آواز کا جادوگر ظفر اقبال نیویارکر
استاد اقبال احمد خان موسیقی کے مشہور دہلی گھرانے کے نامور گائیک استاد چاند خان کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
شمالی امریکا میں جس طرح اردو زبان تیزی سے فروغ پا رہی ہے اسی طرح فنون لطیفہ سے متعلق ہر شعبے کے افراد امریکا میں اپنی شناخت پیدا کر رہے ہیں۔ امریکا کی تمام بڑی ریاستوں میں جہاں جہاں اردو بولنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہے، وہاں اردو شعر و ادب، مشرقی موسیقی اور غزل کی گائیکی کو بھی گزشتہ بیس سال میں بڑا فروغ ملا ہے اور امریکن پاکستانی کمیونٹی بھی اپنی ثقافت، شعر و ادب اور اپنی موسیقی کو ترقی دینے میں اپنا کردار بڑی خوش اسلوبی سے ادا کر رہی ہے۔
اکثر ریاستوں میں مشاعرے اور موسیقی کی محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں، مقامی فنکاروں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نامور فنکاروں کو بھی گاہے گاہے مدعو کیا جاتا رہتا ہے، جہاں موسیقی کی انجمنیں موجود ہیں وہاں مقامی فنکار بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، نہ صرف امریکا بلکہ کینیڈا میں بھی کئی ریکارڈنگ اسٹوڈیوز کام کر رہے ہیں، ریڈیو پر پروگرام پیش کیے جاتے رہتے ہیں۔
آج کے کالم میں اپنے قارئین کو ایک ایسے گلوکار سے متعارف کرا رہا ہوں جس نے بہت کم عرصے میں بحیثیت ایک گلوکار اپنی پہچان پیدا کی ہے اور امریکا کی تمام بڑی بڑی ریاستوں میں اپنے فن اور اپنی گائیکی کا لوہا منوا رہا ہے اور خاص طور پر نیویارک میں موسیقی کا کوئی پروگرام اس گلوکار کے بغیر نامکمل ہوتا ہے۔
اس گلوکار کا ویسے تو تعلق لاہور سے ہے مگر اب وہ نیویارک کی شناخت بن چکا ہے اور اس ریاست کے نام کی مناسب سے اس کا نام بھی ظفر اقبال نیویارکر مشہور ہے۔ اب تک اس کے پچیس کے قریب میوزک البم منظر عام پر آچکے ہیں اور ان سب کو امریکا کی ساری ریاستوں میں پذیرائی ملتی رہی ہے۔ یہ اب تک علامہ اقبال، فیض احمد فیضؔ، احمد فرازؔ، جون ایلیا اور امجد اسلام امجدؔ کے کلام کو خوبصورتی کے ساتھ گا چکا ہے اور اس کی گائی ہوئی سی ڈیز اور ویڈیوز مارکیٹ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ گزشتہ دنوں ظفر اقبال نیویارکر سے نیویارک کے علاقے کوئینز اسٹوریا میں اس کے شاندار ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں ملاقات ہوئی تھی۔
ظفر اقبال نے لاہور کے علاقہ دھرم پورہ کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ موسیقی اس کے گھر میں شجر ممنوعہ تھی، مگر خود رو پودوں کی طرح آہستہ آہستہ اس کے دل میں بھی گلوکاری کے شوق نے جنم لیا، یہ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے گانے سن کر اپنے شوق کو پروان چڑھاتا رہا، اسکول میں اپنی سریلی آواز کی بدولت پسند کیا جانے لگا اور اسکول میں نظمیں اور ترانے گانے لگا۔
اسے فلمیں دیکھنے کا شوق تھا، پھر انڈین لیجنڈ گلوکار محمد رفیع کے گیت گانے لگا اور تصور میں خود کو اس کا شاگرد تسلیم کرتا تھا۔ گائیکی اس کا جنون بن گیا تھا۔ یہ راتوں کو چھپ چھپ کر گھر کی چھت پر جاکر ریاض کیا کرتا تھا، اور دن میں جب بھی موقع ملتا نہر کے کنارے چلا جایا کرتا تھا اور وہاں گھنٹوں ریاض کرتے ہوئے کھلی فضا میں رفیع کے گانے گایا کرتا تھا، اس کے دوستوں کی محفلوں میں اس سے محمد رفیع کے گانوں کی فرمائشیں ہوا کرتی تھیں اور محمد رفیع کا ایک گانا خاص طور پر اس کی گائیکی کا حصہ ہوا کرتا تھا اور اس گانے کے بول تھے:
او دنیا کے رکھوالے
سن درد بھرے میرے نالے
جس محفل میں یہ گیت سناتا اس محفل میں اسے بڑا سراہا جاتا تھا، پھر یہ لاہور کے فنکشنوں کی جان بنتا چلا گیا، اس کے موسیقی کے شوق کو نامور موسیقار رشید عطرے کے صاحبزادے وجاہت عطرے اور رشید عطرے کے شاگرد ذوالفقار عطرے کی معاونت سے مزید ترقی ملی۔ اس نے کافی عرصہ لاہور کے الحمرا میں موسیقی کی کلاسیں بھی جوائن کیں اور اپنی گائیکی کے سفر کو آگے بڑھاتا رہا۔ 2009ء میں اسے امریکا کا ویزا مل گیا اور ظفر اقبال لاہور کو خیرباد کہہ کر امریکا کی ریاست نیویارک میں آکر بس گیا۔ یہاں مختلف کام کیے اور موسیقی کے شوق کو بھی پروان چڑھاتا رہا۔ یہ اس کے شوق کا جنون تھا کہ اسے ایک بنگالی لڑکی حمیرا کی محبت حاصل ہوگئی جو خود بنگالی گیت گاتی تھی۔
لاہور اور بنگال کی تہذیبوں کا خوبصورت ملاپ اس طرح ہوا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے شریک زندگی بن گئے۔ یہاں مجھے بنگال کے موسیقار مصلح الدین اور پنجاب کی گلوکارہ ناہید نیازی کی شادی یاد آگئی۔ ظفر اقبال اور حمیرا کی جوڑی نے نیویارک کی محفلوں کو اپنا دیوانہ بنالیا تھا۔ اب ظفر اقبال اردو، پنجابی کے ساتھ ساتھ رابندر ناتھ ٹیگور اور قاضی نذرالاسلام کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا کلام بھی گاتا تھا۔ ظفر اقبال کو اب اس کے چاہنے والوں نے نیویارکر کا خطاب بخش دیا تھا۔ نیویارک ہی میں اس کی ملاقات ہندوستان سے آئے ہوئے ایک نامور کلاسیکل سنگر غزل گائیک اور موسیقار استاد اقبال احمد خان سے ہوئی۔
استاد اقبال احمد خان موسیقی کے مشہور دہلی گھرانے کے نامور گائیک استاد چاند خان کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، یہ وہی استاد چاند خان تھے جن کے شاگردوں میں نامور غزل گائیک جگجیت سنگھ، استاد امراؤ بندوخان اور لیجنڈ گلوکارہ اقبال بانو بھی شامل رہی ہیں۔ ظفر اقبال نیویارکر ایک عرصے سے جس جوہری کی تلاش تھی وہ دہلی سے نیویارک آیا تو ظفر اقبال نے بھی استاد کی شاگردی اختیار کرلی اور اب ظفر اقبال کی گائیکی میں وہ تمام اسرار و رموز داخل ہوچکے تھے جو موسیقی اور گائیکی کی بنیاد ہوتے ہیں۔ ایک محفل میں استاد اقبال احمد خان نے ظفر اقبال کے بارے میں کہا تھا مجھے خوشی ہے کہ دہلی سے نیویارک تک جو میرے شاگرد ہیں ان میں ظفر اقبال بھی میرے نزدیک فن گائیکی کا ایک ہیرا ہے جو اپنی چمک سے لوگوں کے دل جیت لے گا۔ آج ظفر اقبال نیویارکر امریکا میں آواز کا جادوگر کہلایا جاتا ہے اور ہر محفل میں سراہا جاتا ہے۔
گلوکار ظفر اقبال نے امریکا میں انجینئرنگ کے ساتھ آئی ٹی کی ڈگری بھی لی اور گلوکاری میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔ کچھ عرصہ پہلے نیویارک میں بڑے پیمانے پر ایک اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں ہندوستان اور پاکستان سے بھی نامور ادیبوں اور شاعروں نے شرکت کی تھی، اس موقع پر نامور شاعر فیض احمد فیضؔ کی غزلوں پر مشتمل ظفر اقبال نیویارکر کی آواز میں ایک البم ریلیز کیا گیا تھا، جس کا چرچا اردو کانفرنس کے بعد امریکا کی تمام بڑی بڑی ریاستوں تک رہا تھا۔ ظفر اقبال گاہے گاہے پاکستان جاتا رہتا ہے اور وہاں جاکر بھی یہ اپنے میوزک البم بناتا ہے اور ریلیز کرتا ہے۔ لاہور میں اس کے کئی البم آچکے ہیں اور اس نے جن مشہور گلوکاراؤں کے ساتھ گیت گائے ہیں۔
ان میں گلوکارہ حمیرا چنا، سائرہ نسیم، شبنم مجید، صائمہ ممتاز اور صنم ماروی کے نام شامل ہیں۔ ظفر اقبال نیویارکر کے میوزک البم کے موسیقاروں میں لاہور کے نامور موسیقار ایم اشرف کے صاحبزادے، ایم ارشد کے ساتھ ساتھ موسیقار مجاہد حسین، ناصر حسین، اعجاز حسین جوزی، ساحر علی بگا اور موسیقار وجاہت عطرے کا نام خاص طور پر شامل ہے۔ سینئر شاعروں کے کلام کے ساتھ ''سخن ور'' کے نام سے غزلوں کا ایک البم پچھلے دنوں ریلیز کیا گیا تھا جس میں حضرت امیر خسرو کے کلام کے ساتھ شاعر ولی دکنی سے لے کر نئی نسل کے شاعر وصی شاہ کی غزلیں شامل ہیں۔ ''سخن ور'' کے علاوہ ایک اور حال ہی میں البم ''پیار کی خوشبو'' کے نام سے منظر عام پر آیا اور نیویارک کے موسیقی کے حلقوں میں بڑا پسند کیا گیا ہے۔
غزلوں کے ساتھ ظفر اقبال نیویارکر نے نعتیں، قوالیاں اور نوحے بھی گائے ہیں اور انھیں بھی سننے والوں میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ظفر اقبال نیویارکر ایک سریلا اور ورسٹائل سنگر ہے، اس گلوکار میں ایک لگن ہے، ایک جوش ہے اور ایسا جنون ہے جو اسے آگے بڑھائے چلا جا رہا ہے۔ جتنا کام اس نے نیویارک میں کیا ہے اتنا تو شاید ہی کسی لاہور اور کراچی کے نوجوان گلوکار نے کیا ہوگا۔
اکثر ریاستوں میں مشاعرے اور موسیقی کی محفلیں منعقد ہوتی رہتی ہیں، مقامی فنکاروں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے نامور فنکاروں کو بھی گاہے گاہے مدعو کیا جاتا رہتا ہے، جہاں موسیقی کی انجمنیں موجود ہیں وہاں مقامی فنکار بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، نہ صرف امریکا بلکہ کینیڈا میں بھی کئی ریکارڈنگ اسٹوڈیوز کام کر رہے ہیں، ریڈیو پر پروگرام پیش کیے جاتے رہتے ہیں۔
آج کے کالم میں اپنے قارئین کو ایک ایسے گلوکار سے متعارف کرا رہا ہوں جس نے بہت کم عرصے میں بحیثیت ایک گلوکار اپنی پہچان پیدا کی ہے اور امریکا کی تمام بڑی بڑی ریاستوں میں اپنے فن اور اپنی گائیکی کا لوہا منوا رہا ہے اور خاص طور پر نیویارک میں موسیقی کا کوئی پروگرام اس گلوکار کے بغیر نامکمل ہوتا ہے۔
اس گلوکار کا ویسے تو تعلق لاہور سے ہے مگر اب وہ نیویارک کی شناخت بن چکا ہے اور اس ریاست کے نام کی مناسب سے اس کا نام بھی ظفر اقبال نیویارکر مشہور ہے۔ اب تک اس کے پچیس کے قریب میوزک البم منظر عام پر آچکے ہیں اور ان سب کو امریکا کی ساری ریاستوں میں پذیرائی ملتی رہی ہے۔ یہ اب تک علامہ اقبال، فیض احمد فیضؔ، احمد فرازؔ، جون ایلیا اور امجد اسلام امجدؔ کے کلام کو خوبصورتی کے ساتھ گا چکا ہے اور اس کی گائی ہوئی سی ڈیز اور ویڈیوز مارکیٹ میں پھیلی ہوئی ہیں۔ گزشتہ دنوں ظفر اقبال نیویارکر سے نیویارک کے علاقے کوئینز اسٹوریا میں اس کے شاندار ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں ملاقات ہوئی تھی۔
ظفر اقبال نے لاہور کے علاقہ دھرم پورہ کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ موسیقی اس کے گھر میں شجر ممنوعہ تھی، مگر خود رو پودوں کی طرح آہستہ آہستہ اس کے دل میں بھی گلوکاری کے شوق نے جنم لیا، یہ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے گانے سن کر اپنے شوق کو پروان چڑھاتا رہا، اسکول میں اپنی سریلی آواز کی بدولت پسند کیا جانے لگا اور اسکول میں نظمیں اور ترانے گانے لگا۔
اسے فلمیں دیکھنے کا شوق تھا، پھر انڈین لیجنڈ گلوکار محمد رفیع کے گیت گانے لگا اور تصور میں خود کو اس کا شاگرد تسلیم کرتا تھا۔ گائیکی اس کا جنون بن گیا تھا۔ یہ راتوں کو چھپ چھپ کر گھر کی چھت پر جاکر ریاض کیا کرتا تھا، اور دن میں جب بھی موقع ملتا نہر کے کنارے چلا جایا کرتا تھا اور وہاں گھنٹوں ریاض کرتے ہوئے کھلی فضا میں رفیع کے گانے گایا کرتا تھا، اس کے دوستوں کی محفلوں میں اس سے محمد رفیع کے گانوں کی فرمائشیں ہوا کرتی تھیں اور محمد رفیع کا ایک گانا خاص طور پر اس کی گائیکی کا حصہ ہوا کرتا تھا اور اس گانے کے بول تھے:
او دنیا کے رکھوالے
سن درد بھرے میرے نالے
جس محفل میں یہ گیت سناتا اس محفل میں اسے بڑا سراہا جاتا تھا، پھر یہ لاہور کے فنکشنوں کی جان بنتا چلا گیا، اس کے موسیقی کے شوق کو نامور موسیقار رشید عطرے کے صاحبزادے وجاہت عطرے اور رشید عطرے کے شاگرد ذوالفقار عطرے کی معاونت سے مزید ترقی ملی۔ اس نے کافی عرصہ لاہور کے الحمرا میں موسیقی کی کلاسیں بھی جوائن کیں اور اپنی گائیکی کے سفر کو آگے بڑھاتا رہا۔ 2009ء میں اسے امریکا کا ویزا مل گیا اور ظفر اقبال لاہور کو خیرباد کہہ کر امریکا کی ریاست نیویارک میں آکر بس گیا۔ یہاں مختلف کام کیے اور موسیقی کے شوق کو بھی پروان چڑھاتا رہا۔ یہ اس کے شوق کا جنون تھا کہ اسے ایک بنگالی لڑکی حمیرا کی محبت حاصل ہوگئی جو خود بنگالی گیت گاتی تھی۔
لاہور اور بنگال کی تہذیبوں کا خوبصورت ملاپ اس طرح ہوا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے شریک زندگی بن گئے۔ یہاں مجھے بنگال کے موسیقار مصلح الدین اور پنجاب کی گلوکارہ ناہید نیازی کی شادی یاد آگئی۔ ظفر اقبال اور حمیرا کی جوڑی نے نیویارک کی محفلوں کو اپنا دیوانہ بنالیا تھا۔ اب ظفر اقبال اردو، پنجابی کے ساتھ ساتھ رابندر ناتھ ٹیگور اور قاضی نذرالاسلام کو بھی خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کا کلام بھی گاتا تھا۔ ظفر اقبال کو اب اس کے چاہنے والوں نے نیویارکر کا خطاب بخش دیا تھا۔ نیویارک ہی میں اس کی ملاقات ہندوستان سے آئے ہوئے ایک نامور کلاسیکل سنگر غزل گائیک اور موسیقار استاد اقبال احمد خان سے ہوئی۔
استاد اقبال احمد خان موسیقی کے مشہور دہلی گھرانے کے نامور گائیک استاد چاند خان کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے، یہ وہی استاد چاند خان تھے جن کے شاگردوں میں نامور غزل گائیک جگجیت سنگھ، استاد امراؤ بندوخان اور لیجنڈ گلوکارہ اقبال بانو بھی شامل رہی ہیں۔ ظفر اقبال نیویارکر ایک عرصے سے جس جوہری کی تلاش تھی وہ دہلی سے نیویارک آیا تو ظفر اقبال نے بھی استاد کی شاگردی اختیار کرلی اور اب ظفر اقبال کی گائیکی میں وہ تمام اسرار و رموز داخل ہوچکے تھے جو موسیقی اور گائیکی کی بنیاد ہوتے ہیں۔ ایک محفل میں استاد اقبال احمد خان نے ظفر اقبال کے بارے میں کہا تھا مجھے خوشی ہے کہ دہلی سے نیویارک تک جو میرے شاگرد ہیں ان میں ظفر اقبال بھی میرے نزدیک فن گائیکی کا ایک ہیرا ہے جو اپنی چمک سے لوگوں کے دل جیت لے گا۔ آج ظفر اقبال نیویارکر امریکا میں آواز کا جادوگر کہلایا جاتا ہے اور ہر محفل میں سراہا جاتا ہے۔
گلوکار ظفر اقبال نے امریکا میں انجینئرنگ کے ساتھ آئی ٹی کی ڈگری بھی لی اور گلوکاری میں بھی نمایاں مقام حاصل کیا۔ کچھ عرصہ پہلے نیویارک میں بڑے پیمانے پر ایک اردو کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں ہندوستان اور پاکستان سے بھی نامور ادیبوں اور شاعروں نے شرکت کی تھی، اس موقع پر نامور شاعر فیض احمد فیضؔ کی غزلوں پر مشتمل ظفر اقبال نیویارکر کی آواز میں ایک البم ریلیز کیا گیا تھا، جس کا چرچا اردو کانفرنس کے بعد امریکا کی تمام بڑی بڑی ریاستوں تک رہا تھا۔ ظفر اقبال گاہے گاہے پاکستان جاتا رہتا ہے اور وہاں جاکر بھی یہ اپنے میوزک البم بناتا ہے اور ریلیز کرتا ہے۔ لاہور میں اس کے کئی البم آچکے ہیں اور اس نے جن مشہور گلوکاراؤں کے ساتھ گیت گائے ہیں۔
ان میں گلوکارہ حمیرا چنا، سائرہ نسیم، شبنم مجید، صائمہ ممتاز اور صنم ماروی کے نام شامل ہیں۔ ظفر اقبال نیویارکر کے میوزک البم کے موسیقاروں میں لاہور کے نامور موسیقار ایم اشرف کے صاحبزادے، ایم ارشد کے ساتھ ساتھ موسیقار مجاہد حسین، ناصر حسین، اعجاز حسین جوزی، ساحر علی بگا اور موسیقار وجاہت عطرے کا نام خاص طور پر شامل ہے۔ سینئر شاعروں کے کلام کے ساتھ ''سخن ور'' کے نام سے غزلوں کا ایک البم پچھلے دنوں ریلیز کیا گیا تھا جس میں حضرت امیر خسرو کے کلام کے ساتھ شاعر ولی دکنی سے لے کر نئی نسل کے شاعر وصی شاہ کی غزلیں شامل ہیں۔ ''سخن ور'' کے علاوہ ایک اور حال ہی میں البم ''پیار کی خوشبو'' کے نام سے منظر عام پر آیا اور نیویارک کے موسیقی کے حلقوں میں بڑا پسند کیا گیا ہے۔
غزلوں کے ساتھ ظفر اقبال نیویارکر نے نعتیں، قوالیاں اور نوحے بھی گائے ہیں اور انھیں بھی سننے والوں میں بڑی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ ظفر اقبال نیویارکر ایک سریلا اور ورسٹائل سنگر ہے، اس گلوکار میں ایک لگن ہے، ایک جوش ہے اور ایسا جنون ہے جو اسے آگے بڑھائے چلا جا رہا ہے۔ جتنا کام اس نے نیویارک میں کیا ہے اتنا تو شاید ہی کسی لاہور اور کراچی کے نوجوان گلوکار نے کیا ہوگا۔