وزارت اعلیٰ کا تاج کس کے سر سجے گا

اکلوتی نشست جیتنے والی مجلس وحدت مسلمین نے بھی مسلم لیگ(ن)کی حمایت کردی.

اکلوتی نشست جیتنے والی مجلس وحدت مسلمین نے بھی مسلم لیگ(ن)کی حمایت کردی. فوٹو: این این آئی

بلوچستان میں حکومت سازی کے حوالے سے کافی جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے۔

جبکہ آزاد نومنتخب اراکین اسمبلی کی اکثریت کاجھکاؤمسلم لیگ (ن)کی طرف رہا، اسی طرح اکلوتی نشست جیتنے والی مجلس وحدت مسلمین نے بھی مسلم لیگ(ن)کی حمایت کردی جبکہ جاموٹ قومی موومنٹ کے واحد منتخب رکن صوبائی اسمبلی نے اپنی جماعت کو مسلم لیگ(ن)میں ضم کردیا۔ بلوچستان میں حکومت سازی کے حوالے سے مسلم لیگ(ن)، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے درمیان گوکہ فارمولاتوطے پاگیاہے تاہم وزارت اعلیٰ کا منصب جوکہ مسلم لیگ(ن)کے حصے میں آنا ہے وہ کسے ملتا ہے یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔

بلوچستان میں حکومت سازی کے حوالے سے شہباز شریف کو بھی گزشتہ دنوں چوہدری نثار، پرویز رشید اور ایازصادق کے ہمراہ کوئٹہ کا مختصر دورہ کرنا پڑا جہاں انہوں نے پشتونخواملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے الگ الگ ملاقاتیں کیں اور بلوچستان میں حکومت سازی کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا، بعدازاں انہوں نے پارٹی کے پارلیمانی گروپ سے بھی ملاقات کی۔ بلوچستان میں مسلم لیگ(ق)نے پہل کرتے ہوئے اپنے چارنومنتخب اراکین صوبائی اسمبلی کے ہمراہ مسلم لیگ(ن)کی حمایت کردی۔

جبکہ ان کی دیکھا دیکھی عوامی نیشنل پارٹی کے واحد رکن نے بھی مسلم لیگ(ن)کی حمایت کا فیصلہ کرلیا۔ مسلم لیگ(ق)کے صوبائی جنرل سیکرٹری اورسابقہ دور کے وزیر خزانہ میر عاصم کردگیلو جوکہ آزادحیثیت سے کامیاب ہوکرآئے تھے انہوں نے بھی اپنی سیاسی وابستگی (ق) لیگ سے ختم کر کے مسلم لیگ(ن)سے جوڑ لی ہے اور انہوں نے باقاعدہ مسلم لیگ(ن)میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

اس وقت صوبے میں حکومت سازی کے حوالے سے نواب ثناء اﷲ زہری جوکہ مسلم لیگ (ن)کے صوبائی صدر اور حال ہی میں پارلیمانی گروپ کے اجلاس میں پارلیمانی لیڈر منتخب ہوچکے ہیں کی کوشش ہے کہ وہ صوبے میں اپنی حکومت بناسکیں تاہم انہیں پارٹی کے اندر سے بھی مخالفت کا سامنا ہے، جبکہ پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کو ان کے حوالے سے بعض تحفظات ہیں۔ بعض آزادسیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ نیشنل پارٹی کی بھی یہ کوشش ہے کہ وہ وزار ت اعلیٰ کیلئے اپنے امیدوارڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کوسامنے لائے ۔


جس کیلئے نیشنل پارٹی کے مرکزی سینئرنائب صدر اورسینیٹرمیرحاصل خان بزنجو 'جن کے مرکزی سطح پر میاں محمد نوازشریف سے اچھے تعلقات ہیں' کوشاں ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ میر حاصل خان بزنجوکاجب سینٹ کیلئے انتخاب ہورہاتھا تو اس وقت ان کیلئے جدوجہد اورکوششیں کرنے والوں میں نواب ثناء اﷲ زہری پیش پیش تھے اورنواب ثناء اﷲ زہری کی ہی کوششوں سے میر حاصل خان بزنجوسینٹ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تاہم آج میرحاصل خان بزنجواوران کی جماعت نواب ثناء اﷲ زہری کے حوالے سے تحفظات رکھتی ہے۔

کیوں رکھتی ہے؟ یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ مسلم لیگ(ن)کے مرکزی رہنماء نوابزادہ جنگیزمری بھی وزارت اعلیٰ کی دوڑ میں شامل ہیں اوربعض اطراف سے ان کیلئے لابنگ کی جارہی ہے۔ مسلم لیگ(ن)کی طرف سے دواہم امیدوار جنہوں نے حال ہی میںمسلم لیگ جوائن کی ہے، الیکشن سے قبل میر جان محمد جمالی اورالیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنی نشست کے ساتھ آزاد رکن صوبائی اسمبلی سردار صالح بھوتانی بھی اس دوڑ میں کہیں نہ کہیں نظرآرہے ہیں۔ بعض سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ آگے چل کرکہیں حالات ایسارخ اختیارنہ کرجائیں کہ ان دونوںشخصیات میں سے کسی ایک کے سرپروزارت اعلیٰ کا''ہما''بیٹھ جائے۔

مسلم لیگ(ن)کی مرکزی قیادت نے صوبے میں حکومت سازی کے حوالے سے اور وزارت اعلیٰ کیلئے مشاورت کرنے اورشہباز شریف کی رپورٹ کو مد نظررکھ کر فیصلہ کرنے کیلئے پارٹی کے پارلیمانی گروپ کولاہور بُلا لیا ہے جہاںمشاورت کے بعد آئندہ چند روز میں حتمی فیصلے سے آگاہ کردیاجائے گا۔ دوسری جانب پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اورنیشنل پارٹی کی یہ کوشش ہے کہ بلوچستان میںمخلوط حکومت سے جمعیت علماء اسلام (ف)کودور رکھاجائے اوراس مرتبہ جے یو آئی (ف) اپوزیشن کا کردارادا کرے۔

مسلم لیگ (ن) میں مختلف اراکین کی شمولیت یا حمایت کے موقع پر پارٹی کے صوبائی صدر نواب ثناء اﷲ زہری کا یہ کہنا تھا کہ صوبے میں گڈ گورننس کا قیام اور امن وامان کی بحالی ان کی حکومت کی پہلی ترجیح ہوگی اوروہ صوبے میں سابقہ دور کی لمبی چوڑی کابینہ نہیں چاہتے، آئین کے مطابق صوبے میں کابینہ تشکیل دی جائے گی۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں آئندہ گورنرشپ کے حوالے سے بھی صلاح و مشورے کا سلسلہ جاری ہے جس کیلئے کسی پشتون کو اس منصب پرلانے کی باتیںزیرگردش ہیں اور اس حوالے سے یہ بھی کہاجا رہا ہے کہ اس مرتبہ مرکز میں مسلم لیگ(ن)کو جو اکثریت حاصل ہوئی ہے اوروہ بھاری عوامی مینڈیٹ کے ساتھ مرکز میں حکومت بنانے جارہی ہے، ایسے حالات میں مسلم لیگ(ن)کی قیادت کی طرف سے، جس کے پشتونخواملی عوامی پارٹی کے ساتھ تعلقات انتہائی مضبوط اوراچھے ہیں، امکان ہے کہ گورنرکا منصب پشتونخواملی عوامی پارٹی کو دے دیاجائے یا اس کی مشاورت سے بلوچستان میں نیا گورنر مقرر کیاجائے۔

بلوچستان میں 11مئی کے عام انتخابات کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتیں جن میں بی این پی (مینگل)، بی این پی(عوامی)، جمعیت علماء اسلام(ف)،جمعیت علماء اسلام (نظریاتی)، اہلسنت و الجماعت قابل ذکر ہیں، دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان علاقوںمیں دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کررہی ہیں جہاں جہاں انہوں نے یہ الزامات عائد کئے ہیں۔ بی این پی(مینگل)کی طرف سے کوئٹہ پریس کلب اورالیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر متواتر دھرنے اور مظاہرے کئے جارہے ہیں۔ دھرنوں اور مظاہروں کا یہ سلسلہ تیزی سے جاری ہے، اس حوالے سے الیکشن کمیشن کیا قدم اٹھاتا ہے اس کا انتظار ہے۔
Load Next Story