قیام امن کے لیے صوبے اور مرکز کو مل کر چلنا ہوگا
تحریک انصاف ،جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی نے صوبہ میں مخلوط حکومت بنانے کا اپنا فیصلہ سنا دیا ہے.
خیبرپختونخوا میں جمیعت علماء اسلام(ف)کی جانب سے حکومت سازی کے لیے جوکوششیں جاری تھیں وہ دم توڑ گئی ہیں۔
کیونکہ تحریک انصاف ،جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی نے صوبہ میں مخلوط حکومت بنانے کا اپنا فیصلہ سنا دیا ہے جبکہ آزاد ارکان میں سے بھی پانچ تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں جبکہ دیگر میں شمار کیے جانے والے چار ارکان بھی کم و بیش پی ٹی آئی ہی کے ساتھ ہیں جس کے باعث جے یو آئی صوبہ میں حکومت سازی کے جس فارمولے پر کام کررہی تھی وہ فارمولہ اب کامیاب نہیں ہوسکتا۔ مذکورہ فارمولے کی ناکامی کی اصل وجہ مسلم لیگ(ن) ہے کیونکہ مسلم لیگ(ن) نے جمعیت علماء اسلام کی جانب سے جاری ان کوششوں میں اس کا ساتھ نہیں دیا ورنہ یہ کوششیں کامیاب بھی ہوسکتی تھیں۔
مسلم لیگ(ن) جس ٹریک پر ہے اس میں بڑے واضح انداز میں خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو حکومت سازی کا موقع دیا گیا کیونکہ مسلم لیگ(ن)کااس بارے میں بڑا واضح موقف ہے کہ تحریک انصاف کو عوام نے جن اہداف کے حصول کے لیے مینڈیٹ دیا ہے وہ ان اہداف کے حصول کے لیے کام کرے تاکہ اگر وہ حقیقی معنوں میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں یا لاسکتے ہیں تو لے آئیں اور اگر وہ تبدیلی نہ لاسکے تو اس بارے میں خود عوام فیصلہ کرلیں گے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ جے یو آئی اور دیگر جماعتوں کی صوبہ میں حکومت سازی کے حوالے سے جو کوششیں ہیں وہ پانچ سے چھ ماہ کے لیے موخر کی گئی ہیں تاکہ پی ٹی آئی کی حکومت ہنی مون پیریڈ گزار لے اوراگر اس عرصہ میں وہ کچھ کرکے نہ دکھاسکی تو یہ کوششیں دوبارہ شروع کردی جائیں گی ۔
تحریک انصاف جو حکومت سازی کے لیے مطلوبہ ارکان کو پوراکرچکی ہے وہ اس وقت حکومت سازی کے اس مرحلہ میں ہے جہاں وزارتوں کی تقسیم ہونی ہے اور تقسیم کے اس عمل کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو خزانہ ،تعلیم اور سماجی بہبود وزکوٰۃ وعشر جیسی وزارتیں دے دی گئی ہیں تاہم تعلیم کی وزارت جماعت اسلامی کو دینے پر تحریک انصاف کی قیادت معترض ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس طریقہ سے پی ٹی آئی تعلیم کے شعبہ میں وہ اصلاحات اور تبدیلیاں نہیں لاسکے گی ۔
جو انہوں نے اپنی سطح پر تیارکررکھی ہیں تاہم جماعت اسلامی بھی اڑ گئی ہے کہ جو وزارتیں اسے دینے کا اعلان ہوچکا ہے وہ اب ان سے دستبردار نہیں ہوگی جبکہ دوسری جانب قومی وطن پارٹی کی صورت حال یہ ہے کہ پارٹی کے صوبائی صدر سکندر شیر پاؤ کو ایریگیشن کا محکمہ حوالے کیا جارہا ہے جبکہ مذکورہ پارٹی سے دیگر دو وزراء کے حوالے سے ابھی واضح فیصلہ نہیں ہو اکہ انھیں کون سی وزارتیں دی جائیں گی تاہم ان میں سب سے اہم مرحلہ خود تحریک انصاف میں وزارتوں کی تقسیم کا ہے جس کے حوالے سے ان سطور کو سپرد قلم کرنے تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا بلکہ اب تک تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس تک نہیں ہوا حالانکہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس ہی میں وزیراعلیٰ کی تقرری کا فیصلہ بھی ہوتا ہے اور سپیکر ووزراء کے عہدے بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی میں وزیراعلیٰ اور سپیکر کے عہدوں پر نامزدگیاں براہ راست پارٹی چیئرمین عمران خان کی جانب سے کی گئی ہیں جس پر سیاسی حلقے پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اور وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے پارٹی کے اندر جو اختلافات سامنے آرہے ہیں وہ الگ معاملہ ہے تاہم جس طریقہ سے وزیراعلیٰ اور سپیکر کے عہدہ پر خود عمران خان نے تقرریاں کرتے ہوئے یہ معاملہ سنبھالا ہے اسی طرح وہ وزارتوں کی تقسیم کا کام بھی خود ہی سرانجام دیں گے جس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ معاملہ بھی ''خوش اسلوبی'' کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔
تحریک انصاف کو جہاں صوبہ میں حکومت کے حوالے سے یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ اس کی قیادت تجربہ کار اور سینئر پارلیمنٹرین پرویز خٹک کریں گے تو وہیں پر یہ مشکل بھی درپیش ہوگی کہ اپوزیشن میں دو سابق وزرائے اعلیٰ سردار مہتاب احمد خان اور اکرم خان درانی موجود ہوں گے جو اپنی پارٹیوں اور اے این پی و پیپلزپارٹی کی حمایت سے جب چاہیں گے اسمبلی کا اجلاس ریکوزٹ کراسکیں گے جبکہ گزشتہ مخلوط حکومت کو یہ فائدہ رہا کہ اس وقت کی اپوزیشن تقسیم ہونے کی وجہ سے پانچ سالوں تک اس پوزیشن میں نہ آسکی کہ وہ اسمبلی کا ایک اجلاس بھی اپنے ایجنڈے کے مطابق ریکوزٹ کراسکتی لیکن اس مرتبہ معاملہ الگ ہوگا اس لیے تحریک انصاف کی ٹیم جو کئی نئے کھلاڑیوں پر مشتمل ہوگی اسے ذرا سنبھل کر کھیلنا ہوگا ۔
کیونکہ ان کے جوش وجنون کو سینئر و تجربہ کار سیاستدانوں کے باؤنسرز کا سامنا ہوگا جن سے ان کو بچ کر رہنا ہوگا اور یہ کام تبھی ہوسکے گا کہ جب تحریک انصاف کی اپنی صفیں درست ہوں اور جو اختلافات پارٹی کے اندر انتخابی مراحل میں پیدا ہوئے انھیں اب حکومت میں بھلا کر ٹیم ورک کا مظاہرہ کیاجائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کا فائدہ اسمبلی کے اندر بھی اور اسمبلی کے باہر بھی دیگر پارٹیاں ہی اٹھائیں گی کیونکہ اپوزیشن میں شامل چاروں پارٹیوں کو تحریک انصاف کے ہاتھوں ہی زخم لگے ہیں اور وہ ان زخموں کو بھلا نہیں سکے۔
ان زخموں سے ٹیسیں اٹھنے کا سلسلہ جاری ہے جو پانچ سال تک جاری رہے گا اور اپنے اس درد کے احساس کو اپوزیشن جماعتیں ،حکومتی صفوں میں دراڑیں ڈال کر ہی کم کرسکتی ہیں اس لیے اب یہ تحریک انصاف کی ٹیم کے کپتان پرویز خٹک اور ان کے ساتھیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپوزیشن کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے انھیں بھڑکانے کی پالیسی اپناتے ہیں یا ان زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے مسیحائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں جس سے مستقبل کے نقشہ کا تعین ہوگا ۔
تحریک انصاف کا ایجنڈا اور ترجیحات اپنی جگہ تاہم نئی حکومت بننے کے بعد ان کے سامنے سب سے بڑا اور بنیادی مسلہ صوبہ میں قیام امن ہی ہوگا جس کے لیے یقینی طور پر صوبہ کو مرکز اور مرکز کے اداروں کی مکمل طور پر حمایت اور مدد درکار ہوگی ،اس حقیقت کا ادراک نئی حکومت کے نامزد عہدیدار رکھتے ہیں اسی لیے وہ اس بات کا برملا اظہار کررہے ہیں کہ وہ صوبہ میں قیام امن کے لیے مرکز کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کریں گے اور ان کو مرکز کا تعاون درکار ہوگا جبکہ یہ عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ مرکز اور صوبہ میں حکومتیں بننے کے فوراًبعد آپس میں ملاقاتیں کی جائیں گی تاکہ مسائل کو مشترکہ کوششوں کے ذریعے ہی حل کیا جاسکے۔ یقینی طور پر یہ ایک صائب اقدام ہوگا ۔
کیونکہ اگر دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے مرکز اور صوبہ اپنا الگ ،الگ قبلہ بنالیں تو اس صور ت میں دہشت گردی پر قابو پانا کسی بھی طور ممکن نہیں ہوگا ،نئے حکمرانوں نے ابھی اقتدار نہیں سنبھالا لیکن طالبان کی جانب سے قیام امن کی غرض سے ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی دعوت دے دی گئی ہے جو اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ ایسی ہی دعوت جو پچھلی حکومت میں دی گئی تھی اور جس کے حوالے سے کافی کام بھی ہوا تھا وہ کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئی تھیں تاہم اب نئی حکومتوں کے ہاتھ ایک اور نادر موقع آگیا ہے جس کو یقیناًکسی بھی طور مرکز ی یا صوبائی حکومتیں ضائع نہیں کریں گی ۔
بلکہ اس سے فائدہ لیتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھائیں گی جس کے لیے ریاستی اداروں کو بھی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا کیونکہ بہرکیف عوامی مینڈیٹ اسی بات کا متقاضی ہے اور شاید ہی عوام میں اب مزید سکت ہو کہ وہ دہشت گردی کی کسی نئی لہر کا سامنا کرتے ہوئے مزید لاشیں اٹھاسکیں ۔
دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں مولانا سمیع الحق اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ انھیں طالبان کے نزدیک سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک جانب صوبہ کے نامزد وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اکوڑہ خٹک کا دورہ کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق کے ساتھ ملاقات کی ہے تو دوسری جانب ملک کے آئندہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی مولانا سمیع الحق کے ساتھ رابطہ کیا ہے جس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کو کوششیں کرنے کی بات کی گئی ہے۔
،جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ دارالعلوم حقانیہ کا اپنا اثر ورسوخ موجود ہے اور اس کے مہتتم اور انچارج ہونے کے ناطے مولانا سمیع الحق کی اہمیت اور افادیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا تاہم اب اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ یہ رابطے صرف رابطوں تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ انھیں عملی شکل دی جائے اور عملی طور پر کام کا آغاز کیا جائے جسے ایک یا دو قدم لے کر روکنا نہیں چاہیے بلکہ یہ سلسلہ چلتا رہنا چاہیے جس سے بہتری کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔
کیونکہ تحریک انصاف ،جماعت اسلامی اور قومی وطن پارٹی نے صوبہ میں مخلوط حکومت بنانے کا اپنا فیصلہ سنا دیا ہے جبکہ آزاد ارکان میں سے بھی پانچ تحریک انصاف اور قومی وطن پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں جبکہ دیگر میں شمار کیے جانے والے چار ارکان بھی کم و بیش پی ٹی آئی ہی کے ساتھ ہیں جس کے باعث جے یو آئی صوبہ میں حکومت سازی کے جس فارمولے پر کام کررہی تھی وہ فارمولہ اب کامیاب نہیں ہوسکتا۔ مذکورہ فارمولے کی ناکامی کی اصل وجہ مسلم لیگ(ن) ہے کیونکہ مسلم لیگ(ن) نے جمعیت علماء اسلام کی جانب سے جاری ان کوششوں میں اس کا ساتھ نہیں دیا ورنہ یہ کوششیں کامیاب بھی ہوسکتی تھیں۔
مسلم لیگ(ن) جس ٹریک پر ہے اس میں بڑے واضح انداز میں خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو حکومت سازی کا موقع دیا گیا کیونکہ مسلم لیگ(ن)کااس بارے میں بڑا واضح موقف ہے کہ تحریک انصاف کو عوام نے جن اہداف کے حصول کے لیے مینڈیٹ دیا ہے وہ ان اہداف کے حصول کے لیے کام کرے تاکہ اگر وہ حقیقی معنوں میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں یا لاسکتے ہیں تو لے آئیں اور اگر وہ تبدیلی نہ لاسکے تو اس بارے میں خود عوام فیصلہ کرلیں گے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ جے یو آئی اور دیگر جماعتوں کی صوبہ میں حکومت سازی کے حوالے سے جو کوششیں ہیں وہ پانچ سے چھ ماہ کے لیے موخر کی گئی ہیں تاکہ پی ٹی آئی کی حکومت ہنی مون پیریڈ گزار لے اوراگر اس عرصہ میں وہ کچھ کرکے نہ دکھاسکی تو یہ کوششیں دوبارہ شروع کردی جائیں گی ۔
تحریک انصاف جو حکومت سازی کے لیے مطلوبہ ارکان کو پوراکرچکی ہے وہ اس وقت حکومت سازی کے اس مرحلہ میں ہے جہاں وزارتوں کی تقسیم ہونی ہے اور تقسیم کے اس عمل کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کو خزانہ ،تعلیم اور سماجی بہبود وزکوٰۃ وعشر جیسی وزارتیں دے دی گئی ہیں تاہم تعلیم کی وزارت جماعت اسلامی کو دینے پر تحریک انصاف کی قیادت معترض ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس طریقہ سے پی ٹی آئی تعلیم کے شعبہ میں وہ اصلاحات اور تبدیلیاں نہیں لاسکے گی ۔
جو انہوں نے اپنی سطح پر تیارکررکھی ہیں تاہم جماعت اسلامی بھی اڑ گئی ہے کہ جو وزارتیں اسے دینے کا اعلان ہوچکا ہے وہ اب ان سے دستبردار نہیں ہوگی جبکہ دوسری جانب قومی وطن پارٹی کی صورت حال یہ ہے کہ پارٹی کے صوبائی صدر سکندر شیر پاؤ کو ایریگیشن کا محکمہ حوالے کیا جارہا ہے جبکہ مذکورہ پارٹی سے دیگر دو وزراء کے حوالے سے ابھی واضح فیصلہ نہیں ہو اکہ انھیں کون سی وزارتیں دی جائیں گی تاہم ان میں سب سے اہم مرحلہ خود تحریک انصاف میں وزارتوں کی تقسیم کا ہے جس کے حوالے سے ان سطور کو سپرد قلم کرنے تک کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا بلکہ اب تک تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس تک نہیں ہوا حالانکہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس ہی میں وزیراعلیٰ کی تقرری کا فیصلہ بھی ہوتا ہے اور سپیکر ووزراء کے عہدے بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی میں وزیراعلیٰ اور سپیکر کے عہدوں پر نامزدگیاں براہ راست پارٹی چیئرمین عمران خان کی جانب سے کی گئی ہیں جس پر سیاسی حلقے پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں اور وزارتوں کی تقسیم کے حوالے سے پارٹی کے اندر جو اختلافات سامنے آرہے ہیں وہ الگ معاملہ ہے تاہم جس طریقہ سے وزیراعلیٰ اور سپیکر کے عہدہ پر خود عمران خان نے تقرریاں کرتے ہوئے یہ معاملہ سنبھالا ہے اسی طرح وہ وزارتوں کی تقسیم کا کام بھی خود ہی سرانجام دیں گے جس سے توقع کی جاسکتی ہے کہ یہ معاملہ بھی ''خوش اسلوبی'' کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔
تحریک انصاف کو جہاں صوبہ میں حکومت کے حوالے سے یہ فائدہ حاصل ہوگا کہ اس کی قیادت تجربہ کار اور سینئر پارلیمنٹرین پرویز خٹک کریں گے تو وہیں پر یہ مشکل بھی درپیش ہوگی کہ اپوزیشن میں دو سابق وزرائے اعلیٰ سردار مہتاب احمد خان اور اکرم خان درانی موجود ہوں گے جو اپنی پارٹیوں اور اے این پی و پیپلزپارٹی کی حمایت سے جب چاہیں گے اسمبلی کا اجلاس ریکوزٹ کراسکیں گے جبکہ گزشتہ مخلوط حکومت کو یہ فائدہ رہا کہ اس وقت کی اپوزیشن تقسیم ہونے کی وجہ سے پانچ سالوں تک اس پوزیشن میں نہ آسکی کہ وہ اسمبلی کا ایک اجلاس بھی اپنے ایجنڈے کے مطابق ریکوزٹ کراسکتی لیکن اس مرتبہ معاملہ الگ ہوگا اس لیے تحریک انصاف کی ٹیم جو کئی نئے کھلاڑیوں پر مشتمل ہوگی اسے ذرا سنبھل کر کھیلنا ہوگا ۔
کیونکہ ان کے جوش وجنون کو سینئر و تجربہ کار سیاستدانوں کے باؤنسرز کا سامنا ہوگا جن سے ان کو بچ کر رہنا ہوگا اور یہ کام تبھی ہوسکے گا کہ جب تحریک انصاف کی اپنی صفیں درست ہوں اور جو اختلافات پارٹی کے اندر انتخابی مراحل میں پیدا ہوئے انھیں اب حکومت میں بھلا کر ٹیم ورک کا مظاہرہ کیاجائے، اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس کا فائدہ اسمبلی کے اندر بھی اور اسمبلی کے باہر بھی دیگر پارٹیاں ہی اٹھائیں گی کیونکہ اپوزیشن میں شامل چاروں پارٹیوں کو تحریک انصاف کے ہاتھوں ہی زخم لگے ہیں اور وہ ان زخموں کو بھلا نہیں سکے۔
ان زخموں سے ٹیسیں اٹھنے کا سلسلہ جاری ہے جو پانچ سال تک جاری رہے گا اور اپنے اس درد کے احساس کو اپوزیشن جماعتیں ،حکومتی صفوں میں دراڑیں ڈال کر ہی کم کرسکتی ہیں اس لیے اب یہ تحریک انصاف کی ٹیم کے کپتان پرویز خٹک اور ان کے ساتھیوں پر منحصر ہے کہ وہ اپوزیشن کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے انھیں بھڑکانے کی پالیسی اپناتے ہیں یا ان زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے مسیحائی کا فریضہ انجام دیتے ہیں جس سے مستقبل کے نقشہ کا تعین ہوگا ۔
تحریک انصاف کا ایجنڈا اور ترجیحات اپنی جگہ تاہم نئی حکومت بننے کے بعد ان کے سامنے سب سے بڑا اور بنیادی مسلہ صوبہ میں قیام امن ہی ہوگا جس کے لیے یقینی طور پر صوبہ کو مرکز اور مرکز کے اداروں کی مکمل طور پر حمایت اور مدد درکار ہوگی ،اس حقیقت کا ادراک نئی حکومت کے نامزد عہدیدار رکھتے ہیں اسی لیے وہ اس بات کا برملا اظہار کررہے ہیں کہ وہ صوبہ میں قیام امن کے لیے مرکز کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کریں گے اور ان کو مرکز کا تعاون درکار ہوگا جبکہ یہ عندیہ بھی دیا گیا ہے کہ مرکز اور صوبہ میں حکومتیں بننے کے فوراًبعد آپس میں ملاقاتیں کی جائیں گی تاکہ مسائل کو مشترکہ کوششوں کے ذریعے ہی حل کیا جاسکے۔ یقینی طور پر یہ ایک صائب اقدام ہوگا ۔
کیونکہ اگر دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے مرکز اور صوبہ اپنا الگ ،الگ قبلہ بنالیں تو اس صور ت میں دہشت گردی پر قابو پانا کسی بھی طور ممکن نہیں ہوگا ،نئے حکمرانوں نے ابھی اقتدار نہیں سنبھالا لیکن طالبان کی جانب سے قیام امن کی غرض سے ایک مرتبہ پھر مذاکرات کی دعوت دے دی گئی ہے جو اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ ایسی ہی دعوت جو پچھلی حکومت میں دی گئی تھی اور جس کے حوالے سے کافی کام بھی ہوا تھا وہ کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوئی تھیں تاہم اب نئی حکومتوں کے ہاتھ ایک اور نادر موقع آگیا ہے جس کو یقیناًکسی بھی طور مرکز ی یا صوبائی حکومتیں ضائع نہیں کریں گی ۔
بلکہ اس سے فائدہ لیتے ہوئے معاملات کو آگے بڑھائیں گی جس کے لیے ریاستی اداروں کو بھی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا کیونکہ بہرکیف عوامی مینڈیٹ اسی بات کا متقاضی ہے اور شاید ہی عوام میں اب مزید سکت ہو کہ وہ دہشت گردی کی کسی نئی لہر کا سامنا کرتے ہوئے مزید لاشیں اٹھاسکیں ۔
دہشت گردی کے خاتمے کے سلسلے میں مولانا سمیع الحق اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ انھیں طالبان کے نزدیک سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک جانب صوبہ کے نامزد وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اکوڑہ خٹک کا دورہ کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق کے ساتھ ملاقات کی ہے تو دوسری جانب ملک کے آئندہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے بھی مولانا سمیع الحق کے ساتھ رابطہ کیا ہے جس میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کو کوششیں کرنے کی بات کی گئی ہے۔
،جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ دارالعلوم حقانیہ کا اپنا اثر ورسوخ موجود ہے اور اس کے مہتتم اور انچارج ہونے کے ناطے مولانا سمیع الحق کی اہمیت اور افادیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا تاہم اب اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ یہ رابطے صرف رابطوں تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ انھیں عملی شکل دی جائے اور عملی طور پر کام کا آغاز کیا جائے جسے ایک یا دو قدم لے کر روکنا نہیں چاہیے بلکہ یہ سلسلہ چلتا رہنا چاہیے جس سے بہتری کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔