پی پی کے مخالفین نے برتری ثابت کردی

امتیاز شیخ نے آبائی حلقے سے پہلی بار کامیابی سمیٹی

امتیاز شیخ نے آبائی حلقے سے پہلی بار کامیابی سمیٹی۔ فوٹو : فائل

ماضی میں شکارپور کو پیپلز پارٹی کا گڑھ کہا جاتا تھا، لیکن آج صورت حال کچھ اس کے برعکس رہی۔

وقت اور حالات کے بنا پر ضلع شکارپور میں پیپلز پارٹی کے خلاف سیاسی طور پر جتوئی اتحاد کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جس کی بنا پر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو کئی نشستوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہی وجوہات ہے کہ 11مئی کو عام انتخابات میں ضلع شکارپور کے دو قومی اور چار صوبائی نشستوں پر پیپلز پارٹی کو 10 جماعتی اتحاد کے امیدواروں کے سامنے مقابلے کا سامنا کرنا پڑا اور ضلع کے دو قومی اور چار صوبائی نشستوں میں سے صرف دو صوبائی نشستیں ہی پیپلزپارٹی کومل سکیں۔

این اے 202 پر نیشنل پیپلز پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر محمد ابراہیم جتوئی نے پیپلز پارٹی کے آفتاب شعبان میرانی کو شکست دی۔ این اے 203 پر فنکشنل لیگ کے الحاج غوث بخش خان مہر نے پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار واحد بخش بھیو پر سبقت حاصل کی۔ پی ایس 9 گڑھی یاسین پر پیپلز پارٹی کے امیدوار آغا سراج خان درانی نے فنکشنل لیگ کے ذوالفقار کماریو کو ہرایا۔ پی ایس 10پر ف لیگ نے پیپلزپارٹی کو شکست سے دوچار کیا۔

پی ایس 11سے فنکشنل کے امتیاز شیخ نے پی پی کے آغا تیمور خان پٹھان کو، پی ایس 12 سے پیپلز پارٹی کے امیدوار میر بابل خان بھیو نے این پی پی امیدوار کو چت کیا۔ میر بابل خان بھیو سرداری گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، شہید میر الطاف حسین بھیو کے بڑے بیٹے ہیں۔ میر بابل خان بھیو پہلی مرتبہ رکن اسمبلی

منتخب ہوئے ہیں۔ میر اللہ ڈنو عرف میر بابل خان بھیو کے والد شہید الطاف خان بھیو کی سیاسی وابستگی پیپلز پارٹی سے تھی۔ وہ قبائلی تنازع میں نشانہ بن گئے۔


دوسری جانب این اے 203 پر بھاری اکثریت سے کام یاب ہونے والے الحاج غوث بخش خان مہر نے اپنی سیاست کا آغاز لوکل باڈیز سے کیا۔ 1985ء سے آج تک وہ صوبائی اور قومی اسمبلی رکن منتخب ہوتے آئے ہیں۔ وفاقی وزیر، صوبائی وزیر بھی منتخب ہو چکے ہیں، شکارپور کے پی ایس 11 پر کام یاب فنکشنل لیگی امیدوار امتیاز شیخ اپنے آبائی حلقے سے پہلی مرتبہ بھاری اکثریت سے کام یاب ہوئے ہیں۔

امتیاز شیخ نے 2002ء کے انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار آغا تیمور سے سخت مقابلہ کیا تھا تاہم کام یاب نہ ہوسکے تھے۔ اس سے قبل ضمنی انتخابات میں اغا تیمور خان پٹھان اور مقبول شیخ کے درمیان مقابلہ ہوا تھا، جس پر آغا تیمور پٹھان کامیاب ہوئے تھے۔ امتیاز شیخ پہلی مرتبہ کشمور سے ممبر صوبائی منتخب ہوئے تھے، بعد میں انہوں نے فنکشنل لیگ میں شمولیت کی، سابق وزیر اعلا سید قائم علی شاہ کی حکومت میں مشیر رہے۔

امتیاز احمد شیخ نے شکارپور کے عوام کو ماسٹر ڈریننج اسکیم اور شاہ لطیف یونیورسٹی کیمپ کے قیام کا تحفہ دیا۔ اس کے علاوہ علاقے کے مختلف دیہاتوں میں بجلی کے ٹرانسفارمر لگوانے، سڑکیں بنوانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

ہزاروں بے روزگار نوجوانوں کو نوکریوں سے نوازا۔ امتیاز شیخ نے انتخابات سے قبل ہی تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔ امتیاز شیخ اور ان کے بیٹے فراز شیخ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے شکارپور کے عوام نے خصوصی طور پر نوجوان قیادت نے بھاری اکثریت سے کام یاب کرایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کامیاب ہونے کے بعد امتیاز شیخ نے جو منشور پیش کیا تھا اور حلقے کے عوام کی خدمت کس طریقے سے کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ 2008ء کے انتخابات میں عوام نے پی پی کے امیدوار آغا تیمور پٹھان کو بھاری اکثریت سے کام یاب کروایا تھا۔ آغا تیمور صوبائی وزیر بھی رہے۔ 2010ء کے سیلاب اور 2012ء میں طوفانی بارش کی تباہی کے بعد ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر تھی، جس کی وجہ سے عوام نے ان سے مایوسی کا اظہار کیا۔

البتہ آغا سراج درانی اپنے حلقے سے ہمیشہ کام یاب ہوتے آئے ہیں، وزارت کے دوران حلقے کے علاوہ شکارپور کے عوام کو بھی نوکریوں سے نوازا، حلقے کے اندر انہوں نے ترقیاتی کام کرائے، جب کہ انہوں نے گڑھی یاسین شہر میں گرڈ اسٹیشن بنوا کر حلقے کے عوام کو بجلی کی سہولیات فراہم کی۔ یہی وجہ ہے کہ آغا سراج درانی بھی اپنی کارکردگی کی بناء پر اس مرتبہ بھی کام یاب ہوئے۔
Load Next Story