آگہی
حشام احمد سید لکھتے ہیں کہ ’’ہمارے بہت سے معاشرتی، قومی، ملکی یا غیر ملکی مسائل شخصیت پرستی کے تحت جنم لیتے۔۔۔
حشام احمد سید لکھتے ہیں کہ ''ہمارے بہت سے معاشرتی، قومی، ملکی یا غیر ملکی مسائل شخصیت پرستی کے تحت جنم لیتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ بہت سارے مسائل اس لیے حل نہیں ہو پاتے کہ ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی شخصیت پہاڑ بن کر کھڑی ہو جاتی ہے اور عقل اور حکمت کے سارے دروازے مقفل کر دیتی ہے۔ اس شخصیت کی انا پرستی اور اس کے مداحین کا مزاج اس طرح سے پرورش پاتا ہے کہ ثم بکم عمی فہم لایرجعون۔ اس شخصیت یا ذات کا حصار اتنا تنگ ہوتا ہے کہ انفرادی ہوس پر قومی مفادات قربان کر دیے جاتے ہیں۔ یہ ہوس چاہے دولت کی ہو یا شہرت کی، منفی اثرات ہی مرتب کرتی ہے۔ سچائی کون سننا چاہتا ہے۔ پچھلے دور کی تاریخ کا کیا فائدہ لیکن اگر کوئی تمثیلاً یہ کہے کہ فلسطین یا کشمیر یا کسی بھی اسلامی ملک کا مسئلہ آج تک حل اس لیے نہیں ہو پایا کہ اس کے نامور لیڈر خود اس کے راستے میں روڑے اٹکاتے رہے۔''
حشام احمد سید اپنے ماحول کے پس منظر میں اخبارات و رسائل خصوصاً شمالی امریکا کے جرائد میں کالم لکھتے ہیں جو ''آگہی'' اور ''مشاہدات'' کے عنوان سے شایع ہوئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ''خود پرست دانشوروں اور علماء کا طبقہ لوگوں کو یہ باور کراتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی شکست و ریخت، ذلت اور بربادی کے ذمے دار عیسائی، یہودی اور ہنود ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ اپنی بربادی کے ذمے دار ہم خود ہیں۔ ہمارا اپنا منافقانہ، تاجرانہ اور فرقہ وارانہ رویہ ہے، ہمارے ذہنوں کی تاریکی ہے، ہماری بیماری نفسیاتی ہے جو مہد سے لحد تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے دشمن جو ظاہر ہے وہ تو ظاہر ہیں لیکن کیا کوئی کچھ کر سکتا تھا اگر ہم خود اپنے دروازے ان کے لیے نہ کھول دیتے، اپنی سرحدوں اور وسائل کو ان کے تابع نہ کر دیتے۔''
اپنے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ حشام احمد سید کی نظر میں خوف ہے جو اس کی اجتماعی نفسیات کا حصہ بن گیا ہے۔ بچے ہیں تو والدین کا خوف ہے، بڑے ہیں تو بزرگوں کا خوف ہے، بیوی کا خوف ہے، شوہر کا خوف ہے، دشمن تو دشمن دوستوں کا بھی خوف ہے، بے روزگاری کا خوف ہے، آسمانی بلاؤں کا خوف ہے، مر جانے کا ہی نہیں جیتے رہنے کا بھی خوف ہے، گویا سوچ اور فکر کا محور ہی خوف بن گیا ہے۔ لکھتے ہیں ''ایک بار میں ایک مسجد میں کسی واعظ کا خطاب سننے چلا گیا۔ اس دن اتفاق سے خطاب کا موضوع جہنم تھا۔ انھوں نے دوزخ کا وہ نقشہ کھینچا اور اللہ سے اس قدر خوف دلایا کہ مجھے لگا کہ اگر تھوڑی دیر میں اور بیٹھا رہا تو جان سے جاتا رہوں گا۔ اللہ کی ایسی تصویر میرے ذہن میں کبھی نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ کا مجھ سے تعلق ہمدردانہ، مشفقانہ اور رحیمانہ ہے۔ میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے یہی کہتا ہوں کہ اللہ کی عبادت اس کی محبت میں ڈوب کر کرو پھر دیکھو کہ تمہاری روح کن بلندیوں کی جانب پرواز کرتی ہے۔''
''یہ حقیقت ہے کہ کوئی انسان اس وقت تک کوئی سود مند فکری تخلیق سے نہیں گزرتا جب تک اسے ذہنی سکون و اطمینان نہ ہو۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی یافتہ قومیں ہیں ان میں ایک بات تو عام ہے کہ انھوں نے اپنے معاشرے اور نظام مملکت اور تعلیمی و تربیتی اداروں میں ایسا ماحول پیدا کیا ہے جہاں ہر بچہ بلا خوف و خطر اپنی ایک انفرادی رائے رکھتا ہے اور بڑی خود اعتمادی کی زندگی گزارتا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ امت مسلمہ کی صدیوں سے گرتی ہوئی حالت کا بھی ذمے دار خوف و ہراس کی کیفیت کا ان کی فطرت میں سمو جانا ہے۔ صدیوں سے ہمیں ایک منظم طریقہ سے اس بیماری میں مبتلا رکھا گیا ہے۔
حشام احمد سید کینیڈا میں جا بسے ہیں۔ اس سے پہلے وہ عرب امارات اور سعودی عرب میں بھی قیام کر چکے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور بزنس مینجمنٹ سے منسلک لیکن طبعی رجحان اور دلچسپی کا محور انسانی معاشرت اور اس کے مسائل ہیں علم تصوف اور روحانیت سے خاص شغف ہے۔ چنانچہ اس سوال کے جواب میں کہ اللہ کے ولی کی پہچان کیا ہے؟ لکھتے ہیں '' جو جتنا حضورؐ کی سیرت سے قریب ہے اور ان کی محبت میں مبتلا ہے اتنا ہی معتبر ہے، بزرگ ہے اور اللہ کے ہاں مقبول اور اللہ کی دوستی اور محبت کا مستحق ہے۔
حضرت آدمؑ سے لے کر آج تک اللہ کے محبوبین میں جو بھی آتے رہے اور قیامت تک آتے رہیں گے وہ سب کے سب اس بات ہی میں فخر محسوس کرتے رہیں کہ وہ سب ایک ہی نوری اور روحانی سلسلے سے جڑے ہوئے ہیں جیسے کہ ہزارہا چشمے بالآخر سمندر میں ضم ہو جاتے ہیں۔ حضورؐ کی ذات و صفات میں ہی تکمیل انسانیت ہوئی ہے اور اس کو عروج حاصل ہوا ہے۔ اس بات کی حقیقت کو کوئی اگر پا لے تو کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ یہ بات بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کشف و کرامت ولایت کی شرط نہیں ہے۔ اگر یہ حاصل ہے تو ٹھیک ہے اور اگر حاصل نہیں ہے تو بھی ٹھیک ہے۔ مقصود صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور ان کی اطاعت و اتباع ہے۔ اگر زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہؐ کے بتائے ہوئے اصولوں اور طریقوں کے مطابق گزر رہا ہے تو یہی سب سے بڑی کرامت اور ولایت ہے۔''
حشام احمد سید نے ایک اور بات بڑی سچی کہی ہے، کہتے ہیں کہ پاکستان کے رہنے والے دنیا میں کہیں بھی جا کر بس جائیں ان کا اپنے ملک سے تعلق کچھ ختم نہیں ہوتا بلکہ باہر بیٹھ کر انھیں پاکستان کی یاد کچھ زیادہ ہی ستاتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ دوبارہ لوٹ جانے کی کوئی نہیں سوچتا اور پھر اس کی ضرورت بھی کیا ہے، جب کہ کوئی بھی ملک ہو وہاں ایک منی پاکستان سب بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں چلے جائیں جتنی سیاسی پارٹیاں اپنے ملک میں ہیں اتنی ہی اس کی شاخیں ہر ملک میں ہیں، سو وہی دھما چوکڑی، وہی لعن طعن، وہی ہرزہ سرائی ہر جگہ ہوتی ہے۔ جس ملک میں پاکستانی رہ رہے ہوں وہاں کی سیاست سے انھیں دلچسپی کم اور پاکستان کی سیاست بازی کا اثر سوتے جاگتے ان پر رہتا ہے۔''
حشام احمد سید اپنے ماحول کے پس منظر میں اخبارات و رسائل خصوصاً شمالی امریکا کے جرائد میں کالم لکھتے ہیں جو ''آگہی'' اور ''مشاہدات'' کے عنوان سے شایع ہوئے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ''خود پرست دانشوروں اور علماء کا طبقہ لوگوں کو یہ باور کراتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی شکست و ریخت، ذلت اور بربادی کے ذمے دار عیسائی، یہودی اور ہنود ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ اپنی بربادی کے ذمے دار ہم خود ہیں۔ ہمارا اپنا منافقانہ، تاجرانہ اور فرقہ وارانہ رویہ ہے، ہمارے ذہنوں کی تاریکی ہے، ہماری بیماری نفسیاتی ہے جو مہد سے لحد تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمارے دشمن جو ظاہر ہے وہ تو ظاہر ہیں لیکن کیا کوئی کچھ کر سکتا تھا اگر ہم خود اپنے دروازے ان کے لیے نہ کھول دیتے، اپنی سرحدوں اور وسائل کو ان کے تابع نہ کر دیتے۔''
اپنے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ حشام احمد سید کی نظر میں خوف ہے جو اس کی اجتماعی نفسیات کا حصہ بن گیا ہے۔ بچے ہیں تو والدین کا خوف ہے، بڑے ہیں تو بزرگوں کا خوف ہے، بیوی کا خوف ہے، شوہر کا خوف ہے، دشمن تو دشمن دوستوں کا بھی خوف ہے، بے روزگاری کا خوف ہے، آسمانی بلاؤں کا خوف ہے، مر جانے کا ہی نہیں جیتے رہنے کا بھی خوف ہے، گویا سوچ اور فکر کا محور ہی خوف بن گیا ہے۔ لکھتے ہیں ''ایک بار میں ایک مسجد میں کسی واعظ کا خطاب سننے چلا گیا۔ اس دن اتفاق سے خطاب کا موضوع جہنم تھا۔ انھوں نے دوزخ کا وہ نقشہ کھینچا اور اللہ سے اس قدر خوف دلایا کہ مجھے لگا کہ اگر تھوڑی دیر میں اور بیٹھا رہا تو جان سے جاتا رہوں گا۔ اللہ کی ایسی تصویر میرے ذہن میں کبھی نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ کا مجھ سے تعلق ہمدردانہ، مشفقانہ اور رحیمانہ ہے۔ میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے یہی کہتا ہوں کہ اللہ کی عبادت اس کی محبت میں ڈوب کر کرو پھر دیکھو کہ تمہاری روح کن بلندیوں کی جانب پرواز کرتی ہے۔''
''یہ حقیقت ہے کہ کوئی انسان اس وقت تک کوئی سود مند فکری تخلیق سے نہیں گزرتا جب تک اسے ذہنی سکون و اطمینان نہ ہو۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی یافتہ قومیں ہیں ان میں ایک بات تو عام ہے کہ انھوں نے اپنے معاشرے اور نظام مملکت اور تعلیمی و تربیتی اداروں میں ایسا ماحول پیدا کیا ہے جہاں ہر بچہ بلا خوف و خطر اپنی ایک انفرادی رائے رکھتا ہے اور بڑی خود اعتمادی کی زندگی گزارتا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ امت مسلمہ کی صدیوں سے گرتی ہوئی حالت کا بھی ذمے دار خوف و ہراس کی کیفیت کا ان کی فطرت میں سمو جانا ہے۔ صدیوں سے ہمیں ایک منظم طریقہ سے اس بیماری میں مبتلا رکھا گیا ہے۔
حشام احمد سید کینیڈا میں جا بسے ہیں۔ اس سے پہلے وہ عرب امارات اور سعودی عرب میں بھی قیام کر چکے ہیں۔ پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور بزنس مینجمنٹ سے منسلک لیکن طبعی رجحان اور دلچسپی کا محور انسانی معاشرت اور اس کے مسائل ہیں علم تصوف اور روحانیت سے خاص شغف ہے۔ چنانچہ اس سوال کے جواب میں کہ اللہ کے ولی کی پہچان کیا ہے؟ لکھتے ہیں '' جو جتنا حضورؐ کی سیرت سے قریب ہے اور ان کی محبت میں مبتلا ہے اتنا ہی معتبر ہے، بزرگ ہے اور اللہ کے ہاں مقبول اور اللہ کی دوستی اور محبت کا مستحق ہے۔
حضرت آدمؑ سے لے کر آج تک اللہ کے محبوبین میں جو بھی آتے رہے اور قیامت تک آتے رہیں گے وہ سب کے سب اس بات ہی میں فخر محسوس کرتے رہیں کہ وہ سب ایک ہی نوری اور روحانی سلسلے سے جڑے ہوئے ہیں جیسے کہ ہزارہا چشمے بالآخر سمندر میں ضم ہو جاتے ہیں۔ حضورؐ کی ذات و صفات میں ہی تکمیل انسانیت ہوئی ہے اور اس کو عروج حاصل ہوا ہے۔ اس بات کی حقیقت کو کوئی اگر پا لے تو کوئی اختلاف پیدا نہ ہو۔ یہ بات بھی سمجھ لینا چاہیے کہ کشف و کرامت ولایت کی شرط نہیں ہے۔ اگر یہ حاصل ہے تو ٹھیک ہے اور اگر حاصل نہیں ہے تو بھی ٹھیک ہے۔ مقصود صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور ان کی اطاعت و اتباع ہے۔ اگر زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہؐ کے بتائے ہوئے اصولوں اور طریقوں کے مطابق گزر رہا ہے تو یہی سب سے بڑی کرامت اور ولایت ہے۔''
حشام احمد سید نے ایک اور بات بڑی سچی کہی ہے، کہتے ہیں کہ پاکستان کے رہنے والے دنیا میں کہیں بھی جا کر بس جائیں ان کا اپنے ملک سے تعلق کچھ ختم نہیں ہوتا بلکہ باہر بیٹھ کر انھیں پاکستان کی یاد کچھ زیادہ ہی ستاتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ دوبارہ لوٹ جانے کی کوئی نہیں سوچتا اور پھر اس کی ضرورت بھی کیا ہے، جب کہ کوئی بھی ملک ہو وہاں ایک منی پاکستان سب بنا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کسی بھی ملک میں چلے جائیں جتنی سیاسی پارٹیاں اپنے ملک میں ہیں اتنی ہی اس کی شاخیں ہر ملک میں ہیں، سو وہی دھما چوکڑی، وہی لعن طعن، وہی ہرزہ سرائی ہر جگہ ہوتی ہے۔ جس ملک میں پاکستانی رہ رہے ہوں وہاں کی سیاست سے انھیں دلچسپی کم اور پاکستان کی سیاست بازی کا اثر سوتے جاگتے ان پر رہتا ہے۔''