منفی رویوں کا انجام
ابھی نہ حکمران طبقے نے اقتدار سنبھالا نہ اراکین نے حلف اٹھایا کہ متحدہ حزب اختلاف کی جانب سے احتجاج کا عمل شروع ہوگیا۔
جب کوئی جماعت انتخابات جیت کر برسر اقتدار آتی ہے تو اس کے رہنما کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ قومی مسائل کا تعین اور اس کی ترجیحات ہوتا ہے اور ان ترجیحات پر عمل درآمد کے لیے پارٹی کے ارکان کے درمیان اتفاق رائے اور ایک دوسرے پر اعتماد لازمی ہوتا ہے۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ پارٹیوں میں اختلاف رائے ہوتا ہے لیکن اگر پارٹی کے ارکان اپنے ایجنڈے کو اولیت دیتے ہیں تو اختلافات کا حل مشکل نہیں ہوتا، اگر پارٹی کے ارکان خصوصاً وزرا عوام کے مسائل کے حل کو ترجیح دیتے ہیں تو اختلافات ضمنی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ جمہوری نظام میں حزب اختلاف اگر مخلص اور عوام دوست ہو تو وہ حکومت کو پریشان کرنے اور ناجائز دباؤ ڈالنے کے بجائے تعاون کے راستے پر چلتا ہے۔ اختلاف رائے اختلاف سے گریز کرتا ہے۔
ابھی نہ حکمران طبقے نے اقتدار سنبھالا نہ اراکین نے حلف اٹھایا کہ متحدہ حزب اختلاف کی جانب سے احتجاج کا عمل شروع ہوگیا۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ منتخب اراکین نے ابھی حلف بھی نہیں اٹھایا کہ حزب اختلاف کی طرف سے متحدہ احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دھاندلی کے جس مسئلے پر ہماری حزب اختلاف احتجاج کررہی ہے اس کی قیادت کرنے والی پارٹی پر 2013 میں انتخابی دھاندلیوں کے جس قدر سنگین الزامات لگائے گئے تھے اس کے باوجود نہ کوئی متحدہ احتجاج ہوا، نہ حکومت کے لیے کوئی مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس احتجاج کا اس زور شور سے پروپیگنڈہ کیا گیا کہ عوام اور خواص سب ہی تشویش میں مبتلا تھے کہ اپوزیشن کی اس کال پر لاکھوں لوگ الیکشن کمیشن کے سامنے جمع ہوجائیںگے اور خدانخواستہ یہ احتجاج کسی بڑے تصادم کی طرف نہ چلا جائے۔ ہم آج کل بیمار ہیں، ڈاکٹروں نے ذہن پر کسی قسم کا بوجھ لینے اور ٹی وی دیکھنے سے پرہیز کا مشورہ دیا ہے لیکن اس مشورے کے برخلاف ہم ٹی وی دیکھتے رہے، لیکن بات یہ ہوئی کہ بہت شور سنتے تھے سینے میں دل کا، جو چیرا تو ایک قطرہ خون نہ نکلا، اس احتجاج کا ایک دلچسپ پہلو یہ تھا کہ ''بڑی اپوزیشن'' کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ مٹھی بھر کارکنوں کو جمع کرکے نعرے لگوائے گئے۔
اس متحدہ بارات کے دو دلہے نظر آئے، ایک مولانا فضل الرحمن اور دوسرے محمود خان اچکزئی۔ ان دونوں ہی رہنماؤں کو انتخابات میں عوام نے مسترد کردیا ہے۔ اب یہ نہ ایم این اے رہے ہیں، نہ ایم پی اے، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات احتجاج میں کس کی نمایندگی کررہے تھے۔ اس تاریخی احتجاج میں صرف مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی موجود تھے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی کوئی بڑی ہستی اس احتجاج میں شامل نہ تھی، حتیٰ کہ فضل الرحمن کے پیر بھائی مولانا عطاء الرحمن بھی موجود نہ تھے۔
مولانا فضل الرحمن کا عمران حکومت کے خلاف پیش پیش رہنا اس لیے ضروری تھا کہ سابقہ حکومت میں مولانا کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنادیا گیا تھا۔ چیئرمین کا برسوں سے بس اتنا کام تھا کہ وقت ضرورت بھارت کی مذمت کریں، کشمیریوں کے نقصانات پر افسوس کا اظہار کریں۔ ان اعلیٰ خدمات کے عوض مولانا کو بنگلہ ملا ہوا تھا اور کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی کا اتنا معاوضہ مل رہا تھا کہ مولانا خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ عمران، مولانا کے دشمن جانی، کے آنے سے بنگلہ بھی گیا اور چیئرمینی کے منصب کے ساتھ ساتھ وہ ''وسائل'' بھی چھن گئے ہیں جن سے مولانا ٹھاٹھ باٹ کی زندگی گزار رہے تھے اور یہ سارا کرم بڑے میاں کی دین تھا۔ مولانا کی طرح محمود خان اچکزئی کو بھی عوام نے مسترد کردیا ہے، اب انھیں بھی اس ٹھاٹھ باٹ سے ہاتھ دھونا پڑ گیا جو انھیں حاصل تھے۔
بلاول کا حال یہ ہے کہ سر منڈھاتے ہی اولے پڑ گئے۔ نیب والوں نے 35 ارب کی ''ہڑپی'' کا الزام آصف علی زرداری اور فریال تالپور یعنی باپ اور پھوپھی پر لگاکر بلاول کے راستے میں ایسے کانٹے بچھا دیے ہیں کہ انھیں سمیٹنے کے لیے ایک عمر درکار ہے۔ بلاول کی مایوسی ناکردہ گناہوں کی سزا سے بلاول کسی داغ دھبے کے بغیر آگے بڑھنے اور پیر جمانے کی کوشش کررہا تھا کہ اس کے راستے میں کانٹے بچھادیے گئے۔
مولانا فضل الرحمن کا تعلق ایک مذہبی جماعت سے ہے، ان کے قریب ترین دوست جماعت اسلامی کے سراج الحق نے بھی فضل الرحمن کا ساتھ نہیں دیا۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے پوری کوشش کی کہ ان کی برادری یعنی اتحادی پارلیمنٹ میں حلف نہ اٹھائیں، لیکن مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی نے فضل الرحمن کی تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے پارلیمنٹ جانے اور حلف اٹھانے کا اعلان کیا، یوں مولانا اس کوشش میں ناکام رہے کہ عمران حکومت کو چلنے نہ دیا جائے لیکن ان کی منفی کوششیں ناکام رہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنی کوششوں میں ناکام رہے لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ جب حلف اٹھانے کا موقع آئے تو یہ گروہ ہڑبونگ مچاکر حلف برداری کی کوششوں میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپوزیشن کسی قیمت پر عمران حکومت کو کام کرنے نہیں دینا چاہتی کیونکہ عمران حکومت ماضی کی حکومتوں کی طرح لوٹ مار کے بجائے عوامی مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی، اگر عمران حکومت اس حوالے سے کامیاب ہوجاتی ہے تو اپوزیشن عوام کی نظروں سے گر جائے گی اور مستقبل میں ان کے اقتدار میں آنے کے چانس ختم ہوجائیں گے۔
یہ ایک فطری بات ہے کہ پارٹیوں میں اختلاف رائے ہوتا ہے لیکن اگر پارٹی کے ارکان اپنے ایجنڈے کو اولیت دیتے ہیں تو اختلافات کا حل مشکل نہیں ہوتا، اگر پارٹی کے ارکان خصوصاً وزرا عوام کے مسائل کے حل کو ترجیح دیتے ہیں تو اختلافات ضمنی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں۔ جمہوری نظام میں حزب اختلاف اگر مخلص اور عوام دوست ہو تو وہ حکومت کو پریشان کرنے اور ناجائز دباؤ ڈالنے کے بجائے تعاون کے راستے پر چلتا ہے۔ اختلاف رائے اختلاف سے گریز کرتا ہے۔
ابھی نہ حکمران طبقے نے اقتدار سنبھالا نہ اراکین نے حلف اٹھایا کہ متحدہ حزب اختلاف کی جانب سے احتجاج کا عمل شروع ہوگیا۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ منتخب اراکین نے ابھی حلف بھی نہیں اٹھایا کہ حزب اختلاف کی طرف سے متحدہ احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ دھاندلی کے جس مسئلے پر ہماری حزب اختلاف احتجاج کررہی ہے اس کی قیادت کرنے والی پارٹی پر 2013 میں انتخابی دھاندلیوں کے جس قدر سنگین الزامات لگائے گئے تھے اس کے باوجود نہ کوئی متحدہ احتجاج ہوا، نہ حکومت کے لیے کوئی مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس احتجاج کا اس زور شور سے پروپیگنڈہ کیا گیا کہ عوام اور خواص سب ہی تشویش میں مبتلا تھے کہ اپوزیشن کی اس کال پر لاکھوں لوگ الیکشن کمیشن کے سامنے جمع ہوجائیںگے اور خدانخواستہ یہ احتجاج کسی بڑے تصادم کی طرف نہ چلا جائے۔ ہم آج کل بیمار ہیں، ڈاکٹروں نے ذہن پر کسی قسم کا بوجھ لینے اور ٹی وی دیکھنے سے پرہیز کا مشورہ دیا ہے لیکن اس مشورے کے برخلاف ہم ٹی وی دیکھتے رہے، لیکن بات یہ ہوئی کہ بہت شور سنتے تھے سینے میں دل کا، جو چیرا تو ایک قطرہ خون نہ نکلا، اس احتجاج کا ایک دلچسپ پہلو یہ تھا کہ ''بڑی اپوزیشن'' کا دور دور تک پتا نہ تھا۔ مٹھی بھر کارکنوں کو جمع کرکے نعرے لگوائے گئے۔
اس متحدہ بارات کے دو دلہے نظر آئے، ایک مولانا فضل الرحمن اور دوسرے محمود خان اچکزئی۔ ان دونوں ہی رہنماؤں کو انتخابات میں عوام نے مسترد کردیا ہے۔ اب یہ نہ ایم این اے رہے ہیں، نہ ایم پی اے، پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دونوں حضرات احتجاج میں کس کی نمایندگی کررہے تھے۔ اس تاریخی احتجاج میں صرف مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی موجود تھے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی کوئی بڑی ہستی اس احتجاج میں شامل نہ تھی، حتیٰ کہ فضل الرحمن کے پیر بھائی مولانا عطاء الرحمن بھی موجود نہ تھے۔
مولانا فضل الرحمن کا عمران حکومت کے خلاف پیش پیش رہنا اس لیے ضروری تھا کہ سابقہ حکومت میں مولانا کو کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنادیا گیا تھا۔ چیئرمین کا برسوں سے بس اتنا کام تھا کہ وقت ضرورت بھارت کی مذمت کریں، کشمیریوں کے نقصانات پر افسوس کا اظہار کریں۔ ان اعلیٰ خدمات کے عوض مولانا کو بنگلہ ملا ہوا تھا اور کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی کا اتنا معاوضہ مل رہا تھا کہ مولانا خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ عمران، مولانا کے دشمن جانی، کے آنے سے بنگلہ بھی گیا اور چیئرمینی کے منصب کے ساتھ ساتھ وہ ''وسائل'' بھی چھن گئے ہیں جن سے مولانا ٹھاٹھ باٹ کی زندگی گزار رہے تھے اور یہ سارا کرم بڑے میاں کی دین تھا۔ مولانا کی طرح محمود خان اچکزئی کو بھی عوام نے مسترد کردیا ہے، اب انھیں بھی اس ٹھاٹھ باٹ سے ہاتھ دھونا پڑ گیا جو انھیں حاصل تھے۔
بلاول کا حال یہ ہے کہ سر منڈھاتے ہی اولے پڑ گئے۔ نیب والوں نے 35 ارب کی ''ہڑپی'' کا الزام آصف علی زرداری اور فریال تالپور یعنی باپ اور پھوپھی پر لگاکر بلاول کے راستے میں ایسے کانٹے بچھا دیے ہیں کہ انھیں سمیٹنے کے لیے ایک عمر درکار ہے۔ بلاول کی مایوسی ناکردہ گناہوں کی سزا سے بلاول کسی داغ دھبے کے بغیر آگے بڑھنے اور پیر جمانے کی کوشش کررہا تھا کہ اس کے راستے میں کانٹے بچھادیے گئے۔
مولانا فضل الرحمن کا تعلق ایک مذہبی جماعت سے ہے، ان کے قریب ترین دوست جماعت اسلامی کے سراج الحق نے بھی فضل الرحمن کا ساتھ نہیں دیا۔ مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے پوری کوشش کی کہ ان کی برادری یعنی اتحادی پارلیمنٹ میں حلف نہ اٹھائیں، لیکن مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی نے فضل الرحمن کی تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے پارلیمنٹ جانے اور حلف اٹھانے کا اعلان کیا، یوں مولانا اس کوشش میں ناکام رہے کہ عمران حکومت کو چلنے نہ دیا جائے لیکن ان کی منفی کوششیں ناکام رہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اپنی کوششوں میں ناکام رہے لیکن اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ جب حلف اٹھانے کا موقع آئے تو یہ گروہ ہڑبونگ مچاکر حلف برداری کی کوششوں میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپوزیشن کسی قیمت پر عمران حکومت کو کام کرنے نہیں دینا چاہتی کیونکہ عمران حکومت ماضی کی حکومتوں کی طرح لوٹ مار کے بجائے عوامی مسائل حل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی، اگر عمران حکومت اس حوالے سے کامیاب ہوجاتی ہے تو اپوزیشن عوام کی نظروں سے گر جائے گی اور مستقبل میں ان کے اقتدار میں آنے کے چانس ختم ہوجائیں گے۔