پاک امریکا اعتماد کا فقدان

مفاد پرستی کی اس گھنائونی سازش نے بلوچوں کے دل و دماغ کو نفرتوں...

ایم جے گوہر

GILGIT:
گزشتہ چند برسوں سے وطنِ عزیز کو داخلی و خارجی ہر دو محاذ پر سنگین چیلنجوں اور بحرانوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ 9/11 کے سانحے کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جواز بنا کر امریکا نے پوری دنیا کو فتح کرنے کی جو احمقانہ پالیسی بنا کر رکھی اور جس طرح وہ مسلمان ممالک کی آزادی، خودمختاری کو اپنی طاقت کے نشے میں روندتا چلا آرہا ہے، وہ عالمی امن کے اصولوں اور قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے لیکن کوئی اسے روکنے والا نہیں۔

عالمی امن کا ضامن ادارہ اقوام متحدہ ہو یا مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کوئی بھی امریکی عزائم کے آگے بندھ نہیں باندھ سکتے۔ امریکا نے دھونس، دھمکیوں اور دبائو ڈال کر پاکستان کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جھونک دیا ہے لیکن امریکی اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان سراسر گھاٹے میں چلا آرہا ہے۔

اس جنگ کے باعث قومی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا، ہزاروں عسکری جوانوں کی قربانی دینا پڑی۔ ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی، بم دھماکوں اور خودکش حملوں کی شکل میں دہشت گرد عناصر نے اپنا قبضہ جما رکھا ہے، جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن گئے، امن و امان تباہ ہو کر رہ گیا۔ پاک فوج دہشت گرد عناصر کے خلاف اپنی پلاننگ کے مطابق بھرپور کارروائیاں کررہی ہے لیکن امریکا اپنی ''خواہش'' کے مطابق ایکشن کے لیے پاکستان پر مسلسل دبائو ڈال رہا ہے اور خود اپنے طور پر بھی ڈرون حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔

آٹھ ماہ پیشتر جب سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو حملے میں پاکستان کے 25 سے زاید جوان شہید ہوگئے تھے تو بطور احتجاج پاکستان نے نیٹو کی سپلائی منقطع کردی تھی، نتیجتاً پاک امریکا تعلقات میں سخت کشیدگی اور فاصلے پیدا ہوگئے تھے۔

اب جب کہ نیٹو کی سپلائی لائن بحال ہوچکی ہے اور دونوں کے درمیان اس ضمن میں باقاعدہ ایک معاہدے پر دستخط بھی ہوچکے ہیں تو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اور تنائو میں یقیناً کچھ کمی آگئی ہے لیکن خوش گوار تعلقات ہنوز بحال نہیں ہوسکے۔ اعتماد کا فقدان آج بھی موجود ہے۔ ہر چند کہ اسامہ بن لادن آپریشن کے بعد القاعدہ کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور قیادت کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد القاعدہ ارکان کی بڑی تعداد یمن کی جانب نقل مکانی کر گئی ہے۔ اس کے باوجود امریکا پاکستان میں حقّانی نیٹ ورک اور القاعدہ کی موجودگی کا رونا رو رہا ہے اور ملک کی فوجی و سیاسی قیادت پر ان کے خلاف کارروائی کے لیے دبائو ڈال رہا ہے۔


امریکی سینیٹر جان کیری کے تازہ بیان کے مطابق امریکا، یمن اور پاکستان میں القاعدہ ارکان کا پیچھا کرے گا۔ نیٹو سپلائی کی بحالی کے بعد امریکی وزیر خارجہ بھی یہ بیان دے چکی ہیں کہ پاکستان سے تعلقات کی آزمایش مستقبل میں ہوگی۔ گویا پاکستان کو امریکی دبائو سے نکلنے کے لیے ابھی کڑے امتحانوں سے گزرنا ہے۔ ادھر افغانستان نے بھی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا شروع کر رکھا ہے کہ اس کے سرحدی علاقوں سے درانداز افغانستان کے اندر کارروائیاں کررہے ہیں۔ پاکستان کے عسکری ذرایع نے اس الزام کی سختی سے تردید کی ہے۔

حالانکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کے سرحدی علاقوں سے درانداز موقع در موقع پاکستانی حدود میں داخل ہو کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ پاکستانی فورسز کے جوانوں اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ ان دراندازوں کو ایساف افواج کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق حالیہ دنوں میں ڈیورنڈ لائن کے اطراف دراندازی کے 50 سے زاید واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ابھی چند روز پیشتر پاکستان اور برطانیہ کے وزرائے اعظم اور افغانستان کے صدر کے درمیان اعلیٰ سطح کے مذاکرات بھی ہوئے تاکہ دراندازی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جاسکیں۔

افغان حکومت اپنے گھر کی خبر لینے کے بجائے الٹا پاکستان پر الزام تراشیاں کررہی ہے۔ دراصل افغانستان کو امریکا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اور افغان علاقوں سے پاکستان کے اندر داخل ہونے والے دراندازوں کو نیٹو کی آشیرواد میسر ہے، جس کے باعث افغان حکومت نام نہاد مظلومیت کا مظاہرہ کررہی ہے۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت کو امریکا افغان ملی بھگت کو سمجھنا ہوگا۔ ان کی چالاکیوں اور چال بازیوں پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔ ملکی سلامتی اور قومی مفادات اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت چوکس اور ہوشیار رہنا ہوگا کہ ہمارا دشمن نہایت چالاک و زیرک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا، افغانستان اور بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ یہ بیرونی قوتوں کی پاکستان میں مداخلت ہی کا نتیجہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ (رقبے کے لحاظ سے) بلوچستان مسائل کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ یہاں کا امن تباہ و برباد ہو کر رہ گیا ہے، معصوم بلوچوں کو بیرونی طاقتیں اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کررہی ہیں۔

مفاد پرستی کی اس گھنائونی سازش نے بلوچوں کے دل و دماغ کو نفرتوں اور بغاوتوں پر اکسانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ اب امریکا کے ساتھ کھل کر بات کی جائے۔ اس حوالے سے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ظہیر الاسلام کا حالیہ دورۂ امریکا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی امریکی سی آئی اے کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اور دیگر اعلیٰ امریکی حکام سے ملاقاتوں میں افغانستان کی صورت حال، اتحادیوں کے انخلا، پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کی بندش، دہشت گردی کی روک تھام اور افغانستان سے دہشت گردوں کی پاکستانی علاقوں میں کارروائیوں کے خلاف موثر اقدامات سمیت دیگر امور پر بات چیت کریں گے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے دورۂ امریکا سے دونوں ممالک کے درمیان پائے جانے والے اعتماد کے فقدان کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔

Recommended Stories

Load Next Story