آسام کے بنگالی مسلمان اور مودی سرکار
بھارت میں آسام کا مسئلہ نیا نہیں۔ یہاں کی تاریخ بنگالیوں کی شہریت کی سیاست پر خون سے رنگی ہوئی ہے۔
بھارت نے آسام میں کئی دہائیوں سے بسنے والے چار ملین بنگالیوں کی شہریت تسلیم نہ کرنے کے معاملے کو اپنا داخلی معاملہ قرار دے دیا ہے۔ جب وقت کی دہلیز پر کسی نئے انسانی المیے کی چاپ سنائی دے رہی ہو تو اس بودے جواز کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا میں بے گھر و بے وطن افراد کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد میں بھارت نے اپنا حصہ ڈال کر ایک بار پھر اپنا مکروہ چہرہ خود بے نقاب کردیا ہے۔
بھارتی دہرے معیار کا تو کیا کہنا؟ ایک طرف تمام عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیر کو طاقت کے زور پر اپنے اندر ضم کرنے کے لیے بے تاب ہے تو دوسری طرف برسوں سے بھارت میں بسنے والے بنگالیوں کی شہریت مشکوک قرار دے کر انھیں نکالنے پر مصر ہے۔
بھارت میں آسام کا مسئلہ نیا نہیں۔ یہاں کی تاریخ بنگالیوں کی شہریت کی سیاست پر خون سے رنگی ہوئی ہے۔ آسام کو غیرملکیوں کے وجود سے ''پاک'' کرنے کی یہ تحریک 1979ء میں ایک طلبا تنظیم ''آسو'' نے شروع کی تھی۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہوں کا خون بہا۔ کتنے ہی بدنصیب بنگالی مسلمان بھارت نہ چھوڑنے کے جرم میں دنیا سے جلا وطن کردیے گئے۔ یہ خونیں تحریک کئی سال چلی، جس میں شامل بہت سے چہرے ''اچھی کارکردگی'' کا مظاہرہ کرنے پر بعد میں آسام کی سیاست میں مرکزی کردار بھی ادا کرتے رہے۔
14 اگست 1985ء کو اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی اور آسو کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کا مقصد 1971ء کے بعد بھارت میں داخل ہونے والے بنگالیوں کو بے دخل کرنا تھا، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے، لیکن بھارتی دہرے معیار کے بدلتے ہوئے رنگوں کے نتیجے میں رفتہ رفتہ ہندو بنگالی تو بھارت میں چین سے رہنے کے قابل قرار پائے، ساری تان آکر ٹوٹی بنگالی مسلمانوں اور دلت ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں پر۔ ان کو در انداز قرار دے کر جلد از جلد جان چھڑانے کے دعوے اور وعدے کیے گئے۔
آسام میں 1957ء میں پہلی بار این آر سی (نیشنل رجسٹر فار سٹیزن) بنایا گیا۔ بھارت میں آسام وہ واحد ریاست ہے جہاں این آر سی موجود ہے۔ اس کا ماضی میں بھی ہمیشہ غلط استعمال کیا جاتا رہا۔ اب بھی مسلمانوں کے خلاف انتقامی سیاست کا سورج چمکانے کے لیے اس پنڈورا بکس کو 2015ء میں بھارتی سپریم کورٹ کے حکم پر کھولا گیا ہے۔ اس رجسٹر کے تحت صرف انھی لوگوں کو ریاست کا شہری تسلیم کیا جائے گا جو 29 مارچ 1971ء کی نصف شب تک ریاست میں داخل ہوئے ہوں۔ اب بھارتی عدالت عظمیٰ کے جاری کردہ نئے حکم نامے پر عمل کرتے ہوئے، لاکھوں سرکاری ملازمین اور بارہ سو کروڑ روپوں کو اس غیرانسانی فعل کی تکمیل کے لیے جھونکا جاچکا ہے۔
ہندوستانی اخبارات لکھتے ہیں کہ این آر سی کے تحت جمع کی جانے والی دستاویزات کی تعداد اتنی تھی کہ انھیں باآسانی پانچ سو ٹرکوں پر لادا جاسکتا تھا۔ اتنی لاگت سے تیار کردہ این آر سی میں اتنے سقم موجود ہیں کہ اگر اس پر عمل ہوتا ہے تو ایک ہی خاندان کے افراد ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجائیں گے۔ اگرچہ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ شہریت کی اس جانچ پڑتال میں کمال مہارت اور احتیاط سے کام لیا گیا ہے، لیکن بھارت سرکار کے جھوٹ کا پول وہ روتے بلکتے بنگال نژاد آسامی کھول رہے ہیں ۔
جن کے مطابق این آر سی میں ایک ہی گھرانے کے بعض افراد کا نام تو شامل ہے لیکن بعض کا نہیں۔ کہیں والدین کو بھارت کا شہری تسلیم کرکے ان کے بچوں کو رد کردیا گیا، کہیں بچوں کو تسلیم کیا گیا اور والدین کو ماننے سے انکار کر دیا گیا۔ اور کہیں تو حد ہی ہوگئی کہ ایک ہی ماں باپ کے کچھ بچوں کا اندراج کر لیا گیا اور کچھ کو شہریت کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ اتنی ناانصافی سے مرتب کی ہوئی ان فہرستوں کا احوال پڑھتے ہوئے میرے تصور میں امریکا کی سرحد پر میکسیکو کے خاندانوں کی علیحدگی، بچوں کی چیخ و پکار اور ان کے والدین کی آہ و بکا کے مناظر گھومنے لگے اور مجھے یقین ہوچلا کہ اس دنیا کے غم کبھی کم نہیں ہوں گے۔
اس وقت آسام میں افراتفری کا ماحول ہے۔ چالیس لاکھ لوگ اپنی شہریت تسلیم کروانے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نزدیک ان غم کے ماروں کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ اسے صرف ووٹ بینک کے کھیل سے مطلب ہے۔ ویسے تو پوری دنیا کی سیاست ہی اخلاقی اقدار سے عاری ہوتی جا رہی ہے لیکن بھارتی سیاستی ہتھکنڈوں کو دیکھ کر تو گھِن آتی ہے۔
اس وقت پورے بھارت میں آسام کے معاملے پر معاشرتی انتشار اور سیاسی بے چینی موجود ہے۔ بی جے پی کی طرف سے اگر ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ ان چالیس لاکھ بنگالیوں کو جلا وطن نہیں کیا جائے گا تو دوسری جانب حکمراں طبقہ دھمکی آمیز لہجے اور سخت بیانات سے بھی گریز نہیں کررہا، جس کے نتیجے میں آسام کے مسلمانوں میں سخت خوف و ہراس ہے۔ فضا میں چاروں طرف سے کسی بڑے خطرے کی بو محسوس کی جا رہی ہے۔ آسام کی حکومت نے بھی اس خطرے کی بو سونگھتے ہوئے ریاست میں اضافی سیکیورٹی تعینات کردی ہے۔
2019ء کے عام انتخابات میں فتحیاب ہونے کے لیے بی جے پی اپنی روایت کے مطابق مسلمانوں پر ہر طرح کے ظلم توڑنے کا پرانا ہتھکنڈا آزما رہی ہے۔ بھارت میں بی جے پی نے ہمیشہ مسلمانوں کے خون سے ''دیش'' کی سڑکیں رنگ کر اپنا ووٹ بینک بڑھایا ہے۔ کہانی اس بار بھی مختلف نہیں۔ انتقامی سیاست کے اس کھیل میں جانے کیوں بھارت آج تک تھکا نہیں۔ 2014ء کی انتخابی مہم میں بی جے پی نے آسام کو غیرملکیوں کے وجود سے ''پاک'' کرنے کا وعدہ کیا تھا، جسے وفا کرنے کا اس سے بہترین وقت اور کون سا ہوسکتا ہے کہ اگلا الیکشن فقط ایک سال کی دوری پر ہے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی 2016ء میں آسام میں شروع کی جانے والی ڈیلیٹ، ڈی ٹیکٹ اور ڈی پورٹ مہم تھی، جس کی وضاحت آسام کے وزیرخزانہ نے واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے یوں کی تھی ''آسام میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ، جب کہ ہندوؤں کی گھٹ رہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو ہمیں ڈر ہے کہ ہندو اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوجائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو ہم اپنی زبان، ثقافت اور شناخت سے محروم ہوجائیں گے۔'' میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ اگر بھارت کو اپنی شناخت کے تحفظ کی اتنی ہی فکر لاحق تھی تو بنگلادیش سے ملحق آسام کے طویل بارڈر کو ایک عرصہ تک نظرانداز کیوں کیے رکھا؟ پاکستان سے ملحق بھارتی سرحد اور مقبوضہ کشمیر سے کچھ فوج کم کرکے وہاں بھی تعینات کردیتے تو آج اس کانٹا چھانٹی میں بھارت کی اتنی توانائیاں صرف ہورہی ہوتیں اور نہ ہی مظلوم بنگالی مسلمان یوں بے اماں ہوتے۔
بھارتی سیاست کے کھیل میں، سب سے بڑا مسئلہ بنگالیوں کے مستقبل کا ہے۔ بنگلادیش کی حکومت نے بھی انھیں اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ان چالیس لاکھ انسانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ بے چارے اپنا کاروبار زندگی داؤ پر لگا کر خود کو بھارتی شہری تسلیم کروانے کے لیے در در کی خاک چھان رہے ہیں۔ کیا ان کو شناخت مل پائے گی؟ یہ کسی ریوڑ کی طرح آسام کی سرحد سے دور ہنکا دیے جائیں گے؟ یا بھارتی جیلوں میں عبرت کا نشان بنادیے جائیں گے؟ ان سب سوالات سے بڑھ کر ایک سوال اور بھی ہے اور وہ یہ کہ کیا مثالی جمہوریت کہلائی جانے والی بھارتی ریاست میں کئی دہائیوں سے آباد شہریوں کے ساتھ ہونے والا یہ ظلم انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آئے گا؟ بھارت کب تک غیرجمہوری طریقوں سے اپنی ''جمہوری اقدار'' کا تحفظ کرتا رہے گا؟ اگر بھارت کی اس جارحیت کو روکا نہ گیا تو آسام کے بعد نسلی صفائی کی اس مہم کا اگلا ہدف مغربی بنگال ہوگا۔
بھارتی دہرے معیار کا تو کیا کہنا؟ ایک طرف تمام عالمی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کشمیر کو طاقت کے زور پر اپنے اندر ضم کرنے کے لیے بے تاب ہے تو دوسری طرف برسوں سے بھارت میں بسنے والے بنگالیوں کی شہریت مشکوک قرار دے کر انھیں نکالنے پر مصر ہے۔
بھارت میں آسام کا مسئلہ نیا نہیں۔ یہاں کی تاریخ بنگالیوں کی شہریت کی سیاست پر خون سے رنگی ہوئی ہے۔ آسام کو غیرملکیوں کے وجود سے ''پاک'' کرنے کی یہ تحریک 1979ء میں ایک طلبا تنظیم ''آسو'' نے شروع کی تھی۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہوں کا خون بہا۔ کتنے ہی بدنصیب بنگالی مسلمان بھارت نہ چھوڑنے کے جرم میں دنیا سے جلا وطن کردیے گئے۔ یہ خونیں تحریک کئی سال چلی، جس میں شامل بہت سے چہرے ''اچھی کارکردگی'' کا مظاہرہ کرنے پر بعد میں آسام کی سیاست میں مرکزی کردار بھی ادا کرتے رہے۔
14 اگست 1985ء کو اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی اور آسو کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کا مقصد 1971ء کے بعد بھارت میں داخل ہونے والے بنگالیوں کو بے دخل کرنا تھا، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے، لیکن بھارتی دہرے معیار کے بدلتے ہوئے رنگوں کے نتیجے میں رفتہ رفتہ ہندو بنگالی تو بھارت میں چین سے رہنے کے قابل قرار پائے، ساری تان آکر ٹوٹی بنگالی مسلمانوں اور دلت ذات سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں پر۔ ان کو در انداز قرار دے کر جلد از جلد جان چھڑانے کے دعوے اور وعدے کیے گئے۔
آسام میں 1957ء میں پہلی بار این آر سی (نیشنل رجسٹر فار سٹیزن) بنایا گیا۔ بھارت میں آسام وہ واحد ریاست ہے جہاں این آر سی موجود ہے۔ اس کا ماضی میں بھی ہمیشہ غلط استعمال کیا جاتا رہا۔ اب بھی مسلمانوں کے خلاف انتقامی سیاست کا سورج چمکانے کے لیے اس پنڈورا بکس کو 2015ء میں بھارتی سپریم کورٹ کے حکم پر کھولا گیا ہے۔ اس رجسٹر کے تحت صرف انھی لوگوں کو ریاست کا شہری تسلیم کیا جائے گا جو 29 مارچ 1971ء کی نصف شب تک ریاست میں داخل ہوئے ہوں۔ اب بھارتی عدالت عظمیٰ کے جاری کردہ نئے حکم نامے پر عمل کرتے ہوئے، لاکھوں سرکاری ملازمین اور بارہ سو کروڑ روپوں کو اس غیرانسانی فعل کی تکمیل کے لیے جھونکا جاچکا ہے۔
ہندوستانی اخبارات لکھتے ہیں کہ این آر سی کے تحت جمع کی جانے والی دستاویزات کی تعداد اتنی تھی کہ انھیں باآسانی پانچ سو ٹرکوں پر لادا جاسکتا تھا۔ اتنی لاگت سے تیار کردہ این آر سی میں اتنے سقم موجود ہیں کہ اگر اس پر عمل ہوتا ہے تو ایک ہی خاندان کے افراد ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوجائیں گے۔ اگرچہ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ شہریت کی اس جانچ پڑتال میں کمال مہارت اور احتیاط سے کام لیا گیا ہے، لیکن بھارت سرکار کے جھوٹ کا پول وہ روتے بلکتے بنگال نژاد آسامی کھول رہے ہیں ۔
جن کے مطابق این آر سی میں ایک ہی گھرانے کے بعض افراد کا نام تو شامل ہے لیکن بعض کا نہیں۔ کہیں والدین کو بھارت کا شہری تسلیم کرکے ان کے بچوں کو رد کردیا گیا، کہیں بچوں کو تسلیم کیا گیا اور والدین کو ماننے سے انکار کر دیا گیا۔ اور کہیں تو حد ہی ہوگئی کہ ایک ہی ماں باپ کے کچھ بچوں کا اندراج کر لیا گیا اور کچھ کو شہریت کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ اتنی ناانصافی سے مرتب کی ہوئی ان فہرستوں کا احوال پڑھتے ہوئے میرے تصور میں امریکا کی سرحد پر میکسیکو کے خاندانوں کی علیحدگی، بچوں کی چیخ و پکار اور ان کے والدین کی آہ و بکا کے مناظر گھومنے لگے اور مجھے یقین ہوچلا کہ اس دنیا کے غم کبھی کم نہیں ہوں گے۔
اس وقت آسام میں افراتفری کا ماحول ہے۔ چالیس لاکھ لوگ اپنی شہریت تسلیم کروانے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نزدیک ان غم کے ماروں کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ اسے صرف ووٹ بینک کے کھیل سے مطلب ہے۔ ویسے تو پوری دنیا کی سیاست ہی اخلاقی اقدار سے عاری ہوتی جا رہی ہے لیکن بھارتی سیاستی ہتھکنڈوں کو دیکھ کر تو گھِن آتی ہے۔
اس وقت پورے بھارت میں آسام کے معاملے پر معاشرتی انتشار اور سیاسی بے چینی موجود ہے۔ بی جے پی کی طرف سے اگر ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ ان چالیس لاکھ بنگالیوں کو جلا وطن نہیں کیا جائے گا تو دوسری جانب حکمراں طبقہ دھمکی آمیز لہجے اور سخت بیانات سے بھی گریز نہیں کررہا، جس کے نتیجے میں آسام کے مسلمانوں میں سخت خوف و ہراس ہے۔ فضا میں چاروں طرف سے کسی بڑے خطرے کی بو محسوس کی جا رہی ہے۔ آسام کی حکومت نے بھی اس خطرے کی بو سونگھتے ہوئے ریاست میں اضافی سیکیورٹی تعینات کردی ہے۔
2019ء کے عام انتخابات میں فتحیاب ہونے کے لیے بی جے پی اپنی روایت کے مطابق مسلمانوں پر ہر طرح کے ظلم توڑنے کا پرانا ہتھکنڈا آزما رہی ہے۔ بھارت میں بی جے پی نے ہمیشہ مسلمانوں کے خون سے ''دیش'' کی سڑکیں رنگ کر اپنا ووٹ بینک بڑھایا ہے۔ کہانی اس بار بھی مختلف نہیں۔ انتقامی سیاست کے اس کھیل میں جانے کیوں بھارت آج تک تھکا نہیں۔ 2014ء کی انتخابی مہم میں بی جے پی نے آسام کو غیرملکیوں کے وجود سے ''پاک'' کرنے کا وعدہ کیا تھا، جسے وفا کرنے کا اس سے بہترین وقت اور کون سا ہوسکتا ہے کہ اگلا الیکشن فقط ایک سال کی دوری پر ہے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی 2016ء میں آسام میں شروع کی جانے والی ڈیلیٹ، ڈی ٹیکٹ اور ڈی پورٹ مہم تھی، جس کی وضاحت آسام کے وزیرخزانہ نے واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے یوں کی تھی ''آسام میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھ، جب کہ ہندوؤں کی گھٹ رہی ہے۔ اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو ہمیں ڈر ہے کہ ہندو اکثریت اقلیت میں تبدیل ہوجائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو ہم اپنی زبان، ثقافت اور شناخت سے محروم ہوجائیں گے۔'' میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ اگر بھارت کو اپنی شناخت کے تحفظ کی اتنی ہی فکر لاحق تھی تو بنگلادیش سے ملحق آسام کے طویل بارڈر کو ایک عرصہ تک نظرانداز کیوں کیے رکھا؟ پاکستان سے ملحق بھارتی سرحد اور مقبوضہ کشمیر سے کچھ فوج کم کرکے وہاں بھی تعینات کردیتے تو آج اس کانٹا چھانٹی میں بھارت کی اتنی توانائیاں صرف ہورہی ہوتیں اور نہ ہی مظلوم بنگالی مسلمان یوں بے اماں ہوتے۔
بھارتی سیاست کے کھیل میں، سب سے بڑا مسئلہ بنگالیوں کے مستقبل کا ہے۔ بنگلادیش کی حکومت نے بھی انھیں اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ان چالیس لاکھ انسانوں کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ بے چارے اپنا کاروبار زندگی داؤ پر لگا کر خود کو بھارتی شہری تسلیم کروانے کے لیے در در کی خاک چھان رہے ہیں۔ کیا ان کو شناخت مل پائے گی؟ یہ کسی ریوڑ کی طرح آسام کی سرحد سے دور ہنکا دیے جائیں گے؟ یا بھارتی جیلوں میں عبرت کا نشان بنادیے جائیں گے؟ ان سب سوالات سے بڑھ کر ایک سوال اور بھی ہے اور وہ یہ کہ کیا مثالی جمہوریت کہلائی جانے والی بھارتی ریاست میں کئی دہائیوں سے آباد شہریوں کے ساتھ ہونے والا یہ ظلم انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کے زمرے میں نہیں آئے گا؟ بھارت کب تک غیرجمہوری طریقوں سے اپنی ''جمہوری اقدار'' کا تحفظ کرتا رہے گا؟ اگر بھارت کی اس جارحیت کو روکا نہ گیا تو آسام کے بعد نسلی صفائی کی اس مہم کا اگلا ہدف مغربی بنگال ہوگا۔