنے باپ کے نوابی گھر میں شہزادیوں کی طرح رہتی تھی، وہ آج اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لختِ جگر کو یوں بھوک اور افلاس میں بے بسی کے ساتھ جان توڑتے دیکھ رہی ہے مگر کچھ کر نہیں سکتی۔ گھر میں اب کچھ باقی نہیں ہے جسے بیچ کر ہاتھ میں دو چار پیسے آجاتے اور بچے کی دوا کی جاسکتی۔
بچّے کی آہ سے مکان کی تمام فضا کراہنے لگتی ہے۔ برابر کے کمرے میں قدموں کی چاپ کچھ لمحوں کے لیے تھم جاتی ہے۔ بدنصیب باپ تھوڑی دیر کے لیے رک جاتا ہے اور غم زدہ نگاہوں سے بچّے کے کمرے کی طرف دیکھتا ہے۔ کمرے کے بیچوں بیچ کتابوں، رسالوں اور کاغذوں سے لدی ہوئی میز پر ایک اخبار کھلا پڑا ہے۔ کبھی کبھی اس کے نزدیک سے گزرتے ہوئے یہ انسان لمحہ بھر کے لیے رک جاتا ہے، کچھ پڑھتا ہے اور پھر گھومنے لگتا ہے۔ ''کولون مقام پر کمیونسٹ لیگ کے مرکزی بورڈ کے ممبروں پر مقدمہ چل رہا ہے اور یہ ممبر جیل کی کال کوٹھریوں میں بند حکومت کے مظالم سہہ رہے ہیں۔'' یہ خبر ہے جو میز پر پڑے اخبار کے کالموں میں سے اس بیمار بچّے کے جلاوطن باپ کی آنکھوں میں گھوم رہی ہے۔
ان ساتھیوں کی کس طرح مدد کی جائے، کس طرح ان کی طرف سے صدائے احتجاج بلند کی جائے، کس طرح سلاخوں اور دیواروں میں گھٹی ہوئی ان کی آواز، ان کے پیغام دنیا کے کانوں تک پہنچایا جائے۔ اس احتجاج کی عبارت اس کے دماغ میں گونج رہی ہے۔ عبارت کا ہر فقرہ اس کے دل کی دھڑکن کو تیز کررہا ہے۔ غریب کی دنیا اتنی گھنائونی کیوں ہے؟ ان قیدیوں کا پیغام دنیا تک پہنچانا ہوگا اور اس مقصد کے لیے کم از کم ایک پمفلٹ کی اشاعت نہایت ضروری ہے، لیکن اس کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا، گھر میں کوئی بھی تو چیز ایسی باقی نہیں ہے جسے فروخت کیا جاسکے یا گروی رکھا جاسکے۔ وہ گھومتے گھومتے یکایک کھڑکی کے پاس رک جاتا ہے، باہر اندھیرا اور زیادہ گہرا ہوگیا ہے۔
سردی اور بڑھ گئی ہے۔ بچّے کے کراہنے کی آواز اسے پھر سے چونکا دیتی ہے۔ وہ پنجوں کے بل آہستہ آہستہ اس کے سرہانے جاتا ہے، اپنی محبوب بیوی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر تھوڑی دیر بچّے کا منہ تکتا رہتا ہے اور پھر اسی طرح آہستہ آہستہ کمرے سے باہر نکل جاتا ہے، وہاں سے نکل کر وہ سیدھا ایک مہاجن کی دکان پر پہنچتا ہے اور اس کڑکڑاتی سردی میں اپنا کوٹ اتار کر وہ جو اس کے پاس آخری رہ گیا تھا، مہاجن کے پاس گروی رکھ دیتا ہے۔ کوٹ کے پیسے لے کر وہ سیدھا ایک چھاپہ خانہ میں پہنچتا ہے اور کولون میں گرفتار ساتھیوں کے لیے احتجاج میں ایک پمفلٹ لکھ کر اسے شایع کراتا ہے اور پھر اپنے دم توڑتے بچّے کے سرہانے واپس آکر آبیٹھتا ہے۔
اپنے لختِ جگر کی آخری گھڑیاں گننے کے لیے اس کو دم توڑتے دیکھنے کے لیے، یہ انسان کارل مارکس ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر کسی شخص کی بیل کی کھال ہو تب تو وہ ضرور غریب انسانوں کے مصائب سے بے پروا رہ سکتا ہے اور اپنی ہی کھال کی فکر میں زندگی بسر کرسکتا ہے لیکن میرے جیسے حسّاس انسان کے لیے یہ ناممکن تھا کہ انسانیت کی چیخ سنتا اور خاموش بیٹھا رہتا۔ آج بھی پاکستان سمیت دنیا بھر کے کروڑوں انسانوں کو لاحق سب سے بڑی بیماری غربت ہی ہے۔ اس بیماری نے جیتے جاگتے انسانوں کو زندہ درگور کر رکھا ہے۔ جمہوریت کے بغیر انسانی سماج کی نجات ناممکن ہے۔
وہ سماجی نظام جو بنی نوع انسان کو دوبارہ عالمگیر جنگ کی بھٹی میں جھونک چکا ہے۔ وہ نظام جو نسل انسانی کے گورکنوں ہٹلر، مسولینی، چیمبرلین، ٹوجو، میزیائم، ایمری، جنرل ضیا اور لوال جیسی شخصیات کو نہ صرف برداشت کرسکتا ہے بلکہ تعظیم اور تکریم کے قابل سمجھتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جو قیامت برپا ہے وہ اس نظام کے گھنائونے چہرے کا عکس ہے۔
کیا وہ سماج جس میں ایک طرف دولت کا اتنا انبار ہو جو کہ کبھی سنا نہ دیکھا اور دوسری طرف آبادی کا ایک بڑا حصّہ، بہت ہی بڑا حصّہ بھوک میں روٹی کے لیے تڑپ کر اور ترس ترس کر مرجاتا ہو۔ رزق پیدا کرنے والا کسان فاقوں مرتا ہو، دولت پیدا کرنے والا مزدور بھوک، افلاس کا شکار ہو، کیا ایسا سماج اپنی بقا کے لیے کوئی دعویٰ پیش کرسکتا ہے۔ اس سماج میں وہ طبقہ جو مفلس ہے اور بھی مفلس ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف سماج کا ایک حصّہ عیش و عشرت کے سمندر میں غرق ہے اور دوسری جانب غربت، بے روزگاری اور فاقہ کشی موت کا پیغام بنی ہوئی ہے۔
کہتے ہیں مصیبت تنہا نہیں آتی بلکہ یہ ہوتا ہے کہ مصائب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ آج یہ وہی تصویر ہے جو گوئٹے کے ''فاوسٹ'' میں چانسلر اپنے بادشاہ کو رپورٹ کرتے ہوئے شکایت کرتا ہے کہ ہر طرف دکھ ہیں، مصائب ہیں، ایک برائی جاتی ہے تو دوسری آجاتی ہے، دوسری جنگِ عظیم میں جب چرچل نے یہ اعلان کیا کہ اسے انگریزوں کا خون، پسینہ اور آنسو درکار ہیں تو اس کے اس اعلان کی مزاحمت نہیں ہوئی بلکہ اسے دل و جان سے قبول کیا گیا۔ کیونکہ اس نے ان کے دل کی گہرائی میں چھپی قربانی کی خواہش کو زندہ کیا۔ انگریزوں، جرمنوں اور روسیوں کا ردعمل بھی ایسا ہی تھا۔ لوگوں پر بم گرائے جارہے تھے۔
بل گرانٹ کے مطابق جب عوام مشکلات کا شکار ہوں تو ان کے حوصلے اور جذبے میں شگاف نہیں پڑتا۔ یہ بات ان کے حوصلے کو اور مضبوط کردیتی ہے اور جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خوف ناک بمباری دشمن کے حوصلے کو ختم کرتی ہے اور جنگ کو جلد ختم کرنے میں مدد دیتی ہے، یہ ہمیشہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ نجات کا راستہ آگے جانے، ترقی کرنے اور نئے معاشرے کی تخلیق میں ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں عدم مساوات، طبقاتی جنگ اور استحصال نہ ہو، جمہوریت ہو، جہاں ہر شخص اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کررہا ہو۔ ایسا معاشرہ جہاں جسمانی بھوک کے ساتھ ساتھ ذہنی بھوک کا خاتمہ ہوجائے۔ ایرک فرام کہتا ہے میری یہ تجویز ہے کہ سماج اور انسانی کردار کی تبدیلی کے لیے یہ شرائط پوری کرنی ہوں گی۔
(1) ہم تکالیف میں ہیں تو ہمیں اس سے واقف ہونا چاہیے۔ (2) ہمیں اپنی بیماری (برائی) کی اصل وجوہات سے آگاہ ہونا چاہیے۔ (3) اس بیماری پر قابو پانے کا کوئی نہ کوئی رستہ ہونا چاہیے۔ (4) اس سے نجات کے لیے ہمیں زندگی کے قواعد کو قبول کرنا ہوگا اور تبدیلی کے لیے موجودہ طرز زندگی کو ترک کرنا ہوگا۔ یہ چار نکات چار عظیم سچّائیاں ہیں جو بدھا کی تعلیمات سے اخذ کی گئی ہیں۔ یہی اصول کارل مارکس اور فرائیڈ نے قائم کیے۔ جب انھوں نے انسانی نجات کا نظریہ دیا۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا ''سچ تمہیں آزاد کرتا ہے'' اور سچ یہ ہے کہ ہماری نجات کا واحد راستہ بھی یہی نکات ہیں۔
اس کے لیے یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے۔ اسی بستر پر اس کی یہی آنکھیں جن میں بارہا آنسو ابھر ابھر کر سوکھ چکے ہیں، پہلے بھی اپنے کلیجے کے معصوم ٹکڑوں کو اس طرح ایک نہیں دو دو بار بھوک اور افلاس کے ہاتھوں اجڑتے دیکھ چکی ہے۔ گھر میں پیسہ نہیں کہ بیمار بچّے کے لیے چھٹانک بھر دودھ ہی مہیا کیا جاسکے، دوا تو بہت دور کی بات ہے۔ بچّے کی ماں اپنے باپ کے نوابی گھر میں شہزادیوں کی طرح رہتی تھی، وہ آج اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لختِ جگر کو یوں بھوک اور افلاس میں بے بسی کے ساتھ جان توڑتے دیکھ رہی ہے مگر کچھ کر نہیں سکتی۔ گھر میں اب کچھ باقی نہیں ہے جسے بیچ کر ہاتھ میں دو چار پیسے آجاتے اور بچے کی دوا کی جاسکتی۔
بچّے کی آہ سے مکان کی تمام فضا کراہنے لگتی ہے۔ برابر کے کمرے میں قدموں کی چاپ کچھ لمحوں کے لیے تھم جاتی ہے۔ بدنصیب باپ تھوڑی دیر کے لیے رک جاتا ہے اور غم زدہ نگاہوں سے بچّے کے کمرے کی طرف دیکھتا ہے۔ کمرے کے بیچوں بیچ کتابوں، رسالوں اور کاغذوں سے لدی ہوئی میز پر ایک اخبار کھلا پڑا ہے۔ کبھی کبھی اس کے نزدیک سے گزرتے ہوئے یہ انسان لمحہ بھر کے لیے رک جاتا ہے، کچھ پڑھتا ہے اور پھر گھومنے لگتا ہے۔ ''کولون مقام پر کمیونسٹ لیگ کے مرکزی بورڈ کے ممبروں پر مقدمہ چل رہا ہے اور یہ ممبر جیل کی کال کوٹھریوں میں بند حکومت کے مظالم سہہ رہے ہیں۔'' یہ خبر ہے جو میز پر پڑے اخبار کے کالموں میں سے اس بیمار بچّے کے جلاوطن باپ کی آنکھوں میں گھوم رہی ہے۔
ان ساتھیوں کی کس طرح مدد کی جائے، کس طرح ان کی طرف سے صدائے احتجاج بلند کی جائے، کس طرح سلاخوں اور دیواروں میں گھٹی ہوئی ان کی آواز، ان کے پیغام دنیا کے کانوں تک پہنچایا جائے۔ اس احتجاج کی عبارت اس کے دماغ میں گونج رہی ہے۔ عبارت کا ہر فقرہ اس کے دل کی دھڑکن کو تیز کررہا ہے۔ غریب کی دنیا اتنی گھنائونی کیوں ہے؟ ان قیدیوں کا پیغام دنیا تک پہنچانا ہوگا اور اس مقصد کے لیے کم از کم ایک پمفلٹ کی اشاعت نہایت ضروری ہے، لیکن اس کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا، گھر میں کوئی بھی تو چیز ایسی باقی نہیں ہے جسے فروخت کیا جاسکے یا گروی رکھا جاسکے۔ وہ گھومتے گھومتے یکایک کھڑکی کے پاس رک جاتا ہے، باہر اندھیرا اور زیادہ گہرا ہوگیا ہے۔
سردی اور بڑھ گئی ہے۔ بچّے کے کراہنے کی آواز اسے پھر سے چونکا دیتی ہے۔ وہ پنجوں کے بل آہستہ آہستہ اس کے سرہانے جاتا ہے، اپنی محبوب بیوی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر تھوڑی دیر بچّے کا منہ تکتا رہتا ہے اور پھر اسی طرح آہستہ آہستہ کمرے سے باہر نکل جاتا ہے، وہاں سے نکل کر وہ سیدھا ایک مہاجن کی دکان پر پہنچتا ہے اور اس کڑکڑاتی سردی میں اپنا کوٹ اتار کر وہ جو اس کے پاس آخری رہ گیا تھا، مہاجن کے پاس گروی رکھ دیتا ہے۔ کوٹ کے پیسے لے کر وہ سیدھا ایک چھاپہ خانہ میں پہنچتا ہے اور کولون میں گرفتار ساتھیوں کے لیے احتجاج میں ایک پمفلٹ لکھ کر اسے شایع کراتا ہے اور پھر اپنے دم توڑتے بچّے کے سرہانے واپس آکر آبیٹھتا ہے۔
اپنے لختِ جگر کی آخری گھڑیاں گننے کے لیے اس کو دم توڑتے دیکھنے کے لیے، یہ انسان کارل مارکس ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر کسی شخص کی بیل کی کھال ہو تب تو وہ ضرور غریب انسانوں کے مصائب سے بے پروا رہ سکتا ہے اور اپنی ہی کھال کی فکر میں زندگی بسر کرسکتا ہے لیکن میرے جیسے حسّاس انسان کے لیے یہ ناممکن تھا کہ انسانیت کی چیخ سنتا اور خاموش بیٹھا رہتا۔ آج بھی پاکستان سمیت دنیا بھر کے کروڑوں انسانوں کو لاحق سب سے بڑی بیماری غربت ہی ہے۔ اس بیماری نے جیتے جاگتے انسانوں کو زندہ درگور کر رکھا ہے۔ جمہوریت کے بغیر انسانی سماج کی نجات ناممکن ہے۔
وہ سماجی نظام جو بنی نوع انسان کو دوبارہ عالمگیر جنگ کی بھٹی میں جھونک چکا ہے۔ وہ نظام جو نسل انسانی کے گورکنوں ہٹلر، مسولینی، چیمبرلین، ٹوجو، میزیائم، ایمری، جنرل ضیا اور لوال جیسی شخصیات کو نہ صرف برداشت کرسکتا ہے بلکہ تعظیم اور تکریم کے قابل سمجھتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں جو قیامت برپا ہے وہ اس نظام کے گھنائونے چہرے کا عکس ہے۔
کیا وہ سماج جس میں ایک طرف دولت کا اتنا انبار ہو جو کہ کبھی سنا نہ دیکھا اور دوسری طرف آبادی کا ایک بڑا حصّہ، بہت ہی بڑا حصّہ بھوک میں روٹی کے لیے تڑپ کر اور ترس ترس کر مرجاتا ہو۔ رزق پیدا کرنے والا کسان فاقوں مرتا ہو، دولت پیدا کرنے والا مزدور بھوک، افلاس کا شکار ہو، کیا ایسا سماج اپنی بقا کے لیے کوئی دعویٰ پیش کرسکتا ہے۔ اس سماج میں وہ طبقہ جو مفلس ہے اور بھی مفلس ہوتا جارہا ہے۔ ایک طرف سماج کا ایک حصّہ عیش و عشرت کے سمندر میں غرق ہے اور دوسری جانب غربت، بے روزگاری اور فاقہ کشی موت کا پیغام بنی ہوئی ہے۔
کہتے ہیں مصیبت تنہا نہیں آتی بلکہ یہ ہوتا ہے کہ مصائب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ آج یہ وہی تصویر ہے جو گوئٹے کے ''فاوسٹ'' میں چانسلر اپنے بادشاہ کو رپورٹ کرتے ہوئے شکایت کرتا ہے کہ ہر طرف دکھ ہیں، مصائب ہیں، ایک برائی جاتی ہے تو دوسری آجاتی ہے، دوسری جنگِ عظیم میں جب چرچل نے یہ اعلان کیا کہ اسے انگریزوں کا خون، پسینہ اور آنسو درکار ہیں تو اس کے اس اعلان کی مزاحمت نہیں ہوئی بلکہ اسے دل و جان سے قبول کیا گیا۔ کیونکہ اس نے ان کے دل کی گہرائی میں چھپی قربانی کی خواہش کو زندہ کیا۔ انگریزوں، جرمنوں اور روسیوں کا ردعمل بھی ایسا ہی تھا۔ لوگوں پر بم گرائے جارہے تھے۔
بل گرانٹ کے مطابق جب عوام مشکلات کا شکار ہوں تو ان کے حوصلے اور جذبے میں شگاف نہیں پڑتا۔ یہ بات ان کے حوصلے کو اور مضبوط کردیتی ہے اور جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ خوف ناک بمباری دشمن کے حوصلے کو ختم کرتی ہے اور جنگ کو جلد ختم کرنے میں مدد دیتی ہے، یہ ہمیشہ غلط ثابت ہوتا ہے۔ نجات کا راستہ آگے جانے، ترقی کرنے اور نئے معاشرے کی تخلیق میں ہے۔ ایسا معاشرہ جہاں عدم مساوات، طبقاتی جنگ اور استحصال نہ ہو، جمہوریت ہو، جہاں ہر شخص اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کررہا ہو۔ ایسا معاشرہ جہاں جسمانی بھوک کے ساتھ ساتھ ذہنی بھوک کا خاتمہ ہوجائے۔ ایرک فرام کہتا ہے میری یہ تجویز ہے کہ سماج اور انسانی کردار کی تبدیلی کے لیے یہ شرائط پوری کرنی ہوں گی۔
(1) ہم تکالیف میں ہیں تو ہمیں اس سے واقف ہونا چاہیے۔ (2) ہمیں اپنی بیماری (برائی) کی اصل وجوہات سے آگاہ ہونا چاہیے۔ (3) اس بیماری پر قابو پانے کا کوئی نہ کوئی رستہ ہونا چاہیے۔ (4) اس سے نجات کے لیے ہمیں زندگی کے قواعد کو قبول کرنا ہوگا اور تبدیلی کے لیے موجودہ طرز زندگی کو ترک کرنا ہوگا۔ یہ چار نکات چار عظیم سچّائیاں ہیں جو بدھا کی تعلیمات سے اخذ کی گئی ہیں۔ یہی اصول کارل مارکس اور فرائیڈ نے قائم کیے۔ جب انھوں نے انسانی نجات کا نظریہ دیا۔ حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایا ''سچ تمہیں آزاد کرتا ہے'' اور سچ یہ ہے کہ ہماری نجات کا واحد راستہ بھی یہی نکات ہیں۔