میاں نواز شریف کی سچ بیانی
بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کا وقت نہیں دے سکتا لیکن پہلے 30دنوں میں عوام کوحکومت کی بہترین کارکردگی نظرآئےگی، نوازشریف
مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف نے پیر کو لاہور میں مسلم لیگ ن کے نو منتخب ارکان اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہونے کا وقت نہیں دے سکتا لیکن پہلے 30دنوں میں عوام کو حکومت کی بہترین کارکردگی نظر آئے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ایک جن کی شکل اختیار کر چکی ہے اور سمجھ نہیں آتی کہ اس جن کو کیسے قابو کیا جائے کیونکہ صرف 500ارب روپیہ سرکلر ڈیٹ ہے' مجھے بتائیں کہ پہلے اسے ختم کریں یا بجلی کی پیداوار کے لیے فنڈز استعمال کریں۔ ملک 16ہزار ارب روپے کا مقروض ہو چکا ہے، مجھے مسائل کے حل کی فکر ہے۔
ماضی کے حکمرانوں نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور عوامی مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا' وہ بجلی کا بحران ہمارے لیے چھوڑ گئی لیکن ہم تمام مسائل حل کر کے جائیں گے۔ عوام کو پہلے 100دنوں میں پتہ چل جائے گا کہ (ن) لیگ کی حکومت مثبت راہ پر چل نکلی ہے' اقتدار میں آ کر 30 فیصد حکومتی اخراجات کو کم کیا جائے گا اور تمام اضافی اخراجات بھی ختم کر دیے جائیں گے۔ ہم تمام جماعتوں کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع دے رہے ہیں حالانکہ ہم خود بھی حکومت بنا سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا، سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو مینڈیٹ ملا ہے اور وہ حکومت بنائیں' وفاقی حکومت بھی ان سے مکمل تعاون کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ بندوق اور گولی سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ہم اب تک دہشتگردی کی جنگ میں 40ہزار جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور اب اگر طالبان نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے تو یہ بہترین آپشن ہے اور ہمیں اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے، امن مذاکرات سے ہی آئے گا۔ میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئیں اور مل بیٹھ کر قومی ایجنڈے پر بات چیت کی جائے اور ملک کو درپیش مسائل سے نجات دلائی جائے۔
میاں محمد نواز شریف نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے' ان میں انھوں نے کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر حقائق بیان کیے ہیں' اس وقت پاکستان جس قسم کے حالات سے دوچار ہے' اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مقتدر شخصیات سچ بیانی سے کام لیں اور قوم کو سبز باغ نہ دکھائیں۔ بجلی کے بحران کے بارے میں میاں نواز شریف نے قوم کے سامنے ملکی معیشت کی حقیقی تصویر رکھی ہے' پاکستان کا المیہ یہی رہا ہے کہ برسراقتدار آنے والوں نے معیشت کو کبھی اولین ترجیح میں رکھا ہی نہیں' یہ وطیرہ آمرانہ اور جمہوری حکومت دونوں کا رہا ہے' اسی طرح کسی حکومت نے ملک کی سرحدوں کو غیر ملکی باشندوں کے لیے سخت نہیں بنایا۔
یہی وجہ ہے کہ اگست 1947 میں اس ملک کی آبادی تقریباً ڈیڑھ دو کروڑ تھی جو اب 20 کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے' کراچی میں جو آج ہمیں بدامنی اور قتل و غارت نظر آ رہی ہے' اس کی ایک وجہ مختلف قومیتوں کی باہمی لڑائی ہے' کبھی پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے والوں نے سرد جنگ کے دور میں کیپیٹلسٹ ورلڈ کا ہرکارہ بن کر افغانستان میں سابق سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بن گئے' اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان کی نصف کے قریب آبادی پاکستان منتقل ہو گئی اور اب اس کا خمیازہ پورا پاکستان بھگت رہا ہے' اس سارے معاملے میں ملکی معیشت کہیں پیچھے چلی گئی' اب چونکہ سرد جنگ کا دور ختم ہو گیا' عالمی سطح پر نئی دوستیاں اور دشمنیاں قائم ہو رہی ہیں' نئے اقتصادی بلاک بن رہے ہیں' اس دور میں پاکستان اپنی پالیسی تشکیل نہیں دے سکا' پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ خارجہ معاملات میں وہی پالیسی اختیار کرنے پر بضد ہے جو سرد جنگ کا نتیجہ تھی' اس طرح داخلی طور پر بھی وہ پرانے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے پر بضد ہے۔
اسی صورت حال کا نتیجہ آج پاکستان دہشت گردی' قوم پرستی اور لسانیت کے نام پر بھگت رہا ہے' یہ امر خوش آیند ہے کہ میاں محمد نواز شریف سرد جنگ کے سیاسی نظریات سے باہر نکل کر سوچ رہے ہیں' وہ خارجہ امور میں بھی مثبت تبدیلیوں کے خواہاں ہیں اور داخلی طور پر بھی روایتی سوچ سے باہر نکلنا چاہتے ہیں اور ملک کی معیشت کو اولین ترجیحات میں لائے ہیں' انھیں اپنے پروگرام کو عملی شکل دینے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے تو بجلی کے بحران کا ایشو موجود ہے' بلاشبہ اس بحران کو چٹکی بجاتے حل نہیں کیا جا سکتا لیکن میاں نوازشریف کا عزم بتا رہا ہے کہ وہ اس کی شدت میں خاطر خواہ کمی لانے میں کامیاب ہو جائیں گے' انھوں نے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف جب کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا مینڈیٹ تسلیم کرنے کا اعلان کر کے مثبت سوچ کا اظہار کیا ہے۔
اس کے علاوہ طالبان سے مذاکرات کی بات بھی کی ہے' یہ ایشو خاصا حساس ہے' میاں محمد نواز شریف کو اس معاملے میں یہ احتیاط برتنی پڑے گی کہ مذاکرات میں ریاست اور آئین کی بالادستی مسلمہ ہونی چاہیے' کسی مسلح گروہ کو یہ پیغام نہیں ملنا چاہیے کہ وہ ریاست اور آئین سے طاقتور ہے' کوئی گروہ اگر ریاست کے تقدس اور آئین کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے تو سر آنکھوں پر' اگر وہ ایسا کرنے سے انکاری ہے تو پھر اس کا قلع قمع کیا جانا چاہیے کیونکہ اگر ریاست اور آئین ہے تو ہم سب ہیں' ورنہ کچھ نہیں ہے' انھوں نے ملک کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی ہے' ملک کے سیاسی رہنمائوں کو اس پر غور کرنا چاہیے اور مخالفت برائے مخالفت کا رویہ اب ترک کر دیا جانا چاہیے۔
ماضی کے حکمرانوں نے بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور عوامی مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا' وہ بجلی کا بحران ہمارے لیے چھوڑ گئی لیکن ہم تمام مسائل حل کر کے جائیں گے۔ عوام کو پہلے 100دنوں میں پتہ چل جائے گا کہ (ن) لیگ کی حکومت مثبت راہ پر چل نکلی ہے' اقتدار میں آ کر 30 فیصد حکومتی اخراجات کو کم کیا جائے گا اور تمام اضافی اخراجات بھی ختم کر دیے جائیں گے۔ ہم تمام جماعتوں کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہیں۔
میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو حکومت بنانے کا موقع دے رہے ہیں حالانکہ ہم خود بھی حکومت بنا سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا، سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو مینڈیٹ ملا ہے اور وہ حکومت بنائیں' وفاقی حکومت بھی ان سے مکمل تعاون کرے گی۔ انھوں نے کہا کہ بندوق اور گولی سے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ ہم اب تک دہشتگردی کی جنگ میں 40ہزار جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور اب اگر طالبان نے مذاکرات کی پیشکش کی ہے تو یہ بہترین آپشن ہے اور ہمیں اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے، امن مذاکرات سے ہی آئے گا۔ میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ آئیں اور مل بیٹھ کر قومی ایجنڈے پر بات چیت کی جائے اور ملک کو درپیش مسائل سے نجات دلائی جائے۔
میاں محمد نواز شریف نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے' ان میں انھوں نے کسی قسم کی لگی لپٹی رکھے بغیر حقائق بیان کیے ہیں' اس وقت پاکستان جس قسم کے حالات سے دوچار ہے' اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مقتدر شخصیات سچ بیانی سے کام لیں اور قوم کو سبز باغ نہ دکھائیں۔ بجلی کے بحران کے بارے میں میاں نواز شریف نے قوم کے سامنے ملکی معیشت کی حقیقی تصویر رکھی ہے' پاکستان کا المیہ یہی رہا ہے کہ برسراقتدار آنے والوں نے معیشت کو کبھی اولین ترجیح میں رکھا ہی نہیں' یہ وطیرہ آمرانہ اور جمہوری حکومت دونوں کا رہا ہے' اسی طرح کسی حکومت نے ملک کی سرحدوں کو غیر ملکی باشندوں کے لیے سخت نہیں بنایا۔
یہی وجہ ہے کہ اگست 1947 میں اس ملک کی آبادی تقریباً ڈیڑھ دو کروڑ تھی جو اب 20 کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے' کراچی میں جو آج ہمیں بدامنی اور قتل و غارت نظر آ رہی ہے' اس کی ایک وجہ مختلف قومیتوں کی باہمی لڑائی ہے' کبھی پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کرنے والوں نے سرد جنگ کے دور میں کیپیٹلسٹ ورلڈ کا ہرکارہ بن کر افغانستان میں سابق سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بن گئے' اس پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ افغانستان کی نصف کے قریب آبادی پاکستان منتقل ہو گئی اور اب اس کا خمیازہ پورا پاکستان بھگت رہا ہے' اس سارے معاملے میں ملکی معیشت کہیں پیچھے چلی گئی' اب چونکہ سرد جنگ کا دور ختم ہو گیا' عالمی سطح پر نئی دوستیاں اور دشمنیاں قائم ہو رہی ہیں' نئے اقتصادی بلاک بن رہے ہیں' اس دور میں پاکستان اپنی پالیسی تشکیل نہیں دے سکا' پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ خارجہ معاملات میں وہی پالیسی اختیار کرنے پر بضد ہے جو سرد جنگ کا نتیجہ تھی' اس طرح داخلی طور پر بھی وہ پرانے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنے پر بضد ہے۔
اسی صورت حال کا نتیجہ آج پاکستان دہشت گردی' قوم پرستی اور لسانیت کے نام پر بھگت رہا ہے' یہ امر خوش آیند ہے کہ میاں محمد نواز شریف سرد جنگ کے سیاسی نظریات سے باہر نکل کر سوچ رہے ہیں' وہ خارجہ امور میں بھی مثبت تبدیلیوں کے خواہاں ہیں اور داخلی طور پر بھی روایتی سوچ سے باہر نکلنا چاہتے ہیں اور ملک کی معیشت کو اولین ترجیحات میں لائے ہیں' انھیں اپنے پروگرام کو عملی شکل دینے میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے تو بجلی کے بحران کا ایشو موجود ہے' بلاشبہ اس بحران کو چٹکی بجاتے حل نہیں کیا جا سکتا لیکن میاں نوازشریف کا عزم بتا رہا ہے کہ وہ اس کی شدت میں خاطر خواہ کمی لانے میں کامیاب ہو جائیں گے' انھوں نے خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف جب کہ سندھ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کا مینڈیٹ تسلیم کرنے کا اعلان کر کے مثبت سوچ کا اظہار کیا ہے۔
اس کے علاوہ طالبان سے مذاکرات کی بات بھی کی ہے' یہ ایشو خاصا حساس ہے' میاں محمد نواز شریف کو اس معاملے میں یہ احتیاط برتنی پڑے گی کہ مذاکرات میں ریاست اور آئین کی بالادستی مسلمہ ہونی چاہیے' کسی مسلح گروہ کو یہ پیغام نہیں ملنا چاہیے کہ وہ ریاست اور آئین سے طاقتور ہے' کوئی گروہ اگر ریاست کے تقدس اور آئین کی بالادستی کو تسلیم کرتا ہے تو سر آنکھوں پر' اگر وہ ایسا کرنے سے انکاری ہے تو پھر اس کا قلع قمع کیا جانا چاہیے کیونکہ اگر ریاست اور آئین ہے تو ہم سب ہیں' ورنہ کچھ نہیں ہے' انھوں نے ملک کے مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی ہے' ملک کے سیاسی رہنمائوں کو اس پر غور کرنا چاہیے اور مخالفت برائے مخالفت کا رویہ اب ترک کر دیا جانا چاہیے۔